Blog Archives

All Posts in Digital 50.50, Feminist e-magazine

December 8, 2023 - Comments Off on تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

خالدہ نیاز

میرا بھی دل چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کروں، ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناوں لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ نہ تو میرے پاس سمارٹ فون ہے اور نہ ہی مجھے تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی اجازت ہے۔

یہ کہنا ہے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ندا کا جو اس وقت ایف ایس سی پارٹ ٹو کی طالبہ ہے۔ ندا کا کہنا ہے کہ اس کو بھائی نے سختی سے منع کیا ہے کہ موبائل کو ہاتھ بھی نہ لگائے اور اگر اس نے کہیں پہ تصاویر بنائی تو یہ اس کے کالج کا آخری دن ہوگا۔ ندا کا کہنا ہے کہ آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے انکو پڑھائی کے لیے بھی سمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ موبائل استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

ندا کا کہنا ہے اس کے علاقے میں لڑکیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کوئی بھی انکی تصاویر اور باقی مواد کا غلط استعمال کرسکتا ہے اور یوں انکی زندگیوں میں طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ ندا نے بتایا کہ سوشل میڈیا بذات خود غلط نہیں ہے لیکن لوگوں نے اس کا استعمال غلط کیا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے مسائل بن جاتے ہیں اور پھر انکی طرح کئی لڑکیاں پڑھائی کے لیے بھی اس کا استعمال نہیں کرسکتی۔

کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا

پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک نرس نسرین (فرضی نام) نے بتایا کہ ایک دن وہ بیٹھی فیس بک استعمال کررہی تھی جب اس کو مسینجرپر ایک میسج موصول ہوا۔ جب انہوں نے وہ میسج کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس لنک پر کلک کرکے دیکھیں اس میں انکی اور انکے بوائے فرینڈ کی تصاویر اور چیٹ لیک ہوئی ہے۔ نسرین نے کہا کہ میسج دیکھ کر انکے پاوں سے زمین نکل گئی اگرچہ نہ تو انکا کوئی بوائے فرینڈ ہے اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ کوئی تعلق لیکن ایک لمحے کو وہ ڈر گئی کہ کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا۔

نسرین نے جب اس لنک پر کلک کیا تو وہ نہیں کھل رہا تھا۔ بعد میں انہوں نے وہ لنک اپنی دوست کو بھیجا اور سارا قصہ سنایا۔ جب اپنی دوست کو وہ لنک بھیجا تو اس نے بتایا کہ اس میں کچھ بھی نہیں یہ ایک سپیم ہے۔ نسرین نے کہا کہ اس دن کے بعد سے وہ بہت ڈر گئی تھی اور یوں انہوں نے فیس بک اور مسینجر کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اب بہت ڈر گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں خواتین جدید ٹیکنالوجی سے دور کیوں

خیبرپختونخوا میں زیادہ تر خواتین سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور ہیں اس کی بڑی وجہ یہاں کا کلچر ہے۔ زیادہ تر مرد خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور خواتین کے پاس سمارٹ فونز بھی نہیں ہوتے۔

خیبرپختونخوا میں بہت کم خواتین کے پاس سمارٹ فونز ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا تک انکی پہنچ نہیں ہوتی لیکن اگر کسی لڑکی یا خاتون کی کوئی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہوجائے تو اسکی انکو بہت سخت سزائی دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسے کیسز میں مرد رشتہ دار خاتون یا لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں۔ رواں سال جنوری میں بھی ضلع چارسدہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جب ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کو والد نے جان سے ماردیا۔

چارسدہ میں 18 سالہ لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو والد نے مار دیا

ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد باسط خان نے اس حوالے سے بتایا کہ 18 سالہ لڑکی اسلام آباد میں ایک گھر میں کام کرتی تھی جہاں ایک لڑکے نے اسکی ویڈیو وائرل کی تو والد نے اس کو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو اکثر اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کچھ کیسز میں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔

محمد باسط خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین کو کئی ایک پابندیوں کا سامنا ہے اور یہ پابندیاں انکے والد، بھائی اور باقی گھر کے مرد لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں موجود صلاحیتیں کبھی سامنے نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید دور میں بھی جب ایک عورت گھر سے کام کے لیے نکلتی ہیں تو انکے کام کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی بھی یہی سوچ ہے کہ خواتین گھر میں بیٹھ کر برتن دھوئیں، کھانا بنائیں اور بچے پالیں۔

محمد باسط خان کے مطابق پاکستان میں اس وقت انیس کروڑ موبائل صارفین موجود ہیں جن میں 5 کروڑ تعداد خواتین کی ہے جبکہ باقی مرد ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد 2 کروڑ ہے جبکہ باقی خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔ محمد باسط نے بتایا کہ خواتین کو اب سوشل میڈیا پر بھی تنگ کیا جاتا ہے، پہلے تو صرف گلی کوچوں میں انکے پیچھے لوگ آواز کستے تھے لیکن اب تو سوشل میڈیا پر بھی انکو نہیں چھوڑا جاتا۔ اگر کوئی خاتون آن لائن کاروبار کرتی ہیں تو ان کو لوگ آرڈر دے دیتے ہیں اور بعد میں انکار کردیتے ہیں کہ ہم نے یہ چیز نہیں لینی۔ بعض لوگ خواتین کو غیر اخلاقی میسجز بھی بھیجتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین خود بھی تنگ آکر سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

خواتین آن لائن ہراسمنٹ کے حوالے سے گھر میں بتا نہیں پاتی

خواتین کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انکو جب آن لائن طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ گھر والوں کو بھی نہیں بتا پاتی کیونکہ یہاں جب خواتین اس حوالے سے بات کرتی ہیں تو ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور یوں بہت ساری خواتین چپ سادھ لیتی ہیں۔

محمد باسط خان نے کہا کہ ہماری خواتین میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے جو بہت آگے جاسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور ہمارا کلچر انکے آڑے آجاتا ہے۔ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک خاتون آن لائن بزنس کرتی ہیں، بہت ٹیلنٹڈ ہیں لیکن ان کو گھر والوں نے اس شرط پر اس کی اجازت دی ہے کہ کسٹمر سے وہ بات نہیں کریں گی بلکہ اس کا بھائی یا کوئی اور مرد کرے گا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے خواتین کو کتنا خودمختار بنایا ہے۔ وہ خاتون جو ایک کام میں مہارت رکھتی ہیں کسٹمر کو اچھے سے ڈیل کرسکتی ہیں اور کاروبار کو کامیاب بناسکتی ہیں وہ اس کا بھائی یا کوئی اور نہیں کرسکتا لیکن مسئلہ پھر وہی آجاتا ہے کلچر کا۔

محمد باسط خان نے مزید بتایا کہ کچھ خواتین کو سائبر کرائمز کے حوالے سے قانونی راستوں کا بھی پتہ ہوتا ہے لیکن وہ اول تو کیس نہیں کرتی یا اگر کرتی بھی ہیں تو معاشرتی دباؤ اور گھر والوں کی عزت کی خاطر واپس لے لیتی ہیں۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل

چارسدہ کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی کئی خواتین اور لڑکیوں کو سوشل میڈیا ویڈیوز کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دو ہزار بارہ میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں ہونے والی ایک شادی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پانچ لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے رقص کررہے تھے۔ بعد ازاں رپورٹس سامنے آئی تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹس کے مطابق دو ہزار چودہ میں بھی لوئر دیر کے علاقے جندول میں بھائی نے اپنی 13 سالہ بہن کواس لیے قتل کردیا تھا کیونکہ وہ موبائل استعمال کرتی تھی اور بھائی کو شک تھا کہ اس کی بہن مردوں سے بات کرتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مطابق چار کروڑ ساٹھ لاکھ سوشل میڈیا صارفین میں 78 فیصد مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح صرف 22 فیصد ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے

گورنمنٹ کامرس کالج پشاور کی اسسٹنٹ پروفیسر عروج نثار کہتی ہیں کہ آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے بہت کم لوگ ہیں جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کی نہ تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، نہ ہی انکو اس کا استعمال آتا ہے اور نہ انکو اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر خواتین کو ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے گی تو وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوجائیں گی اور اپنے فیصلے خود کرنے لگ جائیں گی جبکہ معاشرہ اس چیز سے ڈرتا ہے۔

خیبرپختوںخوا اور قبائلی اضلاع کی خواتین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے عروج نثار نے بتایا کہ ہماری خواتین اس سے کوسوں دور ہیں۔ قبائلی اضلاع میں تو مرد بھی سوشل میڈیا اور ان چیزوں سے دور ہیں لیکن خواتین کے لیے تو وہاں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں ہے۔ قبائلی اضلاع میں خواتین کے پاس موبائل فونز نہیں ہوتے انکے پاس سادہ فونز ہوتے ہیں جو صرف ضرورت کے لیے ہوتے ہیں انکو سمارٹ فونز رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے

عروج نثار نے بتایا کہ ہمارے صوبے میں لڑکیوں کے لیے سمارٹ فونز رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر وہ چیز جس سے خواتین معاشی یا سماجی طور پر خودمختار ہوتی ہیں وہ انکے لیے معیوب تصور کی جاتی ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی کوئی انسان ہرقسم کی معلومات حاصل کرسکتا ہے لیکن یہاں خواتین اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ عروج نثار کے مطابق جب تک ہم آدھی آبادی یعنی خواتین کو بنیادی حقوق نہیں دیں گے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دیں گے تب تک ہم ایک کامیاب قوم نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک نہ صرف رسائی دینے کی ضرورت ہے بلکہ انکو اس سلسلے میں ٹریننگز بھی دینی چاہیئے تاکہ وہ اس کا مثبت استعمال کرکے نہ صرف خود معاشی طور پر خودمختار ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پرگمنام رہنا چاہتی ہیں

مردان سے تعلق رکھنے والے افتخارخان نے بتایا کہ سوشل میڈیا کا منفی اور مثبت دونوں طریقوں سے استعمال ہورہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا منفی استعمال زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن دوسری طرف کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہیں اور فیس بک پر اکثر خواتین تبدیل نام کے ساتھ آئی ڈی بنادیتی ہیں۔ خواتین اس کو استعمال کرنا چاہتی ہیں، مختلف گانوں، ڈراموں اور باقی پوسٹوں کو شیئر اور لائیک تو کرتی ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ جس کمیونٹی میں وہ رہ رہی ہیں وہ انکے حوالے سے زیادہ معلومات نہ رکھیں کہ وہ کیا شیئر کرتی ہیں یا کیا پسند کرتی ہیں کیونکہ انکو معاشرے کے لوگوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

افتخارخان نے کہا کہ سوشل میڈیا رابطوں کا سب سے تیز اور آسان ذریعہ ہے اور ہمارے معاشرے کے مرد نہیں چاہتے کہ انکی خواتین کسی کے ساتھ رابطے میں رہیں اس لیے وہ سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر خواتین کو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دی جائے گی تو وہ نہ تو مثبت طریقے سے سوچ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ کوئی کاروبار شروع کرسکتی ہیں۔

December 7, 2023 - Comments Off on تشدد صرف مار پیٹ نہیں، گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کو تشدد کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

تشدد صرف مار پیٹ نہیں، گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کو تشدد کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

ماریہ انجم

تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے تمہیں کسی نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔’

‘نہیں بابا اس نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا ‘

تشدد صرف مار پیٹ نہیں ہوتی   ‘

  پاکستان کے نجی ٹی وی پر  نشر ہونے والے ڈرامے کا یہ کلپ ٹک ٹاک اور فیس بک  پر وائرل ہے جہاں ایک  شادی شدہ بیٹی اپنے باپ سے یہ گفتگو کر رہی ہے۔ باپ نے بیٹی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ اس کا شوہر اس کو تشدد کانشانہ بناتا ہے لیکن بیٹی نے کہا کہ وہ اس کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔

اس کلپ کے نیچے لکھے جانے والے کمنٹس کا اگر جائزہ لیا جائے تو نوے فیصد خواتین اس ڈرامے کے کلپ میں ہونے والی گفتگو کے متعلق کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ان کے ساتھ بھی یہی ہوچکا ہے جہاں ان کے شوہر ان کو ذہنی طور پر اتنا تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کہ دیکھنے والے کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔

پاکستان خواتین کے خلاف تشدد میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ جہاں تقریباً 32 فیصد خواتین کو مبینہ طور پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 40 فیصد شادی شدہ خواتین ازدواجی تشدد کا شکار ہیں جس میں ذہنی تشدد یا مینٹل ابیوز سر فہرست ہے۔

پاکستان میں جہاں خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات سجھا جاتا ہے وہیں معاشرہ اب صنفی بنیادوں پر تشدد کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اب کیوں؟ یا کیسے؟ کے بجائے یہ پوچھا جاتا ہے کہ عورت نے ایسا کیا کردیا تھا؟

پاکستان میں جہاں خواتین جسمانی تشدد پر بھی صبر کر جا تی ہیں وہاں ذہنی تشدد یا گیس لائٹنگ کے حوالے سے ان کے پاس آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین کے ذہنی امراض کے حوالے سے کام کرنے والی ڈاکٹر ثمینہ منظور کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسی فیصد شادی شدہ  خواتین ڈیپریشن کی شکایات لے کر آتی ہیں اور ان میں سے نوے فیصد خواتین ازداواجی و ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن ان کو خود اس بات کا علم نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر ثمینہ منظور کا کہنا ہے کہ ہم تشدد کو اکثر صرف جسمانی  سمجھتے ہیں جہاں ہم نظر آنے والے زخموں ، نیل اور نشانات سے اس کا ایک خاکہ بناتے ہیں لیکن ذہنی تشدد اس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جہاں آپ کہ پاس دکھانے کے لیے کوئی زخم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی تشدد کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔ ذہنی تشدد میں زبانی بد سلوکی ، شک اور بلاوجہ نظر انداز کرنا جس میں آپ کو اپنا آپ غلط لگے شامل ہے۔ 

گیس لائٹنگ کیا ہے اور اس کی علامات کیا ہوسکتی ہیں؟    

گیس لائٹنگ ذہنی تشدد کی ایک قسم ہے جہاں تشدد کا شکار ہونے والے افراد میں جان بوجھ کر ان کی شخصیت اور خیالات کے حوالے سے شک پیدا کیا جاتا ہے۔ امیریکن سائیکلوجیکل ایسوسییشن کے مطابق کسی شخص کو اس قدر مینیوپلیٹ کر دینا کہ اس کو واقعات ، خیالات اور حتیٰ کہ اپنے  تجربات کے حوالے سے شک ہونے لگ جائے اور وہ اس بات کو مان لیں کہ ان کا پارٹنر جو کہ رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ گیس لائٹنگ کی شروعات جھوٹ سے ہوتی ہے جو کہ بار بار بولا جاتا ہے اور پکڑے جانے پر اس کو ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے۔

حرا رمضان کا تعلق راولپنڈی کے ایک پوش علاقے سے ہے ، ان کی شادی تین سال تک چلی جس کے بعد انہوں نے خلع لے لی۔ حرا رمضان کا کہنا ہے کہ شروع میں مجھے بالکل محسوس نہیں ہوا کہ میں تشدد کا شکار ہورہی ہوں کیونکہ میرے سابق شوہر میرے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھ کر مجھ سے وہ باتیں منواتے تھے جو شاید میں اگر خود سے فیصلہ لے سکتی تو کبھی نہ کرتی۔

حرا رمضان کا کہنا ہے کہ وہ بدترین گیس لائٹنگ کا شکار ہوگئی تھیں جہاں ان کے شوہر ان کو بار بار یہ محسوس کرواتے تھے کہ وہ ان سے کم تر ہیں۔ وہ اکثر ان کو کہتے تھے کہ تمہارا یہ لیول نہیں ہے، انہوں نے یہ بات اتنی دفعہ بولی کہ آخر کار انہیں بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ شاید واقعی ہی وہ ان کو ڈیزرو نہیں کرتی، وہ اس گھر میں رہنے کے قابل نہیں ہیں اور وہ ان سے بہت کم تر ہیں۔

حرا رمضان کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ قبول کرنا بہت مشکل تھا کہ میرا پارٹنر مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ اس وقت مجھے سب صحیح لگ رہا تھا ، میں احساس کمتری کا شکار ہو چکی تھی اس لیے وہ جو بھی کہتے یا کرتے تھے مجھے وہ سب بہت ٹھیک لگتا تھا۔

