Blog Archives

All Posts in

December 7, 2023 - Comments Off on پاکستانی خواتین کے خلاف منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں ڈراموں کا اہم کردار

پاکستانی خواتین کے خلاف منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں ڈراموں کا اہم کردار

 ناہید جہانگیر

پسند کی شادی تھی شوہر بہت پیار کرتا تھا لیکن ساتھ ساتھ کردار پر شک بھی کرتا تھا وہ شک کی جڑیں اتنی مضبوط تھی کہشادی جیسے مقدس رشتے اور میری محبت کی کوئی پرواہ کیے بغیر طلاق کا داغ  لے کر میکے لوٹ آئی۔

پشاور شہر کی 30 سالہ ثمینہ اپنے طلاق کی ذمہ دار پاکستانی ڈارموں کو ٹہراتی ہیں  ان کی شادی 3 سال پہلے عادل نام لڑکے سے ہوئی تھی، وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ کافی دھوم دھام سے شادی ہوئی لیکن چند دن بعد عادل شک کرتا اور ساتھ میں ڈراموں کی مثال بھی دیتا تھا۔

ثمینہ کے مطابق عادل زیادہ تر ڈرامے ‘میرے پاس تم ہو’ کی مثال دیتا تھا کہ بیوی کیسے شوہر کے ساتھ پیسوں کی لالچ میں دھوکہ کرتی ہیں ۔ اسی بات پر جھگڑا ہوجاتا اور اسی لڑائی میں ثمینہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد کا بھی شکار ہوتی تھی۔ آخر کار طلاق ہوگئ۔

میرے پاس تم ہو 2020۔۔۔2019 میں ایک نجی ٹی وی پر چلنے والا سپر ہٹ ڈرامہ تھا جس کے مرکزی کردار عائزہ خان، ہمایوں سعید ور عدنان صدیقی نے ادا کئے تھے جبکہ اسکو خلیل الرحمان قمرنے تحریر کیا تھا۔

اس ڈرامے کے حوالے سے پشاور کی نورین بتاتی ہیں کہ پاکستانی ڈرامے جو کھبی تفریح  کا ذریعہ زریعہ ہوا کرتے تھے لوگ دن بھر کے کاموں سے تھک ہار کر شام کو ٹی وی دیکھتے تھے، معلومات کے ساتھ لطف اندوز ہوا کرتے تھے لیکن اب تو جو بھی چینل دیکھو تو اس پر 90 فیصد خواتین کے منفی کرداروں کے حوالے سے مواد ہوگا جیسے گھر والوں سے بغاوت کرکہ بھاگ کر شادی کرنا، طلاق ، محبت، خواتین کی لڑائی جھگڑے ، فساد کی جڑ وغیرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔

نورین کہتی ہیں کہ ثمینہ صرف ڈراموں کی منفی سوچ کی نظر نہیں ہوئیں بلکہ روزانہ کتنی خواتین ہور ہی ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ پاکستانی ڈرامے آنے والی نسل کو خود کشی ، بغاوت ، افیرز کے نئے نئے طریقے بتا رہے ہیں ۔کہ کسیے اور کس وقت کیا کرنا ہے۔

نورین پیمرا اور ڈرامہ تخلیق کرنے والوں کو ذمیدار ٹھہرا کر اپیل کرتی ہیں کہ ڈراموں کے تھیم کو تبدیل کریں کیونکہ میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو ایک معاشرے کو بنا بھی سکتا ہے لیکن بگاڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس حوالے سے نورالبشرنوید جو پاکستان ٹیلی وژن سنٹر پشاور میں 1980 سے ایک رائٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں جنہوں نے بے شمار ڈرامے اردو اور پشتو زبان میں تحریر کیے ہیں، ان  کا کہنا ہے کہ ڈارمہ تحریر کرتے وقت یہ رائیٹر کی سوچ پرمنحصر ہے کہ جو کانٹینٹ وہ تحریر کر رہا ہے آیا وہ اس معاشرے کی درست ترجمانی کر رہا ہے یا یہ ڈرامہ کوئی بھی اپنی فیملی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے جب بھی یہ چیزیں ذہن میں ہوں گی کوئی بھی منفی سوچ والی چیز نہیں تحریر ہوگی ۔

کیونکہ وہ سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ وابسطہ رہے ہیں تو ہمیشہ ڈارمہ تھیم کے ساتھ ساھ الفاظ کے چناؤ میں بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب حالات اس کے برعکس ہیں لوگوں کے ذہن میں جدت آگئ ہے جو بھی ڈارمے بن رہے ہیں وہ ہٹ ہو رہے ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو رہا ہے ۔ صرف تنقید کرتے ہیں ۔جو چیز معاشرے کی بھلائی کی جگہ بگاڑ کا سبب بنتی ہوں اس پر ویوورز کی جانب سے ردعمل سامنےآنا بہت ضروری ہے اگر وہ ردعمل ظاہر نہیں کرتے تو اس قسم کے ڈرامے مزید بنیں گے اور ہمارے معاشرے کی خواتین کے حوالے سے منفی سوچ اور تصور کو مزید تقویت ملے گی۔

وہ بتاتے ہیں کہ بالکل ڈرامہ کسی بھی معاشرے کی ترجمانی کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے آج کل خواتین کے حوالے سے منفی سوچ رکھنے والے ڈرامے بن رہے ہیں ۔ ڈرامے کا زیادہ تر حصہ یا لیڈ کردار منفی سوچ والی خواتین ہی ہوتی ہیں جو ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔

اپنے معاشرے کے اقدار اور رسم و رواج کو نظر میں رکھ کر ڈرامہ تحریر کیا جائے ان تحریروں کو یا کرداروں کو ذہن میں رکھ کر یہ سوچیں کہ ان کا مثبت اثر پڑے گا  کہ نہیں، اثر مثبت ہے تو وہی چیز تخلیق کی جائے کیونکہ  اب ڈرامہ صرف گاؤں شہروں، صوبوں،م اور ملک کی حد تک نہیں دیکھے جاتے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے انٹرٹینمنٹ نے سرحدوں کو پار کر لیا ہے پوری دنیا میں دوسرے ممالک کے ڈرامے، فلم دیکھے جاتے ہیں۔ اپنی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوتے ہیں تو جو چیز اگر منفی دکھا رہے ہیں تو دوسرے ممالک کے  لوگ اس معاشرے کو اسی ڈرامے کے کرداروں کے ترازو میں تولیں گے۔

نورالبشر نوید بتاتے ہیں کہ ڈرامہ تخلیق کار خواتین کے حوالے سے منفی سوچ اور رجحانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو بالکل ختم کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس رسم ورواج کو دنیا غلط نظر سے دیکھ رہی ہے شاید وہ ہمارے معاشرے میں مثبت ہو تو کیوں نا لوگوں کے ذہن سے وہ منفی رجحانات اپنے ڈراموں کے ذریعے ہٹائے جائیں۔

نورین مزید بتاتی ہیں کہ جو اداکارائیں منفی رول کرتی ہیں اور اس رول کو اپنا معمول بنا دیتی ہیں تو ان کے فینزبھی کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ انکو عائزہ خان بہت اچھی لگتی تھیں لیکن ‘میرے پاس تم ہو’ اور اب ڈرامہ سیریل ‘میں’  میں انکا منفی کردار دیکھ کر اچھی نہیں لگتیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ واقعی ہی اپنی اصل زندگی میں بھی ایسی ہیں تو خواتین فنکاروں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے فینز انکو کس روپ میں زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ فینز کی وجہ سے فنکار لوگ ہیں ورنہ خاص سے عام بنانے میں انکو وقت نہیں لگے گا۔

ڈراموں میں خواتین کے منفی کرادر کے حوالے سے ایک ڈرامہ اداکارہ کیا سوچ رکھتی ہیں مینا شمس سے پوچھتے ہیں ۔ مینا نے اس دن سے ٹھان لیا تھا جس دن سے وہ شوبز میں آئی کہ وہ پختون رسم ورواج کے اندر رہ کر کام کریں گی اور اپنی ثقافت کے دائرے میں رہ کر نام بنائیں گی اور اپنے ارادے پر وہ ابھی تک قائم ہیں۔

مینا شمس پشتو، ہندکو اور اردو زبان کی مقبول اداکارہ ہیں جنہوں نے بے شمار ایوارڈز اپنے نام کئے۔ پی ٹی وی بہترین اداکارہ ایوارڈ، اے وی ٹی خیبر بیسٹ اداکارہ ایوارڈ، امن باچا خان ایوارڈ، ڈائریکٹریٹ آف کلچر ایوارڈ اور شمشاد ٹی وی سے بھی بیسٹ ادکارہ ایوارڈ شامل ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ڈرامے ہی لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں پہلے بھی ڈرامے ہوا کرتے تھے جو سبق آموز ہوا کرتے تھے اس میں بھی منفی کردار ہوا کرتے تھے لیکن کافی کم تناسب کے ساتھ خواتین کو منفی کرداروں میں دکھایا جاتا تھا لیکن اب تو ڈرامے کا تقریباً 90 یا 99 فیصد خواتین کے منفی کردار حاوی دکھائی دیتے ہیں تو لوگ وہی سوچ رکھیں گے کہ اس ملک یا اس خاص طبقے کے لوگ اسی طرح ہیں جس طرح ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔کیونکہ باہر کے ملکوں میں لوگ اسی سوچ سے دیکھتے ہیں کہ ہر ڈرامہ یا فلم کسی بھی معاشرے کی ترجمان ہوتے ہیں اسی معاشرے کو وہ ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے ہیں تو ان سے لوگ وہی اثر لیں گے کہ پاکستان کے لوگ  یا پشتون لوگ ایسے ہیں اسی لیے تو وہ لوگ ڈراموں میں بھی یہی دکھاتے ہیں۔ ہر ڈرامہ اپنے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی منفی سوچ لوگوں کو دکھا رہے ہیں اور زیادہ اہم یہ ہے کہ خواتین کی منفی کرداروں کو لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔

مینا شمس اس کے حل کے حوالے سے کہتی ہیں کہ پہلے تو اس میں رائٹر بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے وہ اپنی سوچ کو اپنے ڈرامے کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایسے کردار تخلیق کریں جن کا پیغام مثبت ہو اور منفی پربہت حاوی نا ہو۔ زیادہ ڈومیننٹ مثبت کردار دکھائی دیں۔

مینا شمس پشتو ڈراموں اور پروگراموں کی ایک مشہور شخصیت ہیں وہ کیسے ان منفی رجحانات اور کرداروں سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ سوال کے جواب پر کہتی ہیں کہ شوبز انکے شعبے کے ساتھ  انکا شوق بھی ہے ایک فنکار کے لئے ان کے فینز ہی سب کچھ ہوتے ہیں جب تک ان کے فینز ہیں تب تک وہ بھی ہیں۔ لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان ڈراموں کے کرداروں سے کافی اثر لیتے ہیں فیشن سے لے بول چال تک۔

اس لئے ایک فنکارہ کی حیثیت سے فینز جس کرادر میں انکو پسند نہیں کرتے وہ ان کرداروں سے دور ہی رہتی ہیں ۔آج کل سب ہی پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں جو چیز معاشرے کو سدھارنے کی بجائے بھگاڑ کا باعث بنتی ہیں ان سے دور ہی رہیں ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ خواتین کے جو منفی کردار ڈومینینٹ ہورہے ہیں اس کے روک تھام کے لئے رائٹرز سے لیکر فنکار اور پھر پیمرا سے لے کر ناظرین تک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

دوسری جانب شازمہ حلیم جو پچھلے 35 سالوں سے میڈیا سے وابستہ ہیں مختلف ڈراموں پروگراموں میں کام کرنے کےعلاوہ انہوں نے 4 فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن، پی ٹی وی نیشنل اور ساتھ میں اے وی  ٹی خیبر،ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا، وہ واحد خوش قسمت فنکارہ ہیں جن کو 5 پی ٹی وی بیسٹ ڈرامہ ارٹسٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

ڈراموں میں خواتین کے حوالے سے منفی سوچ کے بڑھتے ہوئے رجحان سے اتفاق کرتی ہیں کہ ایسا ہی ہے آج کل جس طرح بھی ڈرامے بن رہے ہیں اس میں صرف خواتین کو ہی جھگڑا، فساد اور لڑائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور جو سوسائٹی ہے یہ ڈرامے دیکھتی ہے تو ان پر منفی اثر انداز ہو رہی ہے، جس طرح لوگ ڈراموں میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح گھر کو توڑا جاتا ہے اور ایک خاتون اس میں کیا کردار ادا کر رہی ہے اسی طرح اصل زندگی میں بھی پھر لوگ وہی اثر لیتے ہیں۔

لیکن شازمہ حلیم کہتی ہیں کہ ان کی نظرمیں ڈرامہ ٹیم  70 فیصد ذمیدار ہوسکتی ہے اس بات پر اتفاق کرتی ہیں  لیکن 30 فیصد اس کی ذمیدار ریاست ہی ہے اس کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو قانون پاس کرتے ہیں وہ لوگ جو حکومتوں کو چلاتے ہیں وہ لوگ جوعدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ لوگ کچہری میں بیٹھے ہوئے ہیں جب تک حکومت ان چیزوں کے خلاف کھڑی نہیں ہوتی، ریاست کھڑی نہیں ہوتی تو ایک ارٹسٹ کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ ڈرامے کا تقریباً 95 یا 96 فیصد وہی ظلم ،جبر، مار پیٹ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ڈرامے کے آخری لمحات میں بالکل آخری سین میں وہ جزا سزا دکھایا جاتا ہے۔ جس نے برائی کی ہے یا جس نے غلط کام کیا ہے اس کا انجام برا ہوا ۔ تو ان حالات میں لوگ وہ زیادہ تر ڈرامے کا زیادہ پورشن جو تشدد کا دکھا رہا ہے وہ اثر لیں گا بنسبت اخری قسط کے اخری سین میں ایک جزا سزا سین کے۔

شازمہ حلیم کے مطابق اگر ڈرامے میں منفی کرداروں کو اتنا سر پہ چڑھایا دکھایا جائے گا کہ جیسے 19 قسط ڈرامہ میں 18 قسطوں میں ولن ظلم کرتا ہے اور وہی دیکھا جاتا ہے اور پھر آخری قسط میں ولن کا انجام برا ہوتا ہے تو یہاں پہ بھی ڈسکریمینیشن ہوتا ہے کیونکہ اس ڈرامے کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا برابری کا خیال نہیں رکھا گیا لیکن جو ڈرامےنشر ہو رہے ہیں ان میں ویورز بھی ذمیدار ہیں،  وہی چیز پسند کرتے ہیں اور وہی چیز چاہتے ہیں جس میں برائی ہو ۔ خاتون فساد کی جڑ ہو۔ اس قسم ڈراموں سے معاشرہ ظلم و تشدد پسند ہو گیا ہے اور ساتھ میں مردوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ گیا ہے۔ مرد جس جگہ بھی جاتا ہے اپنے ہی بیوی کی برائی کرتا ہے شک کرتا ہے اور پھر کہتے پھرتے ہیں کہ کیوں اس ڈرامے میں نہیں دیکھا عورت نے اپنے خاوند یا خاندان والوں کے ساتھ کیا کیا تھا۔

شازمہ حلیم نے کہا کہ ڈراموں میں ناظرین کے لئے کرداروں میں نا کسی کے لیے سبق ہے نہ ہیرو ہیروئن کی کردار سبق آموز جس سے معاشرہ غلط سمت جا رہا ہے۔ لوگ ڈراموں سے مثبت کی جگہ غلط اثر لے رہے ہیں کچے ذہن کی خواتین اسی ڈرامے کی طرح کے کردار بن کر اصل زندگی میں وہی راہ اختیار کرتی ہیں جو شاید ان کے لئے نقصان کیا موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔

شازمہ حلیم ان سب مسائل کا حل حکومت کے پاس بتاتی ہیں کہ وہ آواز اٹھائیں ان ڈراموں فلموں ،سیریز پر پابندی لگائیں جس سے معاشرہ مثبت اثرات کی بجائے منفی اثرات لے رہا ہے تو بہت جلد ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔  ان کی مثال عام سی ہے لوگ فیشن لائف سٹائل میڈیا سے ہی لیتے ہیں اسی طرح لوگ ان کرداروں کو بھی اپنی زندگیوں میں اہمیت دے کر غلط فیصلہ کر سکتے ہیں۔

