Blog Archives

All Posts in Digital 50.50, Feminist e-magazine

July 4, 2023 - Comments Off on سوشل میڈیا انفلوئنسرز مختلف لوکل میینیو فیکچرنگ صنعتوں کے کاروبار میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں

سوشل میڈیا انفلوئنسرز مختلف لوکل میینیو فیکچرنگ صنعتوں کے کاروبار میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں

 زنیرہ رفیع

سوشل میڈیا  اور "انفلوئینسرز" نہ صرف ملک میں ڈیجیٹل منظر پر

 غلبہ حاصل کر رہے ہیں بلکہ کمپنیوں اور تنظیموں کے لیے کروڑوں روپے کی آمدنی پیدا کر رہے ہیں، جو اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے اور روزمرہ کے صارفین سے منسلک رہنے کے لیے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا سہارا لے رہے ہیں

سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف روایتی اشتہاری طریقوں جیسے کہ ٹی وی، پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے، بلکہ بہت تیزی سے پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی کاروبار کے مواقعوں کو بڑھا رہا ہے ۔ ڈیجیٹل دنیا کے موجودہ دور نے ہر چیز کو ایک  کلک کے ماتحت کر دیا ہے۔ اور جیسا کہ مستقبل کی قوت خرید نوجوانوں کے پاس ہے، کاروباری افراد اب اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ  انسٹاگرام، فیس بک یا ٹک ٹاک  انفلوئینسرز کے ذریعے ان کے کاروبار کو فروغ ملے گا۔

کرونا وبا کے دوران خواتین انفلوئنسرز نے نہ صرف چھوٹے کاروباروں سے فروخت کے رجحان میں اضافہ کیا ہے بلکہ نئے کاروباری لوگوں کو بھی آن لائن انڈسٹری سے متعارف کروایا ہے-

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پاکستانی صارفین پر بہت گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ پاکستان کی واحد انفلوئینسر مارکیٹنگ کمپنی ’’ولی‘‘ کی 2021 سے 2022 کی  ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار سے زائد مارکیٹنگ مہمات چلائی گئیں جنکا مشترکہ ہدف 500 ملین سے زائد تھا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کتنا اثرانداز ہورہا ہے-

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستانیوں کے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 217.1 ملین پروفائلز ہیں، جن میں سے 70.1 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین ہیں۔

ولی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین انفلوئینسرز کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والی خواتین برانڈز کے لیے زیادہ پیسہ اورخریدار لاتی ہیں خاص طور پر ان برانڈز کے لیے جو فیشن یا طرزِ زندگی سے متعلق مصنوعات اور خدمات کو  فروخت کرتی ہیں۔  رپورٹ کے مطابق پاکستانی سوشل میڈیا اسٹارز کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ہم منصبوں پر برتری حاصل ہے،کیونکہ  وہ نہ صرف کثیر لسانی، متنوع شکل و صورت رکھتے ہیں۔ بلکہ عالمی زبان(انگریزی) میں بات چیت کرنے کے قابل ہیں، جو خاص طور پر پڑوسی مشرق وسطیٰ کے خطے کے حریفوں کے پاس نہیں ہے ۔ اور اگر قومی سطح پر پاکستانی انفلوئینسرز کی حوصلہ افزائی کی جائے، تو پاکستان اپنے سوشل میڈیا انفلوئیسرز کے ذریعے غیر ملکی صارفین کو بھی متوجہ کر سکتا ہے۔ اور پاکستان میں ایک بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کے ذخائر لا سکتے ہیں

 ولی کمپنی کی انفلوئینسر پرفارمنس لیڈ قرۃالعین فاطمہ راشد کہتی ہیں کہ ’ پاکستان میں کل کتنے انفلوئینسرز اس وقت موجود ہیں۔ اس کے متعلق صیحیح اعدادوشمار بتانا تھوڑا مشکل ہے۔ مگر کچھ مارکیٹنگ پلیٹ فارمز کے  اشتراک  کے مطابق مختلف اعداد و شمار موجود ہیں اور اس بنیاد پر ہمارا اندازہ ہے کہ اس وقت تقریباً 500,000 سے زیادہ فعال انفلوئینسرز مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔اور ولی کمپنی سے رجسٹرڈ انفلوئنسرز کی تعداد اس وقت تقریباً 1 لاکھ 58 ہزار ہیں, جہاں تک خواتین انفلوئنسرز کی بات ہے اگر مارکیٹنگ کیمپینز کو دیکھا جائے تو انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر ہے. جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین کتنا زیادہ مارکیٹنگ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئ بھی بڑا برانڈ اٹھا کر دیکھ لیں، خواتین ہی نظر آتی ہیں. کیونکہ فیشن انڈسٹری انفلوئنسر مارکیٹنگ پر بہت پیسہ لگا رہی ہے کیونکہ بہت سے انفلوئنسرز کے ملین میں فالورز ہیں اور اس طرح وہ برانڈ 3 گناہ سے بھی زیادہ پیسے کما رہے ہوتے ہیں

ثانیہ سعید فیشن اور لائف اسٹائل بلاگر ہیں جن کے 137 ہزار فالوورز ہیں، انہوں سے خواتین کے اکانومی میں کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین انفلوئنسرز اس وقت ہرچھوٹے اور بڑے برانڈ کے لیے کام کر رہی ہیں اور پچھلے کچھ عرصے میں خواتین انفلوئنسرز کا رجحان کافی زیادہ بڑھ چکا ہے. جو کہ ایک خوش آئند بات ہے، اور اس چیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین انفلوئنسرز اکانومی میں ایک بڑے پیمانے پر اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، مرد انفلوئنسرز، خواتین کے مقابلے میں بہت کم ہیں-

ہر انفلوئنسر کسی نہ کسی برانڈ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں. جس کی وجہ سے اس انفلوئنسر کے تمام فالورز تک پراڈکٹ کے بارے میں معلومات جاتی ہے. چھوٹے کاروبار جتنے بھی ہیں زیادہ تر نے سوشل میڈیا انڈسٹری میں خواتین انفلوئنسرز کی بدولت نام کمایا ہے، ایسے بہت سے کاروبار ہیں جنہوں نے زیرو سے شروع کیا تھا اور آج وہ برانڈ بن چکے ہیں اس میں خواتین انفلوئنسرز کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہے جتنا ان کی پراڈکٹ کا اچھا معیار ہے-

ایک سوال پر ثانیہ کہتی ہیں لوگ شاید سمجھتے ہوں گےکہ انفلوئنسر ہونا ایک بہت ہی آسان کام ہے جب کہ ایسا نہیں ہے انفلوئنسر کو ہر پراڈکٹ کو مختلف انٹرٹینمںٹ کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے، انہوں نے اپنی حالیہ سینیٹری پیڈز کی کیمپین کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ٹک ٹاک پر اس سینیٹیری پیڈ کی آگاہی دینے پر لوگوں نے گالیاں تک دی ہیں، تو انفلوئنسر ہونا اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ یہ سب چیزیں آپ کو دماغی طور پر تنگ کرتی ہیں

ایک اور سوال پر ثانیہ کہتی ہیں آج تک جتنے بھی برانڈز نے خواتین انفلوئنسرز کے سہارے مارکیٹ میں اپنا نام کمایا ہے اور آج انکا کاروبار ایک برانڈ بن چکا ہے تو اکانومی میں ان کا حصہ مانا  جاتا ہے جب کہ اس برانڈ کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ اس خاتون انفلوئنسر کو بھی جاتا ہے. اور براہ راست نہ سہی مگر بالواسطہ طور پر اس خاتون کا بھی ہماری معیشت میں اتنا ہی حصہ ہے-

ایمان شاہد عباسی لائف اسٹائل سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں جن کے انسٹاگرام پر 42 ہزار سے زائد فالورز ہیں کہتی ہیں کہ انہوں نے ابھی تک بہت سے چھوٹے کاروبار کی پراڈکٹس کو پروموٹ کیا ہے. کم از کم 35 سے 40 کے درمیان ایسے کاوروبا ہیں جن کے لیے وہ کام کر چکی ہیں جس کے بعد ان کی سیل میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا. کوشش رہی ہے کہ  چھوٹے اور نئے آنے والے بزنس کمیونٹی کو زیادہ سپورٹ کیا جائے تاکہ وہ ان کا بزنس آگے بڑھ سکے.

'اس سب میں میرے فالورز نے مجھے بہت سپورٹ کیا ہے کیونکہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کر کے ان پراڈکٹس کو استعمال کیا اور ہر کاروبار کو آگے بڑھنے میں میری مدد کی ہے'

ایمان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی انفلوئنسر کے لیے اپنے فالورز کا اعتماد جیتنا اتنا آسان نہیں ہوتا، مگر ایک بار آپ کے فالورز آپ پر یقین کرنا شروع ہوجائیں تو چیزیں آسان ہونے لگتی ہیں، لوگ انفلوئنسرز کی زندگی کو بہت اچھا سمجھتے ہیں کامنٹ باکس میں اتنی گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں مگر بہت سے لوگ آپ کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے انفلوئنسر کو ہر طرح کی زبان برداشت کرنی پڑتی ہے اور ہمیشہ لوگوں کو اس پراڈکٹ کی جانب راغب کرنے کے لیے ایک نئی طرح سے مارکیٹ کرنا پرتا ہے، تاکہ لوگ اسے دیکھیں، اور متاثر ہو کر خریدیں.

ایک سوال کے جواب میں ایمان نے بتایا کہ کچھ انفلوئنسرز بھی کہیں جگہ پر صرف پیسے کمانے کے لیے بری پراڈکٹ کو اچھا پیش کرتے ہیں جو کہ ایک نہایت ہی غلط حرکت ہے، 'میں سمجھتی ہوں کہ انفلوئنسر ہونا ایک بہت بڑی زمہ داری ہے جس میں ہر پراڈکٹ کا دیانتداری کے ساتھ ریویو دینا ہر انفلوئنسر کو اپنے پر فرض کر لینا چاہیے اور اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والے بھی بہت کاروبار خواتین انفلوئنسرز کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پرپہنچ چکے ہیں اور تقریباً 70 فی صد کاروبار کو آگے بڑھانے اور ان کی سیل میں اضافہ خواتین انفلوئنسرز کی وجہ سے ہی ہے، خاص طور پر فیشن انڈسٹری سے منسلک جو کاروبار ہیں'

نینا الیاس ایک فوڈ بلاگر ہیں، جن کے تقریباً 38 ہزار سے زائد فالورز ہیں بات کرتے ہوئے نینا نے بتایا کہ انہوں نے بے شمار چھوٹے کاروباروں کی چیزوں کو پروموٹ کیا ہے خاص طور پر ہوم بیسڈ کچن، جو خواتین گھروں سے اپنا کاروبار چلا رہی ہیں کہتی ہیں 2 سال کے بلاگنگ کے سفر  میں انہوں نے جتنے بھی کاروباروں کو پروموٹ کیا ہے ان کی جانب سے نینا کو ہمیشہ مثبت جواب ہی موصول ہوا ہے، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور کسی بھی کاروبار کو برانڈ بننے میں سوشل میڈیا کی مدد کی ضرورت ہے، اور سوشل میڈیا پر وہ تب ہی ترقی کر سکتے ہیں جب سوشل میڈیا انفلوئنسرز ان کے پراڈکٹس کو پروموٹ کرتے ہیں یوں ان چھوٹے بزنس کو مزید فروغ ملتا ہے. اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح خواتین انفلوئنسرز ہماری سوشل اکانومی میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کر رہی ہیں

فجز آئس کریم کے مالک وقار احمد کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار کو آگے بڑھانے میں کچھ بلاگرز کا بہت اہم کردار ہے- وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے کاروبار شروع کیا تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی مشہوری کروا سکیں مگر ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے ایک بلاگر کو چند ہزار دے کر اپنی آئس کریم کی مشہورکروائی، جس کے بعد ان کی سیل میں تھوڑا اضافہ ہوا، اور اس کے بعد انہوں نے دو سے تین مختلف خواتین بلاگرز کے ذریعے اپنی سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے پروموشن کروائی اور انہوں نے اپنا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بھی بنوایا جس کی شروعات زیرو سے تھی آج ان کے فالورز میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے-

"سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ذریعے میری آئس کریم کی ویڈیوز تقریباً 82  ہزار لوگوں تک پہنچی ہے، جو کہ مجھ جیسے چھوٹے کاروباری شخص کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے. جب لوگ آکر کہتے ہیں کہ ہم نے انسٹاگرام یا فیس بک پر آپ کی آئس کریم دیکھی تھی اور اسی لیے ہم کھانے آئے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے. ورنہ آج کے دور میں کاروبار کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے مگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے باعث ہم چھوٹے کاروبار جن کو کوئی نہیں جانتا، پھر لوگ جاننے لگتے ہیں "

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا کاروبار بھی چاہتا ہے کہ خاص طور پر خواتین انفلوئنسرز کے ذریعے اپنی پراڈکت کی پروموشن کروائی جائے تاکہ ان کی سیل میں اضافہ ہو اور ان کا کاروبار ترقی کرے۔

کراچی انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئ بی آے) کے پروفیسر اور اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن ڈاکٹر محمد ناصر نے بتایا کہ خواتین انفلوئنسرز کا اکانومی میں کتنا کردار ہے اس کے حوالے سے ابھی تک کوئی ریسرچ اسٹڈی نہیں ہوئی مگر دیکھا جائے تو خواتین انفلوئنسرز مارکیٹنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کسی بھی کمپنی کے لیے اب لازم ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کے لیے خواتین انفلوئنسرز کا انتخاب کریں کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لوگوں کا رجحان بڑھنے لگ گیا ہے. کیونکہ آجکل ہر دوسرا بندہ سوشل میڈیا پر ہے اور یہی وجہ ہے کمپنیوں نے مارکیٹنگ کے روایتی طریقوں کو ترک کرتے ہوئے انفلوئنسرز کے ذریعے پراڈکٹ مارکیٹ کروانا شروع کر دیا ہے اور کمپنیاں انفلوئنسرز کے فالورز کو دیکھ کر ریٹ طے کرتی ہیں جو کہ ٹی وی اور اخبار سے بہت کم ہوتے ہیں. جب انفلوئنسرز پراڈکٹس مارکیٹ کرتے ہیں تو کسی بھی کاروبار کی سیل میں اضافہ ہوتا ہے جس کے بعد ان کی پراڈکٹ کی مینوفیکچرنگ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ  بھاری بھرکم پیسے بھی کماتے ہیں اور جب ان خواتین انفلوئنسرز کے فالورز مختلف ممالک میں ہوتے ہیں تو پھر کاروبار اپنے دائرے کو بڑھا لیتے ہیں اور یوں ملک میں فارن کرنسی آنا شروع ہوتی ہے، اور نئے آنے والے کاروباری افراد کے لیے یہ ایک اچھی چیز ہے کہ وہ بہت ہی کم پیسوں میں اپنی پراڈکٹ کو مارکیٹ کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں-

اور جب انفلوئنسرز کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مونوٹائز ہوں تو ان کو ڈالر کے حساب سے پیسے مل رہے ہوتے ہیں. جس کی وجہ سے ملک میں زرمبادلہ آتا ہے جو کہ ہماری معیشت کی بہتری  کے لیے بہت ضروری ہے-

"میں یہاں ایک چیز شامل کرنا چاہوں گا کہ ہر آن لائن کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کے معیار کو اچھے سے اچھا بنائے تاکہ اس کا کاروبار آگے بڑھے جس سے اس اور ملک کی معیشت کو فائدہ ہو"

پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ای کامرس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ 2023 میں 6 بلین ڈالر محصول کی امید کی جا رہی ہے۔ اور اس میں ہر سال 6 فی صد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس محصول میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی محنت بھی شامل ہے-

سوشل میڈیا صارف عائشہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ کوئی بھی پراڈکٹ خریدنا نہایت آسان ہو چکا ہے، وہ سوشل میڈیا پر بہت سی خواتین انفلوئنسرز کو فالو کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ پہلے کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے بہت مشکل ہوتی تھی کہ پتہ نہیں کیسی ہوگی، مگر اب کوئی بھی پراڈکٹ لینے سے پہلے وہ ہمیشہ کچھ خاص انفلوئنسرز کی ویڈیوز دیکھ لیتی ہیں جن سے اس پراڈکٹ کے متعلق اتنی معلومات مل جاتی ہے کہ اس کو خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرنا نہایت آسان ہوجاتا ہے. ایک سے دو بار ہی ایسا ہوا ہے کہ کسی انفلوئنسر کے کسی پراڈکٹ کی حمایت پر وہ پراڈکٹ خریدا ہو اور وہ ٹھیک نہیں تھا، مگر اچھی اور بڑی انفلوئنسرز اپنی شہرت پر آنچ نہیں آنے دیتیں اس لیے وہ اپنے فالورز کے لیے ہمیشہ پراڈکٹ کا ایمانداری سے ریویو دیتی ہیں.

