Blog Archives

November 13, 2023 - Comments Off on خیبر پختونخوا کی ٹیکنالوجی سے بے خبر خواتین ووٹر لسٹ میں غلطی پر ووٹ کے حق سے محروم :مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا الیکشن میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟

خیبر پختونخوا کی ٹیکنالوجی سے بے خبر خواتین ووٹر لسٹ میں غلطی پر ووٹ کے حق سے محروم :مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا الیکشن میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟

ناہید جہانگیر

ایک ہی دفعہ ووٹ ڈالنے گئ تھی لیکن ووٹر لسٹ میں خاوند کا نام غلط لکھا تھا، ووٹ ڈالے بغیر گھر واپس آگئ تھی اس کے بعد کھبی نہیں گئ۔،

رخشندہ جن کا تعلق پشاور شہر مہمند آباد کے علاقے سے ہیں کہتی ہیں کہ وہ 2013 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے گئ تھیں، کافی رش کی وجہ سے گرمی بھی تھی لیکن پھر بھی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتی رہیں جیسے ہی باری آئی اور کاؤنٹر پر موجود خاتون کو اپنا شناختی کارڈ دیا تو خاندان نبمر اور ووٹ نمبر نکال کر بتایا کہ شناختی کارڈ میں آپکے خاوند کا نام نادر خان ہے جبکہ ووٹر لسٹ میں ناصر خان ہے اس لئے آپ ووٹ نہیں ڈال سکتی ۔

رخشندہ بتاتی ہیں کہ بہت دکھ کے ساتھ وہ واپس گھر آئیں اسکے بعد دل نہیں کرتا کہ کھبی بھی ووٹ کے لئے جائیں۔ انتخابات سے پہلے لسٹ چیک نہیں کی اور نا ہی وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں کہ فہرست مں غلطی کو درست کر لیتے ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ وہ موبائل کا استعمال نہیں کرسکتی تو درستگی کے لئے آن لائن درخواست کیسے دے سکتی ہیں۔

صوبائی اسمبلی الیکشن کمشنر کے ترجمان سہیل احمد نے اس حوالے سے کہا کہ خیبرپختونخواہ انتخابی فہرست پرنظرثانی  کے لئے ایک مرحلہ مکمل کرتا ہے اور اسکے لئے باقاعدہ شیڈول جاری کیا جاتا ہے اس انتخابی فہرست کو مکمل کرنے کے لئے گھر گھر جا کر ایک مہم چلائی جاتی ہے اس میں متعلقہ دیہاتوں، گاؤں یا شہری علاقوں کے مقامی اساتذہ یہ فریضہ انجام دیتے ہیں تو اس میں غلطی یا اندراج سے محروم ہونے کے بہت کم مواقعے ملتا ہیں۔ لیکن اگر ایک آدھ کیس میں غلطی ہوجائے تو ہر کوئی اپنے گھر میں موبائل پراپنا نام فہرست میں دیکھ سکتا اور غلطی کی صورت میں  بآسانی آن لائن درخواست دے سکتا ہے۔

ترجمان کے مطابق جہاں تک خواتین ووٹروں کے اندراج کی بات ہے تو جس علاقے میں بھی یہ خصوصی ٹیم جاتی ہے تو ہر گھر کے مرد حضرات ان اساتذہ کو گھر کی خواتین کے ووٹ اندراج میں مدد کرتے ہیں۔

خاندان کے تمام لوگوں بمہ خواتین کے قومی شناختی کارڈ  مانگے جاتے ہیں۔ تاکہ تمام لوگوں کے ووٹ کا اندراج گھر کی دہلیز پر مکمل کیا جائے، یہ بہت اہم  مرحلہ ہوتا ہے تو چاہے وہ دیہاتی علاقے ہوں یا شہری علاقے ہوں اس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اندراج  مہم ہوتی ہے یہ مہم بہت ہی مثبت ثابت ہوتی ہے۔ اگر اسکے بعد بھی کوئی غلطی ہوجاتی ہیں تو گھر میں کوئی نا کوئی پڑھا لکھا ضرور ہوتا ہے جسکی مدد سے بآسانی درستگی کی جا سکتی ہیں۔

