Blog Archives

December 7, 2023 - Comments Off on معاشرے کے دقیانوسی تصورات میں گھری خواتین کی زندگیاں

معاشرے کے دقیانوسی تصورات میں گھری خواتین کی زندگیاں

زنیرہ رفیع

’’کسی نئی دلہن کے قریب نہیں جانا‘‘

’’حاملہ خاتون سے دور رہو، اسے پرچھاواں نہ ہو جائے‘‘

’’کنواری لڑکیوں سے میل جول نہیں رکھنا، انہیں ماہواری کے مسائل در پیش آ سکتے ہیں‘‘

’’چالیس دن تک گھر میں نحوست رہتی ہے‘‘

’’یہ شادی کی کسی رسم میں حصہ نہیں لے سکتی ورنہ نئے جوڑے پر  اس کا برا اثر ہو جائے گا‘‘

’’ کسی غمی یا خوشی میں شریک نہیں ہوسکتی‘‘

یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہر اس عورت کو سننے کو ملتے ہیں جو اسقاط حمل سے گزرتی ہے۔ اکیسویں صدی اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی معاشرے کا کسی خاتون کے اسقاط حمل کے متعلق اتنا ہی دقیانوسی رویہ ہے، جتنا زمانہ جاہلیت میں تھا۔

پاپولیشن کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے 25 لاکھ سے زیادہ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ جن کے بعد ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو صحت کے متعلق پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ خواتین کی صحت اور تولید سے منسلک مسائل پر کام کرنے والی مختلف مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتی اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں اسقاط حمل کی سب سے زیادہ شرح  والے ممالک میں ہوتا ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کا ایک منفی رخ یہ بھی ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں لفظ تشدد کو ظاہری چوٹ یا زخم سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ ہمارے اردگرد موجود تقریباً 90 فی صد لوگ ذہنی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اور وہ اپنے آپ سے ایک جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ معاشرہ اس جنگ کو  مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ لیکن کوئی بھی جذبات کے تشدد کو آج تک ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں پایا اور یہی وجہ ہے کہ جذباتی تشدد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کوئی آگاہی ہی نہیں ہے۔

’’مجھے اپنی ذات سب سے زیادہ مجرم اور شرمناک اس وقت محسوس ہوئی جب میری ہم پیشہ ساتھیوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا، ایسا محسوس کروایا گیا کہ اگر میں ان کے قریب سے بھی گزر گئی تو کہیں ان کی زندگیاں بے رنگ نہ ہو جائیں۔‘‘

22 برس کی کبرا 2 بچوں کی ماں ہیں، جو راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ وہ گزشتہ برس ہی اسقاط حمل کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکی ہیں۔ کبرا کہتی ہے کہ اسقاط حمل عورت کے بس میں تو نہیں ہے لیکن معاشرہ عورت کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ وہ چار ماہ پریگننٹ تھی جب اس نے قدرتی طور پر اپنے بچے کو کھو دیا۔ اور یہ سب اس کے لیے اتنا اچانک تھا کہ جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔ چونکہ وہ 4 ماہ پریگننٹ تھیں اور 4 ماہ میں بچے کے اعضاء بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ کہتی ہے اس بچے کو محسوس کر کے کھو دینے کی تکلیف سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی، یہ سب کسی بے احتیاطی کی وجہ سے نہیں بلکہ قدرتی طور پر ہوا تھا، جسے انہوں نے اللہ کی رضا سمجھ کر بھلانے کی کوشش کی۔

’’دماغی اور جسمانی طور پر اس بات کو قبول کرنا میرے لیے اتنا آسان نہیں تھا ، مگر پھر میں نے سوچا کہ جب میں اسے اللہ کی رضا مان ہی چکی ہوں تو اس سب کو بھولانے کی کوشش کروں گی۔ لیکن معاشرہ بڑا ظالم ہے وہ آپکو بھولنے نہیں دیتا‘‘

