Blog Archives

July 4, 2023 - Comments Off on خیبرپختونخوا کی خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمانے لگیں

خیبرپختونخوا کی خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمانے لگیں

خالدہ نیاز

'جس جگہ میری شادی ہوئی ہے یہاں نوکری کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف پرائیویٹ سکولز ہیں لیکن اس میں اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے تک تنخواہ ملتی ہے اور اتنے پیسوں میں آجکل گزارہ نہیں ہوتا اس وجہ سے میں نے انٹرنیٹ کی مدد سے آن لائن کام کرنا شروع کردیا اور آج میں آن لائن پلیٹ فارمز سے اچھے خاصے پیسے کماتی ہوں'

یہ کہنا ہے 34 سالہ ثمر سید کا جن کی 8 سال قبل خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں شادی ہوئی۔ ثمر سید کا ایک بیٹا بھی ہے اور آجکل وہ آن لائن پلیٹ فارمز اپ ورک فائیور کے ذریعے ورچول اسسٹنٹ کے حیثیت سے کام کررہی ہیں۔

ثمر سید کا کہنا ہے کہ شروع میں انکا اس میں کوئی تجربہ نہیں تھا تاہم وہ چھوٹے موٹے کام کرلیتی تھی اور جلد ہی انکو اس بات کا احساس ہوگیا کہ پاکستان میں ایک لیکچرار جتنا کماتا ہے، ورچول اسسٹنٹ اس سے کہیں زیادہ آن لائن کام کرکے کما سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انکو تجربہ حاصل ہوا اور جن پلیٹ فارمز پہ وہ کام کررہی ہیں اس میں انکا ایک اچھا پروفائل بن گیا ہے۔

ایک مہینے میں قریباً 3 لاکھ تک کمائی کی ہے

انہوں نے کہا کہ انکا زیادہ کام اپ ورک پر موجود ہے اور انکو زیادہ کام بھی اسی پلیٹ فارم کے ذریعے ملا ہے۔ ثمر سید نے بتایا کہ اپ ورک کے ذریعے انہوں نے ایک مہینے میں قریباً 3 لاکھ تک کمائی کی ہے جبکہ اس پر کام کرنے سے پہلے انکے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک سوال کے جواب میں ثمر سید نے کہا کہ فری لانسنگ سے پہلے ان کے لیے معاشی مسائل بہت زیادہ تھے کیونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور انکے پاس کوئی کام نہیں تھا تو پیسے کہاں سے آتے جبکہ انکا کوئی بھائی نہیں ہے تو والدین کی ذمہ داری بھی ان پر اور انکی دوسری بہن پر ہے لیکن انکی دوسری بہن کی تنخواہ بھی کم تھی۔

ثمر سید کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اپ ورک کے ذریعے اتنی کمائی کرلی کہ انہوں نے نہ صرف اپنے لیے گاڑی لی ہے بلکہ ایک پلاٹ بھی لے لیا ہے اور انکے ساتھ انکی بہن نے بھی فری لانسنگ شروع کردی ہے۔

فری لانسنگ اور خواتین کی معاشی خودمختاری

ثمر سید نے کہا کہ فری لانسنگ کے ذریعے انکو معاشی خودمختاری مل گئی ہے اور انکے کافی سارے معاشی مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ انکو احساس ہوا کہ گرافک ڈیزائننگ بھی سیکھ لینی چاہئے لہذا اب وہ یہ بھی سیکھ رہی ہیں تاکہ انکے پاس زیادہ سے زیادہ سکلز ہو اور زیادہ کمائی کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گرافک ڈیزائننگ ایک گلوبل ہنر ہے اگر کسی کے پاس یہ ہنر ہے تو ان کو آسانی سے دنیا میں کہیں بھی نوکری مل سکتی ہے۔