پشاور شہر کی ریحانہ کہتی ہیں کہ انکی عمر 28 سال ہے لیکن ابھی تک قومی شناختی کارڈ نہیں بنایاگیا ہے ساتھ میں وہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہیں وہ ٹیکنالوجی استعمال تو کیا ووٹ بھی نہیں ڈال سکتیں کیونکہ انکو ووٹ ڈالنے کا طریقہ نہیں آتا ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ انکا شناختی کارڈ نہیں ہے تو اس لئے ووٹ کا استعمال نہیں کرسکتی لیکن ان کے خاندان میں ایسی خواتین بھی ہیں  جنکا شناختی کارڈ ہے لیکن انکو ووٹ ڈالنے کے تمام مراحل کے بارے میں علم نا ہونے کی وجہ سے ووٹ کا استعمال نہیں کرتیں۔

اس حوالے سے ترجمان صوبائی اسمبلی الیکشن کمشنر کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں اکثر خواتین ووٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے ڈیجٹل ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کر پانے اور ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم وجہ سامنے آئی ہیں  خاص طور پر 2017 میں خواتین ووٹرز کی فہرست جب سامنے آئی تو اس میں کافی کمی تھی یعنی 10 فیصد سے زیادہ گیپ تھا اس وجہ کو ایک سٹدی کے ذریعے معلوم کیا گیا کہ وجوہات کیا ہیں جو کہ 10 فیصد سے زیادہ کا گیپ ہے۔ تقریباً کوئی 103 اضلاع میں یہ 10 فیصد سے زیادہ گیپ ریکارڈ کیا گیا تھا، مشاہدے میں یہ بات آئی تھی کہ ان اضلاع میں زیادہ تر خواتین کے پاس قومی شناختی  کارڈ نہیں تھا شناختی کارڈ نا ہونے کی وجہ سے ان کے ووٹ درج نہیں ہو سکے تھے۔

اس مسلے کے حل کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نادرہ اور پارٹنر آرگنائزیشن کے اشتراک سے  فیمیل این آئی سی ووٹر رجسٹریشن مہم شروع کی جو اب بھی جاری ہے۔  اس طریقہ کار میں خواتین کے شناختی کارڈ مفت بنتے ہیں۔ جیسے ہی شناختی کارڈ بنتا ہے اسکے ساتھ ان کا ووٹ بھی درج ہوجاتا ہے۔ اس مکینزم سے 10 فیصد سے زائد گیپ کم ہو کر 9 فیصد پر آگیا ہے۔

پشاور کے سینئر الیکشن تجزیہ نگار و صحافی  محمد فہیم  خواتین ووٹر کے اندراج کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں خواتین ووٹر کے اندراج کا مسئلہ ہے اگر ریکارڈ کو دیکھا جائے تو بہت بڑی تعداد میں خواتین تو ایگزسٹ ہی نہیں کرتی ۔ لیکن حکومت نے  یہ ایک اچھا کام کیا کہ شناختی کارڈ کو لنک کر دیا ووٹ کے ساتھ، پہلے یہ ہوتا تھا کہ آئی ڈی کارڈ بنانے کے بعد بھی ووٹ نہیں ہوتا تھااس کے لئے الگ سے جا کر ووٹ کی رجسٹریشن کرنی پڑتی تھی ۔

اب ایسا ہے کہ جیسے ہی شناختی کارڈ بنایا جاتا ہے تو نادرہ کی جانب سے خود بخود ووٹ کا اندراج بھی ہوجاتا ہے۔ مسئلہ صرف اب یہ آتا  ہے اگر کوئی اپنا گھر تبدیل کر دے تو کہا جاتا ہے کہ گھرتبدیل کر دیا ہے اب آئی ڈی کارڈ میں موجود پتہ بھی تبدیل کر کہ نیا بنائیں گے۔اسکے بعد الیکشن کمیشن کے آفس میں ووٹ کی تبدیلی کرانی پڑتی ہے جو ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کافی وقت کا ضائع ہوتا ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہیں۔