کبرا نے مزید بتایا کہ ابھی تو جسمانی دردیں بھی تازہ تھیں، اور ذہن اس بات کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں تھا کہ جس بچے کو لے کر اس نے سہانے خواب دیکھ رکھے تھے وہ اب نہیں رہا تھا۔ اسپتال سے گھر آئی تو  وہ گھر پہلے کی طرح نہیں رہا تھا اس نے اپنے گرد عجیب سی ہلچل محسوس کی، اور وہ ہلچل ایسی تھی جس نے اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ دماغی طور پر متاثر کیا۔ اور سب سے زیادہ اس کے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ اس کے گھر میں موجود 2 عدد نندوں کا رویہ بہت مختلف ہو چکا تھا، جو اب کبرا سے بات کرنے میں بھی کتراتی تھیں یا اس کی بات کو سن کر بھی ان سنی کر دیتی تھیں۔ ’’میں نے محسوس کیا کہ اگر میں ان سے کوئی بات کرنا چاہ رہی ہوں تو وہ مجھے اگنور کر رہی ہیں۔ مجھے شروع میں وہم لگا مگر دن گزر رہے تھے اور صورتحال مزید بگڑ رہی تھی، میں اپنا دکھ، درد سب بھول گئی ان سب کے رویے میرے دماغ میں گھر کرتے گئے، جب ایک ہفتہ گزر گیا تو میں نے اپنی ساس سے پوچھا کہ مجھ سے سب ناراض ہیں۔ تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ ایسی صورتحال میں جب تک عورت کے 40 دن پورے نہیں ہو جاتے، وہ کسی سے بات نہیں کرتی اس لیے تم بھی گھر میں کسی سے بات نہ کرو اور کوشش کرو کے کمرے سے باہر نہ آو۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہو باقی چھوٹی بہنوں سے کچھ ٹائم کے لیے بات چیت سے بھی گریز کرو، اور پھر 40 دن بعد سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘

اس نے بتایا کہ ’’تم کمرے سے باہر مت آو‘‘ یہ وہ جملہ تھا جس نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اس نے ایسا کیا کر دیا ہے جو اس پر کسی سے بات کرنے پر بھی پابندی ہے۔ آخر اس کی غلطی کیا ہے۔ اور اس سوال کا جواب اسے تب ملا جب ایک محلہ دار آنٹی اس کی عیادت کرنے آئیں۔

’’میں نے انہیں اپنی ساس کو کہتے سنا کہ بچیوں کو کبرا کے پاس بھی مت جانے دینا ورنہ پرچھاواں ہو جائے گا۔ اور انہیں مسقبل میں حمل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کے الفاظ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مزید کیا کہا، لیکن میں چند منٹ کے لیے کچھ سوچنے یا سمجھنے سے مفلوج ہو چکی تھی، اور بس ایک ہی جلمہ میرے دماغ میں گھوم رہا تھا۔ اور  میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر رہے تھے۔ لیکن چاہ کر بھی ان آنسووں میں ربط نہ آسکا۔ یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جس کو سوچ کر آج بھی مجھے بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔‘‘

کبرا نے اپنے اسقاط حمل کے دوران معاشرے کی ایک مزید دقیانوسی مثال سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ اس کی تکلیف کا دوسرا مرحلہ وہ درسگاہ تھی، جہاں سے کسی بھی بچے کی بنیادی تعلیم شروع ہوتی ہے۔

کبرا نے اپنی آنکھوں میں ابھرتے آنسوؤں کو جذب کرتے ہوئے اپنی کانپتی آواز میں بتایا کہ جب وہ گھر کے ماحول سے تنگ آگئی تو اس کے پاس اس صورتحال سے فرار کا ایک یہی راستہ تھا کہ وہ اسکول جانا شروع کر دے، جسمانی صحت کے ساتھ نہ دینے کے باوجود بھی جب اسقاط حمل کے بعد اسکول گئی تو وہاں تمام ساتھی ٹیچرز کے رویہ نے اس کی تکلیف کو مزید دوبالا کر دیا۔