حرا رمضان کا کہنا ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے خاندان نے اس ذہنی تشدد کو ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہوئے ان کا بہت ساتھ دیا اور وہ اس ٹاکسک ازدواجی زندگی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔

لیکن پاکستان میں ہر جگہ لوگوں کا ذہنی تشدد کے حوالے سے رد عمل ایک جیسا نہیں ہے کیونکہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ایسے ازدواجی تعلقات سے نکلنا انتہائی مشکل ہے، جہاں اگر آپ کا شوہر مار پیٹ نہیں کرتا تو عورت کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ تین چار باتیں سن لینے سے اگر گھر بچ سکتا ہے تو گھر کو بچانا ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا کے ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون انعم خان کا کہنا ہے کہ ان  شوہر اس قدر واقعات کو جھوٹا بنا کر گھر والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اکثر ان کو یہ لگتا ہے کہ واقعی وہ جو کہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے اور میں بہت بری انسان ہوں جو ان کے قابل نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کو خود سے نفرت ہونے لگ گئی ہے۔

انعم کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی زبانی بد سلوکی کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ وہ ایک انتہائی ناکارہ انسان ہیں اور ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہے۔

انعم خان کہتی ہیں کہ وہ دو دفعہ اپنے شوہر کے رویے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئی ہیں لیکن ان کے والدین کہتے ہیں کہ یہ کوئی وجہ نہیں ہے ، دنیا کی ساری خواتین یہ سب برداشت کرتی ہیں، انعم کہتی ہیں کہ اگر ان کے شوہر مار پیٹ کرتے تو شاید وہ زخموں کے نشان اپنے والدین کو دکھا کر اس شادی کو ختم کرسکتیں۔

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کا شکار خواتین کیسا محسوس کرتی ہیں ؟

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کی شکار خواتین کے حوالے سے کلینکل سائیکالوجسٹ سعدیہ ناظر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والی خواتین انتہائی سہمی ہوئی ہوتی ہیں،خوف ، بے چینی ، اعتماد کی کمی ، اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آتی اور وہ اپنے بچوں کو بلاوجہ جسمانی تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔

سعدیہ ناظر کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین صرف ایک ہی بات پر زور دیتی ہیں کہ وہ بہت کوشش کرتی ہیں کہ سب کو خوش رکھ سکیں لیکن ان سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔

سعدیہ ناظر کہتی ہیں کہ گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کی شکار خواتین میں سب سے عام علامات یہ ہیں کہ وہ خود کا دھیان نہیں رکھتیں ، نہ وہ اچھے کپڑے پہن پاتی ہیں نہ میک اپ کرتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے شوہر کو خوش رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ پھر بھی خوش نہیں رہتے، ان کی اپنی کوئی پسند ناپسند نہیں رہتی اور ان کو یہ لگتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے لیے یا گھر کے لیے کوئی فیصلہ لے سکیں۔

گیس لائٹنگ کی شکار خواتین کو ان کے پارٹنر بار بار اپنے رویے سے یہ بتاتے ہیں کہ وہ اتنی کم تر ہیں کہ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایسی خواتین کو لگتا ہے کہ اگر ان کے شوہر ان کو اپنے گھر میں رکھ رہے ہیں یا خرچہ اٹھا رہے ہیں تو یہ ان کا احسان ہیں ورنہ وہ اس قابل نہیں ہیں۔

سعدیہ ناظر کا کہنا ہے کہ ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے جب ہم ایسی خواتین کو بتاتے ہیں کہ آپ ذہنی تشدد کا شکار ہیں تو پہلے تو وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتیں، ان کو یہ قبول کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ایسی خواتین کو اس فیز سے نکالنے کے لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کی خود اعتمادی اور عزت نفس کو بحال کیا جائے۔

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کی شکار خواتین ایسے ازدواجی تعلقات میں احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو مینیوپلیٹ کرنا یا اپنی باتیں منوانا بہت آسان ہوتا ہے۔

خواتین میں گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کے پارٹنر شروع شروع میں ان کے ساتھ انتہائی اچھا رویہ اپناتے ہیں اور اس کے بعد ان سے اپنی باتیں منواتے ہیں تو وہ اس کو پیار کرنا یا خیال رکھنا تصور کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ ان کی اپنی پسند نا پسند ختم ہوجاتی ہے اورحتی کہ ان کی اپنی شخصیت ختم ہو جاتی ہے۔

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کو تشدد کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

ذہنی تشدد کا کوئی ظاہری زخم یا نشان نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ اس کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے۔ سعدیہ ناظر کے مطابق پچانوے فیصد خواتین جو ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ان کو خود ہی معلوم نہیں  ہوتا کہ وہ ذہنی تشدد کا شکار ہیں تو وہ کیسے کسی سے مدد مانگ سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ایک زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔

گیس لائٹنگ کی شکار خواتین ہر وقت ایک الجھن کا شکار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کوئی فیصلہ نہیں لے پاتیں، ایسے ریلیشن شپ سے اس وقت باہر نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے جب آپ کے ارد گرد لوگ آپ کو صبر کرنے کی تلقین کرتے رہیں۔ معاشرے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث ایسی خواتین  کو چپ رہنے ، صبر کرنے اور بچوں کی خاطر گھر بسانے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔

ذہنی تشدد ایک انسان کی پوری شخصیت کو تبدیل کردیتا ہے، ایسی خواتین آہستہ آہستہ اپنی عزت نفس کو پاوں تلے روندتے ہوئے اپنے پارٹنر کی خواہشات ، پسند نا پسند کو ترجیح دیتی ہیں۔ ذہنی تشدد یا گیس لائٹنگ کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ذہنی تشدد کو ریاستی سطح پر تشدد تسلیم کرنے اور اس کےحوالے سے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے، حکومتی اداروں کی جانب سے صنفی بنیادوں پر تشدد کے حوالے سے کی جانے والی آگاہی مہم میں ذہنی تشدد کو شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

December 7, 2023 - Comments Off on صنفی تشدد میں لپٹی خواجہ سراء کی کہانی

صنفی تشدد میں لپٹی خواجہ سراء کی کہانی

عاصمہ کنڈی

رات کے گھپ اندھیرے میں  گھر سے نکلتے ہوئے جہاں میرا دل وسوسوں میں گھرا ہوا تھا وہیں ہمایوں کے اندر چھپی حمنہ کی آزادی کی خوشی بھی تھی، اب کوئی حمنہ کو لڑکیوں والے کپڑے زیب تن کرنے، مٹک مٹک کر چلنے اور بات کرنے پر ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنائے گا اور اگر اسے کچھ سہنا بھی پڑے گا تو کم از کم وہ اپنوں کے ہاتھوں نہیں ہو گا۔

خواجہ سراء پیدا ہونا میرا قصور نہیں تھا اور مجھے اپنوں کے ہاتھوں اس وقت سے اس بات کی سزا مل رہی تھی جب میں نے ہوش سمبھالا یا شاید اس سے بھی بہت پہلے سے، پر تب کا مجھے یاد نہیں۔

مجھے احساس بھی نہیں تھا کہ میرے والدین مجھے مہمانوں کے سامنے آنے سے کیوں روکتے ہیں اور اگر نادانستگی سے سامنے آ بھی جاؤں تو کسی کی ہنستی، مذاق اڑاتی اور کسی کی ترس کھاتی نظریں مجھے اس وقت تک اپنے حصار میں لئے رکھتیں جب تک مجھے منظر سے ہٹا نہ دیا جاتا۔ مہمانوں کے جانے کے بعد پٹائی اور ڈانٹ الگ حصے میں آتی۔میں گھنٹوں اپنے پر آسائش کمرے کے مرمریں بستر پر لیٹ کے اپنے تکیے کو آنسووں سے بھگوتا رہتا اور ان سب رویوں کے جواز ڈھونڈتا اور کبھی اللہ سے شکوے بر ہو جاتا، مگر کوئی کبھی مجھے دلاسا دینے یا چپ کرانے نہیں آتا تھا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ایسا کیا ہو گیا کہ میں اپنا گھر، جو ہر کسی کی محفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے، چھوڑنے پر مجبور تھی، ہاں 'تھی' کیونکہ اس گھر سے نکلنے کے بعد، جو کبھی میرے لئے پناہ گاہ نہ بن سکی، کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا کہ میں گفتگو میں اپنے لئے 'تھا' استعمال کروں ۔ آج سے میں حمنہ ہوں اور اپنے والدین کے ہمایوں کو جسے وہ کبھی نہ اپنا سکے اور نہ تحفظ دے سکے انہی کے گھر چھوڑ کر جا رہی ہوں۔

 خوف اور خوشی کے ملے جلے جزبات میں گم میں بس سٹیشن پہنچ گئی جہاں مجھے اسلام آباد سے لاہور والی بس لینی تھی جو مجھے میری منزل مقصود تک پہنچانے والی تھی۔ سوشل میڈیا کی مدد سے میں نے پہلے ہی لاہور میں مقیم اپنے جیسے گروہ کا پتہ لگا لیا تھا جو کہ ہم جیسے زمانے کے دھتکارے ہوئے اور اپنوں پر بوجھ بنے انسانوں کو کھلے دل اور بانہوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ۔

لاہور سٹیشن پر بس سے اتر کر میں نے ایک رکشہ لیا اور اپنے ہاتھ میں کس کے پکڑے ہوئے پتے کی تلاش میں نکلی تو گھر سے باہر کی دنیا نے مجھے پہلا سبق دیا، جب رکشہ ڈرائیور نے صبح کے ویرانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رکشہ ایک ویران جگہ پر روک دیا اور بھوکے بھیڑئیے کی طرح اپنی پسندیدہ خوراک کی طرف لپکا۔ مجھے اس کی نیت جاننے میں ذرا دیر نہیں لگی کیونکہ ایسے کہیں بھوکے بھیڑئیے میں اپنے خاندان اور جاننے والوں میں بھگت چکی تھی۔

میں اس کی نیت بھانپتے ہی برق رفتاری سے اپنی عزت بچاتے ہوئے دوڑی، وہ عزت جو پہلے بھی کئی بار تار تار ہو چکی تھی مگر میں تو خواجہ سراء ہوں اور ہم جیسوں کی تو شاید عزت نہیں ہوتی۔ انہی سوچوں کے تانوں بانوں میں الجھی میں دوڑتی جا رہی تھی اور پتہ ہی نہ لگا کہ ڈرائیور کہاں رہ گیا پر جب میرے حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ جسم کے کئی حصوں سے خون رس رہا تھا جو شاید جا بجا گرنے پر لگنے والے زخموں کی وجہ سے تھا۔ میں نے تھک ہار کر اپنے دوستوں کو فون کیا اور وہ کچھ دیر میں مجھے لینے کے لئے میرے سامنے موجود تھے۔

جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ دن ڈھل چکا تھا اور اگلی رات اپنے پر پھیلانے کو تیار کھڑی تھی۔ میرے ہوش میں آتے ہی ایک درد کی ٹیس نے میرے وجود کا طواف کیا مگر یہ دیکھ کہ سکون بھی محسوس ہوا کہ وہاں موجود سب ہی میرے بارے میں فکرمند تھے اور اچانک ان کے چہروں پر ایک خوشی نمودار ہوئی۔ اماں سکینہ جو یہاں کی گرو تھیں انھوں نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر ماتھے پر بوسہ دیا اور کئی عرصے سے بندھے ضبط کے سب ہی بند ٹوٹ گئے اور آنسو میرے گالوں کو بھگوتے اماں کے دوپٹے میں جذب ہوتے گئے۔

اماں نے کھانے اور دوائیوں کے بعد مجھ سے پوچھا کہ کپڑوں، حلیے اور مہنگے فون سے تو تم کسی امیر گھر کی لگتی ہو، پھر اس حال میں کیسے؟ ان کی آنکھوں میں حیرت میں ڈوبے سوال اس لئے تھے کہ ان کو لگتا تھا کہ خواجہ سراء ہونا صرف غریب گھرانوں میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے جوابوں اور آپ بیتی نے ان کے بہت سے وہم دور کر دیئے، گھر چاہے امیر کا ہو خواجہ سراء اولاد کے لئے ان کے دل بہت غریب ہوتے ہیں۔ ان امیروں کے اونچے اونچے محل نما گھروں میں بھی ہم جیسوں کو ذہنی اذیت اور جسمانی تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے اور نام نہاد شریف رشتےدار موقع پاتے ہی ہمیں مال مفت کی طرح لوٹتے ہیں اور ہر بار شکایت پر ہمارے اپنے والدین ہمیں ہی ہونٹوں کو سینے کا سبق دوہراتے ہیں۔

آج اماں کی گود میں سر رکھ کے بہت سکوں مل رہا تھا اور دل کے تہہ خانوں میں سالوں سے بند پڑی ساری باتیں اور شکوے ایک ایک کر کے زبان پر آرہے تھے۔ میں نے کہا اماں میں سکول اور گھر میں محفوظ نہ تھی، یہ معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرتا کیونکہ ہمارے اپنے والدین معاشرے کے سامنے ہماری ڈھال نہیں بنتے۔اگر وہ ہمیں قبول کریں اور عزت دیں تو ہم بھی پڑھ لکھ کر معاشرے کی کرداد سازی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اماں نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا بس مجھے سنتی رہیں اور پیار سے میرے بال سہلاتی رہیں، مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں کب سکون کی نیند کی گہری وادیوں میں نکل گئی۔

کچھ دنوں میں طبیعت کافی سنبھل چکی تھی تو میں نے بھی اماں سے اپنے لئے کام ڈھونڈنے کا کہا اور وہ بولی کہ تم تو بارہ جماعتیں پاس ہو، ہم تو ناچ گانے اور سیکس کا کام کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی ناچ گانا کر لوں گی اور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی مکمل کروں گی۔

یوں دن گزرتے گئے اور میں کام کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اپنی گریجوئیشن کی تعلیم بھی مکمل کرتی رہی۔ محفلوں میں ناچ گانے کے دوران ایک دو بار میرا جسمانی استحصال کیا گیا جس سے میں وقتی طور پر ٹوٹی ضرور مگر اپنے آپ کو سنبھالنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی سیکس ورک کروں گی، عزت تو یوں بھی محفوظ نہیں تو چلو اپنی مرضی سے جسم فروشی کر لیتی ہوں جس سے چار پیسے ہاتھ آ جائیں گے اور تکلیف بھی کم ہو گی۔

زندگی کا پہیہ چلتا رہا اور میں نے اپنا ماسٹرز مکمل کر لیا۔ اپنی تعلیم کے دوران میں نے کچھ پیسے جوڑ کر ایک لیپ ٹاپ لے لیا تھا اور سوشل میڈیا پر اپنے جیسوں کے لئے آواز اٹھانا شروع کی۔ اندازہ تو مجھے تھا کہ یہ اتنا آسان نہ ہو گا مگر یہ بھی ایک خار بھری راہ ہو گی جس پر روز نہ صرف میرے پاؤں بلکے روح بھی گھائل ہو گی، مگر میں ہمت نہیں ہار سکتی تھی کیونکہ یہ میرے ساتھ میرے جیسے اور بہت لوگوں کی جنگ تھی۔

سوشل میڈیا پہ لوگ میری پوسٹ پر گندے گندے تبصرے کرتے، کوئی گندہ خون کہتا تو کوئی گناہوں کی پوٹلی۔ مجھے بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ جان کے حیرت ہوتی کہ خواجہ سراء کا تصور ناچ گانے، بھیک مانگنے یا سیکس ورک سے آگے کسی کے ذہن میں نہیں تھا۔ لوگ مجھے کہتے کہ گاہک ڈھونڈے کا نیا طریقہ ہے اب آنلائن بھی آگئی ہو۔ ایک اسد نامی شخص نے مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا اور مجھے پیغامات سے بڑھ کر فون کالز کرنے لگا اور پھر میرے گھر تک آپہچا۔ الحمداللہ مجھے اپنے تحفظ کے سب قوانین کا پتہ تھا میں نے ایف آئی اے میں پیکا قانون کے تحت آنلائن ہراسگی کی شکایت درج کرائی۔ پہلے تو وہاں موجود افسران کی حیرت ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی کی ایک خواجہ سراء بھی آنلائن ہراساں ہو سکتا ہے، بحرحال انھوں نے نہ صرف شکایت درج کی بلکہ کچھ دن میں مجرم بھی سلاخوں کے پیچھے تھا۔