ثمر سید اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہماری لڑکیوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعلق سکلز سیکھنے چاہیئیں کیونکہ یہ انکے لیے بہت ضروری ہے اور زندگی میں انکے بہت کام آسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے پھر اس کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی یا کسی اور وجہ سے وہ نوکری پہ نہیں جاسکتی تو ایسے میں کمپیوٹر سے متعلق سکلز اور تربیت کے ذریعے وہ گھر بیٹھے لاکھوں کماسکتی ہیں۔

آن لائن کام کرنے کے لیے کونسے سکلز ضروری ہیں ؟

ثمر سید کا کہنا ہے کہ جو بھی لڑکیاں آن لائن کام کرنا چاہتی ہیں ان کو مائیکروسافٹ ورڈ، ایکسل، ریرسرچ سکلز اور کمیونکیشن سکلز آنے چاہئے اور انکی انگلش بھی اچھی ہونی چاہیے کیونکہ آن لائن میں زیادہ تر باہر ممالک کے کلائنٹس ہوتے ہیں تو ایسے میں انگلش ضروری ہوجاتی ہے۔

ثمر سید کا کہنا ہے کہ آن لائن کام کے لیے سٹیبل انٹرنیٹ کا ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ اگر انٹرنیٹ صحیح نہیں ہوگا تو ایسے میں کام وقت پر نہیں ہوپائے گا اور کام کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو مشکلات درپیش ہونگی۔

ثمر سید کی طرح نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ بھی آن لائن کام کرتی ہیں اور پیسے کماتی ہیں۔ لیلیٰ نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں بی-ایس کیا ہے۔ لیلیٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی سے ہی فری لانسنگ شروع کردی تھی، فیس بک پہ انکو کلائنٹس ملتے تھے جن کے لیے وہ گرافک ڈیزائننگ کا کام کرتی تھی۔ بی-ایس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پشاور کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں گرافک ڈیزائنر کے حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور وہاں ایمازون بھی سیکھنے لگیں۔ لیلیٰ کہتی ہیں کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کے لیے بھی گرافک ڈیزائننگ کا کام کیا کرتی تھی۔

  لیلیٰ کا بیس ہزار میں گزارہ مشکل ہوگیا تھا

ان کا کہنا ہے کہ کچھ ہی مہینوں میں انہوں نے ایمازون کا کام سیکھ لیا تو انہوں نے ورچول اسسٹنٹ کے طورپر بھی کام کرنا شروع کیا۔ 'جہاں میں کام کررہی تھی وہاں مجھے بیس ہزار روپے ماہانہ مل رہے تھے جس میں میرا گزارہ کرنا مشکل ہوگیا تھا تو وجہ سے میں نے وہ نوکری چھوڑ دی کیونکہ میں نے سوچا جتنا میں مہینے میں کماتی ہوں اس سے زیادہ تو گھر بیٹھے فری لانسنگ میں کمالوں گی' لیلیٰ نے بتایا-

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے گھر سے آن لائن کام کرنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے مجھے ایک کلائنٹ ملا جس کو میں نے ایمازون سیکھایا۔ اس کے بعد میں نے اپ ورک، فائیور اور باقی آن لائن پلیٹ فارمز پہ اکاونٹ بنایا جس کے بعد مجھے اچھی جگہ آن لائن نوکری مل گئی اب میں مہینے میں اچھے خاصے پیسے کمالیتی ہوں جس سے گھر کی ضروریات پوری ہوجاتی ہے اور کام کا بوجھ بھی اتنا نہیں ہوتا۔

لیلیٰ کا کہنا ہے کہ آن لائن اکاونٹ بنانے سے لوگ کام دینا شروع کردیتے ہیں پھر مقررہ وقت میں انکو وہ کام دینا ہوتا ہے جب کام مکمل ہوجائے تو لوگ پیمنٹ کے ساتھ ریویو بھی دیتے ہیں اور اس ریویو کو دیکھ کے اور لوگ بھی کام دینا شروع کردیتے ہیں اور اس طرح ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ آن لائن طریقے سے لڑکیاں گھر بیٹھے زیادہ پیسے کماسکتی ہیں بنسبت کسی دفتر میں کام کرنے کے۔