حکومت یا پیمرا ان حالات کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے یا کس طرح اپنا اہم رول ادا کر سکتا ہے اس حوالے سے پیمرا کے سینئر مانیٹرنگ سپروائزر ماجد کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جو بھی کانٹینٹ بنتا ہے تو براڈ کاسٹ یا نشر ہونے سے پہلے انکا پی بی اے  یعنی پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے جائزہ ہونا لازمی ہوتا ہے، وہ پہلے ایک مرحلے سے گزرتا ہے۔پھر کوڈ آف کنڈکٹ فار الیکٹرانک میڈیا اوربراڈکاسٹ میڈیا جس میں سیٹیلائٹ ٹی وی چینل اور ایف ایم براڈکاسٹ سٹیشن شامل ہیں، دوسرا کوڈ آف کنڈکٹ فار ڈسٹریبیوشن سروسز ہے جس میں کیبل ٹی وی آپریٹرز اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹی وی شامل ہیں جس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔ پیمرا کے ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس سے صاف واضح ہے کہ کیا نشر کرنا ہے اور کیا نشر نہیں کیا جا سکتا۔ پیمرا کے رولز کے مطابق تمام مواد کو فالو کیا جائے گا۔ جب بھی کوئی لائسنس کسی بھی میڈیا کو دیا جاتا ہے تو تمام ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر دستخط کیا جاتا ہے جس سے کسی بھی شکایت یا غیر اخلاقی مواد نشر کرنے کی صورت میں لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے اور شوکاز نوٹس بھی دیا جا سکتا ہے۔

کونسل آف کمپلینٹ بھی موجود ہے جس میں کسی بھی کانٹینٹ کے خلاف شکایت درج کی جاسکتی ہے ان کے 4 ممبرز ہوتے ہیں جسکے خلاف بھی یہ شکایت درج ہو سکتی ہے انہیں باقاعدہ کونسل آف کمپلینٹ کی جانب سے بلایا جاتا ہے۔ان کا بھی موقف سنا جاتا ہے پھر اس کی روشنی میں پیمرا چیئرمین بشمول تمام ممبرز اس شکایت پر فیصلہ دیتا ہے۔

جہاں تک ڈرامہ ۔ فلم یا ڈاکومینٹری میں خواتین کے خلاف یا انکے منفی کرداروں کی بات ہے تو ہر وہ مواد جو شائع ہونے والا ہوتا ہے اس سے پہلے انکا پی بی اے کی جانب سے مکمل جائزہ ہونا لازمی ہے اسکے علاوہ کسی بھی وویور کی جانب سے شکایت بھی درج کی جاسکتی ہے کہ اس کانٹینٹ میں خاتون کی تذلیل ہوئی ہے یا غلط ، منفی تصور پیش کر رہا ہے تو بالکل کونسل آف کمپلینٹ کی جانب سے ایکشن لیا جاتا ہے۔

ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو اپنے ڈرامے کے کردار کے ذریعے غلط روشنی میں پیش کرنے میں نا صرف ڈرامہ لکھار سے لے کر اداکاروں تک محدود ہے بلکہ حکومت تک سب ذمیدار ہیں لیکن اس میں خاطر خواہ  رول ویوورز کا بھی ہے اور شاید سب سے زیادہ قصور وار بھی وہی ہیں جب تک وہ اس قسم مواد کے خلاف ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوں گے تو اسکا کوئی حل نہیں نکلے گا۔

December 7, 2023 - Comments Off on تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

خالدہ نیاز

میرا بھی دل چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کروں، ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناوں لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ نہ تو میرے پاس سمارٹ فون ہے اور نہ ہی مجھے تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی اجازت ہے۔

یہ کہنا ہے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ندا کا جو اس وقت ایف ایس سی پارٹ ٹو کی طالبہ ہے۔ ندا کا کہنا ہے کہ اس کو بھائی نے سختی سے منع کیا ہے کہ موبائل کو ہاتھ بھی نہ لگائے اور اگر اس نے کہیں پہ تصاویر بنائی تو یہ اس کے کالج کا آخری دن ہوگا۔ ندا کا کہنا ہے کہ آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے انکو پڑھائی کے لیے بھی سمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ موبائل استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

ندا کا کہنا ہے اس کے علاقے میں لڑکیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کوئی بھی انکی تصاویر اور باقی مواد کا غلط استعمال کرسکتا ہے اور یوں انکی زندگیوں میں طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ ندا نے بتایا کہ سوشل میڈیا بذات خود غلط نہیں ہے لیکن لوگوں نے اس کا استعمال غلط کیا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے مسائل بن جاتے ہیں اور پھر انکی طرح کئی لڑکیاں پڑھائی کے لیے بھی اس کا استعمال نہیں کرسکتی۔

کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا

پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک نرس نسرین (فرضی نام) نے بتایا کہ ایک دن وہ بیٹھی فیس بک استعمال کررہی تھی جب اس کو مسینجرپر ایک میسج موصول ہوا۔ جب انہوں نے وہ میسج کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس لنک پر کلک کرکے دیکھیں اس میں انکی اور انکے بوائے فرینڈ کی تصاویر اور چیٹ لیک ہوئی ہے۔ نسرین نے کہا کہ میسج دیکھ کر انکے پاوں سے زمین نکل گئی اگرچہ نہ تو انکا کوئی بوائے فرینڈ ہے اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ کوئی تعلق لیکن ایک لمحے کو وہ ڈر گئی کہ کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا۔

نسرین نے جب اس لنک پر کلک کیا تو وہ نہیں کھل رہا تھا۔ بعد میں انہوں نے وہ لنک اپنی دوست کو بھیجا اور سارا قصہ سنایا۔ جب اپنی دوست کو وہ لنک بھیجا تو اس نے بتایا کہ اس میں کچھ بھی نہیں یہ ایک سپیم ہے۔ نسرین نے کہا کہ اس دن کے بعد سے وہ بہت ڈر گئی تھی اور یوں انہوں نے فیس بک اور مسینجر کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اب بہت ڈر گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں خواتین جدید ٹیکنالوجی سے دور کیوں

خیبرپختونخوا میں زیادہ تر خواتین سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور ہیں اس کی بڑی وجہ یہاں کا کلچر ہے۔ زیادہ تر مرد خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور خواتین کے پاس سمارٹ فونز بھی نہیں ہوتے۔

خیبرپختونخوا میں بہت کم خواتین کے پاس سمارٹ فونز ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا تک انکی پہنچ نہیں ہوتی لیکن اگر کسی لڑکی یا خاتون کی کوئی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہوجائے تو اسکی انکو بہت سخت سزائی دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسے کیسز میں مرد رشتہ دار خاتون یا لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں۔ رواں سال جنوری میں بھی ضلع چارسدہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جب ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کو والد نے جان سے ماردیا۔

چارسدہ میں 18 سالہ لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو والد نے مار دیا

ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد باسط خان نے اس حوالے سے بتایا کہ 18 سالہ لڑکی اسلام آباد میں ایک گھر میں کام کرتی تھی جہاں ایک لڑکے نے اسکی ویڈیو وائرل کی تو والد نے اس کو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو اکثر اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کچھ کیسز میں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔

محمد باسط خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین کو کئی ایک پابندیوں کا سامنا ہے اور یہ پابندیاں انکے والد، بھائی اور باقی گھر کے مرد لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں موجود صلاحیتیں کبھی سامنے نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید دور میں بھی جب ایک عورت گھر سے کام کے لیے نکلتی ہیں تو انکے کام کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی بھی یہی سوچ ہے کہ خواتین گھر میں بیٹھ کر برتن دھوئیں، کھانا بنائیں اور بچے پالیں۔

محمد باسط خان کے مطابق پاکستان میں اس وقت انیس کروڑ موبائل صارفین موجود ہیں جن میں 5 کروڑ تعداد خواتین کی ہے جبکہ باقی مرد ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد 2 کروڑ ہے جبکہ باقی خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔ محمد باسط نے بتایا کہ خواتین کو اب سوشل میڈیا پر بھی تنگ کیا جاتا ہے، پہلے تو صرف گلی کوچوں میں انکے پیچھے لوگ آواز کستے تھے لیکن اب تو سوشل میڈیا پر بھی انکو نہیں چھوڑا جاتا۔ اگر کوئی خاتون آن لائن کاروبار کرتی ہیں تو ان کو لوگ آرڈر دے دیتے ہیں اور بعد میں انکار کردیتے ہیں کہ ہم نے یہ چیز نہیں لینی۔ بعض لوگ خواتین کو غیر اخلاقی میسجز بھی بھیجتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین خود بھی تنگ آکر سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

خواتین آن لائن ہراسمنٹ کے حوالے سے گھر میں بتا نہیں پاتی

خواتین کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انکو جب آن لائن طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ گھر والوں کو بھی نہیں بتا پاتی کیونکہ یہاں جب خواتین اس حوالے سے بات کرتی ہیں تو ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور یوں بہت ساری خواتین چپ سادھ لیتی ہیں۔

محمد باسط خان نے کہا کہ ہماری خواتین میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے جو بہت آگے جاسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور ہمارا کلچر انکے آڑے آجاتا ہے۔ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک خاتون آن لائن بزنس کرتی ہیں، بہت ٹیلنٹڈ ہیں لیکن ان کو گھر والوں نے اس شرط پر اس کی اجازت دی ہے کہ کسٹمر سے وہ بات نہیں کریں گی بلکہ اس کا بھائی یا کوئی اور مرد کرے گا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے خواتین کو کتنا خودمختار بنایا ہے۔ وہ خاتون جو ایک کام میں مہارت رکھتی ہیں کسٹمر کو اچھے سے ڈیل کرسکتی ہیں اور کاروبار کو کامیاب بناسکتی ہیں وہ اس کا بھائی یا کوئی اور نہیں کرسکتا لیکن مسئلہ پھر وہی آجاتا ہے کلچر کا۔

محمد باسط خان نے مزید بتایا کہ کچھ خواتین کو سائبر کرائمز کے حوالے سے قانونی راستوں کا بھی پتہ ہوتا ہے لیکن وہ اول تو کیس نہیں کرتی یا اگر کرتی بھی ہیں تو معاشرتی دباؤ اور گھر والوں کی عزت کی خاطر واپس لے لیتی ہیں۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل

چارسدہ کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی کئی خواتین اور لڑکیوں کو سوشل میڈیا ویڈیوز کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دو ہزار بارہ میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں ہونے والی ایک شادی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پانچ لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے رقص کررہے تھے۔ بعد ازاں رپورٹس سامنے آئی تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹس کے مطابق دو ہزار چودہ میں بھی لوئر دیر کے علاقے جندول میں بھائی نے اپنی 13 سالہ بہن کواس لیے قتل کردیا تھا کیونکہ وہ موبائل استعمال کرتی تھی اور بھائی کو شک تھا کہ اس کی بہن مردوں سے بات کرتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مطابق چار کروڑ ساٹھ لاکھ سوشل میڈیا صارفین میں 78 فیصد مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح صرف 22 فیصد ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے

گورنمنٹ کامرس کالج پشاور کی اسسٹنٹ پروفیسر عروج نثار کہتی ہیں کہ آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے بہت کم لوگ ہیں جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کی نہ تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، نہ ہی انکو اس کا استعمال آتا ہے اور نہ انکو اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر خواتین کو ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے گی تو وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوجائیں گی اور اپنے فیصلے خود کرنے لگ جائیں گی جبکہ معاشرہ اس چیز سے ڈرتا ہے۔

خیبرپختوںخوا اور قبائلی اضلاع کی خواتین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے عروج نثار نے بتایا کہ ہماری خواتین اس سے کوسوں دور ہیں۔ قبائلی اضلاع میں تو مرد بھی سوشل میڈیا اور ان چیزوں سے دور ہیں لیکن خواتین کے لیے تو وہاں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں ہے۔ قبائلی اضلاع میں خواتین کے پاس موبائل فونز نہیں ہوتے انکے پاس سادہ فونز ہوتے ہیں جو صرف ضرورت کے لیے ہوتے ہیں انکو سمارٹ فونز رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے

عروج نثار نے بتایا کہ ہمارے صوبے میں لڑکیوں کے لیے سمارٹ فونز رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر وہ چیز جس سے خواتین معاشی یا سماجی طور پر خودمختار ہوتی ہیں وہ انکے لیے معیوب تصور کی جاتی ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی کوئی انسان ہرقسم کی معلومات حاصل کرسکتا ہے لیکن یہاں خواتین اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ عروج نثار کے مطابق جب تک ہم آدھی آبادی یعنی خواتین کو بنیادی حقوق نہیں دیں گے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دیں گے تب تک ہم ایک کامیاب قوم نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک نہ صرف رسائی دینے کی ضرورت ہے بلکہ انکو اس سلسلے میں ٹریننگز بھی دینی چاہیئے تاکہ وہ اس کا مثبت استعمال کرکے نہ صرف خود معاشی طور پر خودمختار ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پرگمنام رہنا چاہتی ہیں

مردان سے تعلق رکھنے والے افتخارخان نے بتایا کہ سوشل میڈیا کا منفی اور مثبت دونوں طریقوں سے استعمال ہورہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا منفی استعمال زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن دوسری طرف کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہیں اور فیس بک پر اکثر خواتین تبدیل نام کے ساتھ آئی ڈی بنادیتی ہیں۔ خواتین اس کو استعمال کرنا چاہتی ہیں، مختلف گانوں، ڈراموں اور باقی پوسٹوں کو شیئر اور لائیک تو کرتی ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ جس کمیونٹی میں وہ رہ رہی ہیں وہ انکے حوالے سے زیادہ معلومات نہ رکھیں کہ وہ کیا شیئر کرتی ہیں یا کیا پسند کرتی ہیں کیونکہ انکو معاشرے کے لوگوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

افتخارخان نے کہا کہ سوشل میڈیا رابطوں کا سب سے تیز اور آسان ذریعہ ہے اور ہمارے معاشرے کے مرد نہیں چاہتے کہ انکی خواتین کسی کے ساتھ رابطے میں رہیں اس لیے وہ سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر خواتین کو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دی جائے گی تو وہ نہ تو مثبت طریقے سے سوچ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ کوئی کاروبار شروع کرسکتی ہیں۔

December 7, 2023 - Comments Off on معاشرے کے دقیانوسی تصورات میں گھری خواتین کی زندگیاں

معاشرے کے دقیانوسی تصورات میں گھری خواتین کی زندگیاں

زنیرہ رفیع

’’کسی نئی دلہن کے قریب نہیں جانا‘‘

’’حاملہ خاتون سے دور رہو، اسے پرچھاواں نہ ہو جائے‘‘

’’کنواری لڑکیوں سے میل جول نہیں رکھنا، انہیں ماہواری کے مسائل در پیش آ سکتے ہیں‘‘

’’چالیس دن تک گھر میں نحوست رہتی ہے‘‘

’’یہ شادی کی کسی رسم میں حصہ نہیں لے سکتی ورنہ نئے جوڑے پر  اس کا برا اثر ہو جائے گا‘‘

’’ کسی غمی یا خوشی میں شریک نہیں ہوسکتی‘‘

یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہر اس عورت کو سننے کو ملتے ہیں جو اسقاط حمل سے گزرتی ہے۔ اکیسویں صدی اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی معاشرے کا کسی خاتون کے اسقاط حمل کے متعلق اتنا ہی دقیانوسی رویہ ہے، جتنا زمانہ جاہلیت میں تھا۔

پاپولیشن کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے 25 لاکھ سے زیادہ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ جن کے بعد ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو صحت کے متعلق پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ خواتین کی صحت اور تولید سے منسلک مسائل پر کام کرنے والی مختلف مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتی اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں اسقاط حمل کی سب سے زیادہ شرح  والے ممالک میں ہوتا ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کا ایک منفی رخ یہ بھی ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں لفظ تشدد کو ظاہری چوٹ یا زخم سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ ہمارے اردگرد موجود تقریباً 90 فی صد لوگ ذہنی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اور وہ اپنے آپ سے ایک جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ معاشرہ اس جنگ کو  مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ لیکن کوئی بھی جذبات کے تشدد کو آج تک ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں پایا اور یہی وجہ ہے کہ جذباتی تشدد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کوئی آگاہی ہی نہیں ہے۔

’’مجھے اپنی ذات سب سے زیادہ مجرم اور شرمناک اس وقت محسوس ہوئی جب میری ہم پیشہ ساتھیوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا، ایسا محسوس کروایا گیا کہ اگر میں ان کے قریب سے بھی گزر گئی تو کہیں ان کی زندگیاں بے رنگ نہ ہو جائیں۔‘‘

