Blog Archives

December 7, 2023 - Comments Off on پاکستانی خواتین کے خلاف منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں ڈراموں کا اہم کردار

پاکستانی خواتین کے خلاف منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں ڈراموں کا اہم کردار

 ناہید جہانگیر

پسند کی شادی تھی شوہر بہت پیار کرتا تھا لیکن ساتھ ساتھ کردار پر شک بھی کرتا تھا وہ شک کی جڑیں اتنی مضبوط تھی کہشادی جیسے مقدس رشتے اور میری محبت کی کوئی پرواہ کیے بغیر طلاق کا داغ  لے کر میکے لوٹ آئی۔

پشاور شہر کی 30 سالہ ثمینہ اپنے طلاق کی ذمہ دار پاکستانی ڈارموں کو ٹہراتی ہیں  ان کی شادی 3 سال پہلے عادل نام لڑکے سے ہوئی تھی، وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ کافی دھوم دھام سے شادی ہوئی لیکن چند دن بعد عادل شک کرتا اور ساتھ میں ڈراموں کی مثال بھی دیتا تھا۔

ثمینہ کے مطابق عادل زیادہ تر ڈرامے ‘میرے پاس تم ہو’ کی مثال دیتا تھا کہ بیوی کیسے شوہر کے ساتھ پیسوں کی لالچ میں دھوکہ کرتی ہیں ۔ اسی بات پر جھگڑا ہوجاتا اور اسی لڑائی میں ثمینہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد کا بھی شکار ہوتی تھی۔ آخر کار طلاق ہوگئ۔

میرے پاس تم ہو 2020۔۔۔2019 میں ایک نجی ٹی وی پر چلنے والا سپر ہٹ ڈرامہ تھا جس کے مرکزی کردار عائزہ خان، ہمایوں سعید ور عدنان صدیقی نے ادا کئے تھے جبکہ اسکو خلیل الرحمان قمرنے تحریر کیا تھا۔

اس ڈرامے کے حوالے سے پشاور کی نورین بتاتی ہیں کہ پاکستانی ڈرامے جو کھبی تفریح  کا ذریعہ زریعہ ہوا کرتے تھے لوگ دن بھر کے کاموں سے تھک ہار کر شام کو ٹی وی دیکھتے تھے، معلومات کے ساتھ لطف اندوز ہوا کرتے تھے لیکن اب تو جو بھی چینل دیکھو تو اس پر 90 فیصد خواتین کے منفی کرداروں کے حوالے سے مواد ہوگا جیسے گھر والوں سے بغاوت کرکہ بھاگ کر شادی کرنا، طلاق ، محبت، خواتین کی لڑائی جھگڑے ، فساد کی جڑ وغیرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔

نورین کہتی ہیں کہ ثمینہ صرف ڈراموں کی منفی سوچ کی نظر نہیں ہوئیں بلکہ روزانہ کتنی خواتین ہور ہی ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ پاکستانی ڈرامے آنے والی نسل کو خود کشی ، بغاوت ، افیرز کے نئے نئے طریقے بتا رہے ہیں ۔کہ کسیے اور کس وقت کیا کرنا ہے۔

نورین پیمرا اور ڈرامہ تخلیق کرنے والوں کو ذمیدار ٹھہرا کر اپیل کرتی ہیں کہ ڈراموں کے تھیم کو تبدیل کریں کیونکہ میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو ایک معاشرے کو بنا بھی سکتا ہے لیکن بگاڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس حوالے سے نورالبشرنوید جو پاکستان ٹیلی وژن سنٹر پشاور میں 1980 سے ایک رائٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں جنہوں نے بے شمار ڈرامے اردو اور پشتو زبان میں تحریر کیے ہیں، ان  کا کہنا ہے کہ ڈارمہ تحریر کرتے وقت یہ رائیٹر کی سوچ پرمنحصر ہے کہ جو کانٹینٹ وہ تحریر کر رہا ہے آیا وہ اس معاشرے کی درست ترجمانی کر رہا ہے یا یہ ڈرامہ کوئی بھی اپنی فیملی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے جب بھی یہ چیزیں ذہن میں ہوں گی کوئی بھی منفی سوچ والی چیز نہیں تحریر ہوگی ۔