اس سارے مرحلے نے میرے اندر ایک نئی جان ڈال دی اپنے اور اپنے جیسوں کے حق کے لئے لڑنے کی۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ہر واقعہ آپ کو ایک نیا سبق دے جاتا ہے اور خوش قسمتی سے اس بار ایک مثبت سبق ملا تھا جس نے آگے کے تاریک راستے میں کئی مشعلیں روشن کر دیں تھیں، اور مجھے میری منزل صاف نظر آرہی تھی۔

میری زندگی ناچ گانے، سوشل میڈیا مہم اور نوکری کی تلاش میں گزر رہی تھی۔ نوکری کے انٹرویوز میں حقارت کا نشانہ بننا اور ہراساں کیا جانا عام بات تھی۔ دن گزر رہے تھے شام کو اماں کے اردگرد بیٹھ کے ہم سب دن بھر کے اچھے اور برے پلوں کی روداد سناتے کسی کی بات پہ ہنستے اور کسی کی گزری پر بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے۔ مگر اب یہ گھر مجھے گھر لگتا تھا، جہاں اماں کے لئے ہم سب ایک جیسے تھے اور وہ سب میں اپنا پیار برابر بانٹتی تھیں۔

کچھ روز سے میری طبیعت کچھ ناساز سی تھی اور ڈاکٹر کو دیکھانے پر پتہ چلا کہ مجھے ایچ آئی وی ایڈز تھا۔ اس دن میں بہت دل برداشتہ تھی، مرنے کا ڈر نہیں تھا مگر ابھی میں نے اپنے طبقے کے لئے بہت کچھ کرنا تھا۔

علاج کی غرض سے اسلام آباد آنا ہوا۔ اس شہر میں قدم رکھتے ہی پرانی یادوں نے میرے قدم جکڑ لئیے۔سرکاری ہسپتال پمز جہاں وزارت صحت ایڈز کے مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتی تھی میں بھی کچھ مزید ٹیسٹوں کے لئے داخل ہو گئی۔ رات ہسپتال کے سفید بستر پر مریضوں کا مخصوص لباس پہنے دل و دماغ اپنے گھر پہنچ گئے۔ کیونکہ شاید آج اپنی ماں جس کی کوکھ سے میں نے جنم لیا بہت یاد آرہی تھی، سوچ رہی تھی گھر چھوڑے پانچ برس بیت گئے، فون نمبر بھی وہی ہے کبھی انھوں نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔کیا میں ان کو زرا بھی  پیاری نہیں تھی؟

جب سوشل میڈیا پہ میں نے اپنی بیماری کا بتایا تو لوگوں نے کہا کہ گناہوں کی سزا ہے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ فیصلہ آیا کسی ٹیسٹ سے ہوسکتا ہے کہ ایڈز مجھے پیسے کمانے کے لئے کئے گئے سیکس سے ہوا ہے یا متعدد بار میرا ریپ کرنے سے؟ سیکس ورک کی طرف بھی تو مجھے معاشرے نے ہی دھکیلا تھا ناں۔ کون اپنی مرضی سے اپنا جسم بھیڑیوں کے حوالے کرتا ہے؟

آج میں علاج کروا رہی ہوں اور روز بروز بہتر محسوس کر ہی ہوں۔خوش قسمتی سے ایک ایڈز پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم نے مجھے بطور پروگرام مینیجر روزگار دیا اور میں اپنی کمیونٹی میں ایڈز کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا کام کرتی ہوں۔ ایک روز آگاہی سیشن کے دوران جب میں نے کہا کہ جب کوئی سیکس ورک کے دوران پروٹیکشن کے استعمال سے منع کرے تو تم لوگ سیکس ورک سے انکار کرو۔ جواب ملا کہ وہ زبردستی کرتے ہیں اور مار پیٹ الگ۔ میں نے کہا کہ پولیس میں جا کہ اپنے ساتھ ہونے والےصنفی تشدد کے خلاف رپورٹ کرواؤ، پھر چاہے یہ تشدد معاشرہ کرے یا اپنے گھر والے۔

۱۸ سالہ شہزادی جو بہت حیرت سے میری باتیں سن رہی تھی، اچانک ہاتھ کھڑا کیا اور کچھ پوچھنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر بولی کہ صنفی تشدد تو عورتوں پر ہونے والے ظلم کو کہتے ہیں ناں؟ میں نے کہا یہ سوچ ہی غلط ہے اور علم کی کمی ہے۔ جب ہمیں اپنے تحفظ کے قوانین کا پتہ نہیں ہو گا تو ہم اپنے لئے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اب یہ یاد رکھنا اور باقی دوستوں کو بھی بتانا کہ صنفی تشدد کسی بھی جنس کے خلاف ہو سکتا ہے ہم بھی اس میں شامل ہیں۔ اور ہاں ایک بات اور کہ صنفی تشدد میں صرف مار پیٹ یا جسمانی ظلم نہیں ہوتا بلکے آنلائن ہراسگی، پیچھا کرنا، فون پہ تنگ کرنا یا دھمکیاں دینا، سیٹیاں بجانا، دست و درازی کرنا یہ سب بھی صنفی تشدد میں آتا ہے۔

اور یاد رکھنا کہ پاکستان کا آئین، آرٹیکل 25 (2) واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کے ساتھ صرف اس کی جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔بل برائے گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ 2020 کا مقصد خواتین، بچوں، بزرگوں اور گھریلو تشدد کے خلاف کسی بھی کمزور افراد کے تحفظ، امداد اور بحالی کے ایک موثر نظام کو یقینی بنانا ہے۔ پیکا کا قانون ہمیں بھی برابری کی سطح پر آنلائن تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اپنے کام کی وجہ سے مجھے بہت سے قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا اور میں نہ صرف اپنی پہچان بنانےمیں کامیاب ہوئی بلکہ اپنی کمیونیٹی کو درپیش مسائل بھی ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کرتی ہوں۔ یہ سب مجھے تعلیم نے دیا ہے، اس لئے میں اپنے طبقے کی تعلیم پر بھی کام کر رہی ہوں۔ میں اب بڑے گھر میں شفٹ ہو گئی ہوں پر اماں سکینہ آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ اب وہ کوئی کام نہیں کر سکتیں مگر میرے گھر میں ان کی وجہ سے رونق اور برکت رہتی ہے۔

میرے گھر والوں کو بھی میری یاد آگئی جب میں معاشرے میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئ۔ اب مجھے ان کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے مگر میں نے ان کو معاف کر دیا ہر اس زخم کے لئے جس کے داغ آج بھی میری روح پہ نمایاں ہیں۔ میں ان سے ملنے بھی چلی جاتی ہوں اور حیرت کی بات پتہ ہے کیا ہے کہ اب ان کو نہ میرے زنانہ لباس پر اعتراض ہے اور نہ میری چال ڈھال پہ۔ بلکے اب تو وہ مجھے اپنے رشتے داروں سے خود ملواتے ہیں۔

 ایڈز کا علاج جاری ہے اور معاشرے میں اپنے ساتھیوں کی جگہ بنانے کی میری جنگ بھی۔۔۔۔

December 7, 2023 - Comments Off on صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں تفاوت

صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں تفاوت

صباحت خان

         پاکستان کی معاشی، معاشرتی اور سماجی  ترقی میں خواتین کی بڑھتی ہوئی نمائیندگی ہر شعبے میں نمایاں نظر آتی ہیں مگر اس ترقی کی راہ میں اپنے کردار کی ذمیداریاں ادا کرتے ہوئے خواتین مشکلات کا شکار بھی ہیں ۔ خاص کر وہ خواتین جو ملازمت پیشہ یا کاروباری سرگرمیوں کے تحت معاشی استحکام کی کوشش بھی کر رہی ہیں ۔ صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں تفاوت کا سامنا ہر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون  کرتی نطر آتی ہیں ۔ عالمی ادارہِ آئی ایل او کے مطابق  دنیا بھر میں خواتین  کو مردوں کی نسبت اوسطاً 20 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔ صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں فرق کسی حد تک تعلیم، کام کے اوقات، پیشہ ورانہ تفریق، صلاحیتوں یا تجربے جیسی انفرادی خصوصیات کے باعث روا رکھا جاتا ہے تاہم آئی ایل او کے مطابق فرد کے صنف یا جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک اس مسئلے کی بڑی وجہ ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ ’گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018‘‘ میں پاکستان کو 149 ملکوں کی فہرست میں 148 نمبر پر رکھا گیا۔.

         حالات و واقعات کا جائز لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین کو ملازمت کی جگہوں پر اجرت کی ادائیگی کے لیے  صنفی بنیادوں پر تفریق  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

      پاکستان میں خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ مردوں کے مقابلے  اچھا خاصا ہے، لیکن چونکہ اکثریتی سطح پر یا تو یہ کام بلامعاوضہ ہیں یا اپنے گھر اور خاندان کے ساتھ مدد کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں، تو اس کا نقصان یہ ہے کہ آج بھی خواتین کا معاشی کردار اور حصہ حکومتی اعدادوشمار میں دکھائی نہیں دیتا۔ بہت واصخ طور پر ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں خواتین کے ساتھ صنفی بنیادوں پر اجرت میں   تفریق کی جاتی ہے۔

     بشریٰ ملازمت کرتی ہے لاکھوں میں کھیلتی ہو گی۔یہ وہ جملہ ہے جو ہر ملازمت کرنے والی خاتون کے کانوں میں گونجتا ہو گا۔ بشری بھٹی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ  مجھے یقین نہیں آتا کہ خواتین کے خلاف گھروں سے لے کر دفتروں کے اندر تک معاشی، سماجی اور معاشرتی تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ پانچ سال سے ٖ نجی اکیڈمی میں پڑھاتی ہوں ۔ میل ٹیچرز کے مقابلے میں زیادہ توجہ سے اور دیر تک بچوں کو پڑھتی ہوں  ۔ امتحانوں کے دنوں میں میری محنت، توجہ اور خاصری ڈبل ہو جاتی ہے ۔جس دن تنخواہ ملتی ہے تو میل ٹیچرز اونچی آواز میں بتاتے ہیں کہ فیمیل ٹیچرز سے زیادہ محنت کا پھل ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر جگہ پر خواتین کو پروفیشن کے بجائے صنفی بنیادوں پر ان رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بشریٰ مزید کہتی ہیں کہ جب بھی کم تنخواہ کا شکوہ کیا جائے تو میل کولیگز کی جانب سے بولا جاتا ہے کہ خواتین نے کون سے گھر چلانا ہوتا ہے۔خریداری یا کھانے پینے پر ہی پیسہ برباد کرتی ہیں ۔ جبکہ قبر کا حال مردہ جانتا ہے کہ مہنیہ کے آخری دنوں  میں کتنی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اداروں کے اندر خواتین کی اجرت کے حوالے سے کوئی پولیسیز نہیں موجود جس کا فائدہ اٹھاکر خواتین کو صنفی تفریق سے دوچار کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد کی رہائشی عائشہ ملک اسلام آباد کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کمیونیکیشن آفیسر کے طور ملازمت  کر رہی ہیں ۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے، آٹھ گھنٹوں سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں بلکہ اکثر مرد کولیگ آفس سے جلدی جانے کے لیے اپنا کام خواتین کولیگز کو سونپ دیتے ہیں ۔زیادہ تر مرد کولیگز اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین احترام کی وجہ سے مردوں کاکام کرنے سے انکار نہیں کرتی ہیں ۔ اگر بات کی جائے اجرت کے حوالے سے تو ایک ماہ کی  خواتین کی تنخواہیں آفس میں مرد کولیگز کے مقابلے میں کم ہیں ۔پروموشن اینڈ بونس کے اوقات میں بھی خواتین کی صنفی تفریق واضح نظر آتی ہے۔ خواتین کی جانب سے  کئی دفعہ ایگزیکٹو لیول پر بات کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا ۔ہماری جانب سے زیادہ دوبائو نہیں دیا جاتا کیوں کہ ہمیں بھی نوکری سے ہاتھ دھونے کا ڈر رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں کے مسئلے پر کام کرنے والی خواتین آواز اٹھاتی ہیں تو روزگاہ سے ہاتھ دھونے  کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں میں بھی منفی تاثر قائم ہو سکتا ہےجس سے دوسری جگہ ملازمت حاصل کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

راولپنڈی کی رہائشی سندس عامر ایک سال سے اپنے گھر سے بریانی اور کبابوں کی آن اینڈ آف لائن ڈیلوری کا کاروبار کر رہی ہیں ۔ سندس کا کہنا ہے کہ کاروبار کے آغاز میں اپنی محنت کے حساب سے پرائیس لگائی تھی مگر فروخت نہ ہونے کے برابر تھی جس کے بعد دو ڈشز پر مبنی کاروبار کم پرائیس پر کر رہی ہوں ۔ کاروبارکے لیے  آغاز سے رہنمائی ایک میل کی مدد سے حاصل کی تھی جو مہنگے داموں کھانا فروخت کر نے میں کامیاب ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے اندر مختلف دفتر کے ساتھ گھروں میں دعاوتوں کے لیے  بریانی اور کباب  فروخت کر رہی ہوں ۔ یہ بیان کرتے ہوئے دکھ  ہوتا ہے کہ لوگ آڈر کرنے کے بعد قیمتوں پر بحث کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں پرائیس کم کرنی پڑتی ہے ، نہ کرنے کی صورت میں کھانے کا آڈر ختم کر دیا جاتا ہے۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی رقم کم  کرنے پر زور دیتی ہیں کہ کسی برانڈ یا کمپنی کا آرڈر تو نہیں ہے کہ انتی زیادہ پرائیس ہے۔ ایسے رویوں سے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مردوں کے کاروبار کرنے کو قبولیت حاصل ہے جبکہ صنفی تفریق کا سامنا کاروبار کرنے والی خواتین کے حصہ میں آتا ہے۔

صنفی امور کی ماہر ڈاکٹررخشندہ پروین نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ  ثقافتی رسم ورواج میں جکڑا ہواہے جس میں برابری اور مساوات کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ خواتین کو صنفی بنیاد پر مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص کر ملازمت پیشہ یا اپنے ہنر کی بنیاد پرمعاشی استحکام کی جدوجہدد کرنے والی خواتین کو اجرت کی ادائیگی مردوں کے مقابلے میں کم ادا کی جاتی ہے۔ مخلتف میڈیا رپورٹز کے مطابق صنفی بنیادوں پر تفریق کی   اوسط شرح چونتیس فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر خواتین کی اجرت کے حوالے سے برابری کی بنیاد پر ادا کی جاتی  ہیں مگر عملی بنیادوں پر صنفی برابری کا  تصور نہیں ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹرمیں کسی کسی ادارے میں صنفی برابری کے حقوق حاصل ہیں مگر کئی جگہوں پر خواتین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں  صنفی تفریق کاسامنا رہتا ہے۔  مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خواتین کی شمولیت ورک فورس میں مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اگر اعداوشمار کو دیکھا جائے تو ملک بھر سے صرف چار فیصد خواتین لیڈرشپ پوزیشن تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں جن کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہوتا ہے جبکہ دوسرے طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بنیادی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کے لیے معاشی استحکام کی جنگ لڑ رہی ہیں جس میں صنفی بنیاد پر اجرت میں انتہائی کمی کامسئلہ سرفہرست ہے۔انہوں نے کہا کہ اجرت میں صنفی بنیادوں پر تفریق بہت پرانا مسئلہ ہے جس پر آواز تو اٹھائی جاتی ہیں مگر صرف ایجنڈے اور ڈونرز کوخوش کرنے کے لیے پروگرامز کیے جاتے ہیں ۔ ملک بھر میں شہروں ، دیہاتوں میں ہزاروں  خواتین اپنے ہنر اور صلاحیتوں کے ساتھ معاشی طور پر مضبوظ ہونے کے لیے گھریلو سطح پر کاروبار اور ملازمتیں  کر رہی ہیں اور جنہیں  قابلیت اور محنت کے بدلے صنفی بنیاد پر اجرت میں تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔  ڈی آر ایف چاہے تو ملک بھر میں خواتین کا اجرت میں تفریق کے مسئلے کو سجنیدگی سے حل کرنے کے بارے میں اقدامات کر سکتی ہیں ۔