مہمند ایجنسی کی بشریٰ کہتی ہیں کہ نادرہ دفتر ان کے گھر سے کافی دور ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ نہیں بنا اس لئے تو انکا ووٹ بھی نہیں ہے۔

 اس سوال کے جواب پر کہ گھر کتنا دور ہے بشریٰ نے کہا کہ 1 گھنٹہ سے زیادہ کا سفر ہے اور ان کا کوئی بڑا بھائی ہے نہیں ، والد کے محنت مزدوری میں مصروف ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ نادرہ دفتر جانے والا کوئی ہے نہیں۔ کارڈ نہیں ہے تو ووٹ کا استعمال بھی کھبی نہیں کیا ۔نا موبائل ہے اور نا ہی ان کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ صرف بشریٰ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس علاقے میں موجود تقریباً ہر گھر کا ہے۔

محمد فہیم نے بشرٰی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم مسلہ ہے جسکا یہاں کی خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا یہاں ہر جگہ نادرہ کا آفس ہے یا نہیں، حکومت کو پہلے یہ سوچنا پڑے گا کہ ہر ڈسٹرکٹ ،ہر تحصیل میں بلکہ خیبر پختونخواہ کی ہر تحصیل میں کم سے کم ایک نادرہ کا آفس ضرور ہونا چاہئے۔ کیونکہ اگر اپ ڈسٹرکٹ وائز بات کرتے ہیں تو معلوم نہیں کہ چترال میں نادرہ کے کتنے آفس ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بات کی جائے  کوہستان بالا یا کوہستان پایاں کی اسی طرح  تورغر کی تو یہ وہ علاقے ہیں جو دوردراز پہاڑی علاقے ہیں تو اتنا دور ایک ضلع میں ایک دفتر ہونے سے کام چلے گا بھی یا نہیں۔ اسی لئے خواتین کی ووٹنگ زیادہ کرنے کے لئے اس کے اوپر تھوڑا کام کرنا پڑے گا۔ حکومت  سب سے پہلے نادرہ کے آفس کو ہر جگہ یقینی بنائیں کم از کم  ہر تحصیل میں ایک دفتر ہو۔ لیکن حکومت نے ہر ضلع میں ایک الیکشن کمیشن کا افس رکھا ہوا ہے اس کو بھی تحصیل لیول پہ لے کے جائیں  تاکہ خواتین کو آسانی ہو۔

اگر دیر کی بات کریں یا مہمند کی بات کی جائے تو اگر ایک خاتون مہمند ایجنسی میں رہتی ہیں جن کا گھر افغان بارڈر کے پاس ہے اور ان کو کہا جاتا ہے کہا آپ کو اپنے ووٹ کے رجسٹریشن کی درستگی کے لیے لور مہمند آنا پڑے گا کیونکہ آفس تو وہاں ہے تو  یہ گھنٹوں کا سفر ہے اب وہاں کی خواتین کو کون لے کر آئے گا اکثر اوقات مرد کہتے ہیں بس کوئی ضرورت ہی نہیں ہے آپ چھوڑیں بس جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔خواتین کے ووٹ کے لئے تو یہ سب سے پہلی ضرورت ہے کہ حکومتی دفاتر تو ہر جگہ اویلیبل کریں ،صحافی محمد فہیم نے کہا۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا الیکشن میں کردار