’’سوچا تھا جاؤں گی تو میری سہیلیاں میرا حال معلوم کریں گی، مجھے حوصلہ دیں گی اور میرے بچے کے دکھ میں شریک ہونگی،مگر ان سب کو تو جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو، سب مجھ سے ایسے چھپ رہی تھیں اور دور بھاگ رہی تھیں جیسے میں کوئی ایسی بیماری ہوں، جو انہیں کھا جائی گی۔‘‘

میری زندگی کا برا وقت تو گزر گیا لیکن معاشرتی رویے نے میری ذہنی حالت کو بہت متاثر کیا اور مجھے اس ساری صورتحال سے نکلنے میں تقریباً ایک سال لگا جس میں اگر کسی نے مجھے سب سے زیادہ ہمت دی وہ میرا شوہر اور میری ڈاکٹر تھیں۔

یہ وہ اسقاط حمل ہے جو قدرت کی طرف سے لکھا تھا، دوسری جانب معاشرے کی وہ خواتین ہیں، جن کے حمل کا فیصلہ ان کے شوہر یا سسرال والے کرتے ہیں، باقی مرضی سے اسقاط حمل کا فیصلہ کرنا تو شاید اس معاشرے میں کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ یہاں تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر عورت کرنا چاہے تو وہ نافرمان اور بد کردار ہے، اگر شوہر یا سسرال والے چاہیں تو ان کے فیصلے کی تکمیل کرنا عورت پر فرض ہے۔

سمیہ کی کہانی بھی اسقاط حمل کے گرد گھومتی ہے۔ مگر اس کے کیس میں اسقاط حمل نہ ہی تو قدرتی تھا اور نہ ہی اس کی مرضی سے ،بلکہ وہ اب تک اپنی ساس کی مرضی سے اور اپنی رضامندی کے خلاف 3 بار اس تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکی ہیں۔

سمیہ نے اپنی دردناک کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کی 1 بیٹی ہے، دوسرے بچے کی خوشخبری کے بعد اس کی زندگی میں رنگوں کی بہار آنے ہی والی تھی کہ یہ خوشخبری اسے راس نہ آسکی۔ 3 مہینے  اس نے دن رات گن گن کر گزارے تھے۔ مگر وہ جب روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی، تو اس معلوم ہوا کہ اس کے بچے کو تھیلیسمیہ ہے۔،

’’یہ خبر سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے، اور کلینک سے نکلتے ہی  زاروقطار رونے لگی تھی، گھر آئی ساس کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اس کا یہی حل ہے کہ جتنا جلد ہوسکے اسے ختم کروا دیا جائے۔ ان کا یہ جملہ سن کر مجھے ایسے لگا کہ میرا دل تکلیف سے پھٹ جائے گا لیکن چند دن گزرنےکے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو اس کی پوری زندگی تکلیف میں گزرے گی، اور میں اپنی وقتی تکلیف کے بدلے اپنے جان کے ٹکڑے کو پوری زندگی کے لیے تکلیف نہیں دے سکتی‘‘

بہت سوچنے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنی ساس کے فیصلے کو بہتر سمجھا اور اپنا حمل ضائع کروا دیا۔

ایک بار پھر سمیہ کے در پر امید کی کرن نے دستک دی تھی۔ اب کی بار اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس کو سب کہنے لگے تھے کہ حمل ضائع کروا دینے کے بعد اس کا حامل ٹھہرنا بہت مشکل ہوگا۔ اس نے سوچ لیا  تھا کہ اس بار وہ اللہ کی ہر رضا میں خوش ہوگی، لیکن اس کو پھر ڈاکٹر کی طرف سے دل دہلا دینے والا وہی جملہ سننے کو ملا، جس نے اس کی ذات کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ جب ساس کو پتہ چلا تو تو اب کی بار وہ سمیہ سے خاصی ناراض بھی ہوئیں، اور کہا کہ ایسے بچوں کی پیدائش سے بہتر ہے کہ تم بچے پیدا ہی نہ کروں، اس نے اپنی ساس کو کہا کہ اس بار وہ حمل ضائع نہیں کروانا چاہتی اور اللہ کی رضا میں خوش ہے۔