میڈیا ایکسپرٹ عروج رضا کا کہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی شعبے سے وابستہ خواتین کو صنفی بنیاد پر اجرت یا تنخواہوں سے نوازہ جاتا ہے۔ یہ تاثر عام لیا جاتا ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ اور بہتر کام نہیں کر سکتیں جبکہ خواتین  سے دوگناہ زیادہ کام لیا جاتا ہے اور اداروں میں خواتین کے کام پر یقین مردوں کی نسبت زیادہ کیا جاتا ہے ۔ مجموعی صورتحال  پر نظر ڈالی جائے توخواتین کے کام کو اچھا سمجھا جانے کے  باوجود ’’کام کو کام ‘‘ تصور نہیں کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملازمت پیشہ ہو یا اپنے ہنر ہر مبنی کاروبار کرنے والی خواتین ہوں، صنفی بنیادوں پر انتہائی کم اجرت کے حوالے سے آواز اٹھانے سے کتراتی ہیں کیوں کہ ملازمت ختم ہونے یا کاروبار میں اشیا کی فروخت میں مارکیٹ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے شعبوں کی طرح میڈیا میں بھی خواتین صحافیوں کی تنخواہیں نہ ہونے کے برابر ہیں خاص کر خبر کی تلاش کرنے والی اور فیلڈ میں رپورٹ کرنے والی صحافی خواتین اجرت کے حوالے سے بری طرح صنفی تفریق کا سامنا کر رہی ہیں ۔ بات وہی آتی ہے کہ ملازمت سے نکلنے  اور دوسرے اداروں میں نوکری کے لیے مشکل پیش آتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں صنفی بنیادوں پر اجرت میں تفاوت کے حوالے سے اداروں کے پاس کوئی پالیسیز موجودہ  نہیں ہے جبکہ خواتین اجرت میں برابری کی بنیاد پر ادائیگی کے حوالے سے قانون کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتی ہیں ، اجرت کے حوالے سے  آواز اٹھانے سے قاصر ہونے کے باوجود کام کرنے سے گزیز نہیں کرتی ہیں ۔ سیاسی اور سماجی حلقوں میں خواتین کو صنفی بنیادوں پر اجرت کی تفریق  کے حوالے سے آواز تو اٹھائی جاتی ہے مگرقومی اور صوبائی صتحہ کے اندر  عملی اقدامات کا فقدان مسئلہ کی تشاندہی سنجیدگی سے کرنے سے قاصر ہے۔

December 7, 2023 - Comments Off on پاکستانی خواتین کے خلاف منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں ڈراموں کا اہم کردار

پاکستانی خواتین کے خلاف منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں ڈراموں کا اہم کردار

 ناہید جہانگیر

پسند کی شادی تھی شوہر بہت پیار کرتا تھا لیکن ساتھ ساتھ کردار پر شک بھی کرتا تھا وہ شک کی جڑیں اتنی مضبوط تھی کہشادی جیسے مقدس رشتے اور میری محبت کی کوئی پرواہ کیے بغیر طلاق کا داغ  لے کر میکے لوٹ آئی۔

پشاور شہر کی 30 سالہ ثمینہ اپنے طلاق کی ذمہ دار پاکستانی ڈارموں کو ٹہراتی ہیں  ان کی شادی 3 سال پہلے عادل نام لڑکے سے ہوئی تھی، وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ کافی دھوم دھام سے شادی ہوئی لیکن چند دن بعد عادل شک کرتا اور ساتھ میں ڈراموں کی مثال بھی دیتا تھا۔

ثمینہ کے مطابق عادل زیادہ تر ڈرامے ‘میرے پاس تم ہو’ کی مثال دیتا تھا کہ بیوی کیسے شوہر کے ساتھ پیسوں کی لالچ میں دھوکہ کرتی ہیں ۔ اسی بات پر جھگڑا ہوجاتا اور اسی لڑائی میں ثمینہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد کا بھی شکار ہوتی تھی۔ آخر کار طلاق ہوگئ۔

میرے پاس تم ہو 2020۔۔۔2019 میں ایک نجی ٹی وی پر چلنے والا سپر ہٹ ڈرامہ تھا جس کے مرکزی کردار عائزہ خان، ہمایوں سعید ور عدنان صدیقی نے ادا کئے تھے جبکہ اسکو خلیل الرحمان قمرنے تحریر کیا تھا۔

اس ڈرامے کے حوالے سے پشاور کی نورین بتاتی ہیں کہ پاکستانی ڈرامے جو کھبی تفریح  کا ذریعہ زریعہ ہوا کرتے تھے لوگ دن بھر کے کاموں سے تھک ہار کر شام کو ٹی وی دیکھتے تھے، معلومات کے ساتھ لطف اندوز ہوا کرتے تھے لیکن اب تو جو بھی چینل دیکھو تو اس پر 90 فیصد خواتین کے منفی کرداروں کے حوالے سے مواد ہوگا جیسے گھر والوں سے بغاوت کرکہ بھاگ کر شادی کرنا، طلاق ، محبت، خواتین کی لڑائی جھگڑے ، فساد کی جڑ وغیرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔

نورین کہتی ہیں کہ ثمینہ صرف ڈراموں کی منفی سوچ کی نظر نہیں ہوئیں بلکہ روزانہ کتنی خواتین ہور ہی ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ پاکستانی ڈرامے آنے والی نسل کو خود کشی ، بغاوت ، افیرز کے نئے نئے طریقے بتا رہے ہیں ۔کہ کسیے اور کس وقت کیا کرنا ہے۔

نورین پیمرا اور ڈرامہ تخلیق کرنے والوں کو ذمیدار ٹھہرا کر اپیل کرتی ہیں کہ ڈراموں کے تھیم کو تبدیل کریں کیونکہ میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو ایک معاشرے کو بنا بھی سکتا ہے لیکن بگاڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس حوالے سے نورالبشرنوید جو پاکستان ٹیلی وژن سنٹر پشاور میں 1980 سے ایک رائٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں جنہوں نے بے شمار ڈرامے اردو اور پشتو زبان میں تحریر کیے ہیں، ان  کا کہنا ہے کہ ڈارمہ تحریر کرتے وقت یہ رائیٹر کی سوچ پرمنحصر ہے کہ جو کانٹینٹ وہ تحریر کر رہا ہے آیا وہ اس معاشرے کی درست ترجمانی کر رہا ہے یا یہ ڈرامہ کوئی بھی اپنی فیملی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے جب بھی یہ چیزیں ذہن میں ہوں گی کوئی بھی منفی سوچ والی چیز نہیں تحریر ہوگی ۔

کیونکہ وہ سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ وابسطہ رہے ہیں تو ہمیشہ ڈارمہ تھیم کے ساتھ ساھ الفاظ کے چناؤ میں بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب حالات اس کے برعکس ہیں لوگوں کے ذہن میں جدت آگئ ہے جو بھی ڈارمے بن رہے ہیں وہ ہٹ ہو رہے ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو رہا ہے ۔ صرف تنقید کرتے ہیں ۔جو چیز معاشرے کی بھلائی کی جگہ بگاڑ کا سبب بنتی ہوں اس پر ویوورز کی جانب سے ردعمل سامنےآنا بہت ضروری ہے اگر وہ ردعمل ظاہر نہیں کرتے تو اس قسم کے ڈرامے مزید بنیں گے اور ہمارے معاشرے کی خواتین کے حوالے سے منفی سوچ اور تصور کو مزید تقویت ملے گی۔

وہ بتاتے ہیں کہ بالکل ڈرامہ کسی بھی معاشرے کی ترجمانی کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے آج کل خواتین کے حوالے سے منفی سوچ رکھنے والے ڈرامے بن رہے ہیں ۔ ڈرامے کا زیادہ تر حصہ یا لیڈ کردار منفی سوچ والی خواتین ہی ہوتی ہیں جو ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔

اپنے معاشرے کے اقدار اور رسم و رواج کو نظر میں رکھ کر ڈرامہ تحریر کیا جائے ان تحریروں کو یا کرداروں کو ذہن میں رکھ کر یہ سوچیں کہ ان کا مثبت اثر پڑے گا  کہ نہیں، اثر مثبت ہے تو وہی چیز تخلیق کی جائے کیونکہ  اب ڈرامہ صرف گاؤں شہروں، صوبوں،م اور ملک کی حد تک نہیں دیکھے جاتے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے انٹرٹینمنٹ نے سرحدوں کو پار کر لیا ہے پوری دنیا میں دوسرے ممالک کے ڈرامے، فلم دیکھے جاتے ہیں۔ اپنی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوتے ہیں تو جو چیز اگر منفی دکھا رہے ہیں تو دوسرے ممالک کے  لوگ اس معاشرے کو اسی ڈرامے کے کرداروں کے ترازو میں تولیں گے۔

نورالبشر نوید بتاتے ہیں کہ ڈرامہ تخلیق کار خواتین کے حوالے سے منفی سوچ اور رجحانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو بالکل ختم کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس رسم ورواج کو دنیا غلط نظر سے دیکھ رہی ہے شاید وہ ہمارے معاشرے میں مثبت ہو تو کیوں نا لوگوں کے ذہن سے وہ منفی رجحانات اپنے ڈراموں کے ذریعے ہٹائے جائیں۔

نورین مزید بتاتی ہیں کہ جو اداکارائیں منفی رول کرتی ہیں اور اس رول کو اپنا معمول بنا دیتی ہیں تو ان کے فینزبھی کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ انکو عائزہ خان بہت اچھی لگتی تھیں لیکن ‘میرے پاس تم ہو’ اور اب ڈرامہ سیریل ‘میں’  میں انکا منفی کردار دیکھ کر اچھی نہیں لگتیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ واقعی ہی اپنی اصل زندگی میں بھی ایسی ہیں تو خواتین فنکاروں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے فینز انکو کس روپ میں زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ فینز کی وجہ سے فنکار لوگ ہیں ورنہ خاص سے عام بنانے میں انکو وقت نہیں لگے گا۔

ڈراموں میں خواتین کے منفی کرادر کے حوالے سے ایک ڈرامہ اداکارہ کیا سوچ رکھتی ہیں مینا شمس سے پوچھتے ہیں ۔ مینا نے اس دن سے ٹھان لیا تھا جس دن سے وہ شوبز میں آئی کہ وہ پختون رسم ورواج کے اندر رہ کر کام کریں گی اور اپنی ثقافت کے دائرے میں رہ کر نام بنائیں گی اور اپنے ارادے پر وہ ابھی تک قائم ہیں۔

مینا شمس پشتو، ہندکو اور اردو زبان کی مقبول اداکارہ ہیں جنہوں نے بے شمار ایوارڈز اپنے نام کئے۔ پی ٹی وی بہترین اداکارہ ایوارڈ، اے وی ٹی خیبر بیسٹ اداکارہ ایوارڈ، امن باچا خان ایوارڈ، ڈائریکٹریٹ آف کلچر ایوارڈ اور شمشاد ٹی وی سے بھی بیسٹ ادکارہ ایوارڈ شامل ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ڈرامے ہی لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں پہلے بھی ڈرامے ہوا کرتے تھے جو سبق آموز ہوا کرتے تھے اس میں بھی منفی کردار ہوا کرتے تھے لیکن کافی کم تناسب کے ساتھ خواتین کو منفی کرداروں میں دکھایا جاتا تھا لیکن اب تو ڈرامے کا تقریباً 90 یا 99 فیصد خواتین کے منفی کردار حاوی دکھائی دیتے ہیں تو لوگ وہی سوچ رکھیں گے کہ اس ملک یا اس خاص طبقے کے لوگ اسی طرح ہیں جس طرح ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔کیونکہ باہر کے ملکوں میں لوگ اسی سوچ سے دیکھتے ہیں کہ ہر ڈرامہ یا فلم کسی بھی معاشرے کی ترجمان ہوتے ہیں اسی معاشرے کو وہ ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے ہیں تو ان سے لوگ وہی اثر لیں گے کہ پاکستان کے لوگ  یا پشتون لوگ ایسے ہیں اسی لیے تو وہ لوگ ڈراموں میں بھی یہی دکھاتے ہیں۔ ہر ڈرامہ اپنے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی منفی سوچ لوگوں کو دکھا رہے ہیں اور زیادہ اہم یہ ہے کہ خواتین کی منفی کرداروں کو لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔

مینا شمس اس کے حل کے حوالے سے کہتی ہیں کہ پہلے تو اس میں رائٹر بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے وہ اپنی سوچ کو اپنے ڈرامے کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایسے کردار تخلیق کریں جن کا پیغام مثبت ہو اور منفی پربہت حاوی نا ہو۔ زیادہ ڈومیننٹ مثبت کردار دکھائی دیں۔

مینا شمس پشتو ڈراموں اور پروگراموں کی ایک مشہور شخصیت ہیں وہ کیسے ان منفی رجحانات اور کرداروں سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ سوال کے جواب پر کہتی ہیں کہ شوبز انکے شعبے کے ساتھ  انکا شوق بھی ہے ایک فنکار کے لئے ان کے فینز ہی سب کچھ ہوتے ہیں جب تک ان کے فینز ہیں تب تک وہ بھی ہیں۔ لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان ڈراموں کے کرداروں سے کافی اثر لیتے ہیں فیشن سے لے بول چال تک۔

اس لئے ایک فنکارہ کی حیثیت سے فینز جس کرادر میں انکو پسند نہیں کرتے وہ ان کرداروں سے دور ہی رہتی ہیں ۔آج کل سب ہی پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں جو چیز معاشرے کو سدھارنے کی بجائے بھگاڑ کا باعث بنتی ہیں ان سے دور ہی رہیں ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ خواتین کے جو منفی کردار ڈومینینٹ ہورہے ہیں اس کے روک تھام کے لئے رائٹرز سے لیکر فنکار اور پھر پیمرا سے لے کر ناظرین تک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

دوسری جانب شازمہ حلیم جو پچھلے 35 سالوں سے میڈیا سے وابستہ ہیں مختلف ڈراموں پروگراموں میں کام کرنے کےعلاوہ انہوں نے 4 فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن، پی ٹی وی نیشنل اور ساتھ میں اے وی  ٹی خیبر،ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا، وہ واحد خوش قسمت فنکارہ ہیں جن کو 5 پی ٹی وی بیسٹ ڈرامہ ارٹسٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

ڈراموں میں خواتین کے حوالے سے منفی سوچ کے بڑھتے ہوئے رجحان سے اتفاق کرتی ہیں کہ ایسا ہی ہے آج کل جس طرح بھی ڈرامے بن رہے ہیں اس میں صرف خواتین کو ہی جھگڑا، فساد اور لڑائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور جو سوسائٹی ہے یہ ڈرامے دیکھتی ہے تو ان پر منفی اثر انداز ہو رہی ہے، جس طرح لوگ ڈراموں میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح گھر کو توڑا جاتا ہے اور ایک خاتون اس میں کیا کردار ادا کر رہی ہے اسی طرح اصل زندگی میں بھی پھر لوگ وہی اثر لیتے ہیں۔

لیکن شازمہ حلیم کہتی ہیں کہ ان کی نظرمیں ڈرامہ ٹیم  70 فیصد ذمیدار ہوسکتی ہے اس بات پر اتفاق کرتی ہیں  لیکن 30 فیصد اس کی ذمیدار ریاست ہی ہے اس کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو قانون پاس کرتے ہیں وہ لوگ جو حکومتوں کو چلاتے ہیں وہ لوگ جوعدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ لوگ کچہری میں بیٹھے ہوئے ہیں جب تک حکومت ان چیزوں کے خلاف کھڑی نہیں ہوتی، ریاست کھڑی نہیں ہوتی تو ایک ارٹسٹ کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ ڈرامے کا تقریباً 95 یا 96 فیصد وہی ظلم ،جبر، مار پیٹ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ڈرامے کے آخری لمحات میں بالکل آخری سین میں وہ جزا سزا دکھایا جاتا ہے۔ جس نے برائی کی ہے یا جس نے غلط کام کیا ہے اس کا انجام برا ہوا ۔ تو ان حالات میں لوگ وہ زیادہ تر ڈرامے کا زیادہ پورشن جو تشدد کا دکھا رہا ہے وہ اثر لیں گا بنسبت اخری قسط کے اخری سین میں ایک جزا سزا سین کے۔