22 برس کی کبرا 2 بچوں کی ماں ہیں، جو راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ وہ گزشتہ برس ہی اسقاط حمل کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکی ہیں۔ کبرا کہتی ہے کہ اسقاط حمل عورت کے بس میں تو نہیں ہے لیکن معاشرہ عورت کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ وہ چار ماہ پریگننٹ تھی جب اس نے قدرتی طور پر اپنے بچے کو کھو دیا۔ اور یہ سب اس کے لیے اتنا اچانک تھا کہ جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔ چونکہ وہ 4 ماہ پریگننٹ تھیں اور 4 ماہ میں بچے کے اعضاء بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ کہتی ہے اس بچے کو محسوس کر کے کھو دینے کی تکلیف سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی، یہ سب کسی بے احتیاطی کی وجہ سے نہیں بلکہ قدرتی طور پر ہوا تھا، جسے انہوں نے اللہ کی رضا سمجھ کر بھلانے کی کوشش کی۔

’’دماغی اور جسمانی طور پر اس بات کو قبول کرنا میرے لیے اتنا آسان نہیں تھا ، مگر پھر میں نے سوچا کہ جب میں اسے اللہ کی رضا مان ہی چکی ہوں تو اس سب کو بھولانے کی کوشش کروں گی۔ لیکن معاشرہ بڑا ظالم ہے وہ آپکو بھولنے نہیں دیتا‘‘

کبرا نے مزید بتایا کہ ابھی تو جسمانی دردیں بھی تازہ تھیں، اور ذہن اس بات کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں تھا کہ جس بچے کو لے کر اس نے سہانے خواب دیکھ رکھے تھے وہ اب نہیں رہا تھا۔ اسپتال سے گھر آئی تو  وہ گھر پہلے کی طرح نہیں رہا تھا اس نے اپنے گرد عجیب سی ہلچل محسوس کی، اور وہ ہلچل ایسی تھی جس نے اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ دماغی طور پر متاثر کیا۔ اور سب سے زیادہ اس کے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ اس کے گھر میں موجود 2 عدد نندوں کا رویہ بہت مختلف ہو چکا تھا، جو اب کبرا سے بات کرنے میں بھی کتراتی تھیں یا اس کی بات کو سن کر بھی ان سنی کر دیتی تھیں۔ ’’میں نے محسوس کیا کہ اگر میں ان سے کوئی بات کرنا چاہ رہی ہوں تو وہ مجھے اگنور کر رہی ہیں۔ مجھے شروع میں وہم لگا مگر دن گزر رہے تھے اور صورتحال مزید بگڑ رہی تھی، میں اپنا دکھ، درد سب بھول گئی ان سب کے رویے میرے دماغ میں گھر کرتے گئے، جب ایک ہفتہ گزر گیا تو میں نے اپنی ساس سے پوچھا کہ مجھ سے سب ناراض ہیں۔ تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ ایسی صورتحال میں جب تک عورت کے 40 دن پورے نہیں ہو جاتے، وہ کسی سے بات نہیں کرتی اس لیے تم بھی گھر میں کسی سے بات نہ کرو اور کوشش کرو کے کمرے سے باہر نہ آو۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہو باقی چھوٹی بہنوں سے کچھ ٹائم کے لیے بات چیت سے بھی گریز کرو، اور پھر 40 دن بعد سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘

اس نے بتایا کہ ’’تم کمرے سے باہر مت آو‘‘ یہ وہ جملہ تھا جس نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اس نے ایسا کیا کر دیا ہے جو اس پر کسی سے بات کرنے پر بھی پابندی ہے۔ آخر اس کی غلطی کیا ہے۔ اور اس سوال کا جواب اسے تب ملا جب ایک محلہ دار آنٹی اس کی عیادت کرنے آئیں۔

’’میں نے انہیں اپنی ساس کو کہتے سنا کہ بچیوں کو کبرا کے پاس بھی مت جانے دینا ورنہ پرچھاواں ہو جائے گا۔ اور انہیں مسقبل میں حمل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کے الفاظ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مزید کیا کہا، لیکن میں چند منٹ کے لیے کچھ سوچنے یا سمجھنے سے مفلوج ہو چکی تھی، اور بس ایک ہی جلمہ میرے دماغ میں گھوم رہا تھا۔ اور  میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر رہے تھے۔ لیکن چاہ کر بھی ان آنسووں میں ربط نہ آسکا۔ یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جس کو سوچ کر آج بھی مجھے بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔‘‘

کبرا نے اپنے اسقاط حمل کے دوران معاشرے کی ایک مزید دقیانوسی مثال سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ اس کی تکلیف کا دوسرا مرحلہ وہ درسگاہ تھی، جہاں سے کسی بھی بچے کی بنیادی تعلیم شروع ہوتی ہے۔

کبرا نے اپنی آنکھوں میں ابھرتے آنسوؤں کو جذب کرتے ہوئے اپنی کانپتی آواز میں بتایا کہ جب وہ گھر کے ماحول سے تنگ آگئی تو اس کے پاس اس صورتحال سے فرار کا ایک یہی راستہ تھا کہ وہ اسکول جانا شروع کر دے، جسمانی صحت کے ساتھ نہ دینے کے باوجود بھی جب اسقاط حمل کے بعد اسکول گئی تو وہاں تمام ساتھی ٹیچرز کے رویہ نے اس کی تکلیف کو مزید دوبالا کر دیا۔

’’سوچا تھا جاؤں گی تو میری سہیلیاں میرا حال معلوم کریں گی، مجھے حوصلہ دیں گی اور میرے بچے کے دکھ میں شریک ہونگی،مگر ان سب کو تو جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو، سب مجھ سے ایسے چھپ رہی تھیں اور دور بھاگ رہی تھیں جیسے میں کوئی ایسی بیماری ہوں، جو انہیں کھا جائی گی۔‘‘

میری زندگی کا برا وقت تو گزر گیا لیکن معاشرتی رویے نے میری ذہنی حالت کو بہت متاثر کیا اور مجھے اس ساری صورتحال سے نکلنے میں تقریباً ایک سال لگا جس میں اگر کسی نے مجھے سب سے زیادہ ہمت دی وہ میرا شوہر اور میری ڈاکٹر تھیں۔

یہ وہ اسقاط حمل ہے جو قدرت کی طرف سے لکھا تھا، دوسری جانب معاشرے کی وہ خواتین ہیں، جن کے حمل کا فیصلہ ان کے شوہر یا سسرال والے کرتے ہیں، باقی مرضی سے اسقاط حمل کا فیصلہ کرنا تو شاید اس معاشرے میں کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ یہاں تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر عورت کرنا چاہے تو وہ نافرمان اور بد کردار ہے، اگر شوہر یا سسرال والے چاہیں تو ان کے فیصلے کی تکمیل کرنا عورت پر فرض ہے۔

سمیہ کی کہانی بھی اسقاط حمل کے گرد گھومتی ہے۔ مگر اس کے کیس میں اسقاط حمل نہ ہی تو قدرتی تھا اور نہ ہی اس کی مرضی سے ،بلکہ وہ اب تک اپنی ساس کی مرضی سے اور اپنی رضامندی کے خلاف 3 بار اس تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکی ہیں۔

سمیہ نے اپنی دردناک کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کی 1 بیٹی ہے، دوسرے بچے کی خوشخبری کے بعد اس کی زندگی میں رنگوں کی بہار آنے ہی والی تھی کہ یہ خوشخبری اسے راس نہ آسکی۔ 3 مہینے  اس نے دن رات گن گن کر گزارے تھے۔ مگر وہ جب روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی، تو اس معلوم ہوا کہ اس کے بچے کو تھیلیسمیہ ہے۔،

’’یہ خبر سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے، اور کلینک سے نکلتے ہی  زاروقطار رونے لگی تھی، گھر آئی ساس کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اس کا یہی حل ہے کہ جتنا جلد ہوسکے اسے ختم کروا دیا جائے۔ ان کا یہ جملہ سن کر مجھے ایسے لگا کہ میرا دل تکلیف سے پھٹ جائے گا لیکن چند دن گزرنےکے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو اس کی پوری زندگی تکلیف میں گزرے گی، اور میں اپنی وقتی تکلیف کے بدلے اپنے جان کے ٹکڑے کو پوری زندگی کے لیے تکلیف نہیں دے سکتی‘‘

بہت سوچنے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنی ساس کے فیصلے کو بہتر سمجھا اور اپنا حمل ضائع کروا دیا۔

ایک بار پھر سمیہ کے در پر امید کی کرن نے دستک دی تھی۔ اب کی بار اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس کو سب کہنے لگے تھے کہ حمل ضائع کروا دینے کے بعد اس کا حامل ٹھہرنا بہت مشکل ہوگا۔ اس نے سوچ لیا  تھا کہ اس بار وہ اللہ کی ہر رضا میں خوش ہوگی، لیکن اس کو پھر ڈاکٹر کی طرف سے دل دہلا دینے والا وہی جملہ سننے کو ملا، جس نے اس کی ذات کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ جب ساس کو پتہ چلا تو تو اب کی بار وہ سمیہ سے خاصی ناراض بھی ہوئیں، اور کہا کہ ایسے بچوں کی پیدائش سے بہتر ہے کہ تم بچے پیدا ہی نہ کروں، اس نے اپنی ساس کو کہا کہ اس بار وہ حمل ضائع نہیں کروانا چاہتی اور اللہ کی رضا میں خوش ہے۔

’’مگر انہوں نے میری بلکل بھی نہیں سنی جس کے بعد میرے شوہر نے بھی مجھ سے زبردستی کی اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے میں مجبور تھی اور ایک بار پھر میں نے اپنے بچے کا کھونا محسوس کیا۔ وہ میری ساس بری نہیں تھیں وہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں مگر میں بھی ماں تھی، اور ایک ماں اپنے بچے کو کھوتے ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

ایک سال کے بعد گزشتہ برس دسمبر وہ ایک بار پھر امید سے تھی،اور اس بار وہ حمل سے خوش نہیں بلکہ پریشان ہوگئی تھی اور اس کے ذہن میں ماضی ایک بار پھر دوڑنے لگا تھا۔  کہتی ہے کہ اس نے اللہ سے رو رو کر دعائیں کی تھیں کہ اس بار اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے سکوں بس اسے کچھ نہ ہو، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ اور تیسری بار بھی وہی خبر سنتے ہی میرا جسم سن ہو چکا تھا، لیکن اس نے گرتے آنسوؤں کے ساتھ ڈاکٹر سے یہ التجا کی  کہ وہ اس کی ساس کے سامنے ذکر نہ کریں۔ لیکن لاکھ چھپانے کے باوجود بھی اس کی ساس جان گئیں تھیں۔

’’ ان کو پتہ چلنے کے بعد انہوں نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ ان کے جملوں نے میری زندگی میں اتنا زہر بھر دیا اور میں ہر وقت دعائیں کرنے لگی کہ میں اس بچے سمیت مر جاوں، اور ایک دن انہوں نے مجھ سے آکر کہا کہ تمہارا باپ یہاں کاروبار نہیں چھوڑ کر گیا کہ تم بیمار بچوں کو جنم دو اور ان کے علاج کے پیسے موجود ہوں. میرا بیٹا اس قابل نہیں کہ تم بیمار اولاد اس کے گلے ڈالتی جاو۔ وہ دن میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا، کہ میں نے ان کی باتوں سے جان چھڑوانے کے لیے جذبات میں آکراپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا، اب کی بار میں قاتل خود تھی، جس کے بعد میں نے اپنے شوہر کے کہنے پر آپریشن کروا دیا تاکہ میں مزید  حمل نہ ہو۔‘‘

میں آج بھی ڈپریشن کا شکار ہوں زندگی کے ان حادثات نے میری روح کو جلا دیا ہے، میں جسمانی طور پر جی تو رہی ہوں،لیکن اندر سے مکمل مر چکی ہوں۔ اب میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے عارضے سے دوچار ہوں میرے تین بے قصور بچوں کا جانا مجھے ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم کر رہا ہے۔ میں لوگوں سے، خوشیوں سے دور بھاگنے لگی ہوں، میں نفسیاتی طور پر پاگل ہو چکی ہوں، میرا دم گھٹتا ہے نہ ہی کہیں جاتی ہوں نہ ہی زیادہ میل جول رکھتی ہوں۔ اگر زندگی میں ہمت پکڑتی ہوں تو وہ یہ سوچ کر کے میری ایک عدد بیٹی ہے۔

برصغیر میں کب ،کتنے بچے کرنے ہیں اس کا اختیار کبھی عورت کو نہیں دیا گیا۔ عورت آج کے دور میں بھی  فیملی پلاننگ کا حصہ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ آج بھی پاکستان کی تقریباً آدھے سے زیادہ آبادی فیملی پلاننگ کے لفظ سے نہ آشنا ہے۔ جبکہ شوہر بیوی کو یہ کہہ کر چپ کروا دیتا یے کہ مالی اخراجات کے حقوق پورے کرنا اس کی ذمیداری ہے تو لہذا اس بات کا فیصلہ کرنا بھی صرف اسی کا حق ہے۔ دوسری جانب ساس چونکہ گھر کی بزرگ سربراہ ہیں تو ان کی خواہش کا پورا ہونا لازمی ہے۔ صرف بچوں کی حد تک نہیں بلکہ کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں چاہیے، جیسے بچے کسی فیکٹری میں آرڈر پر تیار کیے جاتے ہوں۔

 ماہر امراض نسواں ڈاکٹر فریصہ نے اس حوالے سے کہا کہ دنیا چاند پر بھی پہنچ جائے تو معاشرے کے ان دقیانوسی تصورات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ کیونکہ معاشرے میں یہ چیزیں اس طرح گھڑی جا چکی ہیں کہ اب لوگوں کا یقین پختہ ہو چکا ہے ۔

انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک عورت ہوں اور میں نے اپنے حمل کے دوران ایسی کئی خواتین کے کیسز لیے ہیں۔ جن کا قدرتی اسقاط حمل ہوا جس سے میرے حمل پر کبھی آنچ بھی نہیں آئی ،تو یہ سب دنیاوی من گھڑت باتیں ہیں جن کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی سائنس میں ایسا کچھ ہے۔

اس لیے خواتین کو اذیت دینا چھوڑ دیں حمل ختم ہونے کے بعد خواتین جسمانی اور دماغی طور پر اس حالت میں نہیں ہوتیں کہ وہ یہ سب باتیں سن سکیں ۔ عورت کو اس وقت سب سے زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس صورتحال میں گھر والے تو کیا بلکہ بعض اوقات شوہر بھی طعنے دینے لگتے ہیں۔حالانکہ عورت کی یہ حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ اسے اس اذیت میں مت الجھائیں کہ ایک حمل ضائع ہو جانے کے بعد وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتی، بعض خواتین 5 سے 6 اسقاط حمل کے بعد بھی ماں بن جاتی ہیں۔

سائیکالوجیکل ہیلتھ کیئر سینٹر کی کنسلٹنٹ، کلینیکل سائیکالوجسٹ سحرش افتخار کہتی ہیں کہ اسقاط حمل کے بعد خواتین ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں،  اور خاص طور پر ان میں حوصلہ شکنی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مستقبل میں اب ان کے بچے ہی نہیں ہونگے۔ اس لیے ذہنی  کمزور ہو جاتی ہیں، ان میں نیند کی کمی کی شکایت بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہیں، اور چونکہ ان میں اپنے اردگرد کے رویوں کو برداشت کرنے کی ہمت ختم ہو چکی ہوتی ہے اس لیے سماجی زندگی میں الگ تھلگ رہنے لگتے  ہیں۔ اور یہ سب چیزیں ان کے ڈپریشن کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ اور بعض اوقات ان کا ڈپریشن بہت بڑی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ عورت کو انسان سمجھا جائے اور اس بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا پورا حق دیا جائے، کیونکہ پیدا کرنے سے لے کر اس کو پال پوس کر بڑا کرنے والی صرف ماں ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں انسان سمجھیں نہ ہی کہ بچے پیدا کرنے والی مشین۔

پاکستان میں اسقاط حمل سے متعلق قانون:

پاکستان میں دو دہائیاں قبل تک صرف عورت کی جان بچانے کی خاطر اسقاط حمل کی قانونی اجازت موجود تھی، جبکہ 90 کی دہائی کے اواخر میں تعزیرات پاکستان کے  سیکشن 338 میں اضافی شق شامل کر کے بچہ دانی میں بننے والے بچے کے اعضا بننے سے قبل عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دی گئی۔ قانون کے تحت ان شرائط کے پورا نہ ہونے کی صورت میں اسقاط حمل جرم قرار پاتا ہے جس کے لیے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

December 7, 2023 - Comments Off on Women Choose To Live With Abusive Partners, Only They Don’t

Women Choose To Live With Abusive Partners, Only They Don’t

Halima Azhar

Dedicated to all of us, who have faced this, seen this, lived this, survived this, fought this, and who are still struggling against this

Challenging Misconceptions About Gender-Based Violence:

Gender-based violence (GBV) is a reality that haunts Pakistani women like a powerful demon that keeps people awake at night. The said vulnerable group becomes subject to GBV in intimate relations, at workplaces, in public places, and online. These episodes of violence have not only a grave impact on the mental and physical health of the victims and survivors, but it also affects the family of the victims and survivors, including children even if they have not been directly assaulted. According to the Council of Europe, gender-based violence affects everyone and has a far-reaching impact than one can imagine. Despite the gravity of the issue, it is underreported globally, and Pakistan is no exception in this regard, rather the issue becomes a lot more convoluted here due to a culture that worships patriarchy. It is not only the impact that is grave, but the frequency of crime is also alarming in the country, as highlighted in a report published at HRCP in 2020, titled “Factsheet on domestic violence during Covid19 lockdown”, over 90% of Pakistani women have experienced some form of domestic violence in their lifetime. Despite      such prevalence of gender-based violence in one form or another in the country, many myths still surround the subject, which further complicates the matter and multiplies the challenges for victims and survivors of gender-based violence.