’’مگر انہوں نے میری بلکل بھی نہیں سنی جس کے بعد میرے شوہر نے بھی مجھ سے زبردستی کی اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے میں مجبور تھی اور ایک بار پھر میں نے اپنے بچے کا کھونا محسوس کیا۔ وہ میری ساس بری نہیں تھیں وہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں مگر میں بھی ماں تھی، اور ایک ماں اپنے بچے کو کھوتے ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

ایک سال کے بعد گزشتہ برس دسمبر وہ ایک بار پھر امید سے تھی،اور اس بار وہ حمل سے خوش نہیں بلکہ پریشان ہوگئی تھی اور اس کے ذہن میں ماضی ایک بار پھر دوڑنے لگا تھا۔  کہتی ہے کہ اس نے اللہ سے رو رو کر دعائیں کی تھیں کہ اس بار اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے سکوں بس اسے کچھ نہ ہو، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ اور تیسری بار بھی وہی خبر سنتے ہی میرا جسم سن ہو چکا تھا، لیکن اس نے گرتے آنسوؤں کے ساتھ ڈاکٹر سے یہ التجا کی  کہ وہ اس کی ساس کے سامنے ذکر نہ کریں۔ لیکن لاکھ چھپانے کے باوجود بھی اس کی ساس جان گئیں تھیں۔

’’ ان کو پتہ چلنے کے بعد انہوں نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ ان کے جملوں نے میری زندگی میں اتنا زہر بھر دیا اور میں ہر وقت دعائیں کرنے لگی کہ میں اس بچے سمیت مر جاوں، اور ایک دن انہوں نے مجھ سے آکر کہا کہ تمہارا باپ یہاں کاروبار نہیں چھوڑ کر گیا کہ تم بیمار بچوں کو جنم دو اور ان کے علاج کے پیسے موجود ہوں. میرا بیٹا اس قابل نہیں کہ تم بیمار اولاد اس کے گلے ڈالتی جاو۔ وہ دن میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا، کہ میں نے ان کی باتوں سے جان چھڑوانے کے لیے جذبات میں آکراپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا، اب کی بار میں قاتل خود تھی، جس کے بعد میں نے اپنے شوہر کے کہنے پر آپریشن کروا دیا تاکہ میں مزید  حمل نہ ہو۔‘‘

میں آج بھی ڈپریشن کا شکار ہوں زندگی کے ان حادثات نے میری روح کو جلا دیا ہے، میں جسمانی طور پر جی تو رہی ہوں،لیکن اندر سے مکمل مر چکی ہوں۔ اب میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے عارضے سے دوچار ہوں میرے تین بے قصور بچوں کا جانا مجھے ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم کر رہا ہے۔ میں لوگوں سے، خوشیوں سے دور بھاگنے لگی ہوں، میں نفسیاتی طور پر پاگل ہو چکی ہوں، میرا دم گھٹتا ہے نہ ہی کہیں جاتی ہوں نہ ہی زیادہ میل جول رکھتی ہوں۔ اگر زندگی میں ہمت پکڑتی ہوں تو وہ یہ سوچ کر کے میری ایک عدد بیٹی ہے۔