شازمہ حلیم کے مطابق اگر ڈرامے میں منفی کرداروں کو اتنا سر پہ چڑھایا دکھایا جائے گا کہ جیسے 19 قسط ڈرامہ میں 18 قسطوں میں ولن ظلم کرتا ہے اور وہی دیکھا جاتا ہے اور پھر آخری قسط میں ولن کا انجام برا ہوتا ہے تو یہاں پہ بھی ڈسکریمینیشن ہوتا ہے کیونکہ اس ڈرامے کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا برابری کا خیال نہیں رکھا گیا لیکن جو ڈرامےنشر ہو رہے ہیں ان میں ویورز بھی ذمیدار ہیں،  وہی چیز پسند کرتے ہیں اور وہی چیز چاہتے ہیں جس میں برائی ہو ۔ خاتون فساد کی جڑ ہو۔ اس قسم ڈراموں سے معاشرہ ظلم و تشدد پسند ہو گیا ہے اور ساتھ میں مردوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ گیا ہے۔ مرد جس جگہ بھی جاتا ہے اپنے ہی بیوی کی برائی کرتا ہے شک کرتا ہے اور پھر کہتے پھرتے ہیں کہ کیوں اس ڈرامے میں نہیں دیکھا عورت نے اپنے خاوند یا خاندان والوں کے ساتھ کیا کیا تھا۔

شازمہ حلیم نے کہا کہ ڈراموں میں ناظرین کے لئے کرداروں میں نا کسی کے لیے سبق ہے نہ ہیرو ہیروئن کی کردار سبق آموز جس سے معاشرہ غلط سمت جا رہا ہے۔ لوگ ڈراموں سے مثبت کی جگہ غلط اثر لے رہے ہیں کچے ذہن کی خواتین اسی ڈرامے کی طرح کے کردار بن کر اصل زندگی میں وہی راہ اختیار کرتی ہیں جو شاید ان کے لئے نقصان کیا موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔

شازمہ حلیم ان سب مسائل کا حل حکومت کے پاس بتاتی ہیں کہ وہ آواز اٹھائیں ان ڈراموں فلموں ،سیریز پر پابندی لگائیں جس سے معاشرہ مثبت اثرات کی بجائے منفی اثرات لے رہا ہے تو بہت جلد ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔  ان کی مثال عام سی ہے لوگ فیشن لائف سٹائل میڈیا سے ہی لیتے ہیں اسی طرح لوگ ان کرداروں کو بھی اپنی زندگیوں میں اہمیت دے کر غلط فیصلہ کر سکتے ہیں۔

حکومت یا پیمرا ان حالات کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے یا کس طرح اپنا اہم رول ادا کر سکتا ہے اس حوالے سے پیمرا کے سینئر مانیٹرنگ سپروائزر ماجد کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جو بھی کانٹینٹ بنتا ہے تو براڈ کاسٹ یا نشر ہونے سے پہلے انکا پی بی اے  یعنی پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے جائزہ ہونا لازمی ہوتا ہے، وہ پہلے ایک مرحلے سے گزرتا ہے۔پھر کوڈ آف کنڈکٹ فار الیکٹرانک میڈیا اوربراڈکاسٹ میڈیا جس میں سیٹیلائٹ ٹی وی چینل اور ایف ایم براڈکاسٹ سٹیشن شامل ہیں، دوسرا کوڈ آف کنڈکٹ فار ڈسٹریبیوشن سروسز ہے جس میں کیبل ٹی وی آپریٹرز اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹی وی شامل ہیں جس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔ پیمرا کے ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس سے صاف واضح ہے کہ کیا نشر کرنا ہے اور کیا نشر نہیں کیا جا سکتا۔ پیمرا کے رولز کے مطابق تمام مواد کو فالو کیا جائے گا۔ جب بھی کوئی لائسنس کسی بھی میڈیا کو دیا جاتا ہے تو تمام ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر دستخط کیا جاتا ہے جس سے کسی بھی شکایت یا غیر اخلاقی مواد نشر کرنے کی صورت میں لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے اور شوکاز نوٹس بھی دیا جا سکتا ہے۔

کونسل آف کمپلینٹ بھی موجود ہے جس میں کسی بھی کانٹینٹ کے خلاف شکایت درج کی جاسکتی ہے ان کے 4 ممبرز ہوتے ہیں جسکے خلاف بھی یہ شکایت درج ہو سکتی ہے انہیں باقاعدہ کونسل آف کمپلینٹ کی جانب سے بلایا جاتا ہے۔ان کا بھی موقف سنا جاتا ہے پھر اس کی روشنی میں پیمرا چیئرمین بشمول تمام ممبرز اس شکایت پر فیصلہ دیتا ہے۔

جہاں تک ڈرامہ ۔ فلم یا ڈاکومینٹری میں خواتین کے خلاف یا انکے منفی کرداروں کی بات ہے تو ہر وہ مواد جو شائع ہونے والا ہوتا ہے اس سے پہلے انکا پی بی اے کی جانب سے مکمل جائزہ ہونا لازمی ہے اسکے علاوہ کسی بھی وویور کی جانب سے شکایت بھی درج کی جاسکتی ہے کہ اس کانٹینٹ میں خاتون کی تذلیل ہوئی ہے یا غلط ، منفی تصور پیش کر رہا ہے تو بالکل کونسل آف کمپلینٹ کی جانب سے ایکشن لیا جاتا ہے۔

ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو اپنے ڈرامے کے کردار کے ذریعے غلط روشنی میں پیش کرنے میں نا صرف ڈرامہ لکھار سے لے کر اداکاروں تک محدود ہے بلکہ حکومت تک سب ذمیدار ہیں لیکن اس میں خاطر خواہ  رول ویوورز کا بھی ہے اور شاید سب سے زیادہ قصور وار بھی وہی ہیں جب تک وہ اس قسم مواد کے خلاف ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوں گے تو اسکا کوئی حل نہیں نکلے گا۔

December 7, 2023 - Comments Off on تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

خالدہ نیاز

میرا بھی دل چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کروں، ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناوں لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ نہ تو میرے پاس سمارٹ فون ہے اور نہ ہی مجھے تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی اجازت ہے۔

یہ کہنا ہے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ندا کا جو اس وقت ایف ایس سی پارٹ ٹو کی طالبہ ہے۔ ندا کا کہنا ہے کہ اس کو بھائی نے سختی سے منع کیا ہے کہ موبائل کو ہاتھ بھی نہ لگائے اور اگر اس نے کہیں پہ تصاویر بنائی تو یہ اس کے کالج کا آخری دن ہوگا۔ ندا کا کہنا ہے کہ آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے انکو پڑھائی کے لیے بھی سمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ موبائل استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

ندا کا کہنا ہے اس کے علاقے میں لڑکیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کوئی بھی انکی تصاویر اور باقی مواد کا غلط استعمال کرسکتا ہے اور یوں انکی زندگیوں میں طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ ندا نے بتایا کہ سوشل میڈیا بذات خود غلط نہیں ہے لیکن لوگوں نے اس کا استعمال غلط کیا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے مسائل بن جاتے ہیں اور پھر انکی طرح کئی لڑکیاں پڑھائی کے لیے بھی اس کا استعمال نہیں کرسکتی۔

کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا

پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک نرس نسرین (فرضی نام) نے بتایا کہ ایک دن وہ بیٹھی فیس بک استعمال کررہی تھی جب اس کو مسینجرپر ایک میسج موصول ہوا۔ جب انہوں نے وہ میسج کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس لنک پر کلک کرکے دیکھیں اس میں انکی اور انکے بوائے فرینڈ کی تصاویر اور چیٹ لیک ہوئی ہے۔ نسرین نے کہا کہ میسج دیکھ کر انکے پاوں سے زمین نکل گئی اگرچہ نہ تو انکا کوئی بوائے فرینڈ ہے اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ کوئی تعلق لیکن ایک لمحے کو وہ ڈر گئی کہ کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا۔

نسرین نے جب اس لنک پر کلک کیا تو وہ نہیں کھل رہا تھا۔ بعد میں انہوں نے وہ لنک اپنی دوست کو بھیجا اور سارا قصہ سنایا۔ جب اپنی دوست کو وہ لنک بھیجا تو اس نے بتایا کہ اس میں کچھ بھی نہیں یہ ایک سپیم ہے۔ نسرین نے کہا کہ اس دن کے بعد سے وہ بہت ڈر گئی تھی اور یوں انہوں نے فیس بک اور مسینجر کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اب بہت ڈر گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں خواتین جدید ٹیکنالوجی سے دور کیوں

خیبرپختونخوا میں زیادہ تر خواتین سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور ہیں اس کی بڑی وجہ یہاں کا کلچر ہے۔ زیادہ تر مرد خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور خواتین کے پاس سمارٹ فونز بھی نہیں ہوتے۔

خیبرپختونخوا میں بہت کم خواتین کے پاس سمارٹ فونز ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا تک انکی پہنچ نہیں ہوتی لیکن اگر کسی لڑکی یا خاتون کی کوئی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہوجائے تو اسکی انکو بہت سخت سزائی دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسے کیسز میں مرد رشتہ دار خاتون یا لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں۔ رواں سال جنوری میں بھی ضلع چارسدہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جب ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کو والد نے جان سے ماردیا۔

چارسدہ میں 18 سالہ لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو والد نے مار دیا

ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد باسط خان نے اس حوالے سے بتایا کہ 18 سالہ لڑکی اسلام آباد میں ایک گھر میں کام کرتی تھی جہاں ایک لڑکے نے اسکی ویڈیو وائرل کی تو والد نے اس کو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو اکثر اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کچھ کیسز میں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔

محمد باسط خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین کو کئی ایک پابندیوں کا سامنا ہے اور یہ پابندیاں انکے والد، بھائی اور باقی گھر کے مرد لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں موجود صلاحیتیں کبھی سامنے نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید دور میں بھی جب ایک عورت گھر سے کام کے لیے نکلتی ہیں تو انکے کام کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی بھی یہی سوچ ہے کہ خواتین گھر میں بیٹھ کر برتن دھوئیں، کھانا بنائیں اور بچے پالیں۔

محمد باسط خان کے مطابق پاکستان میں اس وقت انیس کروڑ موبائل صارفین موجود ہیں جن میں 5 کروڑ تعداد خواتین کی ہے جبکہ باقی مرد ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد 2 کروڑ ہے جبکہ باقی خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔ محمد باسط نے بتایا کہ خواتین کو اب سوشل میڈیا پر بھی تنگ کیا جاتا ہے، پہلے تو صرف گلی کوچوں میں انکے پیچھے لوگ آواز کستے تھے لیکن اب تو سوشل میڈیا پر بھی انکو نہیں چھوڑا جاتا۔ اگر کوئی خاتون آن لائن کاروبار کرتی ہیں تو ان کو لوگ آرڈر دے دیتے ہیں اور بعد میں انکار کردیتے ہیں کہ ہم نے یہ چیز نہیں لینی۔ بعض لوگ خواتین کو غیر اخلاقی میسجز بھی بھیجتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین خود بھی تنگ آکر سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

خواتین آن لائن ہراسمنٹ کے حوالے سے گھر میں بتا نہیں پاتی

خواتین کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انکو جب آن لائن طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ گھر والوں کو بھی نہیں بتا پاتی کیونکہ یہاں جب خواتین اس حوالے سے بات کرتی ہیں تو ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور یوں بہت ساری خواتین چپ سادھ لیتی ہیں۔

محمد باسط خان نے کہا کہ ہماری خواتین میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے جو بہت آگے جاسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور ہمارا کلچر انکے آڑے آجاتا ہے۔ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک خاتون آن لائن بزنس کرتی ہیں، بہت ٹیلنٹڈ ہیں لیکن ان کو گھر والوں نے اس شرط پر اس کی اجازت دی ہے کہ کسٹمر سے وہ بات نہیں کریں گی بلکہ اس کا بھائی یا کوئی اور مرد کرے گا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے خواتین کو کتنا خودمختار بنایا ہے۔ وہ خاتون جو ایک کام میں مہارت رکھتی ہیں کسٹمر کو اچھے سے ڈیل کرسکتی ہیں اور کاروبار کو کامیاب بناسکتی ہیں وہ اس کا بھائی یا کوئی اور نہیں کرسکتا لیکن مسئلہ پھر وہی آجاتا ہے کلچر کا۔

محمد باسط خان نے مزید بتایا کہ کچھ خواتین کو سائبر کرائمز کے حوالے سے قانونی راستوں کا بھی پتہ ہوتا ہے لیکن وہ اول تو کیس نہیں کرتی یا اگر کرتی بھی ہیں تو معاشرتی دباؤ اور گھر والوں کی عزت کی خاطر واپس لے لیتی ہیں۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل

چارسدہ کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی کئی خواتین اور لڑکیوں کو سوشل میڈیا ویڈیوز کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دو ہزار بارہ میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں ہونے والی ایک شادی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پانچ لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے رقص کررہے تھے۔ بعد ازاں رپورٹس سامنے آئی تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹس کے مطابق دو ہزار چودہ میں بھی لوئر دیر کے علاقے جندول میں بھائی نے اپنی 13 سالہ بہن کواس لیے قتل کردیا تھا کیونکہ وہ موبائل استعمال کرتی تھی اور بھائی کو شک تھا کہ اس کی بہن مردوں سے بات کرتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مطابق چار کروڑ ساٹھ لاکھ سوشل میڈیا صارفین میں 78 فیصد مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح صرف 22 فیصد ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے

گورنمنٹ کامرس کالج پشاور کی اسسٹنٹ پروفیسر عروج نثار کہتی ہیں کہ آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے بہت کم لوگ ہیں جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کی نہ تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، نہ ہی انکو اس کا استعمال آتا ہے اور نہ انکو اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر خواتین کو ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے گی تو وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوجائیں گی اور اپنے فیصلے خود کرنے لگ جائیں گی جبکہ معاشرہ اس چیز سے ڈرتا ہے۔

خیبرپختوںخوا اور قبائلی اضلاع کی خواتین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے عروج نثار نے بتایا کہ ہماری خواتین اس سے کوسوں دور ہیں۔ قبائلی اضلاع میں تو مرد بھی سوشل میڈیا اور ان چیزوں سے دور ہیں لیکن خواتین کے لیے تو وہاں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں ہے۔ قبائلی اضلاع میں خواتین کے پاس موبائل فونز نہیں ہوتے انکے پاس سادہ فونز ہوتے ہیں جو صرف ضرورت کے لیے ہوتے ہیں انکو سمارٹ فونز رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے

عروج نثار نے بتایا کہ ہمارے صوبے میں لڑکیوں کے لیے سمارٹ فونز رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر وہ چیز جس سے خواتین معاشی یا سماجی طور پر خودمختار ہوتی ہیں وہ انکے لیے معیوب تصور کی جاتی ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی کوئی انسان ہرقسم کی معلومات حاصل کرسکتا ہے لیکن یہاں خواتین اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ عروج نثار کے مطابق جب تک ہم آدھی آبادی یعنی خواتین کو بنیادی حقوق نہیں دیں گے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دیں گے تب تک ہم ایک کامیاب قوم نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک نہ صرف رسائی دینے کی ضرورت ہے بلکہ انکو اس سلسلے میں ٹریننگز بھی دینی چاہیئے تاکہ وہ اس کا مثبت استعمال کرکے نہ صرف خود معاشی طور پر خودمختار ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پرگمنام رہنا چاہتی ہیں

مردان سے تعلق رکھنے والے افتخارخان نے بتایا کہ سوشل میڈیا کا منفی اور مثبت دونوں طریقوں سے استعمال ہورہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا منفی استعمال زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن دوسری طرف کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہیں اور فیس بک پر اکثر خواتین تبدیل نام کے ساتھ آئی ڈی بنادیتی ہیں۔ خواتین اس کو استعمال کرنا چاہتی ہیں، مختلف گانوں، ڈراموں اور باقی پوسٹوں کو شیئر اور لائیک تو کرتی ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ جس کمیونٹی میں وہ رہ رہی ہیں وہ انکے حوالے سے زیادہ معلومات نہ رکھیں کہ وہ کیا شیئر کرتی ہیں یا کیا پسند کرتی ہیں کیونکہ انکو معاشرے کے لوگوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

افتخارخان نے کہا کہ سوشل میڈیا رابطوں کا سب سے تیز اور آسان ذریعہ ہے اور ہمارے معاشرے کے مرد نہیں چاہتے کہ انکی خواتین کسی کے ساتھ رابطے میں رہیں اس لیے وہ سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر خواتین کو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دی جائے گی تو وہ نہ تو مثبت طریقے سے سوچ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ کوئی کاروبار شروع کرسکتی ہیں۔

December 7, 2023 - Comments Off on معاشرے کے دقیانوسی تصورات میں گھری خواتین کی زندگیاں