GBV is an issue of Working Class is a Myth:

Gender-based violence in Pakistan, much like worldwide, is frequently linked to the economic vulnerability or dependence of women on male figures such as spouses, fathers, brothers, or sons. While this association holds truth, it does not fully capture the complex dynamics at play. Anastasia Powell, a Lecturer of Justice and Legal Studies at RMIT University in Australia, contends that framing the discussion around factors influencing men to choose violence and women's vulnerability as risks can diminish accountability. It is essential to recognize that both perpetrators and victims of gender-based violence exist across all social classes and groups, challenging the notion that economic empowerment alone is a safeguard.

In examining the manifestation of gender-based violence through a classist lens in Pakistan, the convoluted nature of the issue, reporting barriers, and deeply rooted patriarchal culture contribute to a scarcity of data on this particular aspect. Notably, the portrayal of gender-based violence in the Pakistani entertainment industry, particularly mainstream dramas, serves as a reflection of societal attitudes. Within this narrative, gender-based violence is often depicted as an issue prevalent among the working class, romanticized or left unaddressed when shown within upper class or urban settings. For instance, the internationally recognized Pakistani drama "Tere Bin" features the lead character, Meerab (played by Yumna Zaidi), expressing indignation upon discovering her house help's abuse and encouraging her to take a stand. Paradoxically, the same character later faces romanticized violence at the hands of her affluent romantic partner, a wealthy landlord, perpetuating a skewed portrayal of gender-based violence across different social strata. Such depiction of gender-based violence is problematic, especially in context of Pakistan which continues to be one of the worst countries to be a woman.

Pakistan does not have promising circumstances to offer to women when it comes to GBV. Honor killing (murder in the name of protecting family honor), Karo Kari (honor killing of women/men due to adultery), sexual assault (non-consensual sex) and many other forms of violence are experienced by women every year, however, the murder of Noor Muqadam has been one of the most harrowing events in this particular context. In this case, the Murderer belonged to one of the most affluent business families nationally and internationally. Being the daughter of former Pakistani ambassador to different countries, Noor Muqaddam herself belonged to an affluent family as well. Class couldn’t stop Zahir Jaffer or protect Noor Muqadda from committing one of the most heinous crimes of         history.

Just after a year, another incident of “femicide” in comparable circumstances surfaced when Sarah Inam, a Canadian national herself was murdered by her husband Shahnawaz Amir, son of known journalist Ayaz Amir. In this case, both victim and the alleged murderer belonged to the urban elite who lived in Islamabad. In between these two murders which got media attention, many other incidents of violence against women happened which led to murder. Some were reported and some went unreported. However, this particular case, just like Noor Muqadam’s case reinforces that GBV exists beyond class, color and race, and associating to any such factor only risks lessening the responsibility, as said by Ms. Powell in her article, “Gender, culture and class collude in violence against women” . Thus, associating gender-based violence, with the working class or considering that economically empowered women are not as vulnerable to gender-based violence is not only a myth but also stereotyping of certain segments of the society. Thus, it can be said that GBV is a reality of women in this country irrespective of the socio-economic class they belong to.

Gender Based Violence is a Private Matter is a Myth:

Pakistan's societal landscape is marked by a patriarchal structure that not only fails to discourage gender-based violence but also discourages victims from disclosing such incidents. The prevailing patriarchal culture, combined with a system that lacks a reliable security net for victims, creates a discouraging environment for individuals to take a stand against gender-based violence. Despite existing laws, the conviction rate remains dismally low at 1-2.5 percent.

The disheartening social, cultural, and legal attitudes toward gender-based violence persist, partially fueled by categorizing it as a "private matter" between two individuals. However, it is essential to recognize that gender-based violence is a crime that must be reported.

The impact of gender-based violence extends far beyond the direct victims; it affects their families and children who witness such incidents. A 2019 World Bank on gender-based violence report highlights that children exposed to gender-based violence may become victims themselves in the future or even turn into perpetrators. Ignoring this issue under the guise of it being a private matter incurs not only a high social cost but also significant economic consequences.

The economic toll of gender-based violence is not merely a statistic but a grave concern, amounting to 3.7% of a country's GDP – a figure nearly on par with what most nations invest in education. This financial burden not only underscores the severity of the issue but also emphasizes the opportunity cost of neglecting the fight against gender-based violence. By dismissing it as a private matter and stifling voices that could bring about change, societies inadvertently choose a path that exacts a high toll not only on the immediate victims but on the collective well-being and progress of the entire community. It is crucial to recognize that addressing gender-based violence is not just a moral imperative but also a strategic investment in the social and economic prosperity of the nation.

Women chose to live in toxic marriage is a myth:

A very common question that is often asked to victims of gender-based violence, particularly in cases of domestic abuse, continues to be “why does she not leave him?”, and some go on to think that these women chose to live with abusive partners. The answers to these questions are not as simple, instead there are many factors involved, one being socio-economic reality of the victim, which defines their dynamics with their partner or even their own family as well.

House, property, or any material asset offers social security to an individual irrespective of their gender, and influences their approach towards life and relations as well. In Pakistan, children have inheritance rights, however only men seem to be benefiting from this. According to the Demographic and Health Survey 2017-18, “97% of women did not inherit a house or land all across Pakistan”. This means that big majority of women do not get their property rights, and hence are deprived from the security that a material asset is capable of offering. Most of these women are married off and moved from Father’s house to their husband’s house, which also never provides them security or safety of any sorts. In case the marriage ends, so does their residence in that particular house, irrespective of the fact that how many years a woman has spent in that house with her husband and family.

According to National Report On The Status Of Women In Pakistan, 2023 A Summary, that the overall labor force participation rate (LFPR) for women is only 21% in Pakistan, which implies that rest of the majority is either shouldering the role of homemakers or engaging in informal work. This striking figure underscores a significant portion of women dedicating themselves to the demanding role of homemaking, a job that not only goes unpaid but often remains unacknowledged, a stark reality reinforced by the legal framework in Pakistan.

Acknowledging the pivotal role of homemakers, Justice Krishnan Ramasamy, a Judge at the Madras High Court, emphasized their contributions. He made history by recognizing women's rights to property acquired after marriage, emphasizing that homemakers play a crucial role in enabling their spouses to engage in economic activities. However, in Pakistan, there is a notable absence of laws pertaining to joint matrimonial property, highlighting a lack of recognition for the valuable work of homemakers. Furthermore, during divorce proceedings, societal patriarchal norms and an imbalanced power dynamic among spouses hinder any equitable distribution of matrimonial assets. This situation accentuates the financial dependence of women on their male counterparts. Consequently, women find themselves in a dilemma, facing the choice of enduring an abusive marriage due to financial reliance or leaving without any legal claim to shared assets.

It is essential to dispel the notion that women stay in abusive relationships out of choice. Such a perspective reflects a privileged stance that fails to grasp the harsh reality faced by women in situations where they lack agency and financial independence. The absence of legal provisions for joint matrimonial property in Pakistan perpetuates a cycle of vulnerability for women, underscoring the urgent need for legal reforms and societal shifts to empower women in both domestic and economic spheres.

While talking to one of the victims of gender based violence, whose identity stays anonymous as per her preference, she said,

“I tried leaving my abusive partner twice, and went back to my parents each time. I did not have any place of my own because I got married soon after studies, and also did not get anything from inheritance. So, going back to them was the only choice, and each time they sent me back with my husband after a few months. Now, I have accepted my faith because there is no fight left in me. I have my kids and I just want to live for them now, that is my life.”

Her words explain the dilemma of women living in such circumstances and the miseries she and many like her bear each day. In the similar context, another victim said that,

“It has been two years since I got married. My husband earns well, but does not give me any money to spend. I wanted to work, he stopped me from that too. I live a suffocating life, where I have to ask for every penny. I never thought of telling this to my parents, because they are going to advise me to be patient just like I have seen in my family before. They might also tell me to be thankful because at least my husband is not a wife beater.”

The statements of these women show the lack of options they have, and the lack of support as well. Neither they have family support nor any support from the system. Thus, living in an abusive marriage of one kind or another is the only choice they have. Financial dependence on partners creates an unbalanced power dynamic, which puts these women in a significantly vulnerable position, while forcing them to compromise and live a life that they neither deserve nor are content with.

Conclusion:

Gender Based Violence exists in many forms and kinds, it is not just physical or sexual assault, it is also emotional and financial abuse. Often it is assumed that these are not the problems of modern women, but they are problems of modern women as much as they are problems of women living in marginal areas of Pakistan. Besides, an indifferent attitude towards GBV exists among all social classes, and they tag it as “personal matter” quite casually, while not only encouraging the preparatory but also leaving the victim without any support. These patterns of violence are only furthered when a partner notices lack of options and agency towards their counterpart, consequently intensifying the pattern of abuse and maintaining them for a longer period of time while making it difficult for the victim to get out of it. Over the years, these patterns become a habit of the victim and they forget to identify healthy patterns from unhealthy ones, and once again it must be remembered that it is not the choice but forced misery of the circumstances established and reinforced by the patriarchal society that Pakistan is.

December 7, 2023 - Comments Off on Breaking the Silence: Unraveling the Cycle of Emotional Abuse in Pakistani Society

Breaking the Silence: Unraveling the Cycle of Emotional Abuse in Pakistani Society

Anmol Irfan

“Bas Larka Thappad Nahin Marta Ho, Baqi Chal Jata Hai” (As Long As the Boy Doesn’t Hit Her, The Rest Is Okay). This is a sentence a now 28-year old baker Ayman Shahid* vividly remembers hearing over a decade ago when her family was discussing marriage culture and the potential divorce of someone in her extended family.  Fifteen then, she remembers feeling extremely uncomfortable hearing that line, but a quick glance from her mother told her she wasn’t to contradict that sentiment at that point. She shares that it’s one of the things  that has stayed with her throughout the last 13 years, and has shaped many of the conversations she’s had about gender justice since.

“I think subconsciously, that one sentence ended up shaping the relationships I chose to be in, both in good ways and bad,” shares Ayman* adding, “I knew that something was wrong with that statement, but because I was never taught what, I could never put a name to things in my relationships that made me uncomfortable.”

While Ayman still describes herself as being lucky enough not to be in any serious physical or emotional harm through her relationships, she says that her childhood shaped her to stay in situations where she felt uncomfortable. Mostly because she’d never been taught enough about healthy relationships to understand what an unhealthy one meant and never knew anyone who had complained. In fact, instead of being able to find help in online spaces, she once recalls scrolling through an online women’s group reading personal experiences women had shared of emotional control and abuse they faced in different areas of their lives. While initially she started wondering if she could also speak about her own experiences in a similar way, the majority of comments, which were advising the posters to have ‘sabr’ (patience) and think of people in worse situations than them, made Ayman change her mind. “It made me think if people are dealing with things so much worse than me, then I should be thankful and not complain,” she says, adding, “It’s only now I realise that things could’ve gotten so much worse and I wouldn’t have been able to do anything because I didn’t know how to help myself at that point.”

That one statement that shaped the 28-year-old baker’s romantic relationships is commonly heard across Pakistani society. Such comments are often peppered with similar beliefs along the lines of how young people these days are not as resilient anymore and that they give up on relationships too easily. Or even that ideas of mental health and abuse are ‘westernised.” For all the progress we think we’ve made, most Pakistanis will still reject the idea of emotional abuse being a real problem in all kinds of relationships in our society. Even for those who are well-meaning and do recognise emotional abuse as a major issue that people can be a victim to, that acceptance isn’t enough. That’s because while we may acknowledge that emotional abuse is a form of abuse, we are so conditioned into accepting so many ways in which emotional abuse takes place that even as we acknowledge its existence, we are unable to see it happening around us.

Emotional abuse can occur in many different forms and can be part of or linked with financial, spiritual and even physical abuse. Psychologist Nayab Chaudhry, who’s recently been seeing clients dealing with issues around abuse in parent-child relationships, marriages and in the workplace, says that the same people who will acknowledge physical abuse won’t do the same with emotional abuse because the latter doesn’t leave a visible mark.

Linking it to how society views mental health, Nayab says, “In the case of bipolar disorder, it’s only when there's a manic episode, and until and unless someone picks up a brick and hits someone, and other people feel they are in danger, that it becomes an illness that gets acknowledged. In that same bipolar disorder, the depressive episode doesn’t get acknowledged because it’s not seen as harming someone else,” while adding that as a society, we often ignore what people are going through until that harm spills over to us.

Even as we have started talking about abuse, we are still limited in our understanding of it in two ways: one, as Nayab points out, that abuse needs to leave a physical mark to be called out as abuse, and secondly that it only happens as part of intimate partner relationships. Instead, she wants to draw attention to the fact that for most people in our society, their cyclical relationship with emotional abuse begins in early childhood.

These stereotypes around emotional abuse only being linked to intimate partner relationships are also furthered by what we see online. A Google search on emotional abuse links to multiple pieces on domestic violence in relationships but very little about the emotional abuse that children grow up with. Zohra Ahmed, a human rights lawyer and founder of The Jugnu Project, an organisation that helps survivors of domestic violence, say, “You can’t just look at a person and ask why they’re choosing to stay with an abusive partner; those behaviours are created in childhood.” She further elaborates that as a society, we tend to see a lot of control in desi families, and what that does from a very young age is tell children that “their “no” does not have value.”

As a society, what we often characterise as “discipline”, “respect”, or even “tradition” in raising children turns into taking away children’s autonomy and, in many cases, can lead to or even justify abuse. It also creates long-lasting cycles of abuse that become very difficult to break, which are then furthered by the social conditioning that leads us to believe that we shouldn’t intervene and help survivors because “kisi ke ghar ka mamla hai (it is their private matter).”

“We live in a collectivist culture where we are always taught to think about the family first.  When it comes to any choice we are making, we have to think about the group first, and our parents also think the same way,” says Nayab. She adds that learning to give up your boundaries in favour of the “collective” from an early age leads to issues in adulthood on when and if to set boundaries when to remove yourself from uncomfortable situations and how to identify harmful behaviours both from others and from yourself as many people end up continuing abusive cycles.

Psychotherapist and Clinical Trauma Specialist Maliha Saya, says oftentimes abusive partners - who can form narcissistic personalities - are projecting their own trauma onto their partners and end up being part of the cycle of emotional abuse. She connects this with the result of not being taught how to deal with our emotions. “We’re not taught to deal with anger or how to express it, so we learn how to scream and yell,” she says.

It’s not just about anger. “Even in happiness, we’re not allowed to express that. For example, if I, as a girl, get into a good university, I’m not supposed to be happy about it and just put it on luck or downplay it. I can’t acknowledge my achievements,” Maliha adds.

The same control people have lived under their whole lives becomes justified in their heads, and they then use it against those whom they have power over when they are finally in that position. And while an abuser has no gender, coming into adulthood, there is a gendered aspect to emotional abuse in Pakistan, especially in the way women are expected to deal with it.

“When your daughter comes to you telling you she’s in a bad situation, you tell her not to cry and to have ‘sabr’. Not only do you take away that emotion of crying, but you also tell your daughter she can’t stand up for herself,” Maliha says of how women are always taught ‘adjust’ and to compromise, which makes them more vulnerable to becoming victims of abuse, because in some way they’ve been told it's okay.

This control directed specifically at women can come in many forms. It can look like everything from policing their actions, both physically and online, to controlling what they wear, to even being degraded or put down for a skill.