سویرا ارشد سوشل میڈیا کی ایک فعال یوزر ہیں جو اپنی اور اپنے بچوں کی 80 فی صد شاپنگ آن لائن کرتی ہیں،کہتی ہیں کہ کرونا وبا کے دوران جب سب بند ہوگیا اور عید الفطر کے دن قریب تھے تو اس وقت روزہ رکھ کر مارکیٹ جانا بہت مشکل تھا اور بچے بھی چھوٹے تھے اس لیے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے عید کی شاپنگ کی جائے، کرونا وبا سے پہلے وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کچھ خاص استعمال نہیں کرتی تھیں. مگر وبا کے دوران جب سب بند تھا اور کچھ کرنے کے لیے بھی نہیں ہوتا تھا تو ان کا رجحان سوشل میڈیا کی جانب بڑھا تھا. کہتی ہیں اسی دوران انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ عید کی شاپنگ آن لائن کر لی جائے، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ آن لائن چیزیں منگوائیں، مگر پارسل کے ملنے کے بعد جب انہوں نے کھول کر دیکھا تو جس آن لائن سٹور سے انہوں نے خود کے لیے کپڑے منگوائے تھے ان کپڑوں کی کوالٹی بالکل بھی اچھی نہیں تھی جب کہ سوٹ کی قیمت اچھی خاصی تھیں۔

"میرا دل بہت خفا ہوگیا اور میں نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ کبھی بھی آن لائن کچھ نہیں منگوانا، لیکن کچھ دن کے بعد اچانک ایک انفلوئنسر کی ویڈیو میرے سامنے آئی جس میں وہ اسی آن لائن سٹور کا ریویو دے رہی تھیں جن سے میں نے سوٹ منگوایا تھا اور وہ انفلوئنسر یہ کہہ رہی تھی کہ ان کے کپڑے کی کوالٹی انہیں اچھی نہیں لگی اس لیے اس سٹور سے کپڑے منگوانے سے پہلے کوالٹی کے بارے میں اچھی طرح معلومات لے لی جائے، جسکے بعد میرا اس انفلوئنسر پر یقین قائم ہوا، اسی طرح 4 سے 5 ایسی انفلوئنسرز ہیں جن کے ریویو پر میں آنکھیں بند کر کے یقین کرتی ہوں کیونکہ وہ ہمیشہ ایمانداری کے ساتھ ہر چیز کو بہت تفصیلاً بیان کرتی ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کچھ انفلوئنسرز صرف پیسے کی خاطر بری چیز کو بھی اتنا اچھا پیش کرتی ہیں کہ دیکھنے والا فوراً لینے پر مجبور ہوجائے جب کہ اس چیز کا معیار اتنا اچھا نہیں ہوتا"

اس تمام معلومات سے اس بات کا واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین انفلوئنسرز پاکستان کی ڈیجیٹل اکانومی میں سر فہرست ہیں۔ یہ خود تو مونوٹائزیشن جیسے آپشنز سے پاکستان میں ڈیجیٹل زرمبادلہ لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ملک کے چھوٹے صنعتی کاروبار کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی متعارف کرواتی ہیں۔ جس سے پاکستان میں کاروبار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ بھی آرہا ہے۔

مگر یہاں پر ان خواتین کی آن لائن سیفٹی کے لیے کچھ ایسی پالیسیاں بنانے کی بھی ضرورت ہے جو ان کو تحفظ فراہم کر سکیں۔ تاکہ ملک میں دیجیٹل اکانومی کے مواقعوں کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے

July 4, 2023 - Comments Off on معیشت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کا کردار:مواقع اورمشکلات

معیشت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کا کردار:مواقع اورمشکلات

انیلہ اشرف

اپنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں بلکہ باشعور اور بااعتماد ہونا ضروری ہے۔ صنف اور جنس کی تفریق سے بالاتر ہوکر خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع دیئے جائیں اور ٹیکنالوجی پر ان کا بھی حق تسلیم کرلیا جائے توخواتین پاکستان اور اپنے خاندانوں کی معاشی حالت بدل سکتی ہیں۔ اس کی مثال پرائمری پاس شہناز پروین حنیف ہے،جو آج سے چند سال قبل تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ ایک دن وہ اپنے کام کو منواتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر الگ پہچان بنائے گی اور نہ صرف اپنے گھریلو حالات بہتر کرے گی بلکہ اپنے جیسی ہنرمند خواتین کے روزگار کا ذریعہ بنتے ہوئے پاکستان کی معیشت میں بھی حصہ دار ہو گی۔ فاروق پورہ ملتان کی رہائشی شہنازپروین حنیف نےراقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ  گھریلوحالات کے باعث پانچویں کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکی ہے،اس کا شوہر درزی ہے جس کا ہاتھ بٹانے کیلئے وہ کبھی کبھار کڑھائی کرتی تھی، جس کے بعد اسے اپنا کام کرنے کا خیال آیا، جس کیلئے ابتدائی طور پر کمیٹی ڈالی کہ کچھ رقم جمع ہوجائے تاکہ وہ اپنا شوق پورا کرنے کیلئے آزادانہ اپنا کام کر پائے ،اس کے لئے جب کمیٹی نکلی تو مارکیٹ جاکر کپڑا ،دھاگااور دیگر ضروری اشیاءخریدیں ،چھاپہ لگوایا اور سامان کی خریداری کرتے ہوئےکام شروع کردیا۔ سوٹ تیار ہونے پر شوہر نے سلائی کردی ،تاہم سوال یہ تھا کہ انہیں کہاں اور کیسے جاکر فروخت کیا جائے۔اس کیلئے بہت تگ ودو کرنی پڑی، بہت عرصہ تک اشیاء فروخت ہی نہیں ہوئی، پھر ایک دن شوہر نے کہا سامان اٹھاؤ اور بازار چلو وہاں جاکر کچھ دکانوں پر کپڑے دیئے پھر کسی نے دوسری جگہ بتائی کہ وہاں جائیں ۔شہناز کا کہناہے کہ تعلیم کی کمی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی مگر حوصلہ نہیں  ہارا ،پھر سنا تھا کہ لوگ آن لائن اپنے کپڑےاور دیگر چیزیں بیچتے ہیں تو کوشش کی کہ بٹنوں والے موبائل کی بجائے کوئی تصویر بنانے والا موبائل لوں مگر رقم نہیں ہونے کی وجہ سے پریشانی ہوئی ،بہت مشکل سے پیسے اکٹھے کرکے موبائل فون لیا اور خان بوتیک کے نام سے آن لائن کپڑے اور باقی چیزیں کی فروخت کرنی شروع کردی، جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی تھیں مگر مجھے موبائل نہ تو ٹھیک سے استعمال کرنا آتا تھا اور نہ ہی مارکیٹنگ کا کچھ اتاپتا تھا ۔شہنازکہتی ہے کہ شوہر کے ساتھ اور محنت نے رنگ دکھایا اور ایک سال بعد کسی نے مشورہ دیا کہ ملتان میں  ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ممبر شپ ملنے پراسے دیگر خواتین کے ساتھ مختلف قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں ساتھ لے کر جائیں گےاور کاروبار کو منافع بخش بنانے کی تربیت بھی دیں گے، بس ممبر شپ لی اور گروپ میں شامل ہوگئی۔اس گروپ میں یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ کہاں کہاں نمائش لگنی ہے تو وہاں پہنچ جاتی تھی۔شہنازنے بتایاکہ اپنے کام کو منفرد اور جداگانہ بنانے کیلئے دستکاری کے ساتھ موتی کے کام میں الگ پہچان بنائی اور ایسی اشیاء تیار کیں ،جو بڑے گھروں کی خوبصورتی کو نمایاں کرتی تھیں۔ویمن چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ممبرشپ نے بہت فائدہ دیا میں جو خود کو ان پڑھ سمجھتی تھی آج نہ صرف اپنے خاندان کی معاشی حالت بہتر کیے ہیں بلکہ ای-کامرس کی وہ تربیت جو پڑھی لکھی خواتین بھی چھوڑ دیتی ہیں ،وہ مکمل کرکے اپنے کاروبار کو ترقی بھی دی ہے ۔اب یہ صورتحال  ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے خود آن لائن کام کرکے آرڈر لیتی ہوں جہاں ضرورت ہو شوہر کے ساتھ جاکر ڈلیوری دیتی ہوں ورنہ عموماً وہ بھی آن لائن ہوتی ہے۔

ویمن چیمبر آف کامرس کی ایگزیکٹوممبر فلزا ممتاز نے بتایا کہ اس وقت ویمن چیمبر آف کامرس ملتان  میں خواتین ممبران کی تعداد 342 ہے ،جن میں سے 50 ایسی خواتین ہیں جو آن لائن کاروبارسے وابستہ ہیں، ان میں  سے بیشتر ایسی خواتین ہیں جو پہلے گھروں میں بیٹھی تھیں اور کسی کاروباری یا صنعتکار گھرانے سےبھی تعلق نہیں رکھتی تھیں لیکن اپنے خاندان کا سہارا بننے اور خود کو معاشی طور پر مظبوط بنا کراپنی نئی نسل کے لئے ایک مثال بنی ہیں۔ اس حوالے سے چیمبر مزید خواتین کو جدید ٹیکنالوجی اور ای-مارکیٹنگ پر مختلف ٹریننگز کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے،تاکہ وہ گھر بیٹھے بآسانی اپنے کام کو فروغ دے سکیں۔انہی خواتین کے کام کوآگے بڑھا نے کے لئے ہر سال بلیوفیئر کا بھی انعقاد کیاجاتا ہے۔جس میں بہت سی معاشی و انتظامی مشکلات بھی درپیش رہتی ہیں،لیکن ان سب کو بھی خواتین مل کرحل کرتی ہیں۔

سابق صدر ویمن چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملتان کی سی ای او فیمیٹک سیرت فاطمہ نے راقم الحروف سے  بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ آن لائن بزنس میں زیادہ تر لوگ کورونا وائرس کی وبا کے دوران منتقل ہوئے۔ اس وبا کے دوران معاشی مشکلات، بے روزگاری بڑھنے اور کئی کاروبارختم ہونے کی وجہ سے لوگوں اور خواتین کی جانب سے گھروں میں کام شروع کرنے پر انہوں نے بھی جدید دنیا سے ہم آہنگ ہونے اور خواتین کی آن لائن کاروبار میں حوصلہ افزائی کے لئے 2020ء میں انہوں نے خود کئی آن لائن کورس کئے اور2021ء میں فیمیٹک کو رجسٹر کرایا کیونکہ آن لائن کاروبار میں آپ کی انویسٹمنٹ بہت کم ہوتی ہے جو خواتین کیلئے بہترین موقع ہے۔خصوصاًسوشل میڈیا مارکیٹنگ  نہایت آسان ہے۔آرڈر آنے پر آپ چیز ایک سے اٹھا کر دوسرے کو ڈیلیور کر دیتے ہیں ،دوسرا ایسی خواتین جنہیں گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے وہ گھر میں بیٹھ کر کما سکتی ہیں۔تاہم گھر میں بیٹھے ہوئے کام پر مکمل فوکس کرنا ایک چیلنچ ہوتا ہے ۔دوردراز کے علاقوں میں رسائی بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ کورئیر سروس وہاں موجود نہیں ہے،دوسرا ای- کامرس میں انٹر نیٹ کی رفتاربہترین چاہیئے ہوتی ہے جو ہمارے یہاں نہیں ہے۔سیرت فاطمہ نے بتایاکہ فیمیٹک کے پلیٹ فارم سے نوجوان بچیوں کو ای- کامرس کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے ،تاکہ آنے والے دنوں میں وہ معاشی طورپر مظبوط ہوکر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔

شہناز پروین حنیف  نے مزید بتایا کہ ٹیکنالوجی کا سوچ سمجھ کر اور مثبت استعمال خواتین کی زندگیوں کا رخ بدل دیتا ہے،وہ نہ صرف اپنا کاروبارچلاتی ہیں بلکہ غیر ملکی نمائشوں کیلئے اب اپلائی بھی خود کرتی ہے اور اپنے چیمبر کی ساتھیوں کے ساتھ سفر بھی کرتی ہیں،تاکہ زمانے کے بدلتے ڈھنگ دیکھ کر اپنے کام میں مزید بہتری لاسکیں۔ان نمائشوں میں اس کے کام کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند سالوں سے نہ صرف وہ پاکستان کی معیشت میں حصہ ڈال رہی ہے بلکہ اپنے جیسی ہنرمند اور باصلاحیت 20 مزید خواتین کے گھروں کی خوشحالی اور چولہا جلانے کا سبب بھی ہے کہ کبھی اسے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ یہ کام بھی کر رہی ہے۔اگر خواتین پر اعتماد کیا جائے تو وہ خاندانوں اور ملک کی قسمت بدل سکتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان خصوصاً جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ خطے میں یہ کم نظر آتا ہے۔مگر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ای-کامرس میں خواتین ہی  چھائی ہوئی ہوں گی۔

آن لائن کاروبار میں حصہ ڈالنے والی خواتین اور ان کے ساتھ پس پردہ موجود ہنرمند خواتین کی مشکلات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےشہنازپروین حنیف نے بتایاکہ کام میں اکثر مشکلات درپیش ہوتی ہیں کیونکہ کبھی ہنرمند خاتون پر شوہر پابندی لگا دیتے ہیں تو کبھی والدین اور سسرال والے ان کے کام میں رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں ،اس طرح کی دقت اکثر سامنے رہتی ہے کیونکہ ہمارے خطہ میں آج بھی خواتین کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا معیوب تصورکیاجاتا ہے۔گھر کے مرد چاہتے ہیں کہ عورتیں اپنی صلاحتیوں کا استعمال کرنے کی بجائے بس جو خود کما کر لائیں ،اسی پر گزارا کیا جائے ،یہ خواتین بچے پالیں ،ان کی خدمت کریں اور دو وقت کی روٹی کھائیں، زندگی بھر کیلئےبس یہی بہت ہے۔پھر میں ان کاریگر اور ہنر مند خواتین کو چھپ کرکام دیتی ہوں جو وہ اپنے گھروں میں بھی کرتی رہتی ہیں کیونکہ اب ہمارا کام بہت بڑھ گیا ہے اور کلائنٹ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ہم بھی معاشرے کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔اس کام میں اب میرا پورا خاندان ساتھ دے رہا ہے۔ ہینڈمیڈ   کشن،بیگز،موتی والے کلچ،ٹیبل میٹ،ٹشو کور اور آرائشی اشیاء کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں موبائل صارفین کی تعداد 19 کروڑ تک پہنچ گئی ہے جس میں 14 کروڑ مرد جبکہ خوتین صرف 5کروڑ ہیں۔ اسی طرح موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 11 کروڑ ہے جس میں 9 کروڑ کے قریب مرد اور دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد خواتین صارفین ہیں۔ پاکستان میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایکٹو سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سات کروڑ ہے تاہم فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر مردوں اور عورتوں کے درمیان 47 سے 78 فیصد فرق پایا جاتا ہے۔  پاکستان میں عورتوں کے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، تاہم چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں یہ رجحان آج بھی انتہائی کم ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ 20 لاکھ موبائل سمز خواتین کے بائیو میٹرک کی تصدیق کے ساتھ حاصل کی گئی ہیں۔ جن میں سے 50 فیصد یعنی دو کروڑ 60 لاکھ تھری-جی یا فور جی انٹرنیٹ بھی استعمال کر رہی ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں مردوں اور عورتوں کے درمیان موبائل انٹرنیٹ کے استعمال کا فرق 16 فیصد تک ہے۔ یعنی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں عورتوں کے مقابلے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مردوں کی تعداد 16 فیصد زائد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 38 فیصد ہے۔پاکستان میں چار بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ سے زائد بنتی ہے تاہم ایک صارف بیک وقت دو سے تین پلیٹ فارمز پر بھی موجود ہے۔ یوٹیوب کے سب سے زیادہ صارفین ہیں جن کی تعداد 7 کروڑ 17 لاکھ ہے۔ جن میں سے 72 فیصد مرد جبکہ 28 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 61 فیصد بنتا ہے۔ فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ 71 لاکھ ہے جن میں سے 77 فیصد مرد اور جبکہ 23 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 70 فیصد تک بتایا جاتا ہے۔ ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد ایک کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 82 فیصد مرد اور 18 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 78 فیصد بنتا ہے۔ انسٹا گرام پر صارفین کی تعداد میں سب سے کم فرق ہے جو کہ 47 فیصد ہے۔ انسٹا گرام کے پاکستانی صارفین کی تعداد ایک کروڑ 38 لاکھ ہے جس میں سے65 فیصد مرد اور 35 فیصد خواتین۔

موبائل انٹرنیٹ آنے سے دنیا بھر میں برانچ لیس بینکنگ کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور پاکستان میں بھی برانچ لیس بینکنگ میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن گزشتہ چار سال کے دوران موبائل کے ذریعے برانچ لیس بینکنگ کے حوالے سے مردوں اور عورتوں کے اکاونٹس میں فرق میں صرف 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چار سال پہلے کل چار کروڑ 60 لاکھ اکاؤنٹس تھے جن میں سے 3 کروڑ 60 لاکھ مردوں جبکہ عورتوں کے اکاؤنٹس ایک کروڑ تک تھے۔ اب یہ تعداد بڑھ کر 8 کروڑ 85 لاکھ ہو چکی ہے جن میں سے 6 کروڑ 37 لاکھ مردوں کے جبکہ دو کروڑ 48 لاکھ خواتین کےہیں۔

سائبر کرائم قوانین کےماہرایڈووکیٹ محمد ارسلان کے مطابق ملک میں قانون سازی کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں،بالخصوص سائبرجرائم نے خواتین کا جینا حرام کر رکھاہے۔آن لائن کاروبارکرنے والی خواتین کو بہت زیادہ تنگ کیاجاتاہے،انہیں آرڈر دے کر پھر وصول کرنے سے انکار کرکے پریشان کرنے کے ساتھ معاشی طور پر نقصان پہنچایاجاتاہےیا پھر غیر اخلاقی میسجز کیے جاتے ہیں،جس سے یہ خواتین پریشانی کاشکار رہتی ہیں،لیکن معاشرتی اور خاندانی دباؤکے باوجود آن لائن کام جاری رکھنے کے غرض سے وہ یہ شکایت بھی نہیں رکھتی ہیں اور مجرم شہہ پاتے ہیں،اگر خواتین قانونی کارروائی کرنے کا ٹھان کر آجائیں توطویل عدالتی کارروائی اورقانونی موشگافیوں سےگھبرا کر اپنی شکایات ہی واپس لے لیتی ہیں۔

سپیشل عدالت سنٹرل (ملتان)جس کا دائرہ کارتقریباًجنوبی پنجاب ہے اور ایف آئی اے میں درج مقدمات کی سماعت بھی اسی عدالت میں کی جاتی ہےکے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 6ماہ میں خواتین کی جانب سے سائبر جرائم کی 130 شکایات درج کرائی گئیں ، جن میں سے 57 مقدمات کے چالان مکمل کرکے سپیشل عدالت بھجوائے گئےجہاں یہ مقدمات ابتدائی سطح پر ہیں،اس کے علاوہ پہلے سے 387 مقدمات بھی زیرالتواء ہیں ،جو کم و بیش ایک سے 3 سال پرانے ہیں۔

آن لائن بیکری چلانے والی خاتون سارہ دانش کے مطابق اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ  کوئی کام کرے گی کیونکہ ماسٹرز کرنے کے بعد شادی ہوگئی اور سسرال و بچوں کے جھمیلوں میں دنیا کا ہوش ہی نہیں تھا۔بعد ازاں میرے شوہر جو فارما سوٹیکل شعبہ میں کام کرتے تھے ،وہ بیروزگار ہوئے تو اپنی دکان کھول لی، تاہم انہی دنوں میں کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا،اب دکان کا کرایہ تو دینا ہی تھا۔ سب سے پہلے شوق میں ایک کیک بنایا اور ایک فوڈ گروپ میں لگا دیا۔ جس پر میرا شوہر بھی ناراض ہوا کہ اپنا موبائل نمبر پبلک کیوں کیا، لیکن  جب آرڈر ملنے شروع ہوئے تو اس نے بھی ساتھ دیا ۔تاہم اپنے ہی رشتوں سےپہلے تنقید شروع ہو گئی اور کام بند کرنے کے لئے سسرالی ومیکے کے رشتوں کو مجبورکیا گیا لیکن اس نے کام بندکرنے سے انکار کیا جبکہ شوہر بھی اس کی لگن اور محنت دیکھ کر کامیاب ہونے کے امکان کے پیش نظرخاموش رہا،پر جب یہ سننے کو ملتا تھا کہ بیچاری کام کر رہی، حالات کی خرابی نے مجبور کردیا ہے تو دکھ بھی ہوتا ہے۔عورت اگر مشکل میں شوہر اور گھر کا سہارا بنے تو معیوب نہیں ہے ۔ایسی حوصلہ شکنی ذہنی طور پر پریشان رکھتی ہے۔آج اس کے بنائے ہوئے کیک،پیسڑیز اور دیگر اشیاء کی ڈیمانڈ اس قدر ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور ہنرمند خواتین کا اضافہ کرنے کا سوچ رہی ہیں۔

آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن(اپواء)کی جنرل سیکرٹری نازیہ خان کاکہنا ہے کہ دیہاتوں میں موجود ہنرمند خواتین آن لائن کاروبارکے منافع کی اصل حقدار ہیں،جن کی کمائی سے خریدے گئے اینڈرائیڈ موبائل فون گھر کے مردوں کو تو رکھنے کی اجازت ہے لیکن ان خواتین کی انٹرنیٹ تک رسائی گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے یہ ہنرمند خواتین اپنے حق سے محروم رہتی ہیں اور انہیں کمائی کا اصل حصہ نہیں ملتا ہےاور نہ ہی ان کو ان کی محنت کاپورا صلہ ملتاہے ۔ اس لئے ایسی خواتین کے لئے ان کی تنظیم کام کررہی ہے اور تربیت کے ساتھ مواقع بھی فراہم کررہی ہے۔