معاشرے کے دقیانوسی تصورات میں گھری خواتین کی زندگیاں

زنیرہ رفیع

’’کسی نئی دلہن کے قریب نہیں جانا‘‘

’’حاملہ خاتون سے دور رہو، اسے پرچھاواں نہ ہو جائے‘‘

’’کنواری لڑکیوں سے میل جول نہیں رکھنا، انہیں ماہواری کے مسائل در پیش آ سکتے ہیں‘‘

’’چالیس دن تک گھر میں نحوست رہتی ہے‘‘

’’یہ شادی کی کسی رسم میں حصہ نہیں لے سکتی ورنہ نئے جوڑے پر  اس کا برا اثر ہو جائے گا‘‘

’’ کسی غمی یا خوشی میں شریک نہیں ہوسکتی‘‘

یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہر اس عورت کو سننے کو ملتے ہیں جو اسقاط حمل سے گزرتی ہے۔ اکیسویں صدی اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی معاشرے کا کسی خاتون کے اسقاط حمل کے متعلق اتنا ہی دقیانوسی رویہ ہے، جتنا زمانہ جاہلیت میں تھا۔

پاپولیشن کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے 25 لاکھ سے زیادہ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ جن کے بعد ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو صحت کے متعلق پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ خواتین کی صحت اور تولید سے منسلک مسائل پر کام کرنے والی مختلف مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتی اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں اسقاط حمل کی سب سے زیادہ شرح  والے ممالک میں ہوتا ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کا ایک منفی رخ یہ بھی ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں لفظ تشدد کو ظاہری چوٹ یا زخم سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ ہمارے اردگرد موجود تقریباً 90 فی صد لوگ ذہنی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اور وہ اپنے آپ سے ایک جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ معاشرہ اس جنگ کو  مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ لیکن کوئی بھی جذبات کے تشدد کو آج تک ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں پایا اور یہی وجہ ہے کہ جذباتی تشدد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کوئی آگاہی ہی نہیں ہے۔

’’مجھے اپنی ذات سب سے زیادہ مجرم اور شرمناک اس وقت محسوس ہوئی جب میری ہم پیشہ ساتھیوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا، ایسا محسوس کروایا گیا کہ اگر میں ان کے قریب سے بھی گزر گئی تو کہیں ان کی زندگیاں بے رنگ نہ ہو جائیں۔‘‘

22 برس کی کبرا 2 بچوں کی ماں ہیں، جو راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ وہ گزشتہ برس ہی اسقاط حمل کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکی ہیں۔ کبرا کہتی ہے کہ اسقاط حمل عورت کے بس میں تو نہیں ہے لیکن معاشرہ عورت کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ وہ چار ماہ پریگننٹ تھی جب اس نے قدرتی طور پر اپنے بچے کو کھو دیا۔ اور یہ سب اس کے لیے اتنا اچانک تھا کہ جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔ چونکہ وہ 4 ماہ پریگننٹ تھیں اور 4 ماہ میں بچے کے اعضاء بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ کہتی ہے اس بچے کو محسوس کر کے کھو دینے کی تکلیف سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی، یہ سب کسی بے احتیاطی کی وجہ سے نہیں بلکہ قدرتی طور پر ہوا تھا، جسے انہوں نے اللہ کی رضا سمجھ کر بھلانے کی کوشش کی۔

’’دماغی اور جسمانی طور پر اس بات کو قبول کرنا میرے لیے اتنا آسان نہیں تھا ، مگر پھر میں نے سوچا کہ جب میں اسے اللہ کی رضا مان ہی چکی ہوں تو اس سب کو بھولانے کی کوشش کروں گی۔ لیکن معاشرہ بڑا ظالم ہے وہ آپکو بھولنے نہیں دیتا‘‘

کبرا نے مزید بتایا کہ ابھی تو جسمانی دردیں بھی تازہ تھیں، اور ذہن اس بات کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں تھا کہ جس بچے کو لے کر اس نے سہانے خواب دیکھ رکھے تھے وہ اب نہیں رہا تھا۔ اسپتال سے گھر آئی تو  وہ گھر پہلے کی طرح نہیں رہا تھا اس نے اپنے گرد عجیب سی ہلچل محسوس کی، اور وہ ہلچل ایسی تھی جس نے اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ دماغی طور پر متاثر کیا۔ اور سب سے زیادہ اس کے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ اس کے گھر میں موجود 2 عدد نندوں کا رویہ بہت مختلف ہو چکا تھا، جو اب کبرا سے بات کرنے میں بھی کتراتی تھیں یا اس کی بات کو سن کر بھی ان سنی کر دیتی تھیں۔ ’’میں نے محسوس کیا کہ اگر میں ان سے کوئی بات کرنا چاہ رہی ہوں تو وہ مجھے اگنور کر رہی ہیں۔ مجھے شروع میں وہم لگا مگر دن گزر رہے تھے اور صورتحال مزید بگڑ رہی تھی، میں اپنا دکھ، درد سب بھول گئی ان سب کے رویے میرے دماغ میں گھر کرتے گئے، جب ایک ہفتہ گزر گیا تو میں نے اپنی ساس سے پوچھا کہ مجھ سے سب ناراض ہیں۔ تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ ایسی صورتحال میں جب تک عورت کے 40 دن پورے نہیں ہو جاتے، وہ کسی سے بات نہیں کرتی اس لیے تم بھی گھر میں کسی سے بات نہ کرو اور کوشش کرو کے کمرے سے باہر نہ آو۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہو باقی چھوٹی بہنوں سے کچھ ٹائم کے لیے بات چیت سے بھی گریز کرو، اور پھر 40 دن بعد سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘

اس نے بتایا کہ ’’تم کمرے سے باہر مت آو‘‘ یہ وہ جملہ تھا جس نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اس نے ایسا کیا کر دیا ہے جو اس پر کسی سے بات کرنے پر بھی پابندی ہے۔ آخر اس کی غلطی کیا ہے۔ اور اس سوال کا جواب اسے تب ملا جب ایک محلہ دار آنٹی اس کی عیادت کرنے آئیں۔

’’میں نے انہیں اپنی ساس کو کہتے سنا کہ بچیوں کو کبرا کے پاس بھی مت جانے دینا ورنہ پرچھاواں ہو جائے گا۔ اور انہیں مسقبل میں حمل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کے الفاظ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مزید کیا کہا، لیکن میں چند منٹ کے لیے کچھ سوچنے یا سمجھنے سے مفلوج ہو چکی تھی، اور بس ایک ہی جلمہ میرے دماغ میں گھوم رہا تھا۔ اور  میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر رہے تھے۔ لیکن چاہ کر بھی ان آنسووں میں ربط نہ آسکا۔ یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جس کو سوچ کر آج بھی مجھے بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔‘‘

کبرا نے اپنے اسقاط حمل کے دوران معاشرے کی ایک مزید دقیانوسی مثال سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ اس کی تکلیف کا دوسرا مرحلہ وہ درسگاہ تھی، جہاں سے کسی بھی بچے کی بنیادی تعلیم شروع ہوتی ہے۔

کبرا نے اپنی آنکھوں میں ابھرتے آنسوؤں کو جذب کرتے ہوئے اپنی کانپتی آواز میں بتایا کہ جب وہ گھر کے ماحول سے تنگ آگئی تو اس کے پاس اس صورتحال سے فرار کا ایک یہی راستہ تھا کہ وہ اسکول جانا شروع کر دے، جسمانی صحت کے ساتھ نہ دینے کے باوجود بھی جب اسقاط حمل کے بعد اسکول گئی تو وہاں تمام ساتھی ٹیچرز کے رویہ نے اس کی تکلیف کو مزید دوبالا کر دیا۔

’’سوچا تھا جاؤں گی تو میری سہیلیاں میرا حال معلوم کریں گی، مجھے حوصلہ دیں گی اور میرے بچے کے دکھ میں شریک ہونگی،مگر ان سب کو تو جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو، سب مجھ سے ایسے چھپ رہی تھیں اور دور بھاگ رہی تھیں جیسے میں کوئی ایسی بیماری ہوں، جو انہیں کھا جائی گی۔‘‘

میری زندگی کا برا وقت تو گزر گیا لیکن معاشرتی رویے نے میری ذہنی حالت کو بہت متاثر کیا اور مجھے اس ساری صورتحال سے نکلنے میں تقریباً ایک سال لگا جس میں اگر کسی نے مجھے سب سے زیادہ ہمت دی وہ میرا شوہر اور میری ڈاکٹر تھیں۔

یہ وہ اسقاط حمل ہے جو قدرت کی طرف سے لکھا تھا، دوسری جانب معاشرے کی وہ خواتین ہیں، جن کے حمل کا فیصلہ ان کے شوہر یا سسرال والے کرتے ہیں، باقی مرضی سے اسقاط حمل کا فیصلہ کرنا تو شاید اس معاشرے میں کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ یہاں تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر عورت کرنا چاہے تو وہ نافرمان اور بد کردار ہے، اگر شوہر یا سسرال والے چاہیں تو ان کے فیصلے کی تکمیل کرنا عورت پر فرض ہے۔

سمیہ کی کہانی بھی اسقاط حمل کے گرد گھومتی ہے۔ مگر اس کے کیس میں اسقاط حمل نہ ہی تو قدرتی تھا اور نہ ہی اس کی مرضی سے ،بلکہ وہ اب تک اپنی ساس کی مرضی سے اور اپنی رضامندی کے خلاف 3 بار اس تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکی ہیں۔

سمیہ نے اپنی دردناک کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کی 1 بیٹی ہے، دوسرے بچے کی خوشخبری کے بعد اس کی زندگی میں رنگوں کی بہار آنے ہی والی تھی کہ یہ خوشخبری اسے راس نہ آسکی۔ 3 مہینے  اس نے دن رات گن گن کر گزارے تھے۔ مگر وہ جب روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی، تو اس معلوم ہوا کہ اس کے بچے کو تھیلیسمیہ ہے۔،

’’یہ خبر سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے، اور کلینک سے نکلتے ہی  زاروقطار رونے لگی تھی، گھر آئی ساس کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اس کا یہی حل ہے کہ جتنا جلد ہوسکے اسے ختم کروا دیا جائے۔ ان کا یہ جملہ سن کر مجھے ایسے لگا کہ میرا دل تکلیف سے پھٹ جائے گا لیکن چند دن گزرنےکے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو اس کی پوری زندگی تکلیف میں گزرے گی، اور میں اپنی وقتی تکلیف کے بدلے اپنے جان کے ٹکڑے کو پوری زندگی کے لیے تکلیف نہیں دے سکتی‘‘

بہت سوچنے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنی ساس کے فیصلے کو بہتر سمجھا اور اپنا حمل ضائع کروا دیا۔

ایک بار پھر سمیہ کے در پر امید کی کرن نے دستک دی تھی۔ اب کی بار اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس کو سب کہنے لگے تھے کہ حمل ضائع کروا دینے کے بعد اس کا حامل ٹھہرنا بہت مشکل ہوگا۔ اس نے سوچ لیا  تھا کہ اس بار وہ اللہ کی ہر رضا میں خوش ہوگی، لیکن اس کو پھر ڈاکٹر کی طرف سے دل دہلا دینے والا وہی جملہ سننے کو ملا، جس نے اس کی ذات کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ جب ساس کو پتہ چلا تو تو اب کی بار وہ سمیہ سے خاصی ناراض بھی ہوئیں، اور کہا کہ ایسے بچوں کی پیدائش سے بہتر ہے کہ تم بچے پیدا ہی نہ کروں، اس نے اپنی ساس کو کہا کہ اس بار وہ حمل ضائع نہیں کروانا چاہتی اور اللہ کی رضا میں خوش ہے۔

’’مگر انہوں نے میری بلکل بھی نہیں سنی جس کے بعد میرے شوہر نے بھی مجھ سے زبردستی کی اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے میں مجبور تھی اور ایک بار پھر میں نے اپنے بچے کا کھونا محسوس کیا۔ وہ میری ساس بری نہیں تھیں وہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں مگر میں بھی ماں تھی، اور ایک ماں اپنے بچے کو کھوتے ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

ایک سال کے بعد گزشتہ برس دسمبر وہ ایک بار پھر امید سے تھی،اور اس بار وہ حمل سے خوش نہیں بلکہ پریشان ہوگئی تھی اور اس کے ذہن میں ماضی ایک بار پھر دوڑنے لگا تھا۔  کہتی ہے کہ اس نے اللہ سے رو رو کر دعائیں کی تھیں کہ اس بار اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے سکوں بس اسے کچھ نہ ہو، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ اور تیسری بار بھی وہی خبر سنتے ہی میرا جسم سن ہو چکا تھا، لیکن اس نے گرتے آنسوؤں کے ساتھ ڈاکٹر سے یہ التجا کی  کہ وہ اس کی ساس کے سامنے ذکر نہ کریں۔ لیکن لاکھ چھپانے کے باوجود بھی اس کی ساس جان گئیں تھیں۔

’’ ان کو پتہ چلنے کے بعد انہوں نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ ان کے جملوں نے میری زندگی میں اتنا زہر بھر دیا اور میں ہر وقت دعائیں کرنے لگی کہ میں اس بچے سمیت مر جاوں، اور ایک دن انہوں نے مجھ سے آکر کہا کہ تمہارا باپ یہاں کاروبار نہیں چھوڑ کر گیا کہ تم بیمار بچوں کو جنم دو اور ان کے علاج کے پیسے موجود ہوں. میرا بیٹا اس قابل نہیں کہ تم بیمار اولاد اس کے گلے ڈالتی جاو۔ وہ دن میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا، کہ میں نے ان کی باتوں سے جان چھڑوانے کے لیے جذبات میں آکراپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا، اب کی بار میں قاتل خود تھی، جس کے بعد میں نے اپنے شوہر کے کہنے پر آپریشن کروا دیا تاکہ میں مزید  حمل نہ ہو۔‘‘

میں آج بھی ڈپریشن کا شکار ہوں زندگی کے ان حادثات نے میری روح کو جلا دیا ہے، میں جسمانی طور پر جی تو رہی ہوں،لیکن اندر سے مکمل مر چکی ہوں۔ اب میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے عارضے سے دوچار ہوں میرے تین بے قصور بچوں کا جانا مجھے ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم کر رہا ہے۔ میں لوگوں سے، خوشیوں سے دور بھاگنے لگی ہوں، میں نفسیاتی طور پر پاگل ہو چکی ہوں، میرا دم گھٹتا ہے نہ ہی کہیں جاتی ہوں نہ ہی زیادہ میل جول رکھتی ہوں۔ اگر زندگی میں ہمت پکڑتی ہوں تو وہ یہ سوچ کر کے میری ایک عدد بیٹی ہے۔

برصغیر میں کب ،کتنے بچے کرنے ہیں اس کا اختیار کبھی عورت کو نہیں دیا گیا۔ عورت آج کے دور میں بھی  فیملی پلاننگ کا حصہ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ آج بھی پاکستان کی تقریباً آدھے سے زیادہ آبادی فیملی پلاننگ کے لفظ سے نہ آشنا ہے۔ جبکہ شوہر بیوی کو یہ کہہ کر چپ کروا دیتا یے کہ مالی اخراجات کے حقوق پورے کرنا اس کی ذمیداری ہے تو لہذا اس بات کا فیصلہ کرنا بھی صرف اسی کا حق ہے۔ دوسری جانب ساس چونکہ گھر کی بزرگ سربراہ ہیں تو ان کی خواہش کا پورا ہونا لازمی ہے۔ صرف بچوں کی حد تک نہیں بلکہ کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں چاہیے، جیسے بچے کسی فیکٹری میں آرڈر پر تیار کیے جاتے ہوں۔

 ماہر امراض نسواں ڈاکٹر فریصہ نے اس حوالے سے کہا کہ دنیا چاند پر بھی پہنچ جائے تو معاشرے کے ان دقیانوسی تصورات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ کیونکہ معاشرے میں یہ چیزیں اس طرح گھڑی جا چکی ہیں کہ اب لوگوں کا یقین پختہ ہو چکا ہے ۔

انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک عورت ہوں اور میں نے اپنے حمل کے دوران ایسی کئی خواتین کے کیسز لیے ہیں۔ جن کا قدرتی اسقاط حمل ہوا جس سے میرے حمل پر کبھی آنچ بھی نہیں آئی ،تو یہ سب دنیاوی من گھڑت باتیں ہیں جن کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی سائنس میں ایسا کچھ ہے۔

