Blog Archives

November 13, 2023 - Comments Off on ویمن ووٹرز کا ٹرن آوٹ ڈیجیٹل مہم سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

ویمن ووٹرز کا ٹرن آوٹ ڈیجیٹل مہم سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

فوزیہ کلثوم رانا

سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سے معاشی ترقی اور جمہوریت کو براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔

 گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پر اس حوالے سے مثبت رجحان دیکھنے کو ملا ہے ۔اگرچہ ماضی کے مقابلے میں اب دنیا بھر میں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ میسر ہیں اور اب خواتین سائنس سے لے کر سیاست تک میں مردوں کے ساتھ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن خواتین ووٹرز کی تعداد مردوں کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے ۔اس لیے سیاسی جماعتیں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی جانب راغب کرتی ہیں ۔ اور اس کے لیے ڈیجیٹل مہم کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابی جنگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ لڑی جائے گی۔ اس لیے تمام جماعتیں مبینہ طور پر اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو منظم کرنے میں مصروف ہیں اور یہ فارمولا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں چل رہا ہے ۔تاکہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی مہم دی جا

سکے اور جیت میں کردار ادا کیا جا سکے۔

سیاست کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کا کردار کیسے بڑھ رہا ہے؟

پاکستان میں سیاست پر سوشل میڈیا کے اثرات کی نمایاں مثال پاکستان تحریک انصاف ہے ۔ یوں تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کا استعمال کہیں زیادہ ہے اوریہ کہا جا سکتا ہے کہ 2018کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ڈیجیٹل مہم کے ذریعے کامیابی سمیٹی تھی۔

اب اگر پرکھا جائے کہ سیاسی جماعتیں خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لیے کیا کرتی ہیں ؟

تو اس میں حق رائے دہی اہم ہے مگر خواتین کی اکثریت ووٹ کی اہمیت کو نہیں جانتی ہیں، خواتین کو ووٹ کی   اہمیت اور فوائد کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے سیاسی جماعتیں اپنے ڈیجیٹل ونگز اور یوتھ ونگز کا اجلاس طلب کرتی رہتی ہیں تاکہ ان کو مضبوط بنا یا جا سکے اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔

اسی حوالے سے کہ کیا سیاسی جماعتیں خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لیے ڈیجیٹل مہم کا استعمال کرتی ہیں؟

سابق پارلمانی سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس و سابق ممبر قومی اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی سربراہی میں خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین ونگز کی ضلعی اور حلقہ کی سطح کی تنظیم پر توجہ مرکوز ہے ، اور خواتین میں ووٹ کی اہمیت اور سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ڈیجیٹل ایک منظم  مہم  بھی ہے جس کے تحت عورتوں اور نوجوانوں میں ووٹ کی اہمیت بارے ان کو آگاہی دینا، پروگرام منعقد کروانا اور ایسے علاقے جہاں عورتوں کے شناختی کارڈ تاحال نہیں ہیں، مریم نواز شریف کی سربراہی میں عورتوں کو اس کی اہمیت عملی طور بتانے کے لیے (ن) لیگ کے ویمن ونگ میدان عمل میں سرگرم ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے خواتین میں ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کے حوالے سے ڈیجیٹل 50.50 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بینیظیر بھٹو کے نقش قدم پر اب چئیرمین بلاول بھٹو زرداری خصوصی طور پر عورتوں کی سیاسی عمل میں شرکت کو ووٹ اور سیاسی عمل میں حصہ داری کی بناء پر بڑھانے کے قائل ہیں ۔ اسی حوالے سے ان کی خصوصی ہدایات پہ عمل کرتے ہوئے اسی طرح پیپلز پارٹی ڈیجیٹل دنیا میں متحرک ہے، اور اس حوالے سے خواتین میں ووٹ کی اہمیت پر بھی کام کر رہے ہیں اور یہ کہ انفرادی سطح سے لیکر ڈیجیٹل دنیا میں کثیر تعداد میں اپنا پیغام بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں کبھی بھی خواتین ووٹرز کی تعداد کم ہونے کی بناء پہ انتخابات کالعدم نہیں ہوئے ہیں ۔سحر نے کہا کہ پی پی پی یونین کونسل کی سطح سے لے کر ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بھی عورتوں میں ووٹ کی اہمیت کیا ہے اور ان کے لئے اپنا ووٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے کیسے چیک کیا جا سکتا ہے جیسے ضروری عوامل کو سکھانے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے تو ڈیجیٹل میڈیا کا اتنا کردار نہیں تھا مگر آنے والے انتخابات میں اس کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے، اور پی پی پی خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لئے مزید موئثر کمپین بھی ڈیزائن کروائے گی، کیونکہ ہمیں آبادی کا ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا سے آشنا ملتا ہے تو خواتین میں ووٹ کی اہمیت کے لئے بھی ڈیجیٹل میڈیا یا ڈیجیٹل مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے بتایا کہ سوک ایجوکیشن ایکٹ بھی 2018  میں انہوں نے  متعارف کرایا تھا اور سوک ایجوکیشن میں ووٹر ایجوکیشن ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے کامیابی کے ساتھ منظور کیا گیا تھا اور صدر مملکت نے اس کی منظوری دی تھی اور پھر یہ گزٹ آف پاکستان میں شائع کیا گیا تھا، یہ اب پارلیمنٹ کا ایکٹ ہے اور حکومت پر اس پر عمل درآمد کی پابندی ہے۔ اور سیا سی جماعتیں اس دور جدید میں جو بھی راستے اختیار کئے جا سکتے ہیں چاہے وہ ڈیجیٹل مہم ہے یا گھر گھر جانا ، خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے راغب کرنے میں استعمال کریں گی اور پی پی پی اس حوالے سے خاصی متحرک جماعت ہے ۔