اگر پاکستان جیسے ترقی پزیر اور خواتین کے لئے مشکل حالات رکھنے والے ملک میں شہناز کی طرح خواتین حوصلے اور جرآت کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے ساتھ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں تو سینکڑوں ایسی خواتین مل کر معیشت کی بہتری کے لئے مثال بننے کو تیار ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی خواتین کو معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کے لئے مثال بنایا جائے۔ جس کے لئے انہیں آسان اقساط پر بلاسود قرضے فراہم کئے جائیں اور انہیں کاروبار کرنے کے لئے تربیت دینے کے ساتھ بیرون ممالک ان کی بنائی اشیاء فروخت کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں،جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن بنائی جائے تو شاید اس ملک کی ہر خاتون جو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور رکھتی ہے، صرف تربیت اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کےمواقع فراہم ہونے سے نہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی بلکہ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار بھی نبھا سکتی ہے۔

July 4, 2023 - Comments Off on خیبرپختونخوا کی خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمانے لگیں

خیبرپختونخوا کی خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمانے لگیں

خالدہ نیاز

'جس جگہ میری شادی ہوئی ہے یہاں نوکری کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف پرائیویٹ سکولز ہیں لیکن اس میں اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے تک تنخواہ ملتی ہے اور اتنے پیسوں میں آجکل گزارہ نہیں ہوتا اس وجہ سے میں نے انٹرنیٹ کی مدد سے آن لائن کام کرنا شروع کردیا اور آج میں آن لائن پلیٹ فارمز سے اچھے خاصے پیسے کماتی ہوں'

یہ کہنا ہے 34 سالہ ثمر سید کا جن کی 8 سال قبل خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں شادی ہوئی۔ ثمر سید کا ایک بیٹا بھی ہے اور آجکل وہ آن لائن پلیٹ فارمز اپ ورک فائیور کے ذریعے ورچول اسسٹنٹ کے حیثیت سے کام کررہی ہیں۔

ثمر سید کا کہنا ہے کہ شروع میں انکا اس میں کوئی تجربہ نہیں تھا تاہم وہ چھوٹے موٹے کام کرلیتی تھی اور جلد ہی انکو اس بات کا احساس ہوگیا کہ پاکستان میں ایک لیکچرار جتنا کماتا ہے، ورچول اسسٹنٹ اس سے کہیں زیادہ آن لائن کام کرکے کما سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انکو تجربہ حاصل ہوا اور جن پلیٹ فارمز پہ وہ کام کررہی ہیں اس میں انکا ایک اچھا پروفائل بن گیا ہے۔

ایک مہینے میں قریباً 3 لاکھ تک کمائی کی ہے

انہوں نے کہا کہ انکا زیادہ کام اپ ورک پر موجود ہے اور انکو زیادہ کام بھی اسی پلیٹ فارم کے ذریعے ملا ہے۔ ثمر سید نے بتایا کہ اپ ورک کے ذریعے انہوں نے ایک مہینے میں قریباً 3 لاکھ تک کمائی کی ہے جبکہ اس پر کام کرنے سے پہلے انکے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک سوال کے جواب میں ثمر سید نے کہا کہ فری لانسنگ سے پہلے ان کے لیے معاشی مسائل بہت زیادہ تھے کیونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور انکے پاس کوئی کام نہیں تھا تو پیسے کہاں سے آتے جبکہ انکا کوئی بھائی نہیں ہے تو والدین کی ذمہ داری بھی ان پر اور انکی دوسری بہن پر ہے لیکن انکی دوسری بہن کی تنخواہ بھی کم تھی۔

ثمر سید کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اپ ورک کے ذریعے اتنی کمائی کرلی کہ انہوں نے نہ صرف اپنے لیے گاڑی لی ہے بلکہ ایک پلاٹ بھی لے لیا ہے اور انکے ساتھ انکی بہن نے بھی فری لانسنگ شروع کردی ہے۔

فری لانسنگ اور خواتین کی معاشی خودمختاری

ثمر سید نے کہا کہ فری لانسنگ کے ذریعے انکو معاشی خودمختاری مل گئی ہے اور انکے کافی سارے معاشی مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ انکو احساس ہوا کہ گرافک ڈیزائننگ بھی سیکھ لینی چاہئے لہذا اب وہ یہ بھی سیکھ رہی ہیں تاکہ انکے پاس زیادہ سے زیادہ سکلز ہو اور زیادہ کمائی کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گرافک ڈیزائننگ ایک گلوبل ہنر ہے اگر کسی کے پاس یہ ہنر ہے تو ان کو آسانی سے دنیا میں کہیں بھی نوکری مل سکتی ہے۔

ثمر سید اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہماری لڑکیوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعلق سکلز سیکھنے چاہیئیں کیونکہ یہ انکے لیے بہت ضروری ہے اور زندگی میں انکے بہت کام آسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے پھر اس کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی یا کسی اور وجہ سے وہ نوکری پہ نہیں جاسکتی تو ایسے میں کمپیوٹر سے متعلق سکلز اور تربیت کے ذریعے وہ گھر بیٹھے لاکھوں کماسکتی ہیں۔

آن لائن کام کرنے کے لیے کونسے سکلز ضروری ہیں ؟

ثمر سید کا کہنا ہے کہ جو بھی لڑکیاں آن لائن کام کرنا چاہتی ہیں ان کو مائیکروسافٹ ورڈ، ایکسل، ریرسرچ سکلز اور کمیونکیشن سکلز آنے چاہئے اور انکی انگلش بھی اچھی ہونی چاہیے کیونکہ آن لائن میں زیادہ تر باہر ممالک کے کلائنٹس ہوتے ہیں تو ایسے میں انگلش ضروری ہوجاتی ہے۔

ثمر سید کا کہنا ہے کہ آن لائن کام کے لیے سٹیبل انٹرنیٹ کا ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ اگر انٹرنیٹ صحیح نہیں ہوگا تو ایسے میں کام وقت پر نہیں ہوپائے گا اور کام کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو مشکلات درپیش ہونگی۔

ثمر سید کی طرح نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ بھی آن لائن کام کرتی ہیں اور پیسے کماتی ہیں۔ لیلیٰ نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں بی-ایس کیا ہے۔ لیلیٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی سے ہی فری لانسنگ شروع کردی تھی، فیس بک پہ انکو کلائنٹس ملتے تھے جن کے لیے وہ گرافک ڈیزائننگ کا کام کرتی تھی۔ بی-ایس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پشاور کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں گرافک ڈیزائنر کے حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور وہاں ایمازون بھی سیکھنے لگیں۔ لیلیٰ کہتی ہیں کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کے لیے بھی گرافک ڈیزائننگ کا کام کیا کرتی تھی۔

  لیلیٰ کا بیس ہزار میں گزارہ مشکل ہوگیا تھا

ان کا کہنا ہے کہ کچھ ہی مہینوں میں انہوں نے ایمازون کا کام سیکھ لیا تو انہوں نے ورچول اسسٹنٹ کے طورپر بھی کام کرنا شروع کیا۔ 'جہاں میں کام کررہی تھی وہاں مجھے بیس ہزار روپے ماہانہ مل رہے تھے جس میں میرا گزارہ کرنا مشکل ہوگیا تھا تو وجہ سے میں نے وہ نوکری چھوڑ دی کیونکہ میں نے سوچا جتنا میں مہینے میں کماتی ہوں اس سے زیادہ تو گھر بیٹھے فری لانسنگ میں کمالوں گی' لیلیٰ نے بتایا-

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے گھر سے آن لائن کام کرنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے مجھے ایک کلائنٹ ملا جس کو میں نے ایمازون سیکھایا۔ اس کے بعد میں نے اپ ورک، فائیور اور باقی آن لائن پلیٹ فارمز پہ اکاونٹ بنایا جس کے بعد مجھے اچھی جگہ آن لائن نوکری مل گئی اب میں مہینے میں اچھے خاصے پیسے کمالیتی ہوں جس سے گھر کی ضروریات پوری ہوجاتی ہے اور کام کا بوجھ بھی اتنا نہیں ہوتا۔

لیلیٰ کا کہنا ہے کہ آن لائن اکاونٹ بنانے سے لوگ کام دینا شروع کردیتے ہیں پھر مقررہ وقت میں انکو وہ کام دینا ہوتا ہے جب کام مکمل ہوجائے تو لوگ پیمنٹ کے ساتھ ریویو بھی دیتے ہیں اور اس ریویو کو دیکھ کے اور لوگ بھی کام دینا شروع کردیتے ہیں اور اس طرح ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ آن لائن طریقے سے لڑکیاں گھر بیٹھے زیادہ پیسے کماسکتی ہیں بنسبت کسی دفتر میں کام کرنے کے۔

ایماوزن کہاں سے سیکھ سکتے ہیں

لیلیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایمازون سیکھنے کے خواہش مند افراد کو چاہئے کہ وہ یوٹیوب پرجاکر بیسکس سیکھے اس کے بعد اینیبلرز، ایکسٹریم کاماز، بی ونرز اور باقی ایسے ادارے ہیں جہاں لوگ جاکر آسانی سے ایمازون سیکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد اس سے کما بھی سکتے ہیں۔

لیلیٰ کہتی ہیں کہ ایمازون میں پریکٹیکل کام بھی ضروری ہوتا ہے جو کسی ادارے میں جاکر بندہ سیکھ سکتا ہے۔ لیلیٰ کے مطابق ایماوزن میں پہلے پروڈکٹ سرچنگ کے حوالے سے سیکھایا جاتا ہے اس کے بعد سورسنگ کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے ، اس کے بعد رینکنگ کا نمبر آجاتا ہے اور پھر لانچنگ کرتے ہیں۔

لیلیٰ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے لیے ایمازون میں بہت پوٹینشل موجود ہے، اگر یہ سیکھ جائیں تو انکو صرف لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھر میں بیٹھ کر اچھا خاصہ کماسکتی ہیں۔

نمیرہ حیات ٹوڈی اینیمیشن ماسٹر

پشاور کی نمیرہ حیات بھی ان چند لڑکیوں میں سے ایک ہے جو آن لائن ذریعے سے پیسے کما رہی ہیں۔ نمیرہ پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم پڑھ رہی ہیں اور انکی عمر 23 سال ہے۔ نمیرہ پچھلے 4 سال سے فائیور پہ کام کررہی ہیں۔ نمیرہ ٹو ڈی اینیمیشن ویڈیوز بناتی ہیں جس طرح کہ کارٹونز، پروموشنل ویڈیوز وغیرہ۔

نمیرہ کا کہنا ہے انکو فائیور پہ انکے سکل کے حساب سے آڈر ملتے ہیں اور پھر وہ مقررہ وقت میں کلائنٹ کو کام کرکے دیتی ہیں۔

نمیرہ کا کہنا ہے کہ انکو گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ آڈر کے حساب سے کام ملتا ہے مثال کے طورپر ایک آرڈر کے لیے انکو ایک ہفتہ ملتا ہے تو دوسرے کے لیے ایک مہینہ اور اس طرح انکو پیسے بھی آرڈر کے حساب سے ملتے ہیں۔

لیلیٰ اور ثمر کی طرح نمیرہ بھی فائیور کے ذریعے اچھے پیسے کما رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی نیا فائیور کو جوائن کرتا ہے تو یکدم اس کو نہ تو پیسے ملیں گے نہ آرڈر اس کو شروع میں وقت دینا پڑے گا اور محنت کرنی ہوگی اس کے بعد اس کو کام ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ نمیرہ کا کہنا ہے کہ جب ایک مرتبہ پروفائل بن جاتا ہے تو ایک بندہ مہینے میں اسی ہزار یا اس سے زیادہ بھی کماسکتا ہے۔

ایک منٹ ویڈیو کے ساٹھ ڈالرز ملتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ انکو ایک منٹ ویڈیو کے ساٹھ ڈالرز ملتے ہیں لیکن یہ سکل پہ منحصر کرتا ہے جس کی جتنی سکلز ہونگی اس حساب وہ وہ کماسکتا ہے۔ نمیرہ کا کہنا ہے کہ یہ لڑکیوں کے لیے ایک محفوظ اور بہتر آپشن ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے باہر کا ماحول محفوظ نہیں تصور کیا جاتا، بعض خاندان بھی لڑکیوں کو باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو یہ ان خواتین کے لیے بہت ہی زبردست آپشن ہے کہ وہ گھر بیٹھے آن لائن ذریعے سے پیسے کمائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آن لائن کام کرنے سے لڑکیاں گھر والوں کو بھی وقت دے سکتی ہیں اور کام کو بھی وقت دے سکتی ہیں۔

انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے نمیرہ کو مشکلات کا سامنا رہا

نمیرہ کہتی ہیں پچھلے دنوں میں جب ملک میں انٹرنیٹ بند ہوگیا تھا تو انکو بہت مشکلات درپیش آئی کیونکہ انکو مقررہ وقت میں کام ڈیلیور کرنا ہوتا ہے لیکن جب انٹرنیٹ نہیں تھا تو کام کیسے کرتی۔ ان کا کہنا ہے کہ جتنے بھی لوگ آن لائن  کام کرتے ہیں انکو اس انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے بہت دقت اٹھانا پڑی۔

نمیرہ کا کہنا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے ان سمیت فائیور پر کام کرنے والی ساتھیوں کے زیادہ تر آڈرز کینسل ہوگئے کیونکہ مقررہ وقت پہ کام نہ کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ کام کردیا تھا لیکن اس کو ڈیلیور نہ کرسکے ایک تو انکی محنت ضائع ہوگئی، ریویوز بھی خراب ہوگئے اور پیسے بھی گئے۔

انٹرنیٹ کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نمیرہ نے بتایا کہ اگر اسی طرح بار بار انٹرنیٹ بند ہوتا رہا تو فری لانسرز کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔ نمیرہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ بندش مشکلات کے باوجود آجکل کے دور میں فری لانسنگ ہی بہترین آپشن ہے۔

آن لائن کام کرنا بہت آسان ہوچکا ہے

پشاور سے تعلق رکھنے والے سوفٹ ویئر انجنیئر اور ویب ڈیویلپر صوفی علی کا کہنا ہے کہ آجکل کے دور میں آن لائن کام کرنا بہت آسان ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نے ہمیں سکھادیا ہے کہ ہم گھر سے آن لائن کس طرح کام کرسکتے ہیں، کرونا وائرس نے دنیا کو سوچنے کا ایک نیا نظریہ دے دیا ہے۔ صوفی علی سمجھتے ہیں کہ آن لائن کام کرنا اگر ایک طرف آسان ہے تو دوسری جانب اس کے فائدے بھی ہے۔ مثال کے طور پر ایمپلائر کو ایک مکمل سیٹ اپ کی ضرورت نہیں ہوگی، فرنیچر اور بجلی کا خرچہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ کام کرنے والوں کو بھی فائدہ ہے ایک تو انکو ٹرانسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی دوسرا وہ گھر بیٹھے کسی بھی وقت کام کرسکتے ہیں اور نیند بھی پوری سکتے ہیں، ساتھ میں گھر کا کام بھی کرسکتے ہیں۔

صوفی علی کا کہنا ہے کہ آن لائن کام نے خواتین کے لیے پیسے کمانا بہت آسان کردیا ہے کیونکہ اس میں صرف ایک لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس کچھ سکلز سیکھنے کے بعد خواتین اس قابل ہوجاتی ہیں کہ وہ اچھے خاصے پیسے کمانے لگتی ہیں۔

صوفی علی کہتے ہیں کہ اگر آن لائن تین چار کلائنٹس مل جائیں تو پھر اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی انہی کلائنٹس سے اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنیوالا دور آن لائن کام کا ہے اور اس میں مواقعے بھی زیادہ ہیں لہذا خواتین کو سکلز حاصل کر کے اس جانب توجہ دینی چاہئے

July 4, 2023 - Comments Off on Girl Boss? Think twice The Insidious Inner Workings of the Gig Economy and its Implications for women

Girl Boss? Think twice The Insidious Inner Workings of the Gig Economy and its Implications for women

Sania Saeed

“In capitalist society, spare time is acquired for one class by converting the whole life-time of the masses into labor-time. The bourgeoise cannot exist without constantly revolutionizing the instruments of production, and thereby the relations of productions and with them the whole relations of society.’’ - Karl Marx,

I read Karl Marx’s words about 18th century Europe and cannot help but feel utter dismay for how much they ring true today. (1) The gig economy presents itself as a benevolent alternative to traditional labor systems, with employees deciding when and where to work. In reality, it is a profit maximizing system that allows for the exploitation of ‘workers’ whilst allowing a few venture capitalists in San Franciso to soak up profits by ‘using’ resources that they do not own. In this article I aim to uncover just some of the reasons why the gig economy mirrors classic patriarchal and capitalist ideals and therefore is as much of threat if not more, as traditional labor systems, to women.

An inside look into how platforms operate

Marx claimed that if all services in capitalist systems are sold at prices that reflect their actual value, that cannot leave capitalists with profits, unless they pay their workers less than the actual value of their labor.(2) Today the OECD asks a similar question: Why does Uber dictate what drivers can and cannot do and  what ‘wage’ they will be paid when they are not employees but ‘independent contractors’?(3)

Platforms ‘disintermediate’ traditional markets by removing the need for middlemen. (4). Uber for example, eliminates the need for taxi cab companies and gathers all ride takers and drivers using its app and thus reduces the frictions found in traditional markets that drivers and customers must face. Take for example, waiting by the roadside for a taxi that a customer cannot be sure will ever arrive.  Uber instead claims to facilitate interactions by becoming the sole intermediary. Waiting times for customers are reduced, information for drivers and ride takers is displayed on app, thereby reducing uncertainty for both parties. However, imagine a sole intermediary with a profit maximizing aim. It would be impossible to ask a self-governing, sole intermediary with a profit maximizing aim to not engage in opportunistic behavior. Free markets will always act in self-interest and this will always result in market failure. Uber therefore, mimics a monopoly engaged in many anti-trust activities including leaving taxi cab companies out of business and leaving riders with no choice but to work for Uber if they want to earn a living driving. (5)

There are several other reasons why platforms are potentially much more dangerous than traditional companies. Let’s take a traditional employee that must clock in at 9:00 am every day with a company card that checks what time they came in for work. Their job description maybe unclear and management may not provide them with the level of goal clarity required to be able to do their job with the high motivation because tasks are unclear and discretion is low. These are all legitimate problems in labor systems but the gig economy exacerbates them and allows for employee micromanagement traditional companies can only dream of. Companies like Uber can make links through drivers' behaviors online and their likely real-life reactions, thus being able to make very accurate predictions as to what actions will cause drivers to do what the company pleases. Algorithms help generate such social data but providing companies with a large sample size of user data which keeps updating and ‘learning’ how to more accurately capture and make sense of users' actions online (6), till optimum behavior is achieved. (7)

A New York times article (8) outlines just some of the psychoanalytical techniques Uber uses to alter and control employee behavior. It uses nudging behaviors such as showing drivers the next available ride as soon as they drop off a customer or telling them ‘’they are only 5 dollars away!’’ from reaching their monthly earning goals. These mimic sophisticated techniques used by casinos and health insurance companies. (9) Take for example, a technique backed by behavioral economists known as ‘loss aversion’ where people tend to weigh losses more than gains, so drivers are shown how many rides they have missed rather than the number of rides they have accepted. One particularly disturbing method is the deliberate ‘’gamification’’ of the platform by platform creators, (10) that makes taking endless rides ‘’addictive.’’ Drivers get badges for the amounts of rides they take and are nudged to be ‘’available all the time’’ by automatic queuing. This technique is similar to one deployed by Netflix which will line up shows that a customer is likely to watch after they finish watching one, thereby encouraging binge watching. (11)

The history of labor relations and the science behind Division of Labour

‘’In a society based upon the purchase and sale of Labor power, dividing the craft cheapens its individual parts, this means that the labor power capable of performing the process may be purchased more cheaply as dissociated elements than as a capacity integrated in a single worker.’’(Harry Braverman,Labour and Monopoly Capital, The Degradation of Work in the 20th Century,1974)

Consider the above words written by Harry Braverman, a prominent Marxist political eonomist.They can be explained using the following example. A traditional labor firm that decides to hire a content writer will first have to sign a legal document to retain an employee. This employee will require lunch breaks, paid leaves, training and opportunities for advancement otherwise the employer may risk the employee leaving to seek a better work opportunity. The employee may otherwise decide to stay and engage in extra-contractual discretion by say, deliberately ‘going slow’ or working less during workhours. These are the inevitable, potential costs of hiring labor and give labor the bargaining power that creates a balance of power between the employee and employer which does not exist in the gig economy. Work in traditional organizations thus revolves around an employer and employee not only aiming to fulfill the terms of a legal contract but also maintaining each other’s ‘psychological contract'; the unsaid rules of reciprocity that say ‘’you do this for me and I’ll do this for in the future.’’(12) It is in both parties interest that the contract remains intact.