“As a woman, ever since childhood, you’re told to always stay in control because you can’t have a reputational black stain or you’re done. You’re taught to feel like a possession that's passed on from one family to the next,” Zohra says, adding that she’s seen - in many of the survivors she has worked with - how emotional abuse is the first step in increasing abuse in a relationship and even leads to physical abuse.

Isolation is also a key tactic in emotional abuse. It’s common for abusers to express anger at their victims being part of safe spaces online, and in our society, we’ve seen a very common trend of men, in particular, creating noise around how spaces like Soul Sisters Pakistan are harmful and that they ‘ruin good women.’ Lack of education and digital literacy and inaccessibility for many women also further increase their vulnerability as they become dependent on fathers, brothers and husbands to navigate online spaces which restricts them more instead of giving them the freedom to find help.

One frequent element is isolation, where they isolate survivors or victims from people they can confide in, and in most cases, this is very hard to note because the abuser will say these people aren’t your well-wishers,  but once you start talking to someone, you realise there’s more signs, so if someone is isolating you posing themselves as your protector question them, talk to people, don't question yourself,” says Nayab.

“Another emotional abuse tactic is conditional love, where you are teaching them that if you do what they can to please you, they’ll get positive reinforcement,” Ahmed adds, saying this will turn these children into adults who will easily bend over to control because they only know how to please others in relationships and not themselves.

But if recognising abuse is hard, helping a survivor get out of it or getting the help you need can be even harder. It’s easy to think that with such a digital world, you can reach out to a therapist online or find a safe space. But that’s easier said than done. In fact, digital conversations or even reaching out to someone you may think is in danger can be risky because abusers will often spy on or control the digital movements of the person they are abusing. This can also be through spying, in which case the victim doesn’t even know it’s happening, which can add more psychological pressure.

In the long term, both Maliha  and Nayab recommend changing the way we raise children and how we teach them to navigate emotions. “We need to focus on building children’s EQ as much as we do their IQ,” Saya says.

In the shorter run, breaking the cycle of abuse can be a lot trickier. The legal route is possible, but with women in Pakistan often not being financially independent, both legal help and therapy can become inaccessible. This is made worse by the biases present even with legal and medical professionals.

To help navigate these biases, Nayab suggests, “Take this topic up as a phenomenon, to check how someone responds, without giving personal details, to gauge whether they’d respond well and be empathetic.”

That’s one of the reasons why the Jugnu Project - along with giving survivors access to mental health treatment - also helps those who need it set up businesses so that they can achieve financial independence and free themselves of the situations they are stuck in. It’s also important to find the right kind of help, and looking at an expert’s credentials and experience with survivors can be key. But short term solutions will only go so far until we change our mindset as a society as a whole.

“We don't give our children or adults a shot at becoming whole, and it takes a lifetime to understand that trauma, and by that time, we’ve already passed it onto the next generation,” Zohra says.

December 7, 2023 - Comments Off on Beyond the Binary: Expanding the Discourse on Gender-based Violence in Pakistan

Beyond the Binary: Expanding the Discourse on Gender-based Violence in Pakistan

Tehreem Azeem

Faizi was assigned male gender at birth in Toba Tek Singh, Punjab, Pakistan. But over time, her family realized she was not behaving typically for either binary gender. She was a trans person. She spent her whole childhood struggling to understand her own identity while facing harassment from those around her.

As a child, Faizi underwent the worst forms of violence. When she would go outside of her house, boys would chase and grope her and shout slurs like “hijra.” She would run back to her house as fast as possible.

At family gatherings, she would draw curious stares and roving hands, trying to solve the “mystery” of her body. Her male cousins even hatched plans to see something revealing while swimming together.

Transgender individuals in Pakistan face shocking levels of targeted violence and discrimination rooted in transphobia. Nearly 90% endure some form of physical or sexual abuse in their lifetimes, often at the hands of their own family members. They are often kicked out of their homes for embracing their identities. Many of those go to the nearby transgender community, where they are welcomed warmly. But sadly, the society has not much to offer to them. They are forced to do begging or sex work to earn a living. This frequently leads to further assault. They are murdered brutally by unknowns. They face public harassment in routine. They are raped at private parties where they are invited to perform. This violence persists due to societal prejudice around gender and lack of legal protections for marginalized groups.

Figuring out the societal behaviour

Even at a young age, Faizi understood the treatment she endured from elders was wrong. Over time, she realized she had survived multiple forms of violence.

“Children are the easiest victims since they know nothing of the world. The violence in my life began in childhood. Ours is a male-dominated society where men consider harassment of women their right. I endured even more because of my then-unknown gender identity, though they sensed it,” she said.

Her School also offered no respite to her. Placed in the boys’ section, Faizi faced relentless torment from male classmates who chased, groped, and assaulted her. They would hurl footballs at her body, strip off her pants, and circle around her while unleashing slurs. Sometimes, they would go after her in the bathroom and forcefully hug her to feel her growing body.

“Our parents do the greatest injustice to us by imposing masculinity on us and then sending us into a male world. It’s like serving predators their preferred feast. Trans youth would be safer if they were raised as girls. It would spare them the pain and misery they face from men,” she reflected.

Gender-based violence permeates Pakistan, though it's often narrowly viewed as only impacting cisgender women. In reality, violence extends across genders, afflicting trans people, intersex individuals, non-binary people and more. Women do possess one advantage - societal space to openly discuss their struggles. Organizations fighting for women’s rights in Pakistan can operate visibly, raise voice for them and press the government for protective laws. But for those seen as "lesser" beings pervading social stigma, speaking out proves tremendously difficult. Even young boys and men stay silent, lest they appear "not man enough" to admit vulnerability.

My teachers harassed me

Throughout her education, Faizi endured harassment from teachers seeking to exploit her. In school, the male teachers would call her to the staff room, where they would try to touch her inappropriately. The same pattern continued in college. A teacher openly asked her for sexual favours. Upon refusal, he made college time toughest for Faizi. He did not even allow her to appear in two examinations of intermediate. She later passed the supplementary examinations and went to Faisalabad for an undergraduate degree at Government College University Faisalabad.

The first challenge she faced there was getting a hostel room at the university. The hostel administration did not know where to send her, either to the women’s hostel or to the men’s hostel. They kept sending her from one place to another till she got tired and sat outside in the rain with her luggage.

“When I arrived that night, they shuffled me back and forth between the boys’ and girls’ hostels. I ended up sitting outside in the rain with my luggage. In the morning, I approached the Vice Chancellor and gave him an application to allot me a hostel at the campus. He was kind. He took immediate action and allotted me a VIP room. He also waived off hostel expenses for me. He also told the cafeteria not to charge me for food and drinks during my stay at the university,” she recalled.

I was disowned because of my gender

Faizi’s family asked her to leave the house when she was just thirteen years old. She still remembers the day. Talking about it, she said that day, a group of transgenders had come to our area to celebrate the birth of a boy. Like everyone, she also went out of the house. One of the transgenders recognized her. She gave her a note with her address and some money. Faizi was confused, but the transgender knew what was coming her way.

“She said that a time will come when your family forces you to leave your house. They would not keep you. That time, don't go anywhere, just come to this address. I thought she was crazy. I was settled in my own world. That was my family and my house. Why would they kick me out of the house? But it happened the same evening,” she said.

In the evening, a neighbour complained to her family that they had seen her talking to the transgenders. Her family got angry. The boys were already after her. The relatives and others were also mocking her family. They told her to leave the house, and she left.

She went to that address where she was received happily. Her guru was extremely kind to her. She helped her complete her education. After completing her undergraduate, she went to Islamabad to do her MPhil in Urdu from Allama Iqbal Open University. Once again, she had to figure out a place for her living. She posted about the struggle on her Facebook. The post went viral and reached a woman who was doing a Ph.D. at the same university. She contacted her and told her to come to her house instead of wasting time hunting for a safe place. She went to her. She says that the woman helped her a lot.

Fighting against the system

She helped her file a petition at the court demanding the government to consider transgender as equal citizens and give them the right to get permanent jobs as teachers in colleges and universities. Faizi won the case, but she couldn't pass the lecturer's examination of the Punjab Public Service Commission (PPSC). However, she has been teaching since 2011. She did her B.Ed. from Lahore. After that, she got an internship at a government school. She taught there for one year, and then she taught in some government and private colleges for several years. She also taught in some private tuition centres. She is Pakistan's first trans teacher.

Faizi is now working as a victim spot officer in a protection center developed by Punjab police in the district of Toba Tek Singh. She wants to go back to teaching. She is planning to get admission in a PhD program in Urdu at university, and after completion of her PhD, she will apply for jobs in the university

I was molested as a child

Ali Rehman,* a businessman from Lahore, was molested as a child at a local Islamic seminary. He does not talk about it anymore due to the social stigma attached to it, but the trauma is there.

"It was difficult for me to talk about this," he said. "People often think men cannot be victims of violence. But it does happen to us."

According to the recent report of a nongovernmental organization Saahil, an average of 12 children per day faced sexual abuse in Pakistan in 2023. The report further revealed that younger boys had suffered abuse more than younger girls. Saahil collects these incidents from newspapers. Hence, the real situation could be even worse. Many incidents of violence against younger boys occur in seminaries. Ali recalls his own experience as a seminary student when a teacher attempted to coerce him sexually.

"One day, a teacher called me to his house for what I thought was work. But when I arrived, he was sitting there naked. I immediately ran away," Ali said. "I was scared to tell anyone since I’d never heard of a boy reporting such things, especially to parents."

Toxic masculinity attitudes in Pakistan often prevent male victims from reporting sexual violence. Seeking justice is seen as a shameful weakness rather than a tremendous strength. Victimhood also triggers feelings of humiliation due to cultural notions linking "honour" to macho dominance. Most, thus, stay silent, leaving psychological trauma unaddressed as systems ignore male vulnerability.

Ali, however, told the incident to some of his classmates, who he says to date make fun of him. They mock the traumatic experience, laughing at his "missed opportunity" whenever the seminary name surfaces in their conversations.

“Fifteen years have passed since this incident. The friends whom I told about the incident at that time still make fun of me asking what would have happened if I had stayed there. Then they laugh. I don't even repeat this incident now, but whenever the name of this teacher comes up, or the name of the seminary comes up, my friends start making fun of me, saying that he was crazy about you,” he added.

"Sadly, rigid gender norms and toxic views of masculinity fuel violence against marginalized groups in our society," explains Shermeen Bano, a sociology professor at FC College Lahore. "It's not just restricted to women—men and transgender individuals are also disempowered and dehumanized due to their gender identity."

Shermeen traces the roots of this systemic issue in Pakistan to deep patriarchal attitudes and structures of inequality engraved into the fabric of society. She says the gender against violence in our society happens at different levels.

"It happens at the individual level, within family and community networks, as well as societal and state levels. Those seen as lacking power or dignity due to their gender identity become targets. For transgender individuals, violence and restricted rights stem from their failure to conform to the gender binary. Male victims also lack power—strength is equated to masculinity, so sexual abuse of men and boys goes unacknowledged," she said.

Dr Rubeena Zakar, a Public Health professor at the University of Punjab, while talking about Gender-based violence in Pakistan especially one targeted at those who are not women, said that many of those cases go unreported. Even the cases of violence against women go unreported.

“When you see incidents of gender-based violence in the media, they are against women. But the violence against men, we will not say that it does not happen, but it does happen. Incidents of violence by women against men are very few, but incidents of violence against women by men are very high," she said.

The discrepancy stems in part from societal attitudes that frame feminine victims as more sympathetic while masculine vulnerability remains taboo.

"Ours is still very much a patriarchal society stacked in favour of men and rigid gender norms. So, violence against women gets highlighted more," she said.

However, data suggests alarming rates of abuse against marginalized male and transgender groups.

"Make no mistake - male-on-male sexual violence is very common in Pakistan, but notions of masculinity and honour prevent victims from coming forward," she stressed.

The result is a perfect storm where oppressed groups suffer violence quietly due to stigma, inadequate legal protections, and lack of social support.

She says that this violence stems from the society and its parameters for different genders. If it considers a gender lesser being, that gender will suffer more violence and have even lesser support.

"If we as a society view someone as 'other' or inferior due to their gender identity, that enables serious abuse. Transgender individuals, in particular, face huge discrimination and vulnerability to harassment,” Dr. Rubeena said.

How the Situation Could Be Changed?

Both Dr. Rubeena and Shermeen said that we would need to change the way we look at vulnerable groups as individuals and as the whole society. Then there is a need for wide-scale awareness campaigns and systematic changes that give power to these groups and make them equal citizens of this country.

"We need to empower vulnerable groups and give them greater autonomy and dignity regardless of gender identity. Simultaneously, we must challenge traditions and norms that justify misogyny and bigotry. Only then can we envision a society free from violence for people of all genders,” Bano said.

Dr Rubeena says universities should play their role in this regard. Those should take the help of their students and send them to communities to work as change agents.

"Legal initiatives, counselling services, university gender programs - these can help. We must go deeper within communities to shift mindsets and toxic masculinity norms that fuel violence against marginalized groups,” she said.

It is a long road, but an essential one to build a society free of oppression.

"The most vital need is awareness - we must break taboos and start openly discussing violence targeting men, transgender citizens, and anyone else who suffers abuse. Only then can all people live with equal rights and dignity, regardless of gender," Dr. Rubeena said further.

The path forward winds through schools where curriculum and counselling nurture inclusion; through homes where families reconcile rigid roles, and seats of power occupied by visionaries bold enough to legislate protections for all. The healing should begin in communities reclaiming identities that have been long demonized. Media should also play its due role in this regard by giving an amplified voice to the muffled trauma of marginalized groups.

As Shermeen stated, such transformation requires “redefining strength” as empowering the most vulnerable—countering decades of trauma with resilience. The space must open through dialogue; laws should be made to secure rights for everyone regardless of any discrimination Though long suppressed, an enlightened Pakistan lies within reach should we muster collective courage to confront bias in all its insidious forms.

December 7, 2023 - Comments Off on The Tight Slap – Pakistani dramas and the blurred lines between imitating and Influencing life

The Tight Slap – Pakistani dramas and the blurred lines between imitating and Influencing life

Sabah Bano Malik

Trigger Warning: This article covers topics including femicide, domestic violence, domestic abuse, and marital rape.

In 2014 I resigned myself to watching with my mom whichever drama she was currently consuming. This was before I understood how streaming worked, or torrents, or how to cast something to a television once you downloaded it (needless to say, I was technologically challenged), so she ruled the remote and therefore the content.

One drama in particular had ensnared her and truthfully me as well. To be honest, as much as I do criticize dramas, they really do know how to get you sucked in. Dramas are watched by millions – leave the television numbers aside, the views on YouTube where channels now post whole episodes soon after they air on television, regularly cross millions in views. Stories about families and shaadis dominate the plot points, but now and then you get a drama which puts a bit of a twist on the tales as old as time, so it was not uncommon for me to grumble but also ask my mom to catch me up on anything I had missed by the time I started watching.

This time around, she was watching Bashar Momin, a serial that centered around the titular antagonist turned protagonist Bashar Momin. The central plot was around him and his relationship with his wife Rudaba, played by Faysal Qureshi and Ushna Shah respectively.

What made this drama a bit different was it seemed to slightly borrow from the common tropes of Turkish dramas known to meld mob and love plots together, Bashar was a gangster, money launderer, all around bad-guy in impeccably-tailored shiny suits who took up space in a menacing way. He was clever with evilly crafted one-liners. He was also handsome, rocking a well-coifed mop and a shaped-up beard that at the time was the most sought-after look and continues to be the dominant fashion trend with young men. He was an anti-hero that grew so popular that even in contentious times streaming rights landed in India for the show to air there as well. Rudaba was in many ways a fighter, but in overwhelming ways she was what most of our heroines in our dramas are: trapped, stuck, unheard.

Even in this drama about a bad, bad guy, shaadi could not be far behind. It is the most critical of plot points when it comes to our entertainment. Nothing can start and nothing can end without shaadi somewhere in there.

Circumstances lead to Rudaba marrying Bashar, neither is particularly happy about it. Though Bashar did manipulate the nuptials into  happening – Bashar the older, the conniving, the have I mentioned bad guy, manipulated her brother into marrying her off (no consent necessary, just threats and duty cited) to him. Rudaba was afraid of him.

I am talking trembling, eyes averting, this is a bully and she is the cornered type afraid of him. He was mentally torturous of her and often verbally abusive, and would be seen routinely grabbing  an arm or physically intimidating her by blocking her path or towering over her. And if one was to assume he took being a husband seriously – he was also emotionally neglectful.

Not to mention he broke up her long-time engagement to a family friend (promised by her dad, because of course) and was overall making it so that everyone in Rudaba’s life doubted her character – which they did very easily, because well, art imitates life and who has it easiest to destroy a woman’s character than literally any man determined to do so and the fact that there is always a willing to listen audience for them.