مصنوعی ذہانت ہے کیا پہلے اسکو جانتے ہیں اس حوالے سے بانی دی انلائٹ لیب اور ماہر اے آئی شفیق گیگیانی کہتے ہیں کہ  کسی بھی مشین کوجب پرانا ڈیٹا دیا جائے اور اسکی بنیاد پر مسقبل کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائے، مطلب جب مشین کو اتنی مقدار میں  پرویس ڈیٹا دے کر اور اسکی بنیاد پر یہ کہنا کہ مستقبل میں یہ ہو سکتا ہے۔اسکو مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔

شفیق گیگیانی اے آئی کے

 الیکشن میں کردار کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ بالکل الیکشن میں اے آئی کا استعمال کیا جاسکتا ہے  جس کا کافی مثبت اثر ہوگا۔

وہ بتاتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے  ایسا  کیا جا سکتا ہے  کہ اگر ایک حلقے کا پرانا ڈیٹا نکال کر مشین سے یہ پوچھا جائے کہ ماضی میں کس نمائندے نے کیسے اور کیوں انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے تو مشین بتا سکتا ہے کہ کیسے۔ اسی طرح  یا  ڈیٹا دے کر پوچھا جائے کہ ماضی میں اس حلقہ کے لوگوں نے کن کن بنیادوں پر ووٹ دیا تھا اب کیا ہوگا تو اگر کوئی نمائندہ اے آئی کے بتائے ہوئے فراہم کردہ معلومات پر عمل کرے تو ہوسکتا ہے آنے والے وقت میں بھی وہی نمائندہ انتخابات جیت سکے اور یہ اے آئی پریڈیکشن کی بدولت ممکن ہوا ہوگا۔  

اے آئی کا الیکشن میں استعمال سے کوئی فائدہ نہیں

سینئر صحافی و تجزیہ نگار محمد فہیم  اے آئی کے الیکشن میں استعمال کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ

 آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک پائلٹ پروجیکٹ تو ہو سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس کے اوپر کام ممکن نہیں ہے کیونکہ اے آئی کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو ۔پورے ملک کے اندر خاص کر دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ ایکسیسبلٹی نہیں ہے اگرصرف پشاور کی بات کی جائے تو پشاورصوبائی دارالحکومت ہے ملک کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

تو ضلع  پشاور میں ہی بڈھ بیر، متھرا یا چمکنی کی طرف چلے جائیں یہ وہ علاقے ہیں کہ یہاں پہ نیٹ کام ہی نہیں کرتا بلکہ مین سٹی کے اندر علاقوں میں بھی گھروں کے اندر نیٹ کام ہی نہیں کرتا تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جب نیٹ کی ایکسسبلٹی نہیں ہے تو پھر اپ کیسے کام کریں گے ابھی حکومت فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کام کر رہی ہے تو امید کی جاسکتی ہے پھر اس سے فرق پڑے گا لیکن اب یہی لگتا ہے کہ اے آئی کا الیکشن میں استعمال صرف وقت کا ضیاع ہوگا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، محمد فہیم نے کہا۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا انتخابات میں استعمال کیا خطرناک ہو سکتا ہے جواب میں محمد فہیم نے کہا کہ خطرناک تو نہیں کہہ سکتے لیکن عین یہ ممکن ہے کہ جب الیکشن کے دوران اے آئی کا استعمال ہوتو نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اے آئی جہاں سے معلومات لے رہا ہوتو شاید وہ درست نا ہو۔تو اسکا انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب شفیق گیگیانی کے مطابق اگر آنے والے انتخابات میں اے آئی کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہ بہت اچھا ہو گا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے پہلے زمانے میں بھی کوئی بھی نمائندہ انتخابات سے پہلے مہم کے دوران سروئے کرتا تھا اور اسکی بنیاد پر اپنا مہم آگے چلاتا تھا تاکہ وہ آنے والے انتخابات میں میں کامیاب  ہوسکیں لیکن اب زمانہ ڈیجیٹلائز ہوگیا ہے اور مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل ہے تو اس میں کوئی فرق نہیں ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے مینول تھا اور اب تمام چیزیں ڈیجیٹل ہیں۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.