Now consider an offshore firm that decides to hire a lot of content writers from Upwork. The work that must be performed in the company has been broken up into tasks where the ‘employees’ now receive nothing but a below minimum wage per task. There is no future job security and workers have been ‘deskilled’ so that they lose their bargaining power because they are easily replaceable. Employers have historically used the ‘division of labor’ to gain an upper hand over workers and this phenomenon becomes only the more nefarious in the gig economy as the supply of workers is no longer confined to geographical boundaries leaving employers with more power than ever before. (13)

As I scour the web looking for freelancers I can interview, I notice numerous groups on Facebook such as Upwork for Freelancers, where Upwork users from all around the world ask each other for advice on issues that Upwork Support has failed to help them with. Some ask for help in dealing with scammers or dealing with clients that find ways to get work done and then refuse to pay. Most users merely vent about clients they can do nothing about but merely hope to help other freelancers avoid them. Fozia Sherazi, one Upwork freelancer, tells me about one conniving client who paid her for a month to make himself appear credible and then refused to pay anymore despite a contract for months of work. I ask her what Upwork did to help her. ‘’In such cases, Upwork doesn’t do a thing, I wrote thirty articles for him and they are still up on his website.’’

Fozia tells me how Upwork is really her only option if she wants to be able to afford living in a major city. ‘’I was spending more than I was earning at my regular job before I decided to try freelancing.It wasn’t easy and it took me almost a month and a half to secure my first client on Upwork after trying other platforms.’’ When I ask her if working on Upwork is more or less stressful than a regular job, she replies: ‘’Well with Upwork there’s always the risk of every client being your last.''

One user poses a question in the group Upwork for Freelancers. ‘’Is it a good decision to leave your full-time job and focus on just freelancing?’’.Others share their thoughts: ‘’I could never, the income is sporadic and some months I can only rely on my fulltime job’’. ‘’As long as you wake up with the mindset of earning zero dollars...’’ chimes another. Some of the comments are truly concerning and shed light on the job insecurity that users face. ‘’Upwork deleted my top-rated account and I lost all my savings just because a client hired me with a stolen credit card, there was no way I could have known about his card being stolen.''

What the Gig economy Means for Women

The platform economy reinforces traditional stereotypes and attitudes that hinder women in traditional workplaces, with additional limitations that include not having access to a trade union membership or an H.R department that could resolve issues of discrimination. According to deficient labor laws ‘contractors’ do not even have the right to anti-discrimination protection because they are not technically ‘employees’. (14)

Attitudes around gender have a cascading effect on women's work lives.Class,gender and education differences intersect to strengthen the divide between men and women/gender non binary folk. As an example, women with secondary education are six times more likely to use the internet than women with a primary level education. (15)

Cultural beliefs and societal conditioning mean women are less likely to even have access to the internet or have the necessary skills to operate technological devices. (16). Pakistani women are 38 percent less likely to have a smartphone for example than Pakistani men while only 48 percent of women use mobile internet. (25)

Irum from Chistian Tehsil is 19, working in Lahore as a housekeeper to earn an income to help her parents. ’’Who doesn’t want a smartphone? She looks at me like I have asked her a very silly question. ‘’Everyone wants one, but my family is poor, and I could buy one but I want to save the money’’. She tells me however that her brothers all have smartphones (for recreational not business purposes) whereas she has a basic handset and only knows how to make calls and receive them. All the housekeepers I speak to express sentiments of technology being a ‘’buri cheez aurtoin kay liye’’.(‘’Unsuitable thing for women’’). These unsurprisingly, happen to be thoughts conveyed to them by the male members of their families.

Ruksana Aslam is a Careem driver with a two- time performance award from Careem. She has done countless interviews lauding her as a single mother who has taken up multiple jobs to support her family but none of the interviews really focus on how difficult the job can be or how drivers or ‘’captains’’ are left at the mercy of the company to treat them however it wishes.

Technological advancements do not operate in a vacuum and therefore cannot help women whilst surrounding culture, class and education differences hold them back. This is because even women who have access to the internet will find that the traditional conditions of the labor markets haunt them online as well. The platform economy is thus, not ‘gender agnostic’(17). Women delivery riders for example, must suffer from a gender pay gap by not being able to work at the most profitable times because these are usually weekends or nightshifts when they cannot risk their safety or must carry out duties at home as primary caretakers. (18)

Women must also bear the brunt of ‘’The Motherhood Penalty’’ in the gig economy. This can be illustrated by the fact that even with men working from home during the pandemic, the responsibility of care work fell disproportionately on women.(20).One gig worker in a Wired Article(21,) shares how she is met with apathy when clients accidently learn that she is a  mother, she is automatically assumed to be ‘’unprofessional’’ and is seen as a ‘’distracted’’ worker.

The gig economy leaves women to tackle with workplace harassment practically all by themselves. An article by Wired Magazine(21) shares the account of a female designer from New York who shares that a client asked her for an impromptu zoom meeting (‘’Just throw on a shirt and a smile’’) and upon reporting him there was no clear investigation and instead her complaint was outsourced to other Upwork users using a chatbot system.

Rukhsana tells me how harrowing the harassment she faces is. ‘’Customers will ask for ‘’personal pickups’’ or suggestively ask if I can pick them up at late hours where I then have to remind them that I do not offer any services other than driving. Even if I park my car somewhere men will come to me and leave their cards asking when I can meet up with them.’’

The gig economy further dehumanizes the workforce by destroying work life balance and calling it ‘hustle culture'. Workers work in a vacuum where there is little to no interaction with fellow employees and no sense of a divide between the working hours and the end of a work day. (23). This is particularly more dangerous for women as the lines between work and leisure blur completely. Ayesha* tells me about how clients on Upwork will expect availability at all times ‘’even if the working hours have been decided beforehand through a contract.’’

Consider the following sentiments presented by a group of members of British Women’s Liberation Workshop in 1970 and their eerie similarity to the sentiments many Pakistani women might admit to feeling today:

‘’Ironically, housework is often seen as being self-determined labor- ‘’your time is your own’’. In fact, in order to keep up, in order to be ‘’a good housewife’’, one has to work to a predetermined routine. The freedom of the housewife is in fact the denial of her right to do a job -even the division work/ place of work, leisure / home does not apply to the housewife: her place of work is also the place of leisure and further it is her work which provides the basis for other people’s leisure. Being literally house-bound, afraid of leaving the house and being seen is a typical woman’s syndrome. Developments and technology on their own cannot change women’s position in the home.’’ (The Body Politic, Women's Liberation in Britain 1969-1972)(24)

Women, especially those living in an increasingly regressive culture like Pakistan's, the ‘earn easily from home!’ promise just reinforces the patriarchal ideas of  ‘chadar and chaar diwari’(veil and four walls),where womens’ rightful place is the home and stepping outside is termed as ‘immoral’’.It destroys the line between the domestic labor carried out at home and encourages women to undertake even more ‘invisible’ work, one where they do not exist to their employer. Instead of women being allowed to work outside the home,they find now that the home, work and ‘third place’ dissipate into each other, under the guise of ‘’convenience’’.One Pakistani Facebook user on The Facebook group Upwork for Freelancers pleads with the admin (a Top earning freelancer on Upwork that manages the group) to help her get her account back.’’My family will not let me work outside the house, please help me get my account back, it's my only means of getting an income.”

Rukhsana tells me ‘’We operate in a heavily male dominated society where customers will feel entitled to ask me why I am ‘allowed’ to leave the house or don’t I have a husband who can earn for me? People also seem to have an ego problem with the way they treat us,they think if they have bought a ride,they have bought the driver as well.’’

I ask Rukhsana how Careem helps female drivers in dealing with issues like these. ‘’Careem has been a great support to us female drivers, we had a helpline exclusively for females and could call it for any issues we faced on the road. Once Uber acquired Careem (24) everything seemed to change. Careem slashed our female only packages and changed its policies so that now only women who have their own cars can drive, which means that many female drivers are now unemployed. The high prices of petrol and the new taxes mean that driving has now become impossible for many. Careem has taken away our privileges and now treats us like there are no differences between our circumstances and those of male drivers,it’s all over for us female drivers now.’’

The advertisements on my Facebook and Instagram pages keep reminding me that if I can just learn the skill of marketing myself in a highly saturated freelancing market, I too can earn easily from home whilst having a ‘laptop lifestyle’ and ‘’be my own boss’’.Such heady promises introduce a host of problems. They allow for potential fraudulent third parties to sell their training programs in a country with bare minimum legal protections. Most of all they make light of a crumbling economic system where local jobs shrink in number and the ever-growing young population finds itself facing a reality where the difference between skilled and unskilled labor shrinks with every passing day.

Footnotes
1:Marx and Engels,The Communist Manifesto,1848

2: (Capital ,Marx,1867)

3: (Monopsony and the Business Model of Gig Economy Platforms by Marshall Steinbaum, OECD)

4: (Platform Revolution,2016)

5: (Monopsony and the Business Model of Gig Economy Platforms by Marshall Steinbaum, OECD)

6:(Big Data Is Not a Monolith,2016)

7: (How Uber Uses Psychological Tricks to Push It’s Drivers’ Buttons, Jon Huang, NYTimes).

8: (How Uber Uses Psychological Tricks to Push It’s Drivers’ Buttons, Jon Huang, NYTimes).

9: (Kahneman and tversky,1979)

10: (Uber worked and Underpaid, How Workers Are Disrupting the Digital Economy)

11: (How Uber Uses Psychological Tricks to Push It’s Drivers’ Buttons, Jon Huang, NYTimes)

12: (Psychological and Implied Contracts in Organisations,Denise Rousseu,1984)

13: (Be Your Own Boss? Long Term Labor Trends and The Rise of Uber’’,Timothy Minchin,Australiasian Journal of American Studies)

14: (Be Your Own Boss? Long term Labour Trends and the Rise of Uber’’,Timothy Minchin,Austrailisan Journal of American Studies)

15: World Wide Web Foundation, Women’s Rights Online, Translating Access into Empowerment

16: (The digital divide: the special case of gender, J. Cooper,2006)

17: (Focus on Labour Exploitation,2021,The gig is up: Participatory research with couriers in the UK app-based delivery sector)

18: European Institute for Gender Equality, Gender inequalities in care and consequences for the labor market

19: (European Institute for Gender Equality, Gender inequalities in care and consequences for the labor market)

20: Global Gender Gap Report,2022, World Economic Forum

21: The Gig Economy is Much Worse For Women, Wired.

22: World Economic Forum, Global Gender Gap Report,2022

23: Dehumanization Is a Feature of Gig Work, Not a Bug(by Eric Anicich,HBR

24: https://www.dawn.com/news/1472134
25: Women & Mobile: A Global Opportunity A study on the mobile phone gender gap in low and middle-income countries

P1: ‘’Shrew’’ Magazine Volume 3 No 2

P2: ‘’Socialist Woman:National Paper of the Socialist Woman Groups” Summer 1972 (https://www.marxists.org/history/etol/document/britain/socialist-women/socialist-woman-summer-1972.pdf)

*Name has been changed on request.

July 4, 2023 - Comments Off on For women in the gig economy: internet shutdowns spell enduring consequences

For women in the gig economy: internet shutdowns spell enduring consequences

Wasfiya Sheikh

37-year-old Karachi-based stay-at-home mom, Sara Shahzad, earns a living by delivering home-cooked meals via a popular food delivery app. Her income gives her a degree of financial independence – but when Pakistan plunged into a nationwide internet blackout last month, she was caught off guard. Unable to fulfil her orders for the day, Sara was left with no choice but to discard whatever she had prepared – food and ingredients amounting to 7000 rupees.

In early May, following the arrest of former Prime Minister Imran Khan, Pakistan experienced an unprecedented internet shutdown that lasted over three days affecting 125 million people. Even after services were restored, the lingering effects remained, with severely limited bandwidth hindering businesses across the country.

In the current age of rapid digitization, the internet has emerged as a powerful platform that facilitates networking and creates economic transformation. However, it can also be employed as a tool for censorship and control by both authoritarian and democratic governments. This is not a new strategy, as demonstrated by an example from 11 years ago when the anti-government protests in Cairo gained global attention and the Egyptian government deprived its people of internet connectivity.  Similarly, in Pakistan, the recent internet shutdowns and rock blockades were implemented as a means to deter protests and manage clashes between the people and the police in major cities. According to the Kill Switch database run by internet watchdog, Bytes for All, there were 24 reported internet shutdowns last year alone.

Last month’s internet shutdown had wide-ranging consequences for Pakistan’s economy, not just limited to gig workers. Tech driven logistics companies saw sales volumes drop drastically, down by at least 36 percent according to an Al Jazeera report. Telecom companies lost a total of at least $2.85 million, while the government lost at least $1 million in tax revenue. P@sha, an association representing Pakistan’s IT sector, said the sector lost at least $3 million per day throughout the internet shutdown.

While some of us missed out on accessing social media platforms for news, networking and streaming our favourite netflix shows, others, like Sara, suffered a significant financial setback. In that one week when the internet connectivity was disrupted, she managed to fulfil only five orders, a stark contrast to her usual average of 30 orders when the internet is fully functional. The limited orders she did receive during the shutdown originated from nearby locations that did not rely on internet connectivity for delivery.

Sara, who lives in an extended family system, was a talented amateur chef who ventured into the world of food delivery during the pandemic. The unexpected internet shutdown put her in an extremely disadvantageous position. In a patriarchal society where women often face limited mobility, space, and time, digitization has opened up opportunities for many women to secure employment and financial independence – but the sudden shutting down of the internet heightened Sara's vulnerability and precarity as a woman in the informal economy. Navigating household responsibility while running a business in an extended family system is already challenging for her – with the internet shutdown, she had to juggle ways to access her customers on top of her existing responsibilities.

Sara’s decision to enter the world of food delivery coincided with a time when conversations around the gig economy and perceptions of labour were changing drastically across the country. The pandemic saw an increase in reliance on the platform economy – specifically, gig workers engaging in transport (Uber and Careem), home delivery services (Bykea and Foodpanda), and domestic work (Mauqa Online and Ghar Par). During concurrent nationwide lockdowns, gig workers – often delivering groceries, home-cooked meals, and other household essentials – found themselves at the frontlines of the crisis, exposed to the disease with very little protection. As platforms washed their hands off gig workers – treating them as independent contractors rather than salaried employees – conversations around gig workers’ rights also became common parlance.

And as an “independent contractor” – a gig worker, in other words – associated with a popular (and notoriously cutthroat) food delivery platform, Sara was dedicated to her craft. This was not her first business venture – holding a marketing degree, she had previously attempted to set up a business exporting women’s clothes, but when the pandemic hit and freight rates became astronomical, she pivoted over to food delivery. From the beginning, Sara devoted herself to building a strong presence in the food delivery market and cultivating a network of loyal customers.

Sara relies heavily on online orders and has effectively utilised digital platforms to establish her business – and it has taken her two years to achieve a frequency of orders that gives a degree of financial independence. At the same time,  there are drawbacks associated with the gig economy, particularly for women, since people working from home are required to put in extra hours as the line between their working hours and personal time becomes blurred. Studies have reported high rates of attrition in the workforce among women because of the burden of simultaneously carrying out unpaid work at home and paid work in their professions. This burden becomes amplified for women who work for home-based gig platforms and have to grapple with the dual burden of domestic responsibilities and paid employment. Sara also mentioned that despite having fixed working hours, she often finds herself working outside of those designated hours. receiving calls and messages on her phone.

However, her reliance on online orders and building a customer base through digital platforms has given her “digital confidence.” This term refers to an enhanced level of comfort and proficiency in using digital tools to perform effectively and efficiently. For instance, she implemented strategic measures such as assigning a dedicated WhatsApp number for order management and delivery, as well as creating new accounts on popular social media platforms like Facebook and Instagram to ensure a consistent and influential online presence.

Still, there are growing pains, and the learning curve has been steep – she finds herself stumbling from time to time. As I stepped into Sara’s home to talk about the impact of the internet shutdown on her business, with a hint of frustration in her voice, she shared that she had just received an online order for Chowmein, but had forgotten to update her availability status on the food delivery app. Concerned about disrupting her operations, I suggested that she prioritise her customer’s order. However, she assured me that her husband would step in and take care of it.

Mobile phone ownership in Pakistan is rooted in inequality. Only 50 percent of women own a mobile phone compared with 81 percent of men – this is equivalent to 22 million fewer women than men owning a mobile phone. Women like Sara have access to agency that millions of women in the country don’t, and are subsequently able to reap the economic benefits that mobile phone ownership guarantees – but blackouts like the one we saw last month are detrimental to women’s digital inclusion and financial independence. More specifically: The consequences of the shutdown, for women like Sara, are wide-ranging. Her Home Chef rating on the food delivery app she uses has plummeted, and this has affected the frequency of orders she receives.

And although mobile internet use among women in Pakistan has doubled, a GSMA  study from 2021 indicates, from 10 percent to 19 percent, internet blackouts are detrimental to this growth – particularly for women like Sara, who have become increasingly reliant on digital connectivity for their livelihoods and to access essential services and information.

Learning how to leverage social media to market her business hasn’t been Sara’s only challenge. In a cutthroat market with rigid profitability rules imposed by food delivery services – such as a 33 percent cut from orders –  alongside existing rivalries among food business owners, and the presence of uninformed customers, it is already difficult for a woman to sustain herself. The unexpected internet shutdown only added to her preexisting struggles.

The first three days of the shutdown were wasted in frustration and anticipation. The lack of information regarding the duration of the internet outage only exacerbated her anxiety. The whole time she clung to the faint hope of receiving her daily orders – but signals were intermittent. “I found myself compulsively checking my devices, desperately hoping to witness a flicker of connectivity, but all I encountered was a deafening silence,” she told me, describing the extent of her helplessness.