So when a few episodes went by and Bashar told her to get out and he was going to divorce her, I was quite literally scooping my jaw up off the floor to hear that he could not do that to her because she was pregnant.

She was pregnant.

As of today, there are no official laws on the books in Pakistan that explicitly state or acknowledge the reality of marital rape, the act of sexual coercion and assault between married persons. However as stated in this article in January 2023 written by Forman Christian College, “The legal provision against rape in the Pakistan Penal Code[1] doesn’t explicitly mention marital rape but still the provision recognizes sexual intercourse insides the bounds of the marriage as rape if it takes place against the will of the wife.”

Unhappy wives falling pregnant on our television shows is very much the norm. It is also not uncommon to be introduced to a long-suffering wife who has many kids with her abusive, shitbag of a husband. It is also not uncommon to see having children being prescribed as the quick fix for a horrible marriage being depicted on screen.

But rarely if ever is it acknowledged that two people who despise each other seemingly made children, and in the cause of Rudaba and Bashar it stuck out to me so much, that I am reflecting on it nearly ten years later, because only an episode earlier I watched her shake in fear at sharing space with him – and putting two and two together, broke me.

“So was it rape?”

That’s the question I posed to my mom whose eyes widened like she had not really thought about it like that before, because to marry and to have children just kind of happens. It’s the expected next step no matter if you’re arranged, in a love match, or in so many cases as seen in our dramas, and sadly our headlines, forced.

When marital rape is brought up online where I chronically live, I can pretty much guess exactly what is going to happen in the comments – men claiming it is not real. Men demanding to know what the point of them earning money is then, implicitly stating that they are buying their wife’s consent. Men saying feminism is ruining families, because consent is a made-up concept.

I kid you not, a man once responded to one of my Tweets (my X’s?) about marital rape saying, “Consent will ruin marriages,” another simply wrote, “Consent?” punctuated with about 20 laughing emojis.

The idea that a wife is giving consent for life by marrying you seems to be the believed doctrine of too many people, so when I criticize dramas for continuing this point in their plots am I critiquing them for portraying culture or for influencing it?

Should Pakistani dramas talk about whether consent has taken place? Could they be doing more? Should they be doing more?

According to a study conducted by the Human Rights Commission of Pakistan (HRCP) titled 'Factsheet on Domestic Violence During COVID-19 Lockdown'[2] in 2020, 90% of Pakistani women have experienced some form of domestic violence in their lifetimes.

90% of us, and that’s just who felt confident enough to say so. Or who felt it was so normal it was not something they needed to hide or deny. Imagine the numbers if we could ask everyone. If we could inform everyone.

There’s a casualness around the unequal dynamic in the relationship between husbands and their wives in our culture. An accepted truth that the husband is the boss and what he says goes – you see it a lot in our dramas too. Freshly wed brides are suddenly being dictated to about what they can wear and who they can see. Wives divert attention and life-changing decisions to their husbands or other males in the family. And that’s sadly not even shocking enough to be the whole point of the show – fighting those very ideas – but just how things are done. Because that is how things are often done.

Before I dive into physical domestic violence and its depiction on our televisions, I want to talk about the other types of abuse that are so common place in our dramas it genuinely gives me chills because if it’s so normal on here, that means it’s so normal out there in the real world.

Let me set the scene. A man comes home from the office, he’s already in a bad mood because his mom or his cousin who actually wants to marry him has been calling him all day complaining about his wife. His wife who has run the household all day and is now waiting for him to get home hoping beyond hope he is in a good mood because since they married, he rarely is, is waiting in their room.

He enters, she says hello, maybe takes his jacket and his bag, brings him a glass of water she already had prepared, and he says nothing. No hello. No acknowledgement.

She tries to pepper him a bit, get him conversing, and make some polite conversation – if she is unlucky, she will be addressing some conflict that was left to her to resolve. And then he snaps!

“Chup! Bas!” The beloved quips of, “Do you ever stop talking!?” and “My mother was right about you!” or “Go crying to your brother, see if I care.”

In some dramas here is where the accusations will be meted out against her character, or demands will be made of her to be better than she is, and if the writers want to spare us, he will slam the door on her and walk out.

Ridiculing wives, degrading wives, ganging up on wives – all of these seem to be seamlessly apart of the majority of Pakistani dramas.

Now often this behavior is not dismissed by the audience, or at least it is not meant to be – that would not be fair of me to say, clearly, we are meant to look at this chump and know he’s in the wrong – but it’s how this wrong is often dealt with that jolts you out of seat and makes you want to shake your tv screen.

Women are expected to suffer and sabr, and suffer and sabr, and ultimately get their win at the end of the day by forgiving everyone who wronged her and being just the purist, sweetest, likely light-skinned angel that one could be.

She forgives abuse, she forgives isolation, because well she’s above making people pay when she can play nice. She sees her husband has come around and she can forgive him, or she can let him be their children’s lives, she can even hug her abusive  collaborators, or she can forgive her own family for marrying her off.

Which influences the audience to believe that women should suffer. Women should sabr. And women should forgive. At least good women do.

This is even the case when domestic physical violence takes root.

The problem is, with 90% of Pakistani women reporting being at the receiving end of violence at some point in their life, is it simply art imitating life, and if so, how much responsibility does art bear to challenge the norms of life?

It's not just slaps, but arm grabbing, arm shaking, physical intimidation, shouting, and the aforementioned very much present "marital rape" in dramas - all being normalized. And when the knee-jerk  reaction of the country, including those in entertainment, is to brush off violence, how long can we let this "norm" be the norm?

Nowadays  when a slap is heard on television dramas it can often lead to outrage on the internet – but that’s for the popular shows, the ones that have fanbases online and often tap into younger audiences. But slaps are as regular of tropes about girls in jeans and those who work in offices – the latter two quite negative, the slap – just part of what we do.

A husband lifting his hand against his wife is not only uncommon but expected, often in these shows (and I dare I say real life) a wife will sometimes be consoled and comforted but also told that this is sometimes just what husbands do.

So again we can say art is imitating life, then what responsibility does art hold? In a country with rampant (at times denied) femicide and women’s patience and hurt and endurance seen as an integral part of our culture – should the shows do more to battle these expected realities?

For some people seeing harrowing or even casual instances of domestic violence may strike a chord, and may even change their opinion on things – but when there is an overwhelming dismissal of violence against women – especially within the confines of a marital home or family unit – should dramas be doing more?

I personally think – yes. And I am not alone.

Just last year the drama Tere Bin starring beloved drama actors Yumna Zaidi and Wahaj Ali was THE drama everyone was talking about. It was a massive success not only here in Pakistan, but in Bangladesh and India as well and it did what not many dramas are doing – it captured Gen Z and it became part of internet culture. Forums, threads, groups – they build a devoted fan base and largely due to their slightly unconventional, leaning slightly more contemporary handling of the central relationship of the series of Meerub and Murtasim. They literally talked about consent believe it or not.

Meerub was a departure from the usual heroine – brash, wild, bold, and at times wholly unlikeable, and Murtasim was the grumbly rough hero softened by his love for this wild girl – the makings of drama deliciousness. But then he slapped her.

He slapped her and it was romanticized by the show. And by the audience.

In order to write about this moment, I went to watch it on YouTube, the clip has 2.3 million views and thousands of comments and many of those disgusted with the romantic portrayal of the slap in turn had hundreds of comments saying, and I quote, “Aisa hi romance real hota hai.” Many also said she pushed him to it, this was his first time reacting, he felt bad, and he said sorry, it happens. It happens.
It happens.

Maybe the most dangerous and the most telling of the commentary on the slap and the swoon-worthy  way it was portrayed was two words: it happens. Because it happens is a stone’s throw away from “this is just what husband’s (or men) do.”

Fans were outraged and talk around the slap was trending on social media with literal hashtags about the slap itself racking in thousands of posts and critiques and demands for the drama industry to do better, to stop using abuse as a plot point if they were not going to handle it with care, respect, and satisfying retribution.

And this could possibly be why the show took a harsh pivot on a marital rape scene that would come and stun everyone being that a huge plot point was around their marriage being approved by Meerub when she got in writing that no consummation would take place without her consent.

The marital rape scene in the drama was rebranded as a “regret” moment when it became clear the audience was not going to be on board with the torture of the heroine, it was handled incredibly clumsily and audiences did not let the show off the hook. Ridiculing and condemning the show with equal energy. Watching the scene back now it’s hard to see where they believed shoddy editing could save this – we all saw through it; it was violent and transparent.

And it was wholly unnecessary. But it gets views. Marital rape, mentions of rape, slaps, abuse, traumatized and crying women – it all obviously leads to views because these dramas become huge, viral, record-breaking shows. And again I ask, what responsibility does the drama industry have to highlight abuses happening in our societies but also treat them in such a way that their massive influence can be used for good?

There is also a ridiculous amount of arm grabbing in our dramas. Arm grabbing has long been seen as the out-of-control urge to hold someone that entertainment coming out of more conservative cultures have employed for eons.

Arm grabbing is big in K-dramas, Turkish dramas, and of course, Bollywood where there was nary a film without an arm grab or even an arm drag, and they are also frequently happening in our own Pakistani dramas.

It’s almost always portrayed as emotional turmoil pushing a man to this, it is romantic. It is manly. And it is so dangerous. I am 34, I have been watching Bollywood movies for three decades, Pakistani dramas for closing in on two and even I find myself having to dismantle daily what is romance, what is care, what is healthy in relationships because what we accept as norms and portray as norms cannot be.

November 13, 2023 - Comments Off on پاکستان کی ڈیجیٹل جمہوریت، انتخابات 2024 پر ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اثرات

پاکستان کی ڈیجیٹل جمہوریت، انتخابات 2024 پر ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اثرات

 سمیرا اشرف

ڈیجیٹل دور میں، پاکستان میں انتخابی مہمات میں ایک گہری تبدیلی آئی ہے۔ روایتی سیاسی ریلیاں، کتابچے، اور گھر گھر مہم اب جدید ترین ڈیجیٹل حکمت عملیوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا کیمپین کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر لائیوسٹریم کی جارہی ہیں۔ جلسے جلوس بھی سوشل میڈیا پر لائیو دکھائے جارہے ہیں۔ جماعتوں اور امیدواروں نے اپنی توجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مرکوز کر دی ہے۔ 2024 کے انتخابات میں ڈیجیٹل انقلاب کے بنیادی پہلوؤں میں اہم پہلو ڈیٹا پر مبنی تجزیہ ہے۔ سوشل میڈیا کے عروج نے سیاسی مصروفیات کو نئی شکل دی ہے۔ فیس بک، ٹویٹر/ایکس اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر امیدوار ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ووٹروں کے رویے کو سمجھنے، انتخابی مہم کی حکمت عملیوں اور انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔ مختلف ڈیموگرافکس کے ڈیٹا سیٹس کی بڑے پیمانے پر باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ اعداد و شمار کے تجزیات کے ذریعے، سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو توڑ کر نئے سانچے میں ڈھال رہی ہیں، جس سے وہ سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں پر فوری ردِ عمل ظاہر ہونے اور اس کے ادراک کے بھی قابل ہو گئی ہیں۔

انتخابات دو ہزار چوبیس کی گہما گہمی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تازہ اعداد و شمار بھی جاری کردیے ہیں۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں چار سالوں کے دوران 21 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، خواتین ووٹرز کی تعداد 2018 کے مقابلے میں 46.7 ملین سے بڑھ کر 58.5 ملین ہو گئی ہے – جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا تقریباً 46 فیصد ہے۔ دوسری طرف، مرد ووٹرز، کل ووٹرز کے 54 فیصد یا 68.5 ملین پر مشتمل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست کے مطابق 18 سے 35 سال کی عمر کے ووٹروں کی تعداد میں 90 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، جس نے انہیں ایک اہم قوت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں نوجوان کو پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب ہوگئیں تو یہ انتخابات کے نتائج کو مکمل طور پر تبدیل کرسکتاہے۔جیسا کہ پاکستان 2024 کے عام انتخابات کی تیاری  کر رہا ہے،اس انتخابی معرکے میں سب سے مضبوط دعویدار پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) ہے، مسلم لیگ نون کی ڈیجیٹل ٹیم آئندہ انتخابات میں اہم کردارادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

" ہماری پارٹی کے منشور میں شامل ہے کہ ہم نے نوجوانوں کو ساتھ لیکر چلنا ہےہم نے بہت سی اصلاحات نافظ کی ہیں جن میں سے سب سے اہم آنے والے نسل کو اخلاقیات کے ساتھ بحث کی ترویج شامل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم  نے بہت سے آن لائین سیمینار اور ورکر کنونشن کا انعقاد کیا"۔ فرزانہ کوثر ،سنئیر وائس پریذیڈنٹ مسلم لیگ نون سوشل میڈیا فیڈرل کیپیٹل۔

ڈیجیٹل سیاست کے دور میں، روایتی انتخابی مہمات کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے، جس سے ڈیجیٹل پر مبنی حکمت عملیوں کے ایک نئے دور کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ پاکستان بھر کی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے ووٹروں سے رابطہ قائم کرنے میں ڈیجیٹل ورلڈ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ مسلم لیگ نون بھی اس میں سر فہرست ہے۔

فرزانہ مسلم لیگ نون کے میڈیا سیل کے ساتھ پچھلے چھ برس سے منسلک ہیں۔ فرزانہ کہتی ہیں کہ "ہر انسان کے پاس سمارٹ فون ہے ہم نے جو بات بھی عوام تک پہنچانی ہو اس کے لیے ہم سوشل میڈیا کا ہی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ورکنگ ویمن سے  لیکر گھریلو خواتین تک تمام خواتین کے پاس سمارٹ فون موجود ہیں۔ اور ان ہی کے ذریعے ہم پارٹی کا منشور ان تک پہنچانے کی پلاننگ کر رہے ہیں"۔  ۔ فرزانہ نے مزید کہا  ،"مسلم لیگ نون کے لیے سوشل میڈیا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کی ٹیم میں مریم نواز صاحبہ خصوص دلچسپی رکھتی ہیں۔ مریم نواز نے ہرعلاقے میں جاکر وہاں کی سوشل میڈیا ٹیم کو ایکٹیو کیا اور آنے والے انتخابات کی بھرپور تیاری کے سلسلے میں رابطہ کے لیے واٹس ایپ گروپ ایکٹیو کیے۔"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہر پارٹی میٹنگ جلسہ اور ریلی میں اب سوشل میڈیا کی ٹیم کے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جنہیں پارٹی ایجنڈہ کے بارے میں مکمل بریفنگ دی جاتی ہے اور اسی بریفنگ کے ذریعے ہم سوشل میڈیا پر عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں"۔

 کیا الیکشن 2024 کے لیے مسلم لیگ نون کا سوشل میڈیا پلان تیار ہے ؟

آئندہ انتخابات میں سوشل میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر بنائے گئے پلان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "سوشل میڈیا کا ان الیکشنز میں بہت قلیدی کردار ہوگا۔ انتخابات میں ڈیجیٹل میڈیا مہمات میں اضافہ کیا جائے گا۔ ویڈیو مواد، انفوگرافکس، اور آن لائن اشتہارات کے ذریعے ووٹروں تک پہنچنا جائے گا۔ ڈیجیٹل میڈیا پر انٹرایکٹو نوعیت کا مواد نشر کیا جائے گا، اور غیر معمولی پیمانے پر ووٹرز کے ساتھ رابطہ اور مکالمے کو فروغ دیا جائے گا۔ پارٹی کا منشور ہو یا پارٹی کیمپین یہ سب ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ہی چلائیں گے خواہ وہ پارٹی ریلیاں ہوں، ورکر کنونشن ہوں یا جلسے جلوس سب کچھ سوشل میڈیا پر ساتھ ساتھ دکھایا جائے گا"۔

سوشل میڈیا کا پلان تو تیار ہوگیا کیا اس پلان میں مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی شامل ہے؟

چونکہ پاکستان کے انتخابی منظر نامے میں مصنوعی ذہانت ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر ابھری ہے۔ مصنوعی ذہانت کی وسیع ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کرنے، ووٹنگ کے نمونوں کی پیش گوئی کرنے اور ممکنہ ووٹرز کی شناخت کرنے کی صلاحیت آنے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے فرزانہ کوثر نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کا صحیح استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔  "مسلم لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم آرٹیفیشل انٹیجلنس کی مدد سے پورے ملک سے ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈیٹا کا آڈیٹ کرنے،منفی پراپیگنڈا کی رپورٹ بنانے کے لیے بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے مدد لی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عوامی رائے کا پتہ لگانے اور عوام کی دلچسپی کس مسئلے میں ہے اس کا سراغ لگانے کے لیے بھی آرٹیفیشل انٹیجلنس کا استعمال کیا جارہا ہے"۔