اس لیے خواتین کو اذیت دینا چھوڑ دیں حمل ختم ہونے کے بعد خواتین جسمانی اور دماغی طور پر اس حالت میں نہیں ہوتیں کہ وہ یہ سب باتیں سن سکیں ۔ عورت کو اس وقت سب سے زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس صورتحال میں گھر والے تو کیا بلکہ بعض اوقات شوہر بھی طعنے دینے لگتے ہیں۔حالانکہ عورت کی یہ حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ اسے اس اذیت میں مت الجھائیں کہ ایک حمل ضائع ہو جانے کے بعد وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتی، بعض خواتین 5 سے 6 اسقاط حمل کے بعد بھی ماں بن جاتی ہیں۔

سائیکالوجیکل ہیلتھ کیئر سینٹر کی کنسلٹنٹ، کلینیکل سائیکالوجسٹ سحرش افتخار کہتی ہیں کہ اسقاط حمل کے بعد خواتین ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں،  اور خاص طور پر ان میں حوصلہ شکنی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مستقبل میں اب ان کے بچے ہی نہیں ہونگے۔ اس لیے ذہنی  کمزور ہو جاتی ہیں، ان میں نیند کی کمی کی شکایت بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہیں، اور چونکہ ان میں اپنے اردگرد کے رویوں کو برداشت کرنے کی ہمت ختم ہو چکی ہوتی ہے اس لیے سماجی زندگی میں الگ تھلگ رہنے لگتے  ہیں۔ اور یہ سب چیزیں ان کے ڈپریشن کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ اور بعض اوقات ان کا ڈپریشن بہت بڑی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ عورت کو انسان سمجھا جائے اور اس بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا پورا حق دیا جائے، کیونکہ پیدا کرنے سے لے کر اس کو پال پوس کر بڑا کرنے والی صرف ماں ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں انسان سمجھیں نہ ہی کہ بچے پیدا کرنے والی مشین۔

پاکستان میں اسقاط حمل سے متعلق قانون:

پاکستان میں دو دہائیاں قبل تک صرف عورت کی جان بچانے کی خاطر اسقاط حمل کی قانونی اجازت موجود تھی، جبکہ 90 کی دہائی کے اواخر میں تعزیرات پاکستان کے  سیکشن 338 میں اضافی شق شامل کر کے بچہ دانی میں بننے والے بچے کے اعضا بننے سے قبل عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دی گئی۔ قانون کے تحت ان شرائط کے پورا نہ ہونے کی صورت میں اسقاط حمل جرم قرار پاتا ہے جس کے لیے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

December 7, 2023 - Comments Off on Women Choose To Live With Abusive Partners, Only They Don’t

Women Choose To Live With Abusive Partners, Only They Don’t

Halima Azhar

Dedicated to all of us, who have faced this, seen this, lived this, survived this, fought this, and who are still struggling against this

Challenging Misconceptions About Gender-Based Violence:

Gender-based violence (GBV) is a reality that haunts Pakistani women like a powerful demon that keeps people awake at night. The said vulnerable group becomes subject to GBV in intimate relations, at workplaces, in public places, and online. These episodes of violence have not only a grave impact on the mental and physical health of the victims and survivors, but it also affects the family of the victims and survivors, including children even if they have not been directly assaulted. According to the Council of Europe, gender-based violence affects everyone and has a far-reaching impact than one can imagine. Despite the gravity of the issue, it is underreported globally, and Pakistan is no exception in this regard, rather the issue becomes a lot more convoluted here due to a culture that worships patriarchy. It is not only the impact that is grave, but the frequency of crime is also alarming in the country, as highlighted in a report published at HRCP in 2020, titled “Factsheet on domestic violence during Covid19 lockdown”, over 90% of Pakistani women have experienced some form of domestic violence in their lifetime. Despite      such prevalence of gender-based violence in one form or another in the country, many myths still surround the subject, which further complicates the matter and multiplies the challenges for victims and survivors of gender-based violence.

GBV is an issue of Working Class is a Myth:

Gender-based violence in Pakistan, much like worldwide, is frequently linked to the economic vulnerability or dependence of women on male figures such as spouses, fathers, brothers, or sons. While this association holds truth, it does not fully capture the complex dynamics at play. Anastasia Powell, a Lecturer of Justice and Legal Studies at RMIT University in Australia, contends that framing the discussion around factors influencing men to choose violence and women's vulnerability as risks can diminish accountability. It is essential to recognize that both perpetrators and victims of gender-based violence exist across all social classes and groups, challenging the notion that economic empowerment alone is a safeguard.

In examining the manifestation of gender-based violence through a classist lens in Pakistan, the convoluted nature of the issue, reporting barriers, and deeply rooted patriarchal culture contribute to a scarcity of data on this particular aspect. Notably, the portrayal of gender-based violence in the Pakistani entertainment industry, particularly mainstream dramas, serves as a reflection of societal attitudes. Within this narrative, gender-based violence is often depicted as an issue prevalent among the working class, romanticized or left unaddressed when shown within upper class or urban settings. For instance, the internationally recognized Pakistani drama "Tere Bin" features the lead character, Meerab (played by Yumna Zaidi), expressing indignation upon discovering her house help's abuse and encouraging her to take a stand. Paradoxically, the same character later faces romanticized violence at the hands of her affluent romantic partner, a wealthy landlord, perpetuating a skewed portrayal of gender-based violence across different social strata. Such depiction of gender-based violence is problematic, especially in context of Pakistan which continues to be one of the worst countries to be a woman.

Pakistan does not have promising circumstances to offer to women when it comes to GBV. Honor killing (murder in the name of protecting family honor), Karo Kari (honor killing of women/men due to adultery), sexual assault (non-consensual sex) and many other forms of violence are experienced by women every year, however, the murder of Noor Muqadam has been one of the most harrowing events in this particular context. In this case, the Murderer belonged to one of the most affluent business families nationally and internationally. Being the daughter of former Pakistani ambassador to different countries, Noor Muqaddam herself belonged to an affluent family as well. Class couldn’t stop Zahir Jaffer or protect Noor Muqadda from committing one of the most heinous crimes of         history.

Just after a year, another incident of “femicide” in comparable circumstances surfaced when Sarah Inam, a Canadian national herself was murdered by her husband Shahnawaz Amir, son of known journalist Ayaz Amir. In this case, both victim and the alleged murderer belonged to the urban elite who lived in Islamabad. In between these two murders which got media attention, many other incidents of violence against women happened which led to murder. Some were reported and some went unreported. However, this particular case, just like Noor Muqadam’s case reinforces that GBV exists beyond class, color and race, and associating to any such factor only risks lessening the responsibility, as said by Ms. Powell in her article, “Gender, culture and class collude in violence against women” . Thus, associating gender-based violence, with the working class or considering that economically empowered women are not as vulnerable to gender-based violence is not only a myth but also stereotyping of certain segments of the society. Thus, it can be said that GBV is a reality of women in this country irrespective of the socio-economic class they belong to.

Gender Based Violence is a Private Matter is a Myth:

Pakistan's societal landscape is marked by a patriarchal structure that not only fails to discourage gender-based violence but also discourages victims from disclosing such incidents. The prevailing patriarchal culture, combined with a system that lacks a reliable security net for victims, creates a discouraging environment for individuals to take a stand against gender-based violence. Despite existing laws, the conviction rate remains dismally low at 1-2.5 percent.

The disheartening social, cultural, and legal attitudes toward gender-based violence persist, partially fueled by categorizing it as a "private matter" between two individuals. However, it is essential to recognize that gender-based violence is a crime that must be reported.

The impact of gender-based violence extends far beyond the direct victims; it affects their families and children who witness such incidents. A 2019 World Bank on gender-based violence report highlights that children exposed to gender-based violence may become victims themselves in the future or even turn into perpetrators. Ignoring this issue under the guise of it being a private matter incurs not only a high social cost but also significant economic consequences.

The economic toll of gender-based violence is not merely a statistic but a grave concern, amounting to 3.7% of a country's GDP – a figure nearly on par with what most nations invest in education. This financial burden not only underscores the severity of the issue but also emphasizes the opportunity cost of neglecting the fight against gender-based violence. By dismissing it as a private matter and stifling voices that could bring about change, societies inadvertently choose a path that exacts a high toll not only on the immediate victims but on the collective well-being and progress of the entire community. It is crucial to recognize that addressing gender-based violence is not just a moral imperative but also a strategic investment in the social and economic prosperity of the nation.

Women chose to live in toxic marriage is a myth:

A very common question that is often asked to victims of gender-based violence, particularly in cases of domestic abuse, continues to be “why does she not leave him?”, and some go on to think that these women chose to live with abusive partners. The answers to these questions are not as simple, instead there are many factors involved, one being socio-economic reality of the victim, which defines their dynamics with their partner or even their own family as well.

House, property, or any material asset offers social security to an individual irrespective of their gender, and influences their approach towards life and relations as well. In Pakistan, children have inheritance rights, however only men seem to be benefiting from this. According to the Demographic and Health Survey 2017-18, “97% of women did not inherit a house or land all across Pakistan”. This means that big majority of women do not get their property rights, and hence are deprived from the security that a material asset is capable of offering. Most of these women are married off and moved from Father’s house to their husband’s house, which also never provides them security or safety of any sorts. In case the marriage ends, so does their residence in that particular house, irrespective of the fact that how many years a woman has spent in that house with her husband and family.

According to National Report On The Status Of Women In Pakistan, 2023 A Summary, that the overall labor force participation rate (LFPR) for women is only 21% in Pakistan, which implies that rest of the majority is either shouldering the role of homemakers or engaging in informal work. This striking figure underscores a significant portion of women dedicating themselves to the demanding role of homemaking, a job that not only goes unpaid but often remains unacknowledged, a stark reality reinforced by the legal framework in Pakistan.

Acknowledging the pivotal role of homemakers, Justice Krishnan Ramasamy, a Judge at the Madras High Court, emphasized their contributions. He made history by recognizing women's rights to property acquired after marriage, emphasizing that homemakers play a crucial role in enabling their spouses to engage in economic activities. However, in Pakistan, there is a notable absence of laws pertaining to joint matrimonial property, highlighting a lack of recognition for the valuable work of homemakers. Furthermore, during divorce proceedings, societal patriarchal norms and an imbalanced power dynamic among spouses hinder any equitable distribution of matrimonial assets. This situation accentuates the financial dependence of women on their male counterparts. Consequently, women find themselves in a dilemma, facing the choice of enduring an abusive marriage due to financial reliance or leaving without any legal claim to shared assets.

It is essential to dispel the notion that women stay in abusive relationships out of choice. Such a perspective reflects a privileged stance that fails to grasp the harsh reality faced by women in situations where they lack agency and financial independence. The absence of legal provisions for joint matrimonial property in Pakistan perpetuates a cycle of vulnerability for women, underscoring the urgent need for legal reforms and societal shifts to empower women in both domestic and economic spheres.

While talking to one of the victims of gender based violence, whose identity stays anonymous as per her preference, she said,

“I tried leaving my abusive partner twice, and went back to my parents each time. I did not have any place of my own because I got married soon after studies, and also did not get anything from inheritance. So, going back to them was the only choice, and each time they sent me back with my husband after a few months. Now, I have accepted my faith because there is no fight left in me. I have my kids and I just want to live for them now, that is my life.”

Her words explain the dilemma of women living in such circumstances and the miseries she and many like her bear each day. In the similar context, another victim said that,

“It has been two years since I got married. My husband earns well, but does not give me any money to spend. I wanted to work, he stopped me from that too. I live a suffocating life, where I have to ask for every penny. I never thought of telling this to my parents, because they are going to advise me to be patient just like I have seen in my family before. They might also tell me to be thankful because at least my husband is not a wife beater.”

The statements of these women show the lack of options they have, and the lack of support as well. Neither they have family support nor any support from the system. Thus, living in an abusive marriage of one kind or another is the only choice they have. Financial dependence on partners creates an unbalanced power dynamic, which puts these women in a significantly vulnerable position, while forcing them to compromise and live a life that they neither deserve nor are content with.

Conclusion:

Gender Based Violence exists in many forms and kinds, it is not just physical or sexual assault, it is also emotional and financial abuse. Often it is assumed that these are not the problems of modern women, but they are problems of modern women as much as they are problems of women living in marginal areas of Pakistan. Besides, an indifferent attitude towards GBV exists among all social classes, and they tag it as “personal matter” quite casually, while not only encouraging the preparatory but also leaving the victim without any support. These patterns of violence are only furthered when a partner notices lack of options and agency towards their counterpart, consequently intensifying the pattern of abuse and maintaining them for a longer period of time while making it difficult for the victim to get out of it. Over the years, these patterns become a habit of the victim and they forget to identify healthy patterns from unhealthy ones, and once again it must be remembered that it is not the choice but forced misery of the circumstances established and reinforced by the patriarchal society that Pakistan is.

December 7, 2023 - Comments Off on Breaking the Silence: Unraveling the Cycle of Emotional Abuse in Pakistani Society

Breaking the Silence: Unraveling the Cycle of Emotional Abuse in Pakistani Society

Anmol Irfan

“Bas Larka Thappad Nahin Marta Ho, Baqi Chal Jata Hai” (As Long As the Boy Doesn’t Hit Her, The Rest Is Okay). This is a sentence a now 28-year old baker Ayman Shahid* vividly remembers hearing over a decade ago when her family was discussing marriage culture and the potential divorce of someone in her extended family.  Fifteen then, she remembers feeling extremely uncomfortable hearing that line, but a quick glance from her mother told her she wasn’t to contradict that sentiment at that point. She shares that it’s one of the things  that has stayed with her throughout the last 13 years, and has shaped many of the conversations she’s had about gender justice since.

“I think subconsciously, that one sentence ended up shaping the relationships I chose to be in, both in good ways and bad,” shares Ayman* adding, “I knew that something was wrong with that statement, but because I was never taught what, I could never put a name to things in my relationships that made me uncomfortable.”

While Ayman still describes herself as being lucky enough not to be in any serious physical or emotional harm through her relationships, she says that her childhood shaped her to stay in situations where she felt uncomfortable. Mostly because she’d never been taught enough about healthy relationships to understand what an unhealthy one meant and never knew anyone who had complained. In fact, instead of being able to find help in online spaces, she once recalls scrolling through an online women’s group reading personal experiences women had shared of emotional control and abuse they faced in different areas of their lives. While initially she started wondering if she could also speak about her own experiences in a similar way, the majority of comments, which were advising the posters to have ‘sabr’ (patience) and think of people in worse situations than them, made Ayman change her mind. “It made me think if people are dealing with things so much worse than me, then I should be thankful and not complain,” she says, adding, “It’s only now I realise that things could’ve gotten so much worse and I wouldn’t have been able to do anything because I didn’t know how to help myself at that point.”

That one statement that shaped the 28-year-old baker’s romantic relationships is commonly heard across Pakistani society. Such comments are often peppered with similar beliefs along the lines of how young people these days are not as resilient anymore and that they give up on relationships too easily. Or even that ideas of mental health and abuse are ‘westernised.” For all the progress we think we’ve made, most Pakistanis will still reject the idea of emotional abuse being a real problem in all kinds of relationships in our society. Even for those who are well-meaning and do recognise emotional abuse as a major issue that people can be a victim to, that acceptance isn’t enough. That’s because while we may acknowledge that emotional abuse is a form of abuse, we are so conditioned into accepting so many ways in which emotional abuse takes place that even as we acknowledge its existence, we are unable to see it happening around us.

Emotional abuse can occur in many different forms and can be part of or linked with financial, spiritual and even physical abuse. Psychologist Nayab Chaudhry, who’s recently been seeing clients dealing with issues around abuse in parent-child relationships, marriages and in the workplace, says that the same people who will acknowledge physical abuse won’t do the same with emotional abuse because the latter doesn’t leave a visible mark.

Linking it to how society views mental health, Nayab says, “In the case of bipolar disorder, it’s only when there's a manic episode, and until and unless someone picks up a brick and hits someone, and other people feel they are in danger, that it becomes an illness that gets acknowledged. In that same bipolar disorder, the depressive episode doesn’t get acknowledged because it’s not seen as harming someone else,” while adding that as a society, we often ignore what people are going through until that harm spills over to us.

Even as we have started talking about abuse, we are still limited in our understanding of it in two ways: one, as Nayab points out, that abuse needs to leave a physical mark to be called out as abuse, and secondly that it only happens as part of intimate partner relationships. Instead, she wants to draw attention to the fact that for most people in our society, their cyclical relationship with emotional abuse begins in early childhood.