Although the internet blackout was limited to mobile broadband, WiFi speeds had also been throttled. Apart from relying on food delivery apps to get her orders out, Sara also occasionally received orders from customers on Instagram and Facebook – but social media sites had also been banned. Furthermore, the inconsistent availability of internet signals left her in a state of uncertainty, unable to make adequate food preparations for the remaining day due to the intermittent signal reception. Disheartened by the food wastage encountered on the initial day, she did not make any pre-arrangements for the following days.

And on rare occasions, even when she was able to secure orders, it became a struggle for delivery services to reach the exact locations without the access to the internet and Google Maps. “It felt like we were trapped and facing challenges from all sides,” she told me.

One customer called Sara and started placing an order, but when she explained that the food was available but couldn’t be delivered due to the lack of internet and delivery options, the customer grew frustrated and ended the call. Such experiences can also affect the ratings of home chefs, which they have worked hard to maintain for months or even years. Recently, Sara observed an individual, whom she suspects could be a food competitor in her locality,  attempting to manipulate her ratings by placing orders and later bombarding her online business with highly negative reviews. This persistent harassment has caused her rating to drop by 0.3 points. “It is disheartening. I fail to comprehend why someone would stoop so low,” she told me, expressing her pain. Sara also mentioned an absence of solidarity within the industry, which may contribute to lack of support and negative competition. There are no unions for gig workers in Pakistan, even though at least 2 percent of the country’s labour force is engaged in platform work, according to the Oxford Internet Institute’s Fairwork Project.

Sara described the food business as tricky, where the quality of food is crucial – especially when it comes to meat. Planning is essential, and unexpected shutdowns like this are unfair to them. During the 9th and 10th of Muharram, when the internet is deliberately shut down for safety reasons, home chefs are accustomed to the situation and make necessary preparations. Similarly, during the monsoon seasons, when riders may not be available, it allows them to adjust to food preparations accordingly. However, it was different this time. The ban came out of nowhere, there was absolutely no coverage, and Sara was caught completely off guard.

However, immense help from her husband helps her navigate through her household responsibilities and keep her restaurant open till 4 am at night. For instance, while Sara cooks the food, her husband takes care of the groceries. If her sister-in-law needs to use the kitchen while Sara is cooking for her customers, she patiently waits for her to finish before accessing the shared space. Despite the support from her family, difficulties arise when it comes to pricing and profitability.  Food delivery services prioritise their own profitability, making it tough for Sara to maintain accessible prices for her customers while still making a profit.

Sara, along with many other women in the gig economy, defies numerous societal and patriarchal norms to sustain herself in a competitive market. From owning a cell phone to cultivating digital confidence, she exemplifies resilience and determination. However, it is crucial to foster inclusive environments for women who work from home that not only increase their representation but also bolster their confidence.

Such abrupt closures greatly demoralise women like Sara. While may not be a significant issue for some, for those who depend entirely on their food business for income, it represents a significant setback. Sara also experienced severe mental strain during the internet shutdown, causing her extreme anxiety. She sincerely hopes she doesn’t have to face such circumstances again, as they pose a significant risk to her business. Furthermore, this could potentially undermine the upward trend of women’s participation in the gig economy observed in recent years. Sara believes that large corporations may have the resources and strategies to handle unexpected internet shutdowns. However, for women like herself, such situations pose a significant financial setback that can take months to overcome.

The absence of women in the gig economy would not only hinder overall economic growth but, more importantly, erode trust in the systems, discouraging their participation. What we need are sustainable systems that go beyond mere accommodations, creating an atmosphere that actively encourages and supports their involvement.

July 4, 2023 - Comments Off on The pros of an office without the cons

The pros of an office without the cons

Wajiha Hyder

They say it takes a village to raise a child. But when Alina Zahid Khan decided to launch her startup, she quickly realised that a village was exactly what she’d need to begin too. Luckily, she found hers, but it wasn’t what you might have imagined.

“In 2019, I left my full-time job,” says Alina, whose former company had an office in Daftarkhwaan, a co-working space in Lahore. It was then that she began working on launching her own startup. “I had started loving the co-working culture, so I decided to stay back. I was a newbie but soon realised I wasn’t alone.” Her co-workers helped her with the logistics of setting up her business. They offered her the advice she needed, walked her through the whole process and were genuinely by her side whenever she needed them. “They would make me attend conferences, relevant networking events, etc. Being around these people and consuming that energy was precisely what I needed when I began.”

A similar change of heart happened with Zoya Javaid, a product management expert, who knew she was never returning to closed spaces after leaving her corporate job. She began freelancing, and like many others, her preferred working mode was from cafes and parks. But one visit to a co-working space was enough to turn her into a believer. “I saw all those talented people working under the same roof, many in foreign economies, enjoying their work, interacting with each other.” She hadn’t ever experienced anything like that in a traditional working space. “Life wholly flipped when I joined Kickstart. I got all the pros of an office without the cons.”

Both Zoya and Alina now have thriving businesses, along with countless other women gig economy workers who opted to work out of these co-working spaces instead of working from home, renting an office or coffee shops.

In Pakistan, co-working spaces have returned with a bang after the pandemic, and women freelancers and startup founders are ecstatic about it – not without good reason. “During the pandemic, women who had to work from home suffered. They were expected to balance their work with responsibilities at home,” says sociologist Naima Murtaza. “I think the idea of a co-working space is very beneficial for women because once they leave the house, they are gone. Now they can be more productive, which is impossible at home.”

A healthy, supportive environment is perhaps all that a working mother needs to be productive and thrive – freelancers more so as they lack the structure of a traditional workspace. Co-working spaces seem to be helping them in this regard. A graphic designer, Alina Habib, once brought her kids to Daftarkhwaan, a co-working area she works from, as she had to meet a tight deadline and had no one to look after them. “People here managed the children, and I just worked without any worries.” She now prefers to work on her deadlines from there.

Rimmel Mahmood, a logo designer, was attracted to Kickstart because she found out there was a daycare there. “I don’t yet have a child myself, but if you are planning and think that this is a possibility in future, then having this facility is a huge plus, as you know that you don’t have to take an extended break after childbirth and can come back whenever you want to.”

Providing help and a sense of community to women freelancers are the other aspects these co-working spaces are succeeding at. “It’s a paradigm shift, coming from traditional office space to this,” says Nayab Ashfaq, a chartered accountant who quit her corporate job and began working remotely from COLABS. “Corporate is fixed and autocratic. In these co-working spaces, there is a lot of diversity. We meet women who are breaking barriers left, right, and centre. Everyone has a story to tell, and it’s inspiring.” She says finding this kind of inclusion in a traditional working space, whether banking or multinational, is complicated. “Over here, women support each other, unlike in the corporate sector where there is traditionally a lot of leg pulling.” These spaces are getting a lot of acclaim for the opportunities they provide for networking too. “Imagine just trying to enter an HBL branch to chat professionally with an employee. They won’t even let you in because they have no such concept. Now imagine being a woman in Pakistan and having access to so many people without any barriers – so much knowledge at your fingertips,” says Nayab.

It is easy for women to try working from home, where they feel safe in their comfort zone, managing their deadlines and homes simultaneously. It gives them a sense of security while maintaining some sense of productivity too. But one cannot grow while working from behind a screen with no one to talk to. “When you work from co-working spaces, you get more work, you get more opportunities through increased networking,” says Alina Zahid Khan. “People working around you offer contracts, partnerships. So you’re working for different people and can grow like this instead of doing a corporate job or just doing things for free for friends.”

Sometimes, women can handle tricky work situations better because they are working from a co-working space instead of working independently. When Sana Asghar, an account manager working remotely from COLABS, had to fire a client on behalf of her employers, it was nothing less than an existential crisis. “It was tough for me since the guy had just joined a week ago and was visibly going through a lot of stuff.” But luckily, she had some friends working at the same co-working space who helped her handle the situation. “I’m not sure if I would have approached them if we were not working under the same roof,” she says.

The support Sana speaks of is hardly present in traditional workspaces because of the inherent environment of competition. This lack of support can be detrimental for women, who already have fewer opportunities in the workspaces than their male counterparts – something that the co-working environment strives to take care of, slowly but gradually.

Sana Ahmad, a wedding photographer, says that her Daftarkhwaan employers stood by her in the initial days of her business and were very understanding even when she couldn’t pay the rent. “Now I can afford an office of my own, I have the money, but I won’t because the sense of community and the support I get here, I can’t get anywhere else.” There is also an old red tape issue regarding women workers, making a solid case for co-working spaces. “Even now, if you want to open an office as a woman, they’d ask you to come along with a man and bring their CNIC because they think women do shady work,” Sana says. “Why wouldn’t you want to join a co-working space instead!”

Namra Malik, who has her startup, finds it easier to invite clients for meetings now as she works from COLABS. “I don’t have to worry about my clients thinking that the office looks shady, which would have been an issue had I set up my own place.” She says that the infrastructure and logistical side of the co-working space puts her on edge compared to other startup founders. “I’ve seen so many of my friends taking meetings or interviews from coffee shops, which doesn’t work.” Zoya is also happier about her meetings now that she works from Kickstart. “I am more confident now. At home, your mind is at home; it is not at work. But this is such a perfect environment. I don’t have to shush anyone before taking a meeting.” She is also happy that she doesn’t have to work from a cafe where “one can get a free coffee with a phone number with it, and one can’t say anything about it. There is accountability at co-working spaces.”

The primary concern of women gig economy workers in Pakistan is an environment which is safe and conducive to productivity. Co-working spaces are working towards successfully catering to these requirements, leading to better participation by women in the gig economy in the long run. “Co-working spaces can be conducive for women to come up with their own work ideas,” says Usama Naveed, who currently works for the Special Technology Zones Authority – Government of Pakistan. “It is tough for women in our society to conduct business activities, especially if self-employed. So yeah, safety and ease of business are some crucial things co-working spaces provide.

“If there are females that want to join Daftarkhwaan, we have a more lenient approach to help them join and be a part of it because there are very few women in our ecosystem, of freelancers, of female entrepreneurs and female leaders,” says Faryal Asghar, Marketing Manager, Daftarkhwaan. Faryal further states that this is because they are generally strict about who they let in their culture, which is usually women’s biggest concern. “There are different perceptions about co-working spaces because these are still up and coming, and people don’t know much about them. Even when I was joining Daftarkhwaan, my biggest concern was how the culture here would be.” She says that one of the things they are doing at Daftarkhwaan is introducing a safe parking space. “There is a lot of transparency in the way we designed the space in that a lot of glass has been used. You know that even if you work till 8 or 9 at night, you feel like you’re in an open area because of all the glass.” It is essential to take harassment seriously, as all of these factors are conducive to growth as far as women are concerned. “In places like these, you can feel free, I suppose, but also feel liberated that your sanctity is secured and you have that flexibility to work,” says Faryal.

According to Omar Shah, co-founder of COLABS, the idea is to have a professional space where all kinds of people can come together, interact, and network. “We are focused on supporting entrepreneurship, freelancers, startups, and one can upscale oneself by attending a gig, or going to a workshop, a stand-up comedy or something else.” He says it is about what happens inside the space and how one can make it more productive and exciting, which also benefits women gig economy workers. “We have previously worked with the World Bank and IFC where they wanted to promote these women-led spaces. We spent a few months on that, but it has to be pushed from their side,” says Omar. He also says they are considering subsidising pick-and-drop services and more safe spaces for women. “We have stringent policies on harassment inside these spaces, too”, he further mentions.

“One important thing that we have done is partnering up with Jelly Beans, a licensed daycare provider, who will run our daycare,” says Momina Talat, Member Experience head at Kickstart. She says their priority for space in the daycare is single mothers, then other female members, and then they will cater to their male members. “Jelly Beans will also introduce mothers to us who want to join a co-working space with daycare services, and we’ll provide discounted rates for them.” Momina says they are also looking into arranging more women-specific events. “We are partnering with Goad, an app for pregnant women. We’re also focusing on celebrating women’s specific days like Mother’s Day. We believe that whatever we promote as our culture, other companies working with us will automatically adopt it as their own.”

The contribution of co-working spaces is massive and much needed. Still, there are specific initiatives such spaces can perhaps incorporate to motivate more women to join the emerging gig economy.

According to Maham Irfan, a writer, who has been working from Kickstart for some time, women can benefit significantly from career counselling and training in Pakistan. “This is a perfect platform for different companies to come together and educate different individuals, and it can be profound for women freelancers.” Nadia Prizada, working remotely with London Metropolitan University from COLABS, thinks budget-friendly packages can be introduced to facilitate more women startup founders and freelancers. “I’m sure there are a lot of women who want to join these co-working spaces but can’t because of the rates. If you help these women, they can improve their lives by utilising these spaces.”

For Zoya Javaid, giving ride facilities to women freelancers can be a game-changer as most women have mobility issues in Pakistan. “They want to work and can afford some packages too, but they don’t have anyone who’d drop them here or pick them up. So maybe try to offer that to women since we’re hearing cases about ride-hailing services too now, so these services can greatly help.”

Namra Malik is of the view that a woman community can attract a lot of women with similar interests. “They would know of it as an inclusive and safe space for women to enter, where they get to unite and talk about the problems they face professionally and the barriers they are trying to break.” Namra says it’d create a woman-inclusive network that can go on to generate immense confidence in women.

Unfortunately, according to the sociologist Naima Malik, many women are not allowed the freedom to avail such spaces since there are restrictions placed on them by their brothers or fathers or in-laws. “Many of these women have capabilities but cannot even profess those capabilities in a home environment.” Usama Naveed agrees and says the lower middle class must be involved in these areas. “Co-working spaces can take initiatives to get more women involved in the industry, but I think they’re already providing a lot for women who are there. Our upper middle class is already engaged in freelancing, but the significant chunk is of the lower middle class.” He says co-working spaces can lead in these areas and engage on a more humanitarian ground with the right development sector partners.

Freelancing or entrepreneurship is a lonely pursuit– lonelier still for women, who face their own set of challenges. But that said, they have found a profound sense of community and support in co-working spaces, which is imperative to their professional growth. A co-working space provides them with a professional, work-friendly environment where they can discover camaraderie and security. It is not a traditional workplace, but it might be the alternative we have been looking for.

“Co-working spaces are the future, and we need to get serious about this instead of running ten years behind the world like we are with everything else,” says Zoya Javaid. “And while you are at it, make it a place that women want to belong to, a place that feels like home, away from home.”

 

July 4, 2023 - Comments Off on On Women’s Labor, Gig Economy & The Digital Feminization of Poverty

On Women’s Labor, Gig Economy & The Digital Feminization of Poverty

Sabin Muzaffar

Women’s participation in economic development is not only critical for their economic empowerment and financial autonomy or exercising their voices and agency; it is fundamental for world economic progress. The Organization for Economic Cooperation and Development (OECD) reveals that if women’s economic participation was equal to men, it would add up to USD 28 trillion or 26 percent to annual GDP in 2025 when compared to a business-as-usual scenario – with this economic potential being the highest in developing countries.

Keeping this in mind, the importance of the digital revolution vis-à-vis economic empowerment and financial independence cannot be emphasized enough. The 21st century bears witness to epic socio-economic and political evolutionary transformations as well as upheavals – all thanks to the fourth industrial revolution or in other words technology. From the rise of digital social platforms that initiated the epochal Arab Spring or Women’s March to the dawn and boom of digital gig economy; the role of technology has been monumental.

While the tech era has indeed enabled women’s participation in modern labor markets, women’s work – be it in traditional landscape or the digital realm – has been marred with equally monumental challenges stemming from structural and systemic biases and inequalities to name but a few. These include and are certainly not limited to lower bargaining power, lower wages, unregulated work, digital illiteracy, harassment, and gender-based violence, or availability (mostly) of ‘feminized’ line of work such as data entry, sales, marketing, and communication as well as non-inclusive, unrepresentative policies to even in-access to tech/digital devices etc.

Juxtaposed, both the real world and its parallel reality present the same obstacles, amplifying social inequalities and therefore further reinforcing a feminization of poverty.

Women’s Labor in Traditional Markets

Existing data especially across the Global South paints a dismal picture as far as women’s participation in national economic activity is concerned. According to a 2020-2021 Labour Force Survey (LFS) conducted by Pakistan Bureau of Statistics: “Unemployment rates for women are higher than men in all provinces. The LFS 2020-21 results depict that Employment to Population Ratio (EPR) and Labor Force Participation Rate (LFPR) is also having the same pattern i.e., higher for male than female in all provinces.” (See Table 1)

Table 1: Key labor markets indicators by sex and provinces

 

(Source: Pakistan Bureau of Statistics)

(Source: Pakistan Bureau of Statistics)

In the neighboring country, India, news reports suggest, growth especially in women’s labor force participation appears to be stagnating, “India’s notoriously low women labor force participation rate (LFPR) seems to have stagnated, data from the Periodic Labor Force Survey (PLFS July 2021-June 2022) shows 29.4 percent of women (aged 15-59) were part of India’s labor force in 2021-22, as compared to 29.8 percent in the preceding year. In contrast, men’s LFPR improved from 80.1 percent in 2020-21 to 80.7percent in 2021-22.”

Moreover, as far as women’s participation in formal and informal labor workforce is concerned, evidence demonstrates that a huge chunk of informal workers are women. A 2019 IMF working paper titled ‘Informality and Gender Gaps Going Hand in Hand’ stated that more than 90 percent of countries in sub-Saharan Africa (SSA) women are disproportionately over-represented in the informal economy. “The average share of informal employment of women in the non-agricultural sector in SSA is 83 percent while for men, the share is 72 percent.”

The Pakistan Labor Force Survey 2015-2016 showed that 74 percent of informal workers were women. Expressing her views for an Oxfam blog, writer Hadia Majid revealed: “Seventy eight percent of nationwide non-agricultural jobs are in the informal economy, some 22 million people are in such roles and the majority of them are women. The majority of an estimated 8.5 million mostly unregulated domestic workers, are also women.”

In the labor landscape what this data ascertains is a persistent feminization of poverty triggered through lack of access to opportunities in modern markets and formal labor. What informal labor entails is an employment without any social protection. Especially in underdeveloped or developing countries like Pakistan – no real policy or regulation is in place as far as home-based, read informal, workers are concerned. It must be noted that Pakistan has yet to ratify ILO convention C177 Home Work Convention, C189 Domestic Workers Convention among many others.

Marginalization occurs through gender-based labor and occupational segregation, women performing the double shift: work outside the home coupled with the burden of care work, and restrictions due to social norms to begin with. This coupled with women’s lesser negotiation/bargaining powers, lower wages and benefits compared to men relegates the female gender to the lower ranks in society, disempowering them socio-economically.

Women’s Footprint in The Digital World of Work

It is true that technology has played a unique part in disseminating mis- as well as disinformation, encouraging a world that is polarized, generating another level of hate and what have you. That said and to reiterate, the fourth industrial revolution has been pivotal in enabling women and the marginalized to be heard on a global scale, offering access and opportunities; thereby facilitating empowerment.

Gig economy with all its digital extensions including platform economy has not only flourished over the last one decade, but it has also embraced and welcomed women into its fold. A new, more inclusive, digitally mediated work eco-system has been built and is ever evolving. It is in fact upending traditional work, labor, and employment modalities. More and more consumers as well as companies big and small are seen relying on digital labor platforms such as Upwork which boasts over 12 million freelancers in a wide array of professions.

Talking about her experience, Asra Rizwan Khan, a Learning Experience Designer based in the US, said: “I got my first freelance gig at 19 through a classified newspaper. It was long before we had the communities and mentors we now have. I switched between writing and developing websites for small businesses. I was focused on making enough to support my education and personal expenses so unknowingly lowballed my pricing and expectations. When I saw the value creation, I became more mindful of the projects I chose and how they will help me after I graduate.”