کیونکہ وہ سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ وابسطہ رہے ہیں تو ہمیشہ ڈارمہ تھیم کے ساتھ ساھ الفاظ کے چناؤ میں بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب حالات اس کے برعکس ہیں لوگوں کے ذہن میں جدت آگئ ہے جو بھی ڈارمے بن رہے ہیں وہ ہٹ ہو رہے ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو رہا ہے ۔ صرف تنقید کرتے ہیں ۔جو چیز معاشرے کی بھلائی کی جگہ بگاڑ کا سبب بنتی ہوں اس پر ویوورز کی جانب سے ردعمل سامنےآنا بہت ضروری ہے اگر وہ ردعمل ظاہر نہیں کرتے تو اس قسم کے ڈرامے مزید بنیں گے اور ہمارے معاشرے کی خواتین کے حوالے سے منفی سوچ اور تصور کو مزید تقویت ملے گی۔

وہ بتاتے ہیں کہ بالکل ڈرامہ کسی بھی معاشرے کی ترجمانی کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے آج کل خواتین کے حوالے سے منفی سوچ رکھنے والے ڈرامے بن رہے ہیں ۔ ڈرامے کا زیادہ تر حصہ یا لیڈ کردار منفی سوچ والی خواتین ہی ہوتی ہیں جو ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔

اپنے معاشرے کے اقدار اور رسم و رواج کو نظر میں رکھ کر ڈرامہ تحریر کیا جائے ان تحریروں کو یا کرداروں کو ذہن میں رکھ کر یہ سوچیں کہ ان کا مثبت اثر پڑے گا  کہ نہیں، اثر مثبت ہے تو وہی چیز تخلیق کی جائے کیونکہ  اب ڈرامہ صرف گاؤں شہروں، صوبوں،م اور ملک کی حد تک نہیں دیکھے جاتے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے انٹرٹینمنٹ نے سرحدوں کو پار کر لیا ہے پوری دنیا میں دوسرے ممالک کے ڈرامے، فلم دیکھے جاتے ہیں۔ اپنی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوتے ہیں تو جو چیز اگر منفی دکھا رہے ہیں تو دوسرے ممالک کے  لوگ اس معاشرے کو اسی ڈرامے کے کرداروں کے ترازو میں تولیں گے۔

نورالبشر نوید بتاتے ہیں کہ ڈرامہ تخلیق کار خواتین کے حوالے سے منفی سوچ اور رجحانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو بالکل ختم کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس رسم ورواج کو دنیا غلط نظر سے دیکھ رہی ہے شاید وہ ہمارے معاشرے میں مثبت ہو تو کیوں نا لوگوں کے ذہن سے وہ منفی رجحانات اپنے ڈراموں کے ذریعے ہٹائے جائیں۔

نورین مزید بتاتی ہیں کہ جو اداکارائیں منفی رول کرتی ہیں اور اس رول کو اپنا معمول بنا دیتی ہیں تو ان کے فینزبھی کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ انکو عائزہ خان بہت اچھی لگتی تھیں لیکن ‘میرے پاس تم ہو’ اور اب ڈرامہ سیریل ‘میں’  میں انکا منفی کردار دیکھ کر اچھی نہیں لگتیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ واقعی ہی اپنی اصل زندگی میں بھی ایسی ہیں تو خواتین فنکاروں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے فینز انکو کس روپ میں زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ فینز کی وجہ سے فنکار لوگ ہیں ورنہ خاص سے عام بنانے میں انکو وقت نہیں لگے گا۔

ڈراموں میں خواتین کے منفی کرادر کے حوالے سے ایک ڈرامہ اداکارہ کیا سوچ رکھتی ہیں مینا شمس سے پوچھتے ہیں ۔ مینا نے اس دن سے ٹھان لیا تھا جس دن سے وہ شوبز میں آئی کہ وہ پختون رسم ورواج کے اندر رہ کر کام کریں گی اور اپنی ثقافت کے دائرے میں رہ کر نام بنائیں گی اور اپنے ارادے پر وہ ابھی تک قائم ہیں۔