These stereotypes around emotional abuse only being linked to intimate partner relationships are also furthered by what we see online. A Google search on emotional abuse links to multiple pieces on domestic violence in relationships but very little about the emotional abuse that children grow up with. Zohra Ahmed, a human rights lawyer and founder of The Jugnu Project, an organisation that helps survivors of domestic violence, say, “You can’t just look at a person and ask why they’re choosing to stay with an abusive partner; those behaviours are created in childhood.” She further elaborates that as a society, we tend to see a lot of control in desi families, and what that does from a very young age is tell children that “their “no” does not have value.”

As a society, what we often characterise as “discipline”, “respect”, or even “tradition” in raising children turns into taking away children’s autonomy and, in many cases, can lead to or even justify abuse. It also creates long-lasting cycles of abuse that become very difficult to break, which are then furthered by the social conditioning that leads us to believe that we shouldn’t intervene and help survivors because “kisi ke ghar ka mamla hai (it is their private matter).”

“We live in a collectivist culture where we are always taught to think about the family first.  When it comes to any choice we are making, we have to think about the group first, and our parents also think the same way,” says Nayab. She adds that learning to give up your boundaries in favour of the “collective” from an early age leads to issues in adulthood on when and if to set boundaries when to remove yourself from uncomfortable situations and how to identify harmful behaviours both from others and from yourself as many people end up continuing abusive cycles.

Psychotherapist and Clinical Trauma Specialist Maliha Saya, says oftentimes abusive partners - who can form narcissistic personalities - are projecting their own trauma onto their partners and end up being part of the cycle of emotional abuse. She connects this with the result of not being taught how to deal with our emotions. “We’re not taught to deal with anger or how to express it, so we learn how to scream and yell,” she says.

It’s not just about anger. “Even in happiness, we’re not allowed to express that. For example, if I, as a girl, get into a good university, I’m not supposed to be happy about it and just put it on luck or downplay it. I can’t acknowledge my achievements,” Maliha adds.

The same control people have lived under their whole lives becomes justified in their heads, and they then use it against those whom they have power over when they are finally in that position. And while an abuser has no gender, coming into adulthood, there is a gendered aspect to emotional abuse in Pakistan, especially in the way women are expected to deal with it.

“When your daughter comes to you telling you she’s in a bad situation, you tell her not to cry and to have ‘sabr’. Not only do you take away that emotion of crying, but you also tell your daughter she can’t stand up for herself,” Maliha says of how women are always taught ‘adjust’ and to compromise, which makes them more vulnerable to becoming victims of abuse, because in some way they’ve been told it's okay.

This control directed specifically at women can come in many forms. It can look like everything from policing their actions, both physically and online, to controlling what they wear, to even being degraded or put down for a skill.

“As a woman, ever since childhood, you’re told to always stay in control because you can’t have a reputational black stain or you’re done. You’re taught to feel like a possession that's passed on from one family to the next,” Zohra says, adding that she’s seen - in many of the survivors she has worked with - how emotional abuse is the first step in increasing abuse in a relationship and even leads to physical abuse.

Isolation is also a key tactic in emotional abuse. It’s common for abusers to express anger at their victims being part of safe spaces online, and in our society, we’ve seen a very common trend of men, in particular, creating noise around how spaces like Soul Sisters Pakistan are harmful and that they ‘ruin good women.’ Lack of education and digital literacy and inaccessibility for many women also further increase their vulnerability as they become dependent on fathers, brothers and husbands to navigate online spaces which restricts them more instead of giving them the freedom to find help.

One frequent element is isolation, where they isolate survivors or victims from people they can confide in, and in most cases, this is very hard to note because the abuser will say these people aren’t your well-wishers,  but once you start talking to someone, you realise there’s more signs, so if someone is isolating you posing themselves as your protector question them, talk to people, don't question yourself,” says Nayab.

“Another emotional abuse tactic is conditional love, where you are teaching them that if you do what they can to please you, they’ll get positive reinforcement,” Ahmed adds, saying this will turn these children into adults who will easily bend over to control because they only know how to please others in relationships and not themselves.

But if recognising abuse is hard, helping a survivor get out of it or getting the help you need can be even harder. It’s easy to think that with such a digital world, you can reach out to a therapist online or find a safe space. But that’s easier said than done. In fact, digital conversations or even reaching out to someone you may think is in danger can be risky because abusers will often spy on or control the digital movements of the person they are abusing. This can also be through spying, in which case the victim doesn’t even know it’s happening, which can add more psychological pressure.

In the long term, both Maliha  and Nayab recommend changing the way we raise children and how we teach them to navigate emotions. “We need to focus on building children’s EQ as much as we do their IQ,” Saya says.

In the shorter run, breaking the cycle of abuse can be a lot trickier. The legal route is possible, but with women in Pakistan often not being financially independent, both legal help and therapy can become inaccessible. This is made worse by the biases present even with legal and medical professionals.

To help navigate these biases, Nayab suggests, “Take this topic up as a phenomenon, to check how someone responds, without giving personal details, to gauge whether they’d respond well and be empathetic.”

That’s one of the reasons why the Jugnu Project - along with giving survivors access to mental health treatment - also helps those who need it set up businesses so that they can achieve financial independence and free themselves of the situations they are stuck in. It’s also important to find the right kind of help, and looking at an expert’s credentials and experience with survivors can be key. But short term solutions will only go so far until we change our mindset as a society as a whole.

“We don't give our children or adults a shot at becoming whole, and it takes a lifetime to understand that trauma, and by that time, we’ve already passed it onto the next generation,” Zohra says.

December 7, 2023 - Comments Off on Beyond the Binary: Expanding the Discourse on Gender-based Violence in Pakistan

Beyond the Binary: Expanding the Discourse on Gender-based Violence in Pakistan

Tehreem Azeem

Faizi was assigned male gender at birth in Toba Tek Singh, Punjab, Pakistan. But over time, her family realized she was not behaving typically for either binary gender. She was a trans person. She spent her whole childhood struggling to understand her own identity while facing harassment from those around her.

As a child, Faizi underwent the worst forms of violence. When she would go outside of her house, boys would chase and grope her and shout slurs like “hijra.” She would run back to her house as fast as possible.

At family gatherings, she would draw curious stares and roving hands, trying to solve the “mystery” of her body. Her male cousins even hatched plans to see something revealing while swimming together.

Transgender individuals in Pakistan face shocking levels of targeted violence and discrimination rooted in transphobia. Nearly 90% endure some form of physical or sexual abuse in their lifetimes, often at the hands of their own family members. They are often kicked out of their homes for embracing their identities. Many of those go to the nearby transgender community, where they are welcomed warmly. But sadly, the society has not much to offer to them. They are forced to do begging or sex work to earn a living. This frequently leads to further assault. They are murdered brutally by unknowns. They face public harassment in routine. They are raped at private parties where they are invited to perform. This violence persists due to societal prejudice around gender and lack of legal protections for marginalized groups.

Figuring out the societal behaviour

Even at a young age, Faizi understood the treatment she endured from elders was wrong. Over time, she realized she had survived multiple forms of violence.

“Children are the easiest victims since they know nothing of the world. The violence in my life began in childhood. Ours is a male-dominated society where men consider harassment of women their right. I endured even more because of my then-unknown gender identity, though they sensed it,” she said.

Her School also offered no respite to her. Placed in the boys’ section, Faizi faced relentless torment from male classmates who chased, groped, and assaulted her. They would hurl footballs at her body, strip off her pants, and circle around her while unleashing slurs. Sometimes, they would go after her in the bathroom and forcefully hug her to feel her growing body.

“Our parents do the greatest injustice to us by imposing masculinity on us and then sending us into a male world. It’s like serving predators their preferred feast. Trans youth would be safer if they were raised as girls. It would spare them the pain and misery they face from men,” she reflected.

Gender-based violence permeates Pakistan, though it's often narrowly viewed as only impacting cisgender women. In reality, violence extends across genders, afflicting trans people, intersex individuals, non-binary people and more. Women do possess one advantage - societal space to openly discuss their struggles. Organizations fighting for women’s rights in Pakistan can operate visibly, raise voice for them and press the government for protective laws. But for those seen as "lesser" beings pervading social stigma, speaking out proves tremendously difficult. Even young boys and men stay silent, lest they appear "not man enough" to admit vulnerability.

My teachers harassed me

Throughout her education, Faizi endured harassment from teachers seeking to exploit her. In school, the male teachers would call her to the staff room, where they would try to touch her inappropriately. The same pattern continued in college. A teacher openly asked her for sexual favours. Upon refusal, he made college time toughest for Faizi. He did not even allow her to appear in two examinations of intermediate. She later passed the supplementary examinations and went to Faisalabad for an undergraduate degree at Government College University Faisalabad.

The first challenge she faced there was getting a hostel room at the university. The hostel administration did not know where to send her, either to the women’s hostel or to the men’s hostel. They kept sending her from one place to another till she got tired and sat outside in the rain with her luggage.

“When I arrived that night, they shuffled me back and forth between the boys’ and girls’ hostels. I ended up sitting outside in the rain with my luggage. In the morning, I approached the Vice Chancellor and gave him an application to allot me a hostel at the campus. He was kind. He took immediate action and allotted me a VIP room. He also waived off hostel expenses for me. He also told the cafeteria not to charge me for food and drinks during my stay at the university,” she recalled.

I was disowned because of my gender

Faizi’s family asked her to leave the house when she was just thirteen years old. She still remembers the day. Talking about it, she said that day, a group of transgenders had come to our area to celebrate the birth of a boy. Like everyone, she also went out of the house. One of the transgenders recognized her. She gave her a note with her address and some money. Faizi was confused, but the transgender knew what was coming her way.

“She said that a time will come when your family forces you to leave your house. They would not keep you. That time, don't go anywhere, just come to this address. I thought she was crazy. I was settled in my own world. That was my family and my house. Why would they kick me out of the house? But it happened the same evening,” she said.

In the evening, a neighbour complained to her family that they had seen her talking to the transgenders. Her family got angry. The boys were already after her. The relatives and others were also mocking her family. They told her to leave the house, and she left.

She went to that address where she was received happily. Her guru was extremely kind to her. She helped her complete her education. After completing her undergraduate, she went to Islamabad to do her MPhil in Urdu from Allama Iqbal Open University. Once again, she had to figure out a place for her living. She posted about the struggle on her Facebook. The post went viral and reached a woman who was doing a Ph.D. at the same university. She contacted her and told her to come to her house instead of wasting time hunting for a safe place. She went to her. She says that the woman helped her a lot.

Fighting against the system

She helped her file a petition at the court demanding the government to consider transgender as equal citizens and give them the right to get permanent jobs as teachers in colleges and universities. Faizi won the case, but she couldn't pass the lecturer's examination of the Punjab Public Service Commission (PPSC). However, she has been teaching since 2011. She did her B.Ed. from Lahore. After that, she got an internship at a government school. She taught there for one year, and then she taught in some government and private colleges for several years. She also taught in some private tuition centres. She is Pakistan's first trans teacher.

Faizi is now working as a victim spot officer in a protection center developed by Punjab police in the district of Toba Tek Singh. She wants to go back to teaching. She is planning to get admission in a PhD program in Urdu at university, and after completion of her PhD, she will apply for jobs in the university

I was molested as a child

Ali Rehman,* a businessman from Lahore, was molested as a child at a local Islamic seminary. He does not talk about it anymore due to the social stigma attached to it, but the trauma is there.

"It was difficult for me to talk about this," he said. "People often think men cannot be victims of violence. But it does happen to us."

According to the recent report of a nongovernmental organization Saahil, an average of 12 children per day faced sexual abuse in Pakistan in 2023. The report further revealed that younger boys had suffered abuse more than younger girls. Saahil collects these incidents from newspapers. Hence, the real situation could be even worse. Many incidents of violence against younger boys occur in seminaries. Ali recalls his own experience as a seminary student when a teacher attempted to coerce him sexually.

"One day, a teacher called me to his house for what I thought was work. But when I arrived, he was sitting there naked. I immediately ran away," Ali said. "I was scared to tell anyone since I’d never heard of a boy reporting such things, especially to parents."

Toxic masculinity attitudes in Pakistan often prevent male victims from reporting sexual violence. Seeking justice is seen as a shameful weakness rather than a tremendous strength. Victimhood also triggers feelings of humiliation due to cultural notions linking "honour" to macho dominance. Most, thus, stay silent, leaving psychological trauma unaddressed as systems ignore male vulnerability.

Ali, however, told the incident to some of his classmates, who he says to date make fun of him. They mock the traumatic experience, laughing at his "missed opportunity" whenever the seminary name surfaces in their conversations.

“Fifteen years have passed since this incident. The friends whom I told about the incident at that time still make fun of me asking what would have happened if I had stayed there. Then they laugh. I don't even repeat this incident now, but whenever the name of this teacher comes up, or the name of the seminary comes up, my friends start making fun of me, saying that he was crazy about you,” he added.

"Sadly, rigid gender norms and toxic views of masculinity fuel violence against marginalized groups in our society," explains Shermeen Bano, a sociology professor at FC College Lahore. "It's not just restricted to women—men and transgender individuals are also disempowered and dehumanized due to their gender identity."

Shermeen traces the roots of this systemic issue in Pakistan to deep patriarchal attitudes and structures of inequality engraved into the fabric of society. She says the gender against violence in our society happens at different levels.

"It happens at the individual level, within family and community networks, as well as societal and state levels. Those seen as lacking power or dignity due to their gender identity become targets. For transgender individuals, violence and restricted rights stem from their failure to conform to the gender binary. Male victims also lack power—strength is equated to masculinity, so sexual abuse of men and boys goes unacknowledged," she said.

Dr Rubeena Zakar, a Public Health professor at the University of Punjab, while talking about Gender-based violence in Pakistan especially one targeted at those who are not women, said that many of those cases go unreported. Even the cases of violence against women go unreported.

“When you see incidents of gender-based violence in the media, they are against women. But the violence against men, we will not say that it does not happen, but it does happen. Incidents of violence by women against men are very few, but incidents of violence against women by men are very high," she said.

The discrepancy stems in part from societal attitudes that frame feminine victims as more sympathetic while masculine vulnerability remains taboo.

"Ours is still very much a patriarchal society stacked in favour of men and rigid gender norms. So, violence against women gets highlighted more," she said.

However, data suggests alarming rates of abuse against marginalized male and transgender groups.

"Make no mistake - male-on-male sexual violence is very common in Pakistan, but notions of masculinity and honour prevent victims from coming forward," she stressed.

The result is a perfect storm where oppressed groups suffer violence quietly due to stigma, inadequate legal protections, and lack of social support.

She says that this violence stems from the society and its parameters for different genders. If it considers a gender lesser being, that gender will suffer more violence and have even lesser support.

"If we as a society view someone as 'other' or inferior due to their gender identity, that enables serious abuse. Transgender individuals, in particular, face huge discrimination and vulnerability to harassment,” Dr. Rubeena said.

How the Situation Could Be Changed?

Both Dr. Rubeena and Shermeen said that we would need to change the way we look at vulnerable groups as individuals and as the whole society. Then there is a need for wide-scale awareness campaigns and systematic changes that give power to these groups and make them equal citizens of this country.

"We need to empower vulnerable groups and give them greater autonomy and dignity regardless of gender identity. Simultaneously, we must challenge traditions and norms that justify misogyny and bigotry. Only then can we envision a society free from violence for people of all genders,” Bano said.

Dr Rubeena says universities should play their role in this regard. Those should take the help of their students and send them to communities to work as change agents.

"Legal initiatives, counselling services, university gender programs - these can help. We must go deeper within communities to shift mindsets and toxic masculinity norms that fuel violence against marginalized groups,” she said.

It is a long road, but an essential one to build a society free of oppression.

"The most vital need is awareness - we must break taboos and start openly discussing violence targeting men, transgender citizens, and anyone else who suffers abuse. Only then can all people live with equal rights and dignity, regardless of gender," Dr. Rubeena said further.

The path forward winds through schools where curriculum and counselling nurture inclusion; through homes where families reconcile rigid roles, and seats of power occupied by visionaries bold enough to legislate protections for all. The healing should begin in communities reclaiming identities that have been long demonized. Media should also play its due role in this regard by giving an amplified voice to the muffled trauma of marginalized groups.

As Shermeen stated, such transformation requires “redefining strength” as empowering the most vulnerable—countering decades of trauma with resilience. The space must open through dialogue; laws should be made to secure rights for everyone regardless of any discrimination Though long suppressed, an enlightened Pakistan lies within reach should we muster collective courage to confront bias in all its insidious forms.