ایماوزن کہاں سے سیکھ سکتے ہیں

لیلیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایمازون سیکھنے کے خواہش مند افراد کو چاہئے کہ وہ یوٹیوب پرجاکر بیسکس سیکھے اس کے بعد اینیبلرز، ایکسٹریم کاماز، بی ونرز اور باقی ایسے ادارے ہیں جہاں لوگ جاکر آسانی سے ایمازون سیکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد اس سے کما بھی سکتے ہیں۔

لیلیٰ کہتی ہیں کہ ایمازون میں پریکٹیکل کام بھی ضروری ہوتا ہے جو کسی ادارے میں جاکر بندہ سیکھ سکتا ہے۔ لیلیٰ کے مطابق ایماوزن میں پہلے پروڈکٹ سرچنگ کے حوالے سے سیکھایا جاتا ہے اس کے بعد سورسنگ کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے ، اس کے بعد رینکنگ کا نمبر آجاتا ہے اور پھر لانچنگ کرتے ہیں۔

لیلیٰ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے لیے ایمازون میں بہت پوٹینشل موجود ہے، اگر یہ سیکھ جائیں تو انکو صرف لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھر میں بیٹھ کر اچھا خاصہ کماسکتی ہیں۔

نمیرہ حیات ٹوڈی اینیمیشن ماسٹر

پشاور کی نمیرہ حیات بھی ان چند لڑکیوں میں سے ایک ہے جو آن لائن ذریعے سے پیسے کما رہی ہیں۔ نمیرہ پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم پڑھ رہی ہیں اور انکی عمر 23 سال ہے۔ نمیرہ پچھلے 4 سال سے فائیور پہ کام کررہی ہیں۔ نمیرہ ٹو ڈی اینیمیشن ویڈیوز بناتی ہیں جس طرح کہ کارٹونز، پروموشنل ویڈیوز وغیرہ۔

نمیرہ کا کہنا ہے انکو فائیور پہ انکے سکل کے حساب سے آڈر ملتے ہیں اور پھر وہ مقررہ وقت میں کلائنٹ کو کام کرکے دیتی ہیں۔

نمیرہ کا کہنا ہے کہ انکو گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ آڈر کے حساب سے کام ملتا ہے مثال کے طورپر ایک آرڈر کے لیے انکو ایک ہفتہ ملتا ہے تو دوسرے کے لیے ایک مہینہ اور اس طرح انکو پیسے بھی آرڈر کے حساب سے ملتے ہیں۔

لیلیٰ اور ثمر کی طرح نمیرہ بھی فائیور کے ذریعے اچھے پیسے کما رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی نیا فائیور کو جوائن کرتا ہے تو یکدم اس کو نہ تو پیسے ملیں گے نہ آرڈر اس کو شروع میں وقت دینا پڑے گا اور محنت کرنی ہوگی اس کے بعد اس کو کام ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ نمیرہ کا کہنا ہے کہ جب ایک مرتبہ پروفائل بن جاتا ہے تو ایک بندہ مہینے میں اسی ہزار یا اس سے زیادہ بھی کماسکتا ہے۔

ایک منٹ ویڈیو کے ساٹھ ڈالرز ملتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ انکو ایک منٹ ویڈیو کے ساٹھ ڈالرز ملتے ہیں لیکن یہ سکل پہ منحصر کرتا ہے جس کی جتنی سکلز ہونگی اس حساب وہ وہ کماسکتا ہے۔ نمیرہ کا کہنا ہے کہ یہ لڑکیوں کے لیے ایک محفوظ اور بہتر آپشن ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے باہر کا ماحول محفوظ نہیں تصور کیا جاتا، بعض خاندان بھی لڑکیوں کو باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو یہ ان خواتین کے لیے بہت ہی زبردست آپشن