“Ten years later, having a freelance career has helped me transition between full-time roles, a startup, and a move between the continents. It helped me find my true calling too. When I started, it was mostly a side hustle, but it is now sustaining me full-time that the hiring market is struggling. Freelancing is not a get-quick-rich scheme, but it really pays off with the endless possibilities the internet provides. It has helped me find community, mentors, and access to global opportunities I would never have imagined coming my way. Being able to choose my own hours have helped me be there for the elderly and the babies of the family. Of course, the best part - it made me financially independent,” Asra concluded.

Lareeb Tariq, a Marketing and Communication Consultant based in Pakistan, views gig economy as ushering an era of opportunities for the Pakistani woman. She opined: "The onset of technology and gig economy has opened opportunities for many women in Pakistan. A lot of females in my circle are contributing to their household income by working online. The space has addressed the needs of women who cannot go out of their homes (because of gender norms and patriarchal standards) but are talented enough to earn a living online. I hope this penetrates and helps women living in the rural areas of Pakistan.”

It is not untrue to claim that women have always been huge part of the gig workforce, especially when it comes to services such as care or domestic work. In addition to this, there is no denying the surge of women’s participation in modern labor markets as well as diversification of occupation primarily due to ICTs and technological advancements. This can be attributed to flexible work models, a higher degree of autonomy and self-sufficiency as well as supplemental income apart from full time jobs and other economic activity.

Talking about her experience, Bridget Kezaabu, an SRHR advocate from Kampala, Uganda said: “Access to technology has given me a chance to enroll for work and study opportunities online while at the same time be within my family’s reach.”

Gig Economy: The Rising Vortex of Challenges?

From being a leaping board to kickstart careers or re-entering the workforce, women have found gig work enabled by digital labor platforms an attractive source of employment and income.

Hira Saeed, Founder and CEO of CaterpillHers (digital platform and accelerator that helps women and trans individuals build and scale their businesses and careers through cohort-based acceleration programs, coaching, community, and work opportunities) and Koi.work (a platform that upskills and enables vetted talent acquisitions for remote-first businesses), shared her perspective focusing the local landscape: "The gig economy in Pakistan has the potential to serve as a stepping stone for women's career development. It offers flexible remote work modalities that bridge the gap between paid and unpaid work, allowing women to balance their caregiving responsibilities with financial independence. A very important balance that is often overlooked in a conservative society like Pakistan.”

Adding, she said: “With our work at CaterpillHERs and Koi.work, I have found out that women's empowerment and autonomy go hand in hand with women's active participation in the economy. By engaging in gig work, freelance opportunities and remote work, women gain a sense of control over their time, finances, and career trajectory. However, to truly empower them, it is also essential to foster effective bargaining power and ensure fair compensation and working conditions as well.”

Agreeing with Hira and also pointing out other huge impediments to Pakistani women’s participation in digital labor platforms, Faiza Yousuf, Founder - WomenInTechPK, Cofounder - CodeGirls, CaterpillHERs, and Koi.work said: “Even though we have fantastic success stories of Pakistani women in the gig economy, we still see that these freelancers are mainly restricted to urban and semi-urban areas. Women from rural or marginalized communities neither get access to learn digital skills nor to work on freelancing platforms. Reasons may include no power or internet infrastructure, illiteracy, no access to skill-building programs, inability to afford devices, and restrictions from male family members, as they consider the internet unsafe and don’t want women to interact with strangers online. We have even encountered instances where women can’t have a social media account with their own names, as men in the family don’t allow that. Also, when women start to work as freelancers, being able to open a bank account, find time to work while carrying care work responsibilities, and not having a support network around them can be demoralizing.”

Access to the Internet and digital literacy are major roadblocks, while the former impacts people across the board, the latter disenfranchises women. And this situation intensifies in rural, remote, or far-flung regions where social norms are steeped in patriarchal belief systems in addition to poor and/or lack of Internet access/connectivity.

“In Gilgit Baltistan (Pakistan), people have very poor access to the Internet with relatively better mobile signals in bigger regions like Gilgit and Skardu. There are some opportunities for women at business incubation centers where there are some startups initiated by women for women. Overall, the environment is very challenging for women especially after the COVID-19 pandemic. There are examples of women who are now offering jobs to a number of young people through their online platforms and digital startups. This only happens because of Internet access; unfortunately most of the population do not have access to the Internet,” expressed Sehrish Kanwal, a citizen journalist and a filmmaker, studying media and communication at the Karakoram International University Gilgit, Pakistan.

Indeed, the rise of the digital economy has given power, autonomy and agency to people including women. But views like Sehrish’s are discouraging, painting a not-so rosy picture.

Similar impediments are experienced in other regions across the Global South as well. Mardiya Siba Yahya, Researcher Data and Digital Rights Africa – Pollicy said: “The gig economy is quite problematic with lots of precarious labor practices and alienation especially for Africans. Women in Africa also rarely engage in the gig economy, because of how unsafe most of the tasks and conditions are.”

While women’s participation in digital labor platforms is encouraging when compared to traditional modes of work, experts – for example in India – also claim limited representation of women in gig economy. IndiaToday reported: “India has one of the lowest female participations in working class rates in the workforce across the world, presently oscillating between 16 percent and 28 percent. It is less than half the global average. According to the World Bank Report, women’s participation in India’s formal economy is among the one of the lowest in the world. According to Taskmo Gig Index (TGI) currently women’s participation in the gig economy is around 28 percent despite the flexibility the gig economy has to offer.”

It is true that innovation has not just been about technology, it actually covers and encompasses the world of work with all its work processes and structural changes in enterprises. And this has only been accelerated by the COVID-19 pandemic. With the evolution of business models, there are more challenges to overcome. The ILO flagship report published in 2021 titled World Employment and Social Outlook – The Role of Digital Labor Platforms In Transforming the World of Work – stated: “This new business model allows platforms to organize work without having to invest in capital assets or to hire employees. Instead, they mediate between the workers who perform the tasks and clients and manage the entire work process with algorithms. Workers on digital labor platforms often struggle to find sufficient well-paid work to earn a decent income, creating a danger of working poverty. Many do not have access to social protection, which is particularly concerning during a pandemic. They are frequently unable to engage in the collective bargaining that would allow them to have these, and other issues addressed.” And when assessed from a gender lens, challenges are only but amplified.

The vortex of challenges exists all over the world, especially the Global South and it gains magnitude when looking through a gender lens. They are certainly not new, just technology-enabled, and definitely amplified. Be it the Global North or the South, women gig workers are still earning less than men. Gender biases that exist in real world have seeped into the digital realm, be it Artificial Intelligence or gig work etc.

An ILO research shows that among competitive programmers, one out of 62 respondents was female which again reflects occupational segregation in the IT sector. Moreover, “the app-based taxi and delivery sectors are largely male-dominated. Women comprise fewer than 10 percent of workers in these sectors, and this proportion is even lower in the traditional sectors (below five percent) [as shown in Table 2]. The share of women is considerably higher in some countries, for instance in Indonesia in the app- based taxi sector (13 percent), where female-only taxis are preferred by some female clients to mitigate risks of violence and harassment (Straits Times 2015). In Kenya, where only five percent of app-based taxi drivers are women, some platforms are undertaking special measures to encourage their greater participation, such as priority access to vehicle financing (Taxify). A platform with female-only taxis has also emerged (An-Nisa Taxi),” the report stated.

Table 2: Share of Female Respondents, by Occupation and Country

 

(Source: ILO World Employment and Social Outlook Report 2021)

(Source: ILO World Employment and Social Outlook Report 2021)

Sharing her views about the African region with regards to participation of women in the digital world, Ventura Kireki - lawyer and media consultant in Nairobi, Kenya, said: “There is still more to be done in Africa as the digital gender gap is still present. More men as compared to women use advanced digital services. In the online space, women are still majority of the targets of online gender-based violence.”

“I think equipping women with digital skills could give them tools that will lead to their digital safety. This work is being done. There are so many girls and women-only digital and cyber security programs running in the continent and hopefully it’s a matter of time until this gender gap in the digital space is closed. I’m hopeful,” she added.

A Roadmap to Development

Indeed, the world of work – both the interconnected global and the local – is progressively being redefined and reformed through innovation; there is still much work to be done to fully realize a socio-economically, sustainable, empowered and inclusive society.

While grassroots organizations like XWave, CodeGirls, CaterpillHERs, WomenInTechPK, and Circle in Pakistan, WolTech in Tunisia or Evolution360 in Bangladesh and many others; are enabling the youth – especially women – as far as the future of work is concerned and as Faiza Yousaf said, “(they) are trying to chip away at the problem but we need a better strategy to join forces and work for an equitable future for women.”

Development requires public-private partnerships that engage citizens inclusively at the grassroots level and enable access to gender responsive skills-building and digital literacy, including online safety. Laws and regulations focusing the digital world of work, which have consistently been a bane for technologists, consumers, advocates alike, need to be representative and inclusive – not to mention implementable.

The only way to avoid pitfalls and obstacles of an ever-evolving, complicated digital world, which at the same time possesses immense potential and opportunities not for one but all, is for stakeholders to collaboratively discover and innovate solutions and practices that are not a one-size-fits-all!

A building block of sustainable development, gig economy and by extension digital platforms can most certainly augment women’s economic empowerment. But only through a reformation of traditional work/labor legacies as well as subverting pervasive and implicit norms. This would only be the beginning, a pathway to development.

 

April 28, 2023 - Comments Off on جدید ٹیکنالوجی، معاشی خودمختاری اور قبائلی خواتین

جدید ٹیکنالوجی، معاشی خودمختاری اور قبائلی خواتین

خالدہ نیاز

میں نے جب صحافت کے شعبے میں قدم رکھا تو میں بہت ڈری ہوئی تھی کہ کس طرح کام کروں گی، پھر مجھے ڈیجیٹل سکلزٹریینگ لینے کا موقع ملا جس نے میرا کام بہت آسان کردیا کیونکہ اس کی بدولت میں گھرمیں بیٹھے کسی سے بھی فون پر بات کرکے سٹوری فائل کرسکتی ہوں اس کے علاوہ قبائلی اضلاع کی خواتین کے مسائل کو بلاگز کے ذریعے بھی اجاگر کررہی ہوں، ڈیجیٹل سکلز نے نہ صرف میرا کام آسان کردیا ہے بلکہ یہ میری کمائی کا بھی ذریعہ بن گیا ہے''

یہ کہنا ہے سب ڈویژن حسن خیل سے تعلق رکھنے والی شمائلہ آفریدی کا جو پچھلے چار سال سے صحافت کے شعبے وابستہ ہے۔ شمائلہ آفریدی کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی ٹیلنٹ کو رائیگاں نہیں ہونے دیتی۔ شمائلہ آفریدی کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں خواتین صحافی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے سوچا کیوں نہ صحافت کے ذریعے خواتین کی آواز بن جائیں۔

بلاگ لکھنا میرے لئے بہت اچھا ثابت ہوا کیونکہ خواتین کے وہ مسائل جن کو ویڈیوز یا سٹوریز کے ذریعے اجاگر کرنا مشکل تھا انکو میں بلاگزکی مدد سے شیئر کرتی ہوں، اس سے نہ صرف اپنے علاقے کی نمائندگی کا موقع ملا بلکہ خواتین کے مسائل پر کھل کراظہارکرتی ہوں'

ٹیکنالوجی کے ذریعے آپ پوری دنیا سے جڑ سکتے ہیں: شمائلہ آفریدی

شمائلہ آفریدی کا کہنا ہے کہ جدید دور ہے دنیا گلوبلائز ہوچکی ہے زندگی کی دوڑ اب ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپ پوری دنیا سے جڑ سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نےلوگوں کی زندگیوں اور کام کو بہت اسان بنادیا ہےلیکن قبائلی علاقے کی بات کروں تو خواتین  ایسی سہولیات سے محروم ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہےکہ خواتین کو کبھی ایسی سہولیات اور مواقعوں کی اگاہی فراہم ہی نہیں کی  گئی ہے جن سے خواتین استفادہ حاصل کریں۔  ڈیجیٹل اسکلز کیلئے پہلے اعلیٰ تعلیم کے مواقع  ہونا ضروری ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں اعلی تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو وہاں بھی کوئی ایسی ٹیکنالوجی یعنی کمپیوٹر وغیرہ کی ٹریننگ نہیں دی جاتی ،دوسری اہم سہولت بجلی ہے جب بجلی  نہیں ہوگی تو یہاں پر ٹیکنالوجی سے جڑے آلات کا استعمال مشکل ہے۔ یہاں میل  کیلئے ڈیجٹل ٹیکنالوجی ٹرینگ نہیں دی جاتی تو خواتین کو مواقع دینا توبہت دور کی بات ہے۔۔۔

شمائلہ آفریدی کے مطابق بہت سی خواتین ہیں جن کے پاس مختلف سلاہی کڑھاہی دستکاری کرنے کا ہنر موجود ہے وہ بہت محنت کرتی ہیں لیکن بہتر مواقعے نہ ہونے کی وجہ ان کو محنت کا وہ پھل نہیں ملتا جنکی کی وہ حقدار  ہے۔

دوسری طرف خواتین کے ہاں  ٹیکنالوجی کی سہولیات نہ ہونے کی ایک اہم وجہ روایات بھی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں، بہنوں کو تعلیم دلانے کے حق میں نہیں ہیں تو جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت کس طرح دیں گے؟

کیا کلچر کی وجہ سے قبائلی خواتین ٹیکنالوجی سے محروم ہیں؟

شمائلہ آفریدی نے بتایا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ کلچر کی وجہ سے قبائلی خواتین جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہیں لیکن اگر حکومت آگاہی دیتی اور تعلیم کا نظام ناقص نہ ہوتا تو شاید قبائلی خواتین بھی ملک کے باقی حصوں کی طرح ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرتیں۔

 جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شمائلہ آفریدی نے کہا کہ موجودہ دور میں اگر اپ کے پاس اسکلز موجود ہوں تو اپ آن لائن ٹریننگ لیکر گھر بیٹھے کمائی کرسکتے ہیں لیکن  بدقسمتی سے قبائلی علاقوں میں حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی ہے، ان کو ان تمام سہولیات سے محروم رکھا گیاجن کی بنا پر وہ ترقی کرسکیں ۔ سب سے زیادہ ظلم حکومت قبائلی خواتین کے ساتھ کررہی ہے اگر بجلی ہوتی، اعلی تعلیمی ادارے ہوتے، اگاہی ہوتی تو شاید قبائلی خواتین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتیں۔۔۔

شمائلہ آفریدی سمجھتی ہیں کہ قبائلی خواتین ہمیشہ سے صنفی امتیاز کا شکار رہی ہیں۔ ان کو تعلیمی مواقع میسر نہیں ہیں، کئی سماجی مسائل کا شکار ہیں، ان کی کوئی اواز نہیں۔ ایسی خواتین بھی ہیں جن کا کسی نہ کسی حوالے سے زندگی میں اہم کردار رہا ہے لیکن ان کے ٹیلنیٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے اس لیے میں کوشش کرتی ہوں کہ ان کی ایسی کہانیاں سامنے لاؤں جو دوسروں کیلئے ایک مثال بنے۔

مریم آفریدی کس طرح قبائلی اضلاع کی خاتون مکینک بنی؟ 

شمائلہ آفریدی ان چند خواتین میں سے ہیں جن کو ڈیجٹیل سکلز ٹریننگ لینے کا موقع ملاتاہم ہزاروں خواتین جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان میں سے ایک 35 سالہ مریم آفریدی بھی ہے، مریم آفریدی پہلی قبائلی خاتون   مکینک  ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہے تاہم وہ جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات سے محروم ہے۔

مریم افریدی سلائی چھوڑنے، دھاگہ ٹوٹنے، جمپ سٹیچجنگ اور سوئی ٹوٹنے کے اسباب , مختلف مشینوں اور ان کے افعال اور استعمال کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے الیکٹرک الات بیٹریز،  استری ، لائٹس وغیرہ میں فنی خرابی کو ٹھیک کرنے کی مہارت سیکھ چکی ہے۔

مریم افریدی کہتی ہے کہ وہ جب سلائی کرتی تھی تو مشین میں اکثر فنی خرابی پیدا ہوجاتی تھی جسے باہر مارکیٹ لےجانابہت مشکل ہوتا تھا ۔ایک دن سوچا کہ کیوں نہ میں خود ہی تجربات کرکے فنی خرابی کوٹھیک کرنے کا ہنر سیکھ لوں اور پھر ایک خراب مشین کو بار بار کھولتی رہی اور ٹھیک کرتی رہی اس جہدو جہد میں کافی وقت لگا لیکن کچھ حد تک میں کامیاب ہوگئی تھی۔ نہ تو پڑھی لکھی ہوں اور نہ ہی کوئی ٹیکنیکل ٹریننگ لی ہے اور نہ کوئی ایسی سہولیات یا ٹیکنالوجی موجود ہے، اپنے ہی دماغ کا استعمال کرکے ٹیکنیکل الات کو ٹھیک کرنے  کا ہنر سیکھ لیا ہے۔

 مریم آفریدی کا کہنا ہے کہ علاقے کی خواتین  کیلئے کافی اسانی ہوچکی ہے ان کے گھر میں بجلی کی پیٹنگ  کروانی ہو کوئی الات میں فنی خرابی ہوں تو وہ مارکیٹ جانے کی بجائے میرے پاس لے اتی ہے، دور دور سے لوگ اپنی خراب مشینیں لیکر اتے ہیں، لوگوں کا مجھ پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔۔۔

مجھے ایسے جدید الات چاہیئے جو میرے کام کو اسان بنادے۔

 مریم کہتی ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے، اج دنیا کی ہر چیز سائنس کے تابع ہوچکی ہے  لیکن بدقسمتی سے قبائلی علاقوں میں لڑکیاں پانچویں تک تعلیم بھی بہت مشکل سے حاصل کرتی ہیں وہ بھی اتنی ناقص دی جاتی ہے کہ نہ تو والدین چاہتے ہیں کہ مزید بچوں کو تعلیم دی جائے اور نہ ہی سرکاری ٹیچرز بچوں پر کوئی توجہ دیتے ہیں ایسے حالات میں ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟

 ''اپنے ذہن کا استعمال کرکے میکنک تو بن چکی ہوں لیکن مجھے ایسے جدید الات چاہیے جو میرے کام کو اسان بنادیں، میں جب بکرم لگاتی ہوں کاج کرتی  ہوں تو چوبیس گھنٹے میں  دو گھنٹے بجلی اتی ہے وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہےجس کے لیے مجھے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، مجھے سولرائزڈ استری کی ضرورت ہے اگر میرے پاس جدید سولرائزڈ استری موجود ہوتی تو میرا کام مزید اسان ہوجاتا  لیکن اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے'' مریم آفریدی نے کہا۔

مریم آفریدی اگر پڑھی لکھی ہوتی تو شاید آج ایک انجینئر ہوتی اس  کے علاوہ وہ سلائی بھی کرتی ہے تو اگر انکے پاس ڈیجیٹل سکلز ہوتے تو وہ اچھے ڈیزائنز کے کپڑے سیتی اور انکو آن لائن فروخت بھی کرتی،اگر مشینوں فنی خرابی ہوتی تو میں یوٹیوب سے دیکھتی  اور اور خواتین کو بھی یہ سکلز دیتی۔