مینا شمس پشتو، ہندکو اور اردو زبان کی مقبول اداکارہ ہیں جنہوں نے بے شمار ایوارڈز اپنے نام کئے۔ پی ٹی وی بہترین اداکارہ ایوارڈ، اے وی ٹی خیبر بیسٹ اداکارہ ایوارڈ، امن باچا خان ایوارڈ، ڈائریکٹریٹ آف کلچر ایوارڈ اور شمشاد ٹی وی سے بھی بیسٹ ادکارہ ایوارڈ شامل ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ڈرامے ہی لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں پہلے بھی ڈرامے ہوا کرتے تھے جو سبق آموز ہوا کرتے تھے اس میں بھی منفی کردار ہوا کرتے تھے لیکن کافی کم تناسب کے ساتھ خواتین کو منفی کرداروں میں دکھایا جاتا تھا لیکن اب تو ڈرامے کا تقریباً 90 یا 99 فیصد خواتین کے منفی کردار حاوی دکھائی دیتے ہیں تو لوگ وہی سوچ رکھیں گے کہ اس ملک یا اس خاص طبقے کے لوگ اسی طرح ہیں جس طرح ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔کیونکہ باہر کے ملکوں میں لوگ اسی سوچ سے دیکھتے ہیں کہ ہر ڈرامہ یا فلم کسی بھی معاشرے کی ترجمان ہوتے ہیں اسی معاشرے کو وہ ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے ہیں تو ان سے لوگ وہی اثر لیں گے کہ پاکستان کے لوگ  یا پشتون لوگ ایسے ہیں اسی لیے تو وہ لوگ ڈراموں میں بھی یہی دکھاتے ہیں۔ ہر ڈرامہ اپنے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی منفی سوچ لوگوں کو دکھا رہے ہیں اور زیادہ اہم یہ ہے کہ خواتین کی منفی کرداروں کو لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔

مینا شمس اس کے حل کے حوالے سے کہتی ہیں کہ پہلے تو اس میں رائٹر بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے وہ اپنی سوچ کو اپنے ڈرامے کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایسے کردار تخلیق کریں جن کا پیغام مثبت ہو اور منفی پربہت حاوی نا ہو۔ زیادہ ڈومیننٹ مثبت کردار دکھائی دیں۔

مینا شمس پشتو ڈراموں اور پروگراموں کی ایک مشہور شخصیت ہیں وہ کیسے ان منفی رجحانات اور کرداروں سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ سوال کے جواب پر کہتی ہیں کہ شوبز انکے شعبے کے ساتھ  انکا شوق بھی ہے ایک فنکار کے لئے ان کے فینز ہی سب کچھ ہوتے ہیں جب تک ان کے فینز ہیں تب تک وہ بھی ہیں۔ لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان ڈراموں کے کرداروں سے کافی اثر لیتے ہیں فیشن سے لے بول چال تک۔

اس لئے ایک فنکارہ کی حیثیت سے فینز جس کرادر میں انکو پسند نہیں کرتے وہ ان کرداروں سے دور ہی رہتی ہیں ۔آج کل سب ہی پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں جو چیز معاشرے کو سدھارنے کی بجائے بھگاڑ کا باعث بنتی ہیں ان سے دور ہی رہیں ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ خواتین کے جو منفی کردار ڈومینینٹ ہورہے ہیں اس کے روک تھام کے لئے رائٹرز سے لیکر فنکار اور پھر پیمرا سے لے کر ناظرین تک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

دوسری جانب شازمہ حلیم جو پچھلے 35 سالوں سے میڈیا سے وابستہ ہیں مختلف ڈراموں پروگراموں میں کام کرنے کےعلاوہ انہوں نے 4 فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن، پی ٹی وی نیشنل اور ساتھ میں اے وی  ٹی خیبر،ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا، وہ واحد خوش قسمت فنکارہ ہیں جن کو 5 پی ٹی وی بیسٹ ڈرامہ ارٹسٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