سیاسی جماعتیں اور امیدوار اب مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ بصیرت کی بنیاد پر اپنی حکمت عملیوں کو ڈھال تو رہے ہیں اور اس سے سیاسی مہم کو مزید درست طریقے سے ہدف بنانے اور پیغامات کو تیار کرنے کے قابل بھی بنایا جاسکتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کی صلاحیت ڈیجیٹل دور میں ایک اہم چیلنج بھی ہے۔ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کو مصنوعی ذہانت کے زریعے کنٹرول کرنا بحرحال وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

 فرزانہ کوثر کہتی ہیں "ڈس انفارمیشن اور پراپیگنڈا کا سامنا تو ہر پارٹی کو ہے۔ بہت ساری خبروں کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ پارٹی کی ساکھ کو برقرار رکھنے اور جعلی خبروں کو ختم کرنے میں درپیش چیلنجز کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے حقائق کی جانچ کرنے والے ٹولز کے استعمال سے نمٹا جائے گا"۔ ان ٹولز کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ ٹولز ریئل ٹائم میں معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں، جس سے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تیزی سے شناخت اور اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ ووٹرز کو درست معلومات تک رسائی حاصل ہو یہ انتخابی عمل کی سالمیت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں ہمارا مقصد پارٹی کے خلاف کیے جانے والے پراپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دینا بھی ہے۔ جس کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد لی جائے گی۔ انہوں نے کہا، "ہمارا یہی پلان ہے کہ لیڈران کے متعلق جو بے بنیاد جھوٹی اور پراپیگنڈا پر مبنی خبریں  سامنے آئیں گی ان کی حقیقت ہم فیکٹ چیک کر کے دلیل کے ساتھ لوگوں تک پہنچائیں گے"۔

سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور آزاد الیکشن مانیٹرنگ گروپس ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے فراہم کردہ مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جن میں پولنگ سٹیشنوں کی نگرانی اور بے ضابطگیوں کی اطلاع دینے کے لیے موبائل ایپلیکیشنز کا استعمال، آن لائن پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا ٹیم کو تعینات کیا جانا شامل ہو سکتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل چیکنگ انتخابی عمل میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگی۔ پاکستان میں فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نام سے کام کرنے والی تنظیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروگرام، راشد چوہدری نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، "ہم اس وقت صرف فزیکل آبزرویشن کا طریقہ کار ہی استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن آنے والے الیکشنز میں ہمیں خود کو ڈیجیٹل سانچے میں ڈھالنا ہوگا "۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ پیش کردہ فوائد ایک جانب جبکہ اخلاقی اور رازداری کے خدشات دوسری جانب ہیں، ووٹر ڈیٹا کی غلط ہینڈلنگ، جعلی خبروں کا پھیلاؤ، اور الگورتھمک تعصب کے امکانات نے انتخابی عمل کی سالمیت کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل، ڈیٹا پرائیویسی کے مسائل کے لیے ایک عالمی ویک اپ کال ہے جو کہ مضبوط ضابطوں اور حفاظتی اقدامات کی فوری ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ جمہوری اصولوں اور انفرادی رازداری کے تحفظ کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن رکھنا پاکستان اور دنیا بھر کی اقوام کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔

" ڈیٹا پرائیویسی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں نہیں لگتا کہ الیکشن کمیشن کی بھی اس حوالے سے کوئی تیاری ہے۔ ہم اس حوالے سے بھی تشویش میں ہیں کہ فائدہ کی بنیاد پر بنائی گئی سوشل میڈیا کمپنیاں انتخابات جیسے اہم معاملے کے لیے کس طرح ریگولیٹ کی جائیں گی۔ بہت سے لوگوں کی طرح ہمیں بھی مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال کے بارے میں بہت سے خدشات ہیں۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس مسئلے کو کس طرح مانیٹر کرے گا۔ ہمارا بنیادی مسئلہ مس انفارمیشن ڈس انفارمیشن اور ڈیجیٹل لیول پلئینگ ہے"۔ راشد چوہدری

الیکٹرانک ووٹنگ اور ریئل ٹائم رزلٹ رپورٹنگ ڈیجیٹل دور میں زیادہ مقبول ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے پاکستان میں ووٹر کی شمولیت کو مزید قابل رسائی بنا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹروں کے اندراج اور معلومات کی ترسیل کو آسان بناتے ہوئے ڈیجیٹل اقدامات اٹھائے ہیں ۔ پاکستانی شہری اب الیکشن سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، ووٹ ڈالنے کے لیے اندراج کر سکتے ہیں، اور بعض صورتوں میں، آن لائن اپنا ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔ بہرحال الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی حفاظت اور بوگس ووٹنگ کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔

ڈیجیٹل دور نے انتخابی مہموں کی نوعیت میں انقلاب برپا کر دیا ہے، ٹیکنالوجی نے ووٹروں کو بااختیار بنایا ہے، اور انتخابات میں مصنوعی زہانت کو گیم چینجر کے طور پر سامنے لایا ہے۔ تاہم، جمہوریت کی اخلاقی اور رازداری کی جہتوں کا تحفظ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ قوم ایک دوراہے پر کھڑی ہے، جس کا مقصد اپنی انتخابی جمہوریت کی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فوائد سے فائدہ اٹھانا ہے۔ شفاف، جامع اور منصفانہ جمہوری عمل کو یقینی بنانے کے لیے اس توازن کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ پاکستان متحرک ڈیجیٹل منظر نامے پر منتقل ہو رہا ہے، دنیا ان اسباق پر غور کر رہی ہے۔ سیاست مین اس پہلو کو سامنے رکھ کر دنیا کے تجربات سے سیکھا جا سکتا ہے۔

November 13, 2023 - Comments Off on خیبر پختونخوا کی ٹیکنالوجی سے بے خبر خواتین ووٹر لسٹ میں غلطی پر ووٹ کے حق سے محروم :مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا الیکشن میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟

خیبر پختونخوا کی ٹیکنالوجی سے بے خبر خواتین ووٹر لسٹ میں غلطی پر ووٹ کے حق سے محروم :مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا الیکشن میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟

ناہید جہانگیر

ایک ہی دفعہ ووٹ ڈالنے گئ تھی لیکن ووٹر لسٹ میں خاوند کا نام غلط لکھا تھا، ووٹ ڈالے بغیر گھر واپس آگئ تھی اس کے بعد کھبی نہیں گئ۔،

رخشندہ جن کا تعلق پشاور شہر مہمند آباد کے علاقے سے ہیں کہتی ہیں کہ وہ 2013 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے گئ تھیں، کافی رش کی وجہ سے گرمی بھی تھی لیکن پھر بھی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتی رہیں جیسے ہی باری آئی اور کاؤنٹر پر موجود خاتون کو اپنا شناختی کارڈ دیا تو خاندان نبمر اور ووٹ نمبر نکال کر بتایا کہ شناختی کارڈ میں آپکے خاوند کا نام نادر خان ہے جبکہ ووٹر لسٹ میں ناصر خان ہے اس لئے آپ ووٹ نہیں ڈال سکتی ۔

رخشندہ بتاتی ہیں کہ بہت دکھ کے ساتھ وہ واپس گھر آئیں اسکے بعد دل نہیں کرتا کہ کھبی بھی ووٹ کے لئے جائیں۔ انتخابات سے پہلے لسٹ چیک نہیں کی اور نا ہی وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں کہ فہرست مں غلطی کو درست کر لیتے ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ وہ موبائل کا استعمال نہیں کرسکتی تو درستگی کے لئے آن لائن درخواست کیسے دے سکتی ہیں۔

صوبائی اسمبلی الیکشن کمشنر کے ترجمان سہیل احمد نے اس حوالے سے کہا کہ خیبرپختونخواہ انتخابی فہرست پرنظرثانی  کے لئے ایک مرحلہ مکمل کرتا ہے اور اسکے لئے باقاعدہ شیڈول جاری کیا جاتا ہے اس انتخابی فہرست کو مکمل کرنے کے لئے گھر گھر جا کر ایک مہم چلائی جاتی ہے اس میں متعلقہ دیہاتوں، گاؤں یا شہری علاقوں کے مقامی اساتذہ یہ فریضہ انجام دیتے ہیں تو اس میں غلطی یا اندراج سے محروم ہونے کے بہت کم مواقعے ملتا ہیں۔ لیکن اگر ایک آدھ کیس میں غلطی ہوجائے تو ہر کوئی اپنے گھر میں موبائل پراپنا نام فہرست میں دیکھ سکتا اور غلطی کی صورت میں  بآسانی آن لائن درخواست دے سکتا ہے۔

ترجمان کے مطابق جہاں تک خواتین ووٹروں کے اندراج کی بات ہے تو جس علاقے میں بھی یہ خصوصی ٹیم جاتی ہے تو ہر گھر کے مرد حضرات ان اساتذہ کو گھر کی خواتین کے ووٹ اندراج میں مدد کرتے ہیں۔

خاندان کے تمام لوگوں بمہ خواتین کے قومی شناختی کارڈ  مانگے جاتے ہیں۔ تاکہ تمام لوگوں کے ووٹ کا اندراج گھر کی دہلیز پر مکمل کیا جائے، یہ بہت اہم  مرحلہ ہوتا ہے تو چاہے وہ دیہاتی علاقے ہوں یا شہری علاقے ہوں اس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اندراج  مہم ہوتی ہے یہ مہم بہت ہی مثبت ثابت ہوتی ہے۔ اگر اسکے بعد بھی کوئی غلطی ہوجاتی ہیں تو گھر میں کوئی نا کوئی پڑھا لکھا ضرور ہوتا ہے جسکی مدد سے بآسانی درستگی کی جا سکتی ہیں۔

پشاور شہر کی ریحانہ کہتی ہیں کہ انکی عمر 28 سال ہے لیکن ابھی تک قومی شناختی کارڈ نہیں بنایاگیا ہے ساتھ میں وہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہیں وہ ٹیکنالوجی استعمال تو کیا ووٹ بھی نہیں ڈال سکتیں کیونکہ انکو ووٹ ڈالنے کا طریقہ نہیں آتا ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ انکا شناختی کارڈ نہیں ہے تو اس لئے ووٹ کا استعمال نہیں کرسکتی لیکن ان کے خاندان میں ایسی خواتین بھی ہیں  جنکا شناختی کارڈ ہے لیکن انکو ووٹ ڈالنے کے تمام مراحل کے بارے میں علم نا ہونے کی وجہ سے ووٹ کا استعمال نہیں کرتیں۔

اس حوالے سے ترجمان صوبائی اسمبلی الیکشن کمشنر کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں اکثر خواتین ووٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے ڈیجٹل ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کر پانے اور ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم وجہ سامنے آئی ہیں  خاص طور پر 2017 میں خواتین ووٹرز کی فہرست جب سامنے آئی تو اس میں کافی کمی تھی یعنی 10 فیصد سے زیادہ گیپ تھا اس وجہ کو ایک سٹدی کے ذریعے معلوم کیا گیا کہ وجوہات کیا ہیں جو کہ 10 فیصد سے زیادہ کا گیپ ہے۔ تقریباً کوئی 103 اضلاع میں یہ 10 فیصد سے زیادہ گیپ ریکارڈ کیا گیا تھا، مشاہدے میں یہ بات آئی تھی کہ ان اضلاع میں زیادہ تر خواتین کے پاس قومی شناختی  کارڈ نہیں تھا شناختی کارڈ نا ہونے کی وجہ سے ان کے ووٹ درج نہیں ہو سکے تھے۔

اس مسلے کے حل کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نادرہ اور پارٹنر آرگنائزیشن کے اشتراک سے  فیمیل این آئی سی ووٹر رجسٹریشن مہم شروع کی جو اب بھی جاری ہے۔  اس طریقہ کار میں خواتین کے شناختی کارڈ مفت بنتے ہیں۔ جیسے ہی شناختی کارڈ بنتا ہے اسکے ساتھ ان کا ووٹ بھی درج ہوجاتا ہے۔ اس مکینزم سے 10 فیصد سے زائد گیپ کم ہو کر 9 فیصد پر آگیا ہے۔

پشاور کے سینئر الیکشن تجزیہ نگار و صحافی  محمد فہیم  خواتین ووٹر کے اندراج کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں خواتین ووٹر کے اندراج کا مسئلہ ہے اگر ریکارڈ کو دیکھا جائے تو بہت بڑی تعداد میں خواتین تو ایگزسٹ ہی نہیں کرتی ۔ لیکن حکومت نے  یہ ایک اچھا کام کیا کہ شناختی کارڈ کو لنک کر دیا ووٹ کے ساتھ، پہلے یہ ہوتا تھا کہ آئی ڈی کارڈ بنانے کے بعد بھی ووٹ نہیں ہوتا تھااس کے لئے الگ سے جا کر ووٹ کی رجسٹریشن کرنی پڑتی تھی ۔

اب ایسا ہے کہ جیسے ہی شناختی کارڈ بنایا جاتا ہے تو نادرہ کی جانب سے خود بخود ووٹ کا اندراج بھی ہوجاتا ہے۔ مسئلہ صرف اب یہ آتا  ہے اگر کوئی اپنا گھر تبدیل کر دے تو کہا جاتا ہے کہ گھرتبدیل کر دیا ہے اب آئی ڈی کارڈ میں موجود پتہ بھی تبدیل کر کہ نیا بنائیں گے۔اسکے بعد الیکشن کمیشن کے آفس میں ووٹ کی تبدیلی کرانی پڑتی ہے جو ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کافی وقت کا ضائع ہوتا ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہیں۔

مہمند ایجنسی کی بشریٰ کہتی ہیں کہ نادرہ دفتر ان کے گھر سے کافی دور ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ نہیں بنا اس لئے تو انکا ووٹ بھی نہیں ہے۔

 اس سوال کے جواب پر کہ گھر کتنا دور ہے بشریٰ نے کہا کہ 1 گھنٹہ سے زیادہ کا سفر ہے اور ان کا کوئی بڑا بھائی ہے نہیں ، والد کے محنت مزدوری میں مصروف ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ نادرہ دفتر جانے والا کوئی ہے نہیں۔ کارڈ نہیں ہے تو ووٹ کا استعمال بھی کھبی نہیں کیا ۔نا موبائل ہے اور نا ہی ان کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ صرف بشریٰ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس علاقے میں موجود تقریباً ہر گھر کا ہے۔

محمد فہیم نے بشرٰی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم مسلہ ہے جسکا یہاں کی خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا یہاں ہر جگہ نادرہ کا آفس ہے یا نہیں، حکومت کو پہلے یہ سوچنا پڑے گا کہ ہر ڈسٹرکٹ ،ہر تحصیل میں بلکہ خیبر پختونخواہ کی ہر تحصیل میں کم سے کم ایک نادرہ کا آفس ضرور ہونا چاہئے۔ کیونکہ اگر اپ ڈسٹرکٹ وائز بات کرتے ہیں تو معلوم نہیں کہ چترال میں نادرہ کے کتنے آفس ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بات کی جائے  کوہستان بالا یا کوہستان پایاں کی اسی طرح  تورغر کی تو یہ وہ علاقے ہیں جو دوردراز پہاڑی علاقے ہیں تو اتنا دور ایک ضلع میں ایک دفتر ہونے سے کام چلے گا بھی یا نہیں۔ اسی لئے خواتین کی ووٹنگ زیادہ کرنے کے لئے اس کے اوپر تھوڑا کام کرنا پڑے گا۔ حکومت  سب سے پہلے نادرہ کے آفس کو ہر جگہ یقینی بنائیں کم از کم  ہر تحصیل میں ایک دفتر ہو۔ لیکن حکومت نے ہر ضلع میں ایک الیکشن کمیشن کا افس رکھا ہوا ہے اس کو بھی تحصیل لیول پہ لے کے جائیں  تاکہ خواتین کو آسانی ہو۔

اگر دیر کی بات کریں یا مہمند کی بات کی جائے تو اگر ایک خاتون مہمند ایجنسی میں رہتی ہیں جن کا گھر افغان بارڈر کے پاس ہے اور ان کو کہا جاتا ہے کہا آپ کو اپنے ووٹ کے رجسٹریشن کی درستگی کے لیے لور مہمند آنا پڑے گا کیونکہ آفس تو وہاں ہے تو  یہ گھنٹوں کا سفر ہے اب وہاں کی خواتین کو کون لے کر آئے گا اکثر اوقات مرد کہتے ہیں بس کوئی ضرورت ہی نہیں ہے آپ چھوڑیں بس جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔خواتین کے ووٹ کے لئے تو یہ سب سے پہلی ضرورت ہے کہ حکومتی دفاتر تو ہر جگہ اویلیبل کریں ،صحافی محمد فہیم نے کہا۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا الیکشن میں کردار