مریم افریدی کہتی ہیں کہ ہم قبائلی خواتین اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک ہیں، ہم سب کچھ کرسکتی ہیں جو دوسری خواتین کرتی ہیں اگر ہم پہاڑوں کی چٹانوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاسکتی ہیں تو اعلیٰ تعلیم اور مختلف شعبوں میں کام کیوں نہیں کرسکتیں؟ لیکن بات وہی ہے کہ ہمارے پاس کوئی مواقعےنہیں ہے توجہ نہیں ہے۔۔۔۔

اگر قبائلی علاقوں میں ٹیکنالوجی موجود ہوتی اسکے استعمال کی ٹریننگ دی جاتی تو بہت سی خواتین استفادہ حاصل کرتیں، جہاں وہ خودمختار ہوتیں اور گھر کے معاشی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتیں لیکن ہم پتھرکے زمانے میں رہ رہے ہیں جہاں جدید ٹیکنالوجی  ہماری پہنچ سے بہت دور ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق  قبائلی ضلاع کی آبادی 5001676 ہے جن میں 2445357 خواتین شامل ہیں، تاہم مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کی آبادی ایک کروڑ ہے جس میں آدھی آبادی خواتین کی ہے۔

ہم وہ لوگ ہیں جن سے ٹیکنالوجی ہضم نہیں ہوتی: نوشین فاطمہ 

سماجی کارکن نوشین فاطمہ ضلع اورکزئی سےتعلق رکھتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے ساری دنیا ڈیجیٹلائز ہوچکی ہےاور سارے لوگ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں، اگر کوئی شخص انٹریٹ کی دنیا سے انکاری بھی ہے تاہم پھر بھی وہ اس کا استعمال کرتا ہے۔ نوشین فاطمہ نے بتایا کہ ہم وہ لوگ ہیں جن سے ٹیکنالوجی ہضم نہیں ہوتی، ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی ہمیں دین سے دورلے جانے کی ایک سازش ہے، پہلے جب ریڈیو، ٹی وی آیا تو بھی ان لوگوں سے یہ ہضم نہیں ہورہے تھےلیکن جب ایک کے بعد دوسری ٹیکنالوجی آتی ہے تو یہ لوگ پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کو مجبوراً قبول کرلیتے ہیں اور نئی جو چییز آئی ہوتی ہے اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔

نوشین فاطمہ نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ٹیکنالوجی کو نہ تو قبول کیا اور نہ ہی اس سے اس طرح استفادہ حاصل کیا جس طرح باقی اقوام نے اس سے فائدہ اٹھایا، نوشین فاطمہ کے مطابق ہمارے ہاں خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے بہت دور رکھا گیا ہےجس کی وجہ سے بچے بھی اس ٹیکنالوجی سے دور رہتے ہیں کیونکہ انکی ماوں کو اس کے حوالے سے معلومات نہیں ہوتی اور یوں ان بچوں کا بھی کافی سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔

نوشین کا کہنا ہے کہ قبائلی خواتین میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، یہاں کی خواتین ہاتھوں سے ایسے شاہکار بناتی ہیں کہ جس کو بندہ دیکھ کے دنگ رہ جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل سکلز نہیں آتے، انکو نہیں پتہ کہ اکاؤنٹ کیسے بناتے ہیں، پھر اس پہ کس طرح اپنی ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں کو ڈال کہ مہنگے داموں آن لائن بیچ سکتی ہیں اور اپنی محنت کے مطابق کمائی کرسکتی ہیں۔'' قبائلی خواتین کے پاس ہنر تو ہے لیکن اس ہنر کو کارآمد بنانے کا طریقہ نہیں آتا، انکو نہیں پتہ کہ کس طرح اس کو آن لائن کاروبار میں پروان چڑھاسکتی ہیں، اگر قبائلی خواتین کو ڈیجیٹل سکلز دیئے جائے تو اس سے وہ معاشی طور پر خودمختار ہوسکتی ہیں کیونکہ بہت ساری بچت بھی ہوگی اور اچھی کمائی کرپائیں گی، معاشی خودمختاری سے انتہاپسندی کی کمر بھی ٹوٹ سکتی ہے

''

جدید ٹیکنالوجی اور مذہبی رنگ

نوشین فاطمہ کے مطابق جدید ٹیککنالوجی اس دور کی ضرورت بن چکی ہےلیکن ہماری ہاں بدقسمتی سے اس کو مذہبی رنگ بھی دیا جاتا ہے اور روایات سے بھی جوڑا جاتا ہے، ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ 98 فیصد لوگ اس کا صحیح استعمال بھی نہیں کرتے، وہ اس کو فائدے کے لیے استعمال نہیں کرتےحالانکہ آجکل کے دور میں اس سے بے روزگاری کم کرنے میں بھی بہت مدد مل سکتی ہے۔

نوشین فاطمہ کا کہنا ہے کہ قبائلی خواتین کو جدیدڈیجیٹل سکلز کے ٹریننگز دینی چاہیۓ لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ زبان ایسی ہو جو ان خواتین کو سمجھ میں آسکے اور ساتھ میں آن لائن ٹریننگز کا فائدہ کم ہوگا کیونکہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ صحیح کام نہیں کرتا، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان خواتین کو گراس روٹ سے چیزیں سکھائی جائیں کیونکہ ان کو اس جدید ٹیکنالوجی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔

مردان سے تعلق رکھنے والے صحافی افتخار خان جو قبائلی علاقوں کےحوالےسے کافی ریڈیو پروگرامز پروڈیوس کر چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ہم لوگ ٹیکنالوجی کو انٹرنیٹ وغیرہ سے منسوب کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ٹیکنالوجی ہماری روزمرہ زندگی میں ہراس چیز میں نظر آتی ہے جس نے ہماری زندگیوں کو آسان بنادیا ہے،  چاہے وہ سولر سسٹم ہو، انٹرنیٹ کے بغیر کمپیوٹر کا استعمال ہو یا پھر واشنگ مشین ہولیکن اگر دیکھاجائے تو قبائلی خواتین ٹیکنالوجی سے بہت دور ہے، قبائلی علاقوں میں آج بھی بہت زیادہ خواتین دشوار گزار پہاڑی راستوں پہ چل کے سروں پہ پانی لاتی ہیں۔ حالانکہ جدید ٹیکنالوجی نے پانی کے حصول کو کافی آسان بنادیا ہے، اس کے علاوہ قبائلی علاقوں میں بجلی نہیں ہے جوکہ سولر سسٹم لگانے سے حل ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی یہ خواتین اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔

قبائلی اضلاع کی خواتین اب بھی 1980 والی زندگی گزار رہی ہیں

افتخار خان کے مطابق قبائلی اضلاع کی خواتین اب بھی 1980 والی زندگی گزار رہی ہیں، سیٹلڈ ایریاز میں اب خواتین کی زندگی میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے کافی تبدیلیاں اور آسانیاں آچکی ہیں لیکن قبائلی خواتین ان تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ افتخار خان کا کہنا ہے کہ قبائلی خواتین کی آن لائن موجودگی اور آن لائن چیزوں تک انکی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے'' جب کرونا وائرس آیا تو اس میں ہم نے دیکھا کہ آن لائن کلاسز لینے میں طلباء کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ قبائلی اضلاع  میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا، حکومت نے خود قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کو غیرفعال کیا ہواہے جس سے طلباء براہ راست متاثر ہوئے، مرد تو چلو پھر بندوبستی  علاقوں میں چلے جاتے ہیں لیکن خواتین کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی بہت مشکل ہے''

افتخار کے مطابق آج کل آن لائن کاروبار بہت زیادہ ترقی کررہے ہیں ، جو لوگ آن لائن کاروبار نہیں بھی کرتے تو وہ بھی کسی نہ کسی لیول پر آن لائن سائیڈ پر کام کررہے ہیں تو قبائلی خواتین کے لیے آن لائن کاروبار کرنا  ایک بہت اچھا موقع ہے۔ '' پختون معاشرے  اور خاص کرقبائلی اضلاع میں کسی خاتون کے لیے کاروبار کرنا آسان نہیں ہے بلکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی لیکن آن لائن وہ نہ صرف کاروبار کرسکتی ہیں بلکہ وہ اپنے پروڈکٹ کی تشہیر بھی اسانی سے کرسکتی ہیں''

انہوں نے کہا کہ ریاست نے قبائلی خواتین کی زندگی تبدیل میں کوئی دلچسپی نہیں لی اگر ہم روایات کو کوستے ہیں تو اس سے پہلے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ریاست نے ان خواتین کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کیا اقدامات کیے یا فاٹا مرجر کے بعد کیا کیا۔

پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے

ضلع خیبرلنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والی اسسٹنٹ پروفیسر عروج نثار سمجھتی ہیں کہ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ان قوموں نے ترقی کی ہے جنہوں نے اس کا صحیح استعمال کیا ہے چاہے وہ تعلیم میں ہو یا روزگار میں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے بہت کم لوگ ہیں جو ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھارہے ہیں جبکہ زیادہ تعداد میں لوگوں کی ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں ہے اور نہ ہی انکو اس کا استعمال آتا ہے، پھر اگر خواتین کی بات کی جائے تو وہ جدید ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں، لوگوں کا خیال ہے  کہ اگر خواتین کو ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے تو خواتین خودمختار ہوجائیں گی اور وہ اپنے لئے فیصلے کرپائیں گی اور وہ اس بات سے ڈرتے ہیں اس وجہ سے خواتین کو اس سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

عروج نثار کا کہنا ہے کہ قبائلی خواتین کی نہ تو انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور نہ ہی ڈیوائسز تک،انکے پاس صرف سادہ موبائل ہوتے ہیں اور وہ بھی صرف ضرورت کی حد تک استعمال کرتی ہیں، ہمارے ہاں خواتین کا موبائل یا لیٹ ٹاپ استعمال کرنا بھی معیوب سمجھاجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آجکل کے دور میں معلومات تک رسائی بنیادی حقوق میں سے ایک ہےاور ایسا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہے۔

عروج نثار نے کہا کہ ہم اپنی قبائلی خواتین کو معاشی طور پرخودمختار بناسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انکو ڈیجیٹل سکلز دیئے جائے اور جدید ٹیکنالوجی تک انکی رسائی ممکن بنائی جائے۔

April 28, 2023 - Comments Off on ڈیجیٹل ایج میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں ؟

ڈیجیٹل ایج میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں ؟

صباحت خان

پاکستان میں جدید سوشل میڈیا کی ترقی کے دور میں اب بھی یہ تاثر عام ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں دوہری زمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد محدود وسائل میں نہ صرف گھر چلا نے میں معاشی طور پر کردار ادا کر رہی ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی  سے آراستہ ہوکر ملک کی ترقی میں بھی کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہیں۔ مثبت پہلو پر بات کی جائے تو سوشل میڈیا کی ترقی نے گھروں تک  محدود خواتین کے لیے ایسے راستے ہموارکیے ہیں  جس وہ اپنی زندگیوں کو بہتری کی طرف لے کر جا رہی ہیں

خواتین کے عالمی دن  پر بھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تک خواتین کی رسائی کو بہتر بنانے کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے تھا  کہ ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی پاکستان میں صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنانے کے لئے وسائل اور مدد فراہم کرنا ضروری ہے۔اس سال کا عنوان ڈیجیٹ آل: صنفی مساوات کے لیے جدت اور ٹیکنالوجی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ڈیجیٹل تفریق آج کی تیز رفتار اور ہمیشہ بدلتی ہوئی دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے اور شمولیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

جینڈرکنسرنز انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے مجموعی حقوق میں بہتری آئی ہے اس کی وجہ خواتین کی تعلیم اور خواندہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ ہے۔تاہم  پاکستان میں خواتین کو طبقاتی معاشرے کے نتیجے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن سروے کے مطابق پاکستان کو خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ تمام تر حالات کے بعد  بھی معاشرے کا مثبت اور حوصلہ افزا پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین اتنی مشکلات  کے ساتھ  مختلف شعبوں میں کام کرتی  نظر آ رہی ہیں پہلے تو کئی کئی سالوں کی تعلیم کے بعد خواتین عملی طور پر شعبوں میں نظر آرہی تھیں جبکہ گھر میں اپنی نہ ختم ہونے والی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی خواتین احساس محرومی اور مایوسی کا شکار رہتی تھیں مگر سوشل میڈیا کی ترقی نے گھریلو خواتین پر بھی اثرات مرتب کیا ہیں جس کے نتیجہ میں اب گھر میں رہنے والی خواتین اپنی مدد اپ کے تحت  مختلف  کاروبار چلا رہی ہیں اور کچھ صورتوں میں مردوں کے مقابلے میں بہترکما رہی ہیں ۔

اس رجحان نے ہمارے معاشرے کے منفی پہلو کا رخ اس طرہ بدل دیا ہے کہ پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی خواتین میں آف لائن کے ساتھ ساتھ آن لائن کاروبار کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں بڑھتی

ہوئی مہنگائی ،خواتین کے خلاف غیر امتیازی سلوک ، معاشی استحصال اور ذہنی اور جسمانی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں ۔

 پاکستان میں اس وقت ہزاروں خواتین  گھر بیٹھے سوشل میڈیا کے مخلتف پلیٹ فارمز کا استعمال کر کے لاکھوں روپے کما رہی ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین اپنے گھروں کے اندر بغیر کسی مسئلے اور تکلیف کے کما رہی ہے یا وہ کسی نہ کسی مشکل کا شکار رہتی ہے ،یا  ڈیجیٹل ایج میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں یا نہیں؟

ایک انداز کےمطابق پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تعدادتقریباً ایک کروڑ 20لاکھ ہے،جن میں 80 فیصد خواتین ہیں، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں  گھر بیٹھے روزگار کما رہی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ خواتین کے خلاف جسمانی،  ذہنی اور معاشی تشدد کے خوفناک واقعات پر آواز تو اٹھائی جاتی ہے مگر خواتین کو اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات کو حل یا بہتر کرنے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ہیں ۔

ملک بھر میں ہزاروں خواتین آن لائن کام کر رہی ہیں جن میں بڑی تعداد پڑھی لکھی خواتین کی نہیں ہیں جو سوشل میڈیا کا استعمال تو کر لیتی ہیں مگر مکمل طریقے سے اور محفوظ انداز میں استعمال نہیں کر سکتی ہیں ۔ یہ بات  پریشان کن ہے کہ خواتین کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جوانٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے باوجوداستعمال کرنے  والی معلومات سے محروم رہ جاتا ہے۔

 یہ طبقہ خاص طور پر اُن خواتین پر مشتمل ہے جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں موجود ملٹی میڈیا کنٹینٹ (Multimedia Content)سُننے، سمجھنے اور پڑھنے سے محروم ہیں اور اسی بنا پر اُن بنیادی معلومات اور اہم حفاظتی تدابیر سےناواقف ہیں جن کا سامنا ان کو انٹرنیٹ پر اپنا کام کرتے ہوئے ہوسکتا ہےجیسے سائبر ہراسمنٹ یا سوشل میڈیا بلیینگ/ ٹرولنگ وغیرہ۔  ایسی خواتین تک آگاہی پہنچانے  یا ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں یا نہیں اس بارے میں مختلف خواتین سے جاننے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔

 ڈیجیٹل 50 50 میگزین سے بات کرتے ہوئے آن لائن لیڈیز کپڑوں اور بیگز کی فروخت کا کام کرنے والی مہرین خان کا کہنا ہے کہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ گھر میں رہ کر اپنا کما سکتی ہوں۔ کوئی کام آسان نہیں ہوتا اس کے لیے محنت اور لگن کے ساتھ ہنر بھی ہوگا تو بہتر انداز میں کام کر کے کمایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو خواتین میں ناامیدی کی جو لہر تھی وہ سوشل میڈیا نے ختم کرتو کر دی ہے مگر پھر بھی ڈیجیٹل دنیا کے معیار بھی مخلتف ہیں جس طرح کسی بھی  ایپ کا استعمال، کسٹمرز کے ساتھ آن لائن رابطہ میں رہنا ، سوشل میڈیا کے بدلتے رجحانات کی وجہ سے بھی کام کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جس کی وجہ سے کام کے لیے دوسرے کی مدد حاصل کرنے کے چکروں میں نجی معاملات پبلک ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہےکہ آن لائن کام کرنے والی خواتین سوشل میڈیا کے استعمال سے پوری طرح واقف ہوں تاکہ بغیر کسی مدد کے اپنے آن لائن کام کو جاری رکھ سکے۔ انہوں نے کہا میں کئی سالوں سے کام کر رہی ہو ہمشہ یہ ہی دیکھا ہے کہ کسٹمرز ہی شکایات کرتے ہیں مگر درحقیقت بات یہ ہے کہ کسٹمرز کی جانب سے ہمیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے، آڈرز بک کر کے  موصول نہیں کیا جاتے ہیں ، نمبر پبلک ہونے کی وجہ سے غیر مناسب پیغامات موصول ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی اب آن لائن کام کرنے کے حقوق کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

اسلام آباد  میں آن لائن فرنیچرکی خریدو فروخت کا کام کرنے والی سحرش مراد کا کہنا ہے کہ اگر کسٹمرزکے ڈیجیٹل حقوق ہوتے ہیں تو کاروبار کرنے والوں کو بھی اپنے

 حقوق کے بارے میں اگاہی رکھنے کی اشد ضرورت ہے  کیوں کہ کسمٹرز کی جانب سے ہمیں بھی غیرمناسب رویوں کا سامنا رہتا ہے اور ہم اس ڈر سے چپ رہتے ہیں کہ کاروبار خراب نہ ہو جائے یا آن لائن کسی بھی شکایت کے منفی نتیجے سامنے نہ آ جائیں۔

اکنامک سروے (2020-21) کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح 59.13 فیصد ہے یعنی ملک کی 40 فیصد عوام  بنیادی تعلیم بھی حاصل نہیں کررہی اور ایسی صورت میں ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنا مذید مشکل ہے کیوں کہ جس طرح پاکستان میں خواتین کے لیے بنیادی تعلیم کو عام کرنا ایک مسئلہ ہے اور اب تک خواتین کی ایک بڑی تعداد اسکول سے دور ہے، اسی طرح ڈیجیٹل لٹریسی کے مواقعے  بھی محدود  ہیں۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی بنیادی تعلیم و تربیت سے علیحدہ نہیں ۔ بنیادتی تعلیم یعنی اُردومیں لکھنا پڑھنا  اور انگریزی زبان سے واقفیت اور ڈیجیٹل لٹریسی مکمل تعلیم کا ایک  لازمی حصّہ ہے کیوں کہ کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے  ذریعے تعلیم ، روزگار اور آگاہی اُسی صورت حاصل کی جاسکتی ہے جب کمپیوٹر کی زبان کو سمجھاجائے۔

خیال رہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم محض کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرلیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود وسائل کو قابل رسائی بنایا جائے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو فرد بھی ڈیجیٹل ڈیوائسز(جیسے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر)  استعمال کرے ، اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرسکے۔