ڈراموں میں خواتین کے حوالے سے منفی سوچ کے بڑھتے ہوئے رجحان سے اتفاق کرتی ہیں کہ ایسا ہی ہے آج کل جس طرح بھی ڈرامے بن رہے ہیں اس میں صرف خواتین کو ہی جھگڑا، فساد اور لڑائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور جو سوسائٹی ہے یہ ڈرامے دیکھتی ہے تو ان پر منفی اثر انداز ہو رہی ہے، جس طرح لوگ ڈراموں میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح گھر کو توڑا جاتا ہے اور ایک خاتون اس میں کیا کردار ادا کر رہی ہے اسی طرح اصل زندگی میں بھی پھر لوگ وہی اثر لیتے ہیں۔

لیکن شازمہ حلیم کہتی ہیں کہ ان کی نظرمیں ڈرامہ ٹیم  70 فیصد ذمیدار ہوسکتی ہے اس بات پر اتفاق کرتی ہیں  لیکن 30 فیصد اس کی ذمیدار ریاست ہی ہے اس کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو قانون پاس کرتے ہیں وہ لوگ جو حکومتوں کو چلاتے ہیں وہ لوگ جوعدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ لوگ کچہری میں بیٹھے ہوئے ہیں جب تک حکومت ان چیزوں کے خلاف کھڑی نہیں ہوتی، ریاست کھڑی نہیں ہوتی تو ایک ارٹسٹ کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ ڈرامے کا تقریباً 95 یا 96 فیصد وہی ظلم ،جبر، مار پیٹ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ڈرامے کے آخری لمحات میں بالکل آخری سین میں وہ جزا سزا دکھایا جاتا ہے۔ جس نے برائی کی ہے یا جس نے غلط کام کیا ہے اس کا انجام برا ہوا ۔ تو ان حالات میں لوگ وہ زیادہ تر ڈرامے کا زیادہ پورشن جو تشدد کا دکھا رہا ہے وہ اثر لیں گا بنسبت اخری قسط کے اخری سین میں ایک جزا سزا سین کے۔

شازمہ حلیم کے مطابق اگر ڈرامے میں منفی کرداروں کو اتنا سر پہ چڑھایا دکھایا جائے گا کہ جیسے 19 قسط ڈرامہ میں 18 قسطوں میں ولن ظلم کرتا ہے اور وہی دیکھا جاتا ہے اور پھر آخری قسط میں ولن کا انجام برا ہوتا ہے تو یہاں پہ بھی ڈسکریمینیشن ہوتا ہے کیونکہ اس ڈرامے کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا برابری کا خیال نہیں رکھا گیا لیکن جو ڈرامےنشر ہو رہے ہیں ان میں ویورز بھی ذمیدار ہیں،  وہی چیز پسند کرتے ہیں اور وہی چیز چاہتے ہیں جس میں برائی ہو ۔ خاتون فساد کی جڑ ہو۔ اس قسم ڈراموں سے معاشرہ ظلم و تشدد پسند ہو گیا ہے اور ساتھ میں مردوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ گیا ہے۔ مرد جس جگہ بھی جاتا ہے اپنے ہی بیوی کی برائی کرتا ہے شک کرتا ہے اور پھر کہتے پھرتے ہیں کہ کیوں اس ڈرامے میں نہیں دیکھا عورت نے اپنے خاوند یا خاندان والوں کے ساتھ کیا کیا تھا۔

شازمہ حلیم نے کہا کہ ڈراموں میں ناظرین کے لئے کرداروں میں نا کسی کے لیے سبق ہے نہ ہیرو ہیروئن کی کردار سبق آموز جس سے معاشرہ غلط سمت جا رہا ہے۔ لوگ ڈراموں سے مثبت کی جگہ غلط اثر لے رہے ہیں کچے ذہن کی خواتین اسی ڈرامے کی طرح کے کردار بن کر اصل زندگی میں وہی راہ اختیار کرتی ہیں جو شاید ان کے لئے نقصان کیا موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔

شازمہ حلیم ان سب مسائل کا حل حکومت کے پاس بتاتی ہیں کہ وہ آواز اٹھائیں ان ڈراموں فلموں ،سیریز پر پابندی لگائیں جس سے معاشرہ مثبت اثرات کی بجائے منفی اثرات لے رہا ہے تو بہت جلد ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔  ان کی مثال عام سی ہے لوگ فیشن لائف سٹائل میڈیا سے ہی لیتے ہیں اسی طرح لوگ ان کرداروں کو بھی اپنی زندگیوں میں اہمیت دے کر غلط فیصلہ کر سکتے ہیں۔

حکومت یا پیمرا ان حالات کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے یا کس طرح اپنا اہم رول ادا کر سکتا ہے اس حوالے سے پیمرا کے سینئر مانیٹرنگ سپروائزر ماجد کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جو بھی کانٹینٹ بنتا ہے تو براڈ کاسٹ یا نشر ہونے سے پہلے انکا پی بی اے  یعنی پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے جائزہ ہونا لازمی ہوتا ہے، وہ پہلے ایک مرحلے سے گزرتا ہے۔پھر کوڈ آف کنڈکٹ فار الیکٹرانک میڈیا اوربراڈکاسٹ میڈیا جس میں سیٹیلائٹ ٹی وی چینل اور ایف ایم براڈکاسٹ سٹیشن شامل ہیں، دوسرا کوڈ آف کنڈکٹ فار ڈسٹریبیوشن سروسز ہے جس میں کیبل ٹی وی آپریٹرز اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹی وی شامل ہیں جس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔ پیمرا کے ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس سے صاف واضح ہے کہ کیا نشر کرنا ہے اور کیا نشر نہیں کیا جا سکتا۔ پیمرا کے رولز کے مطابق تمام مواد کو فالو کیا جائے گا۔ جب بھی کوئی لائسنس کسی بھی میڈیا کو دیا جاتا ہے تو تمام ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر دستخط کیا جاتا ہے جس سے کسی بھی شکایت یا غیر اخلاقی مواد نشر کرنے کی صورت میں لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے اور شوکاز نوٹس بھی دیا جا سکتا ہے۔

کونسل آف کمپلینٹ بھی موجود ہے جس میں کسی بھی کانٹینٹ کے خلاف شکایت درج کی جاسکتی ہے ان کے 4 ممبرز ہوتے ہیں جسکے خلاف بھی یہ شکایت درج ہو سکتی ہے انہیں باقاعدہ کونسل آف کمپلینٹ کی جانب سے بلایا جاتا ہے۔ان کا بھی موقف سنا جاتا ہے پھر اس کی روشنی میں پیمرا چیئرمین بشمول تمام ممبرز اس شکایت پر فیصلہ دیتا ہے۔

جہاں تک ڈرامہ ۔ فلم یا ڈاکومینٹری میں خواتین کے خلاف یا انکے منفی کرداروں کی بات ہے تو ہر وہ مواد جو شائع ہونے والا ہوتا ہے اس سے پہلے انکا پی بی اے کی جانب سے مکمل جائزہ ہونا لازمی ہے اسکے علاوہ کسی بھی وویور کی جانب سے شکایت بھی درج کی جاسکتی ہے کہ اس کانٹینٹ میں خاتون کی تذلیل ہوئی ہے یا غلط ، منفی تصور پیش کر رہا ہے تو بالکل کونسل آف کمپلینٹ کی جانب سے ایکشن لیا جاتا ہے۔

ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو اپنے ڈرامے کے کردار کے ذریعے غلط روشنی میں پیش کرنے میں نا صرف ڈرامہ لکھار سے لے کر اداکاروں تک محدود ہے بلکہ حکومت تک سب ذمیدار ہیں لیکن اس میں خاطر خواہ  رول ویوورز کا بھی ہے اور شاید سب سے زیادہ قصور وار بھی وہی ہیں جب تک وہ اس قسم مواد کے خلاف ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوں گے تو اسکا کوئی حل نہیں نکلے گا۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.