ڈیجیٹل مہم کا خواتین ووٹرز میں شعور دینا اور ووٹ کی اہمیت بارے  جماعت اسلامی کی سابق ممبر قومی اسمبلی عائشہ سید کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ’دستک‘ کے نام سے آگاہی مہم چلا رہے ہیں، ہم نے ووٹرز کے لیے ایک ایپ بنائی ہے جس میں ووٹرز کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ معلومات بھی مل رہی ہیں کہ کون سے علاقے میں کتنی خواتین کی رجسٹریشن نہیں ہوئی اور کتنی خواتین کا ابھی تک شناختی کارڈ ہی نہیں بنا، اس پر ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اور جو اہداف سیٹ کیے تھے ہم نے اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔

عائشہ سید کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی مختلف پروگرام بھی منعقد کروا رہی ہے جس کے ذریعے خواتین کو آگاہی دی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل مہم چلا کر خواتین کو ووٹ کی اہمیت بتائی جا رہی ہے اور انہیں ووٹ دینے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ اور جن خواتین کے شناختی کارڈز نہیں ہیں وہ بھی بنوا رہی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی عوام کی جماعت ہے اور ہماری آبادی کا آدھا حصہ کیوں ووٹ کی اہمیت سے نا آشنا رہے ہم عورتوں کی سیاسی شمولیت بڑھانے اور ووٹ ڈالنے کے عمل میں خواتین کی ایجوکیشن پہ خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔

اسی حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر فلک ناز کا کہنا ہے کہ خواتین کو متحرک کرنے اور ان میں ووٹر ایجوکیشن بڑھانے کے لیے تحریک انصاف فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف خواتین کو عملی سیاست میں آگے لے کر آئی، عمران خان نے خواتین کو جماعت میں مناسب نمائندگی دی اور اہم عہدوں تک رسائی دی تاکہ وہ اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔

فلک ناز کا کہنا تھا کہ خواتین میں ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور انہیں فوائد دینے کے لیے تحریک انصاف ڈیجیٹل مہم بھی چلاتی ہے تاکہ خواتین کو مزید مضبوط بنایا جا سکے اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔

سینٹڑ فلک ناز نے بتایا کہ جیسے ان کا تعلق چترال سے ہے تو پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں عورتوں کو ووٹ دینے کے طریقہ کار کا ہی علم نہیں ہوتا اس لیے ان علاقوں میں بھی ڈیجیٹل مہم چلانا ضروری ہے تاکہ ان خواتین کو بھی ووٹ کی اہمیت کا پتہ چل سکے جو اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف پورے پاکستان میں ڈیجیٹل مہم کے ذریعے آگاہی پیدا کر رہی ہے تاکہ خواتین کو ووٹ کی اہمیت کا پتہ چل سکے اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کر سکیں۔ اور آئندہ انتخابات میں اگر پی ٹی آئی میدان میں اتری تو باقاعدہ ڈیجیٹل مہم بھی لانچ کریں گے۔