جب ہم خواتین کی تعلیم و تربیت یا ڈیجیٹل لٹریسی کی بات کرتے ہیں تب عام طور پر  یہ مدِ نظر نہیں رکھتے کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جن تک جدت اور تعلیم کا پیغام تو پہنچ  گیا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھ نہیں  سکتی ہیں کہ اس جدت کو اپنانا کیسا ہے؟ وہ جدید دنیا میں اپنی شناخت اور اپنے مقام کو ثابت کرنے کی تگ  دو میں مصروفِ عمل ہیں اور محض لسانی بندشوں کی وجہ سے تربیت کے مواقعوں سے محروم ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں  جواپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری قومی یا بین الاقوامی زبان کی محدود واقفیت رکھتی ہیں،یا جو  کسی بھی دوسری زبان میں کی گئی گفتگو کوسُن کر سمجھ تو سکتی ہیں لیکن پڑھنے سے محروم ہیں یا معلومات کوسمجھنے میں  دقت کا سامنا کرتی ہیں۔ایسی خواتین جب حصول ِعلم یا کسی ہنر کی تربیت حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا رُخ کرتی ہیں تو اپنی زبان میں مطلوبہ تربیتی مواد نہ ہونے کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھتی ہیں۔ ان خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی پہنچانے اور انٹرنیٹ کو محفوظ انداز میں استعمال کرنے کی تربیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا تربیتی مواد تیار کیا جائے جوعلاقائی اہمیت کے لحاظ سے  کم از کم دو اہم مقامی زبانوں کےسب ٹائٹل یا کیپشن  پر مبنی ہو ۔

بات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے یہ نہایت اہم امر ہے۔وہ خواتین جو جدید ٹیکنالوجی سے اپنے کاروبار سے  واقفیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کو اس سہولت کے ذریعے اپنی مدد آپ کے تحت تربیت حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو

گا اور وہ نہ صرف یہ آگاہی حاصل کرسکیں گی کہ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہے بلکہ یہ بھی سمجھ سکیں گی کہ بنیادی معلومات کے ساتھ بھی انٹرنیٹ کو فعال انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صدر مملکت نے  خواتین کے عالمی دن پر واصخ پیغام میں کہا تھا کہ ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی پاکستان میں صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز ان کے لیے ڈیجیٹل معیشت میں حصہ لینے اور تعلیم، صحت، بینکنگ، قرضوں اور دیگر ضروری خدمات تک ان کی رسائی کو بڑھانے کے لئے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خاص طور پر ہمارے دور دراز علاقوں میں خواتین کی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل خواندگی کے پروگراموں کے علاوہ انہیں انٹرنیٹ سروسز، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تک ان کی رسائی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے حکومتوں، این جی اوز اور خاص طور پر خواتین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے صنفی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر بھی زور دیتے  کہا  تھا کہ حکومتوں، بینکنگ اور نجی شعبے کو ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے خواتین کی سماجی اور اقتصادی شمولیت کی کوششوں کی حمایت کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیں ہم صنفی مساوات کو حاصل کرنے کا عہد کریں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے سب کے لئے ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی دنیا بنانے کے لئے کام کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے لیے  ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں اگاہی فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائے تاکہ خواتین مخفوظ انٹر نیٹ کے ساتھ اپنے محفوظ کاروبار کی ترقی کے ساتھ معاشرے میں معاشی حالات بہتر کرنے میں کردار ادا کر سکے

April 28, 2023 - Comments Off on ڈیجیٹلائزیشن کا زمانہ اور گھریلو خواتین کی زندگیاں بدلتے آن لائن کاروبار

ڈیجیٹلائزیشن کا زمانہ اور گھریلو خواتین کی زندگیاں بدلتے آن لائن کاروبار

عاصمہ کنڈی

ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں جہاں پڑھے لکھے پیشہ ور افراد اور روائتی کاروباری حضرات اس کے بیش بہا ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں وہیں کم پڑھی لکھی گھریلو خواتین کی زندگیوں میں بھی انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔

گھر کی محفوظ چاردیواری میں ان خواتین کو بھی کام کرنے اور اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی اجازت مل جاتی ہے، ان کے ہاتھ میں کوئی ڈگری نہیں ہوتی کہ وہ گھر سے نکل کر کسی آفس میں کوئی نوکری کر سکیں ۔عام طور پر پاکستان میں عورت ابھی اتنی آزاد نہیں کہ مارکیٹ میں بیٹھ کر مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار کر سکے۔

کرونا کی وبا جہاں دنیا بھر کے لئے ایک عذاب کی مانند رونما ہوئی وہاں ہی پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا رواج شروع ہوا اور بہت سی خواتین نے اس موقع کو آسمانی مدد سمجھ کہ اپنے اپنے کاروبار محدود پیمانے سے شروع کئے۔ ان میں ذیادہ تر کپڑے، میک اپ، جیولری اور کھانا پینے کی اشیأ شامل تھیں۔

آج کے مصروف دور میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آن لائن کاروبار کے اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، آن لائن کاروبار نے گھریلو خواتین کو بھی ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے جو کہ ان کی زندگیوں کو مثبت طور پر متاثر کرتا ہے۔ گھریلو خواتین اب آسانی سے اپنے گھر سے ہی آن لائن کاروبار کرتی ہیں، جس کے لئے انہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں گھریلو خواتین کا کاروباری سرگرمی کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو کاموں کو بھی پوری طرح وقت دے سکتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ گلوں کے ساتھ خار ہوتے ہیں اور ہر آسائش کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے، بلکل اسی طرح یہ خواتین جہاں معاشی خودمختاری کے لذت سے محظوظ ہورہی ہیں وہیں انکو بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ان کے آن لائن بزنس کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور دلچسپی کے باوجود ان کے سامنے مختلف مشکلات اور رکاوٹیں آ رہی ہیں۔ ان مشکلات میں سب سے نمایاں آن لائن ہراسگی اور تربیت و تعلیم کے عدم فراہمی شامل ہیں۔

ماہ نور جو راولپنڈی سے تعلق رکھتی ہیں اور شعبے کے اعتبار سے سافٹ وئیر انجینئر ہیں، اپنا میک اپ کا آن لائن کاروبار گزشتہ تین سال سے کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ اپنی کہانی ڈیجیٹل ۵۰ ۵۰ کو سناتے ہوئے ماہ نور کا کہنا تھا کہ جب ان کی ڈگری مکمل ہوئی اور وہ اپنے لئے کسی نوکری کی تلاش میں تھیں تو دنیا میں میں کرونا وبا ایک بھیانک خواب کی طرح وارد ہوئی اور پاکستان میں بھی زندگی کو مفلوج کر دیا۔ کچھ عرصہ گھر بیٹھنے کے بعد ماہ نور نے اپنا کاروبار کرنے کا سوچا اور آن لائن دوکان سجانے کے علاوہ ماہ نور کے پاس اور کوئی جگہ نہیں تھی جہاں سے وہ اپنے عملی زندگی کی پرواز بھرتی۔

ماہ نور نے بہت تحقیق کے بعد میک اپ کا سامان تھوک کے حساب سے منگوایا اور تھوڑا سا منافع کا مارجن رکھ کہ فیس بک پر آن لائن بیوٹی کے گروپس میں لائیو سیشن کر کے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ اس نے دس ہزار روپے جو اپنی جیب خرچ سے جوڑے تھے وہ اپنے کاروبار میں انویسٹ کئے اور پہلا منافع اس کی زندگی کا یادگار تجربہ تھا جس نے اس کی خود اعتمادی میں بھرپور اضافہ کیا۔

’شروع کے تین مہینے میں نے جو منافع کمایا وہ اپنے کاروبار میں دوبارہ انویسٹ کرتی رہی اور اب اللہ کا شکر ہے کہ تین سال بعد ’بیوٹی لکس‘ کے نام سے میرا اپنا ایک آن لائن کاروبار ہے اور فیسک بک، انسٹا گرام اور وٹس ایپ کے زریعے میں اسکو کاروبار کو کامیابی سے چلا رہی ہوں،‘ ماہ نور۔

ماہ نور اپنے گھر میں سب سے چھوٹی بہن ہے اور اب اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کاروبار نے ان کی زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لائیں ہیں، وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہے، اس کی فیمیلی اس کو مکمل سپورٹ کرتی ہے اور وہ جہاں اور جیسے چاہتی ہے خرچ کرتی ہے۔ پانچ بہنیں اور ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی ضرورتوں کے لئے بھی اپنے والد پر انحصار کرتی تھی مگر اب وہ اپنی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات کو بھی پورا کر کے اپنی زندگی میں رنگ بھر رہی ہے۔

جیسے کی رنگوں کی قوس قزح کی خوبصورتی کو کالا رنگ ماند کر دیتا ہے کچھ اسی طرح ماہ نور بھی آن لائن ہراسگی کے سیاہ رنگ سے خوفزدہ محسوس کرتی ہے۔ پاکستان ابھی ڈیجیٹل ترقی کا زینہ چڑھ رہا ہے اور لوگوں میں شعور اور تعلیم کی کمی کے باعث عورت ہو یا چاہے اسکی آواز ہو ایک تسکین کی چیز ہی ہے۔ ماہ نور بھی ایسے ہی پست زہن لوگوں کا سامنا بہت بہادری سے کر رہی ہے۔ اسکا کہنا تھا کہ، ’عورت کسی بھی جگہ چاہے آن لائن سپیس ہو یا ورک پلیس ہو، اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک اس معاشرے کی سوچ میں تبدیلی نہیں آجاتی اور لوگ اسکو تسکین کی چیز سمجھنا چھوڑ نہیں دیتے۔ میں نے اپنے فون نمبر، سوشل میڈیا اکاؤنٹس کاروبار کے لئے الگ اور ذاتی استعمال کے لئے الگ بنائے ہیں مگر پھر بھی ایسے ہی کچھ پست زہن کے لوگ سراغ لگاتے میرے ذاتی انباکس تک آجاتے ہیں اور طرح طرح کے گھٹیا حربے آزماتے ہیں۔‘

ماہ نور نے بتایا کہ وہ ان لوگوں اور انجان نمبروں کو بلاک کر کہ ان سے جان چھڑاتی ہیں مگر یہ ایک نہ تھمننے والا سلسلہ ہے جو کہ تین سال سے جاری و ساری ہے۔

اس کے علاوہ باقی عورتیں جو میک اپ کا آن لائن کا روبار کرتیں تھیں وہ ماہ نور کو پریشان کرتیں تھیں کہ آپ اپنا سامان سستے داموں بیچتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری مارکیٹ خراب ہو رہی ہے۔ آپ بھی اپنا مال مہنگا بیچیں ورنہ ہم آپ کا پیج بلاک کر دیں گے اور آپ کو کسی میک اپ گروپ میں لائیو سیشن نہیں کرنے دیں گے۔

ایسی ہی ایک باہمت خاتون، سائرہ (فرضی نام) بھی ہیں۔ جو پنڈی کے علاقے سٹلائیٹ ٹاؤن میں رہتیں ہیں اور گھر بیٹھے اپنا کپڑوں کا کامیاب آن لائن کاروبار ’روز کلیکشن ‘ کے نام سے چلا رہی ہیں۔ ہم سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ وہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کر پائی اور ایف اے تک علم کی ڈگریاں سمیٹ پائی۔

۲۰۱۹ میں جب کرونا کی وبا نے زندگی کی رفتار کو منجمد کردیا تھا تو انکے شوہر کی لگی لگائی نوکری بھی ختم ہوگئی اور گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال دئیے۔ سائرہ اپنے شوہر کی پریشانی بانٹنا چاہتی تھی مگر اس کو کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ وقت گزاری کے لئے فیس بک استعمال کرتی تھی اور ایک دن اچانک دوسری عورتوں کی آن لائن دکانیں دیکھ کہ اس کے زہن میں خیال آیا کہ اگر یہ خواتین ہمت کر سکتی ہیں تو وہ کیوں نہیں۔

’میرے پاس ذیادہ تو کیا تھوڑے پیسے بھی نہیں تھے کہ کاروبار میں لگاتی۔ ہمارے گھر کے پاس ایک کپڑوں کی دکان تھی جس کا مالک کرونا کی وجہ سے سیل کم ہونے پر بہت پریشان تھا۔ میں نے اس سے بات کی کہ اگر میں اس کے کپڑے اان لائن سیل کر کہ دوں اور اپنا منافع بھی رکھوں تو وہ خوشی خوشی تیار ہو گیا،‘ سائرہ۔

یوں سائرہ نے کپڑوں کی تصاریر اتار کہ آن لائن ’روز کلیکشن‘ کے نام سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ سب خاندان والوں نے اسکا مذاق بنایا اور کسی ایک فرد نے اس سے کپڑے نہیں خریدے بلکے اس پر مہنگے داموں بیچنے کا الزام بھی لگایا۔ خیر سائرہ نے ہمت نہیں ہاری اور پہلے ہفتے میں ہی اسکو اسکا پہلا آڈر ملا۔

’میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جب رمضان میں رات دو بجے فیس بک میسنجر پر مجھے ایک سوٹ کا آڈر ملا۔ میں نے اپنے شوہر کو نیند سے جگایا اپنی خوشی بانٹنے کے لئے۔ بس اس دن سے ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب میرا اپنا لاکھوں مالیت کا کاروبار ہے۔‘

سائرہ کا شوہر بھی اب اسی کے ساتھ کاروبار میں لگا ہوا ہے اور باہر کے سارے امور وہیں سر انجام دیتا ہے۔ اس آن لائن دنیا نے سائرہ کی نا امید دنیا کو نہ صرف امیدوں بلکے خوبصورت رنگوں سے بھی سجا دیا ہے۔ اب وہی رشتے دار جو اس کا حوصلہ شکنی کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے اب اس سے کاروبار شروع کرنے کے طریقے پوچھتے ہیں۔ اس معاشی خودمختیاری نے نہ صرف اسکی معاشی مشکلات کو آسان کیا بلکے لوگوں اور اسکے گھر والوں کے رویئوں میں بھی مثبت اور حیران کن تبدیلی دیکھائی۔

مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے سائرہ نے بھی ماہ نور کی طرح بتایا کہ لوگ اس کے آن لائن سیشن کے دوران بے ہودہ میسج کرتے تھے کہ آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے تو آپ خود بھی بہت خوبصورت ہوں گی۔اس طرح کی صورتحال میں وہ بہت شرمندگی محسوس کرتیں تھیں کیوں کہ ان کے خاندان کی ذیادہ تر خواتین انکا سیشن دیکھتیں تھیں اور اس طرح کے کمنٹس انکی مشکلات میں اضافہ کرتے تھے۔

انباکس میں بے ہودہ پیغامات، آڈیو اور کبھی وڈیو کالز یہ سب بھی معمول کا حصہ تھا۔ مگر ان کے شوہر نے سائرہ کا بہت ساتھ دیا اور ہر بار انکی ہمت بڑھائی۔ وہ اس آن لائن ہراسگی سے کیسے نمٹتی تھیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ جب میرے شوہر گھر نہیں ہوتے تھے تو میں انجان نمبر سے کوئی کال نہیں اٹھاتی تھی بلکہ بلاک کر دیتی تھی اور جب شوہر پاس ہوں تو انکو فون دے دیتی تھی۔

سائرہ اب اپنے گھر کی کفیل بن چکی ہیں مگر ہراسگی کا یہ سلسلہ مسلسل کئی سال سے انکا پیچھا کر رہا ہے۔ لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اس ہراسگی نے ان کی ہمت اور حوصلہ نہیں توڑا جس میں ان کے شوہر کا ساتھ ایک مضبوط ستون ثابت ہوا۔

اسی طرح اسلام آباد کے جی ۱۴ سیکٹر میں رہنے والی صائمہ چار بچوں کی ماں ہے جو بچوں کی وجہ سے گھر سے باہر ملازمت نہیں کر سکتی تھی اور کچھ کرنے کا جنون بھی اسکے سر تھا۔ صائمہ کے کھانے کی پورے خاندان میں دھوم تھی تو اس نے اسی شوق کو اپنا پروفیشن بنانے کا سوچا اور آن لائن فوڈ ایپ، ’فوڈ پانڈا‘ کے زریعے اپنے کھانے کے کاروبار کا آغاز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے بنے لذیذ کھانے جو مناسب داموں دستیاب تھے لوگوں کی توجہ کھینچنے میں کامیاب ہوئے اور اب صائمہ ’ہیلتھی بائیٹس‘ کے نام سے انسٹاگرام اور فیس بک پر اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔

’اب میں فوڈ پانڈا پر کام نہیں کرتی کیونکہ میرے کسٹمرز میرے واٹس ایپ گروپ میں ایڈ ہیں اور وہیں مجھے کھانے کے آڈرز ملتے ہیں۔ نئے کسٹمرز مجھے سوشل میڈیا پر میرے پیجز سے رابطہ کرتے ہیں۔‘

صائمہ کا کہنا تھا کہ وہ گھر رہ کر ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھیں انکو لگتا تھا کہ بچوں کی ذمہ داریوں کے بعد وہ اور کچھ نہیں کر پائیں گی مگر اس ڈیجیٹل دنیا نے نہ صرف انکو اس ڈپریشن زدہ زندگی سے نکالا بلکے معاشی طور پر بھی مضبوط کیا۔

ہراسمنٹ والے سوال پر انکے بھی کم و پیش وہیں تجربات تھے جو ہم نے سائرہ یا ماہ نور کے دیکھے تھے اور ان کو حل کرنے کے لئے بھی انکے پاس بلاک کا آپشن سب سے محفوظ طریقہ تھا۔

آن لائن دنیا نے جہاں ان خواتین کے لئے زندگی کی نئی راہیں واں کی وہیں کچھ شر پسند عناصر نے ان کی اس نئی زندگی میں رکارٹیں ڈالنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ یہ عناصر ان تین خواتین کی ہمت تو نہیں توڑ پائے مگر اور کتنی ایسی خواتین ہوں گی جو ان کے شر کا شکار ہو کر خود اپنے ہاتھوں اپنی نئی زندگی کے دروازے خود پو بند کر چکی ہوں گی۔

ان خواتین سے بات چیت کے دوران کچھ حقائق واضح ہو گئے کہ آن لائن کاروبار میں چاہے پڑھی لکھی خواتین ہوں یا کم پڑھی لکھی، انکو اپنی ڈیجیٹل حفاظت کے قانون کے بارے میں کوئی علم نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے حفاطتی ہتھیاروں کے بارے میں معلومات ہیں۔ بلاک کرنا انکا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

ان باہمت خواتین کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے اور محفوظ بنانے کے لئے جدید معیار کی ٹرینیگ کی ضرورت ہے جو ان کے فولادی بازوں کو مزید مضبوط کر سکتی ہیں۔

۲۰۱۶ میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (پیکا) منظور کیا گیا۔یہ سائبر کرائم کی تمام اقسام کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے اور یہ سائبر کرائم بل 2007 پر مبنی ہے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ (سی سی ڈبلیو) کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ ۲۰۱۶ (پیکا) کی روک تھام کے قوانین سے رہنمائی حاصل ہے، جو سائبر کرائمز کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹتا ہے۔ ایف آئی اے اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائنز اس طرح کے آن لائن ہراسمنٹ کے کیسوں میں مدد فراہم کرنے میں بہت معاون ہیں۔

ایف آئی اے کی ہیلپ لائن ۷۸۶۔۳۴۵۔۱۱۱

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن ۳۹۳۹۳۔۰۸۰۰

مگر ضروری یہ ہے یہ جو بھی خواتین آن لائن سپیس میں جاتی ہیں چاہے وہ کاروبار، نوکری یا تفریح کے لئے ہو ان کو اپنی حفاظت کے سب ہتھیاروں کا نہ صرف پتہ ہونا چاہئے بلکے ان سے لیس بھی ہونا چاہئے صرف تبھی وہ انٹرنیٹ کے وسیع آسمان میں لمبی اور محفوط پرواز بھر سکیں گئیں