مصنوعی ذہانت ہے کیا پہلے اسکو جانتے ہیں اس حوالے سے بانی دی انلائٹ لیب اور ماہر اے آئی شفیق گیگیانی کہتے ہیں کہ  کسی بھی مشین کوجب پرانا ڈیٹا دیا جائے اور اسکی بنیاد پر مسقبل کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائے، مطلب جب مشین کو اتنی مقدار میں  پرویس ڈیٹا دے کر اور اسکی بنیاد پر یہ کہنا کہ مستقبل میں یہ ہو سکتا ہے۔اسکو مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔

شفیق گیگیانی اے آئی کے

 الیکشن میں کردار کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ بالکل الیکشن میں اے آئی کا استعمال کیا جاسکتا ہے  جس کا کافی مثبت اثر ہوگا۔

وہ بتاتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے  ایسا  کیا جا سکتا ہے  کہ اگر ایک حلقے کا پرانا ڈیٹا نکال کر مشین سے یہ پوچھا جائے کہ ماضی میں کس نمائندے نے کیسے اور کیوں انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے تو مشین بتا سکتا ہے کہ کیسے۔ اسی طرح  یا  ڈیٹا دے کر پوچھا جائے کہ ماضی میں اس حلقہ کے لوگوں نے کن کن بنیادوں پر ووٹ دیا تھا اب کیا ہوگا تو اگر کوئی نمائندہ اے آئی کے بتائے ہوئے فراہم کردہ معلومات پر عمل کرے تو ہوسکتا ہے آنے والے وقت میں بھی وہی نمائندہ انتخابات جیت سکے اور یہ اے آئی پریڈیکشن کی بدولت ممکن ہوا ہوگا۔  

اے آئی کا الیکشن میں استعمال سے کوئی فائدہ نہیں

سینئر صحافی و تجزیہ نگار محمد فہیم  اے آئی کے الیکشن میں استعمال کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ

 آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک پائلٹ پروجیکٹ تو ہو سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس کے اوپر کام ممکن نہیں ہے کیونکہ اے آئی کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو ۔پورے ملک کے اندر خاص کر دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ ایکسیسبلٹی نہیں ہے اگرصرف پشاور کی بات کی جائے تو پشاورصوبائی دارالحکومت ہے ملک کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

تو ضلع  پشاور میں ہی بڈھ بیر، متھرا یا چمکنی کی طرف چلے جائیں یہ وہ علاقے ہیں کہ یہاں پہ نیٹ کام ہی نہیں کرتا بلکہ مین سٹی کے اندر علاقوں میں بھی گھروں کے اندر نیٹ کام ہی نہیں کرتا تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جب نیٹ کی ایکسسبلٹی نہیں ہے تو پھر اپ کیسے کام کریں گے ابھی حکومت فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کام کر رہی ہے تو امید کی جاسکتی ہے پھر اس سے فرق پڑے گا لیکن اب یہی لگتا ہے کہ اے آئی کا الیکشن میں استعمال صرف وقت کا ضیاع ہوگا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، محمد فہیم نے کہا۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا انتخابات میں استعمال کیا خطرناک ہو سکتا ہے جواب میں محمد فہیم نے کہا کہ خطرناک تو نہیں کہہ سکتے لیکن عین یہ ممکن ہے کہ جب الیکشن کے دوران اے آئی کا استعمال ہوتو نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اے آئی جہاں سے معلومات لے رہا ہوتو شاید وہ درست نا ہو۔تو اسکا انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب شفیق گیگیانی کے مطابق اگر آنے والے انتخابات میں اے آئی کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہ بہت اچھا ہو گا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے پہلے زمانے میں بھی کوئی بھی نمائندہ انتخابات سے پہلے مہم کے دوران سروئے کرتا تھا اور اسکی بنیاد پر اپنا مہم آگے چلاتا تھا تاکہ وہ آنے والے انتخابات میں میں کامیاب  ہوسکیں لیکن اب زمانہ ڈیجیٹلائز ہوگیا ہے اور مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل ہے تو اس میں کوئی فرق نہیں ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے مینول تھا اور اب تمام چیزیں ڈیجیٹل ہیں۔

November 13, 2023 - Comments Off on ویمن ووٹرز کا ٹرن آوٹ ڈیجیٹل مہم سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

ویمن ووٹرز کا ٹرن آوٹ ڈیجیٹل مہم سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

فوزیہ کلثوم رانا

سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سے معاشی ترقی اور جمہوریت کو براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔

 گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پر اس حوالے سے مثبت رجحان دیکھنے کو ملا ہے ۔اگرچہ ماضی کے مقابلے میں اب دنیا بھر میں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ میسر ہیں اور اب خواتین سائنس سے لے کر سیاست تک میں مردوں کے ساتھ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن خواتین ووٹرز کی تعداد مردوں کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے ۔اس لیے سیاسی جماعتیں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی جانب راغب کرتی ہیں ۔ اور اس کے لیے ڈیجیٹل مہم کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابی جنگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ لڑی جائے گی۔ اس لیے تمام جماعتیں مبینہ طور پر اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو منظم کرنے میں مصروف ہیں اور یہ فارمولا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں چل رہا ہے ۔تاکہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی مہم دی جا

سکے اور جیت میں کردار ادا کیا جا سکے۔

سیاست کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کا کردار کیسے بڑھ رہا ہے؟

پاکستان میں سیاست پر سوشل میڈیا کے اثرات کی نمایاں مثال پاکستان تحریک انصاف ہے ۔ یوں تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کا استعمال کہیں زیادہ ہے اوریہ کہا جا سکتا ہے کہ 2018کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ڈیجیٹل مہم کے ذریعے کامیابی سمیٹی تھی۔

اب اگر پرکھا جائے کہ سیاسی جماعتیں خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لیے کیا کرتی ہیں ؟

تو اس میں حق رائے دہی اہم ہے مگر خواتین کی اکثریت ووٹ کی اہمیت کو نہیں جانتی ہیں، خواتین کو ووٹ کی   اہمیت اور فوائد کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے سیاسی جماعتیں اپنے ڈیجیٹل ونگز اور یوتھ ونگز کا اجلاس طلب کرتی رہتی ہیں تاکہ ان کو مضبوط بنا یا جا سکے اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔

اسی حوالے سے کہ کیا سیاسی جماعتیں خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لیے ڈیجیٹل مہم کا استعمال کرتی ہیں؟

سابق پارلمانی سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس و سابق ممبر قومی اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی سربراہی میں خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین ونگز کی ضلعی اور حلقہ کی سطح کی تنظیم پر توجہ مرکوز ہے ، اور خواتین میں ووٹ کی اہمیت اور سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ڈیجیٹل ایک منظم  مہم  بھی ہے جس کے تحت عورتوں اور نوجوانوں میں ووٹ کی اہمیت بارے ان کو آگاہی دینا، پروگرام منعقد کروانا اور ایسے علاقے جہاں عورتوں کے شناختی کارڈ تاحال نہیں ہیں، مریم نواز شریف کی سربراہی میں عورتوں کو اس کی اہمیت عملی طور بتانے کے لیے (ن) لیگ کے ویمن ونگ میدان عمل میں سرگرم ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے خواتین میں ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کے حوالے سے ڈیجیٹل 50.50 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بینیظیر بھٹو کے نقش قدم پر اب چئیرمین بلاول بھٹو زرداری خصوصی طور پر عورتوں کی سیاسی عمل میں شرکت کو ووٹ اور سیاسی عمل میں حصہ داری کی بناء پر بڑھانے کے قائل ہیں ۔ اسی حوالے سے ان کی خصوصی ہدایات پہ عمل کرتے ہوئے اسی طرح پیپلز پارٹی ڈیجیٹل دنیا میں متحرک ہے، اور اس حوالے سے خواتین میں ووٹ کی اہمیت پر بھی کام کر رہے ہیں اور یہ کہ انفرادی سطح سے لیکر ڈیجیٹل دنیا میں کثیر تعداد میں اپنا پیغام بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں کبھی بھی خواتین ووٹرز کی تعداد کم ہونے کی بناء پہ انتخابات کالعدم نہیں ہوئے ہیں ۔سحر نے کہا کہ پی پی پی یونین کونسل کی سطح سے لے کر ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بھی عورتوں میں ووٹ کی اہمیت کیا ہے اور ان کے لئے اپنا ووٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے کیسے چیک کیا جا سکتا ہے جیسے ضروری عوامل کو سکھانے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے تو ڈیجیٹل میڈیا کا اتنا کردار نہیں تھا مگر آنے والے انتخابات میں اس کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے، اور پی پی پی خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لئے مزید موئثر کمپین بھی ڈیزائن کروائے گی، کیونکہ ہمیں آبادی کا ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا سے آشنا ملتا ہے تو خواتین میں ووٹ کی اہمیت کے لئے بھی ڈیجیٹل میڈیا یا ڈیجیٹل مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے بتایا کہ سوک ایجوکیشن ایکٹ بھی 2018  میں انہوں نے  متعارف کرایا تھا اور سوک ایجوکیشن میں ووٹر ایجوکیشن ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے کامیابی کے ساتھ منظور کیا گیا تھا اور صدر مملکت نے اس کی منظوری دی تھی اور پھر یہ گزٹ آف پاکستان میں شائع کیا گیا تھا، یہ اب پارلیمنٹ کا ایکٹ ہے اور حکومت پر اس پر عمل درآمد کی پابندی ہے۔ اور سیا سی جماعتیں اس دور جدید میں جو بھی راستے اختیار کئے جا سکتے ہیں چاہے وہ ڈیجیٹل مہم ہے یا گھر گھر جانا ، خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے راغب کرنے میں استعمال کریں گی اور پی پی پی اس حوالے سے خاصی متحرک جماعت ہے ۔

ڈیجیٹل مہم کا خواتین ووٹرز میں شعور دینا اور ووٹ کی اہمیت بارے  جماعت اسلامی کی سابق ممبر قومی اسمبلی عائشہ سید کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ’دستک‘ کے نام سے آگاہی مہم چلا رہے ہیں، ہم نے ووٹرز کے لیے ایک ایپ بنائی ہے جس میں ووٹرز کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ معلومات بھی مل رہی ہیں کہ کون سے علاقے میں کتنی خواتین کی رجسٹریشن نہیں ہوئی اور کتنی خواتین کا ابھی تک شناختی کارڈ ہی نہیں بنا، اس پر ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اور جو اہداف سیٹ کیے تھے ہم نے اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔

عائشہ سید کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی مختلف پروگرام بھی منعقد کروا رہی ہے جس کے ذریعے خواتین کو آگاہی دی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل مہم چلا کر خواتین کو ووٹ کی اہمیت بتائی جا رہی ہے اور انہیں ووٹ دینے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ اور جن خواتین کے شناختی کارڈز نہیں ہیں وہ بھی بنوا رہی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی عوام کی جماعت ہے اور ہماری آبادی کا آدھا حصہ کیوں ووٹ کی اہمیت سے نا آشنا رہے ہم عورتوں کی سیاسی شمولیت بڑھانے اور ووٹ ڈالنے کے عمل میں خواتین کی ایجوکیشن پہ خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔

اسی حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر فلک ناز کا کہنا ہے کہ خواتین کو متحرک کرنے اور ان میں ووٹر ایجوکیشن بڑھانے کے لیے تحریک انصاف فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف خواتین کو عملی سیاست میں آگے لے کر آئی، عمران خان نے خواتین کو جماعت میں مناسب نمائندگی دی اور اہم عہدوں تک رسائی دی تاکہ وہ اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔

فلک ناز کا کہنا تھا کہ خواتین میں ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور انہیں فوائد دینے کے لیے تحریک انصاف ڈیجیٹل مہم بھی چلاتی ہے تاکہ خواتین کو مزید مضبوط بنایا جا سکے اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔

سینٹڑ فلک ناز نے بتایا کہ جیسے ان کا تعلق چترال سے ہے تو پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں عورتوں کو ووٹ دینے کے طریقہ کار کا ہی علم نہیں ہوتا اس لیے ان علاقوں میں بھی ڈیجیٹل مہم چلانا ضروری ہے تاکہ ان خواتین کو بھی ووٹ کی اہمیت کا پتہ چل سکے جو اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف پورے پاکستان میں ڈیجیٹل مہم کے ذریعے آگاہی پیدا کر رہی ہے تاکہ خواتین کو ووٹ کی اہمیت کا پتہ چل سکے اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کر سکیں۔ اور آئندہ انتخابات میں اگر پی ٹی آئی میدان میں اتری تو باقاعدہ ڈیجیٹل مہم بھی لانچ کریں گے۔

اب اگر ہم تقابلی جائزہ لیں  جنوبی ایشیا کے ممالک جن میں  پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش شامل ہیں کہ کیا ان ممالک میں بھی خواتین ڈیجیٹل مہم کا استعمال کرتی ہیں؟

تو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور بھارت کی سونیا گاندھی کو جنوبی ایشیائی خواتین میں اہم اور منفرد اعزاز حاصل ہے ۔ ان کا شمار طاقتور اور مقبول ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔ انتخابات کے لیے وہ بھی ڈیجیٹیل مہم کا سہارا لیتی ہیں تاکہ اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا جا سکے جو ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان سے معروف سیاستدان مریم نواز شریف خواتین ونگ اور سوشل میڈیا اور یوتھ کا اجلاس طلب کرتی رہتی ہیں جس میں ڈیجیٹل مہم کے حوالے سے خصوصی ہدایات بھی جاری رکھتی ہیں ، حالیہ دنوں میں نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر بھی انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا خوب استعمال کیا تاکہ انتخابات کی صورت وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کر سکیں ۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والی حنا پرویز بٹ، شیریں مزاری اور شہلا رضا ، شازیہ مری سمیت بہت سی سیاستدان ایسی ہیں جو ڈیجیٹل میڈیا پر متحرک ہیں اور انتخابات میں اس کا خوب استعمال بھی کرتی ہیں۔

پاکستان میں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابات میں بطور ووٹر خواتین کی شرکت اب پہلے سے زیادہ آسان اور بہتر ہو گئی ہے۔

انتخابی اصلاحات کے ایکٹ 2017ء کی رو سے سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عام نشستوں پر 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کو دیں۔الیکشن کمیشن کو اب اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے انتخابی حلقوں کے انتخابی نتائج کو منسوخ قرار دے سکتا ہے جہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد یا اس سے کم ہو اور ایسے کسی بھی معاہدے پر ضروری کارروائی کر سکتا ہے جس کے تحت خواتین کو زبردستی ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہو۔

انتخابات میں خواتین کی شمولیت بہتر بنانے کے لئے یہ ایک بڑا اور خوش آئند اقدام ہے۔

2018میں پاکستان کے الیکشن کمیشن نے صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 23 میں خواتین کے دس فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے پر اس حلقے میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ملکی تاریخ میں ایسا دو بار ہوا ہے اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں سنہ 2013 میں ہونے والے انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے زبردستی روکنے پر اس علاقے میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے تھے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء میں خواتین کو حق رائے دہی میں سپورٹ کیا گیا۔ سیکشن 47 کے تحت الیکشن کمیشن پابند ہے کہ خواتین کے ووٹ رجسٹر کروانے میں خصوصی اقدامات کرے۔

جب کہ سیکشن  کے170(Aمطابق کوئی بااثر شخص کسی    خاتون کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا۔

اور سیکشن206کے مطابق الیکشن میں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیے جائیں گے۔

سیکشن 9 کے مطابق اگر کسی جگہ خواتین کے10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہوں تو اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

اب چونکہ الیکشن کی بھی آمد آمد ہے تو سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ڈیجیٹل مہم کا موثر استعمال عمل میں لاکر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بڑھائیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے ڈیجیٹل ونگز سے ہمیں ڈیجیٹل میڈیا پہ ٹرولنگ یا لیڈرشپ کے حق میں ٹرینڈ تو روز ہی نظر آتی ہیں مگر خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لیے اس کا موثر استعمال کم ہے۔ ہم نے کچھ سیاسی جماعتوں کی رہنماؤں سے بات چیت کی ہے مجموعی طور پہ ڈیجیٹل مہم پہ وہ متفکر پائی گئیں اور آیندہ انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل مہم کا استعمال کے عزم کا اعادہ کیا۔