اب اگر ہم تقابلی جائزہ لیں  جنوبی ایشیا کے ممالک جن میں  پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش شامل ہیں کہ کیا ان ممالک میں بھی خواتین ڈیجیٹل مہم کا استعمال کرتی ہیں؟

تو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور بھارت کی سونیا گاندھی کو جنوبی ایشیائی خواتین میں اہم اور منفرد اعزاز حاصل ہے ۔ ان کا شمار طاقتور اور مقبول ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔ انتخابات کے لیے وہ بھی ڈیجیٹیل مہم کا سہارا لیتی ہیں تاکہ اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا جا سکے جو ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان سے معروف سیاستدان مریم نواز شریف خواتین ونگ اور سوشل میڈیا اور یوتھ کا اجلاس طلب کرتی رہتی ہیں جس میں ڈیجیٹل مہم کے حوالے سے خصوصی ہدایات بھی جاری رکھتی ہیں ، حالیہ دنوں میں نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر بھی انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا خوب استعمال کیا تاکہ انتخابات کی صورت وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کر سکیں ۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والی حنا پرویز بٹ، شیریں مزاری اور شہلا رضا ، شازیہ مری سمیت بہت سی سیاستدان ایسی ہیں جو ڈیجیٹل میڈیا پر متحرک ہیں اور انتخابات میں اس کا خوب استعمال بھی کرتی ہیں۔

پاکستان میں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابات میں بطور ووٹر خواتین کی شرکت اب پہلے سے زیادہ آسان اور بہتر ہو گئی ہے۔

انتخابی اصلاحات کے ایکٹ 2017ء کی رو سے سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عام نشستوں پر 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کو دیں۔الیکشن کمیشن کو اب اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے انتخابی حلقوں کے انتخابی نتائج کو منسوخ قرار دے سکتا ہے جہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد یا اس سے کم ہو اور ایسے کسی بھی معاہدے پر ضروری کارروائی کر سکتا ہے جس کے تحت خواتین کو زبردستی ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہو۔

انتخابات میں خواتین کی شمولیت بہتر بنانے کے لئے یہ ایک بڑا اور خوش آئند اقدام ہے۔

2018میں پاکستان کے الیکشن کمیشن نے صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 23 میں خواتین کے دس فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے پر اس حلقے میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ملکی تاریخ میں ایسا دو بار ہوا ہے اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں سنہ 2013 میں ہونے والے انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے زبردستی روکنے پر اس علاقے میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے تھے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء میں خواتین کو حق رائے دہی میں سپورٹ کیا گیا۔ سیکشن 47 کے تحت الیکشن کمیشن پابند ہے کہ خواتین کے ووٹ رجسٹر کروانے میں خصوصی اقدامات کرے۔

جب کہ سیکشن  کے170(Aمطابق کوئی بااثر شخص کسی    خاتون کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا۔

اور سیکشن206کے مطابق الیکشن میں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیے جائیں گے۔

سیکشن 9 کے مطابق اگر کسی جگہ خواتین کے10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہوں تو اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

اب چونکہ الیکشن کی بھی آمد آمد ہے تو سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ڈیجیٹل مہم کا موثر استعمال عمل میں لاکر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بڑھائیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے ڈیجیٹل ونگز سے ہمیں ڈیجیٹل میڈیا پہ ٹرولنگ یا لیڈرشپ کے حق میں ٹرینڈ تو روز ہی نظر آتی ہیں مگر خواتین ووٹرز کی ایجوکیشن کے لیے اس کا موثر استعمال کم ہے۔ ہم نے کچھ سیاسی جماعتوں کی رہنماؤں سے بات چیت کی ہے مجموعی طور پہ ڈیجیٹل مہم پہ وہ متفکر پائی گئیں اور آیندہ انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل مہم کا استعمال کے عزم کا اعادہ کیا۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.