برصغیر میں کب ،کتنے بچے کرنے ہیں اس کا اختیار کبھی عورت کو نہیں دیا گیا۔ عورت آج کے دور میں بھی  فیملی پلاننگ کا حصہ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ آج بھی پاکستان کی تقریباً آدھے سے زیادہ آبادی فیملی پلاننگ کے لفظ سے نہ آشنا ہے۔ جبکہ شوہر بیوی کو یہ کہہ کر چپ کروا دیتا یے کہ مالی اخراجات کے حقوق پورے کرنا اس کی ذمیداری ہے تو لہذا اس بات کا فیصلہ کرنا بھی صرف اسی کا حق ہے۔ دوسری جانب ساس چونکہ گھر کی بزرگ سربراہ ہیں تو ان کی خواہش کا پورا ہونا لازمی ہے۔ صرف بچوں کی حد تک نہیں بلکہ کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں چاہیے، جیسے بچے کسی فیکٹری میں آرڈر پر تیار کیے جاتے ہوں۔

 ماہر امراض نسواں ڈاکٹر فریصہ نے اس حوالے سے کہا کہ دنیا چاند پر بھی پہنچ جائے تو معاشرے کے ان دقیانوسی تصورات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ کیونکہ معاشرے میں یہ چیزیں اس طرح گھڑی جا چکی ہیں کہ اب لوگوں کا یقین پختہ ہو چکا ہے ۔

انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک عورت ہوں اور میں نے اپنے حمل کے دوران ایسی کئی خواتین کے کیسز لیے ہیں۔ جن کا قدرتی اسقاط حمل ہوا جس سے میرے حمل پر کبھی آنچ بھی نہیں آئی ،تو یہ سب دنیاوی من گھڑت باتیں ہیں جن کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی سائنس میں ایسا کچھ ہے۔

اس لیے خواتین کو اذیت دینا چھوڑ دیں حمل ختم ہونے کے بعد خواتین جسمانی اور دماغی طور پر اس حالت میں نہیں ہوتیں کہ وہ یہ سب باتیں سن سکیں ۔ عورت کو اس وقت سب سے زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس صورتحال میں گھر والے تو کیا بلکہ بعض اوقات شوہر بھی طعنے دینے لگتے ہیں۔حالانکہ عورت کی یہ حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ اسے اس اذیت میں مت الجھائیں کہ ایک حمل ضائع ہو جانے کے بعد وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتی، بعض خواتین 5 سے 6 اسقاط حمل کے بعد بھی ماں بن جاتی ہیں۔

سائیکالوجیکل ہیلتھ کیئر سینٹر کی کنسلٹنٹ، کلینیکل سائیکالوجسٹ سحرش افتخار کہتی ہیں کہ اسقاط حمل کے بعد خواتین ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں،  اور خاص طور پر ان میں حوصلہ شکنی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مستقبل میں اب ان کے بچے ہی نہیں ہونگے۔ اس لیے ذہنی  کمزور ہو جاتی ہیں، ان میں نیند کی کمی کی شکایت بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہیں، اور چونکہ ان میں اپنے اردگرد کے رویوں کو برداشت کرنے کی ہمت ختم ہو چکی ہوتی ہے اس لیے سماجی زندگی میں الگ تھلگ رہنے لگتے  ہیں۔ اور یہ سب چیزیں ان کے ڈپریشن کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ اور بعض اوقات ان کا ڈپریشن بہت بڑی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ عورت کو انسان سمجھا جائے اور اس بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا پورا حق دیا جائے، کیونکہ پیدا کرنے سے لے کر اس کو پال پوس کر بڑا کرنے والی صرف ماں ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں انسان سمجھیں نہ ہی کہ بچے پیدا کرنے والی مشین۔

پاکستان میں اسقاط حمل سے متعلق قانون:

پاکستان میں دو دہائیاں قبل تک صرف عورت کی جان بچانے کی خاطر اسقاط حمل کی قانونی اجازت موجود تھی، جبکہ 90 کی دہائی کے اواخر میں تعزیرات پاکستان کے  سیکشن 338 میں اضافی شق شامل کر کے بچہ دانی میں بننے والے بچے کے اعضا بننے سے قبل عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دی گئی۔ قانون کے تحت ان شرائط کے پورا نہ ہونے کی صورت میں اسقاط حمل جرم قرار پاتا ہے جس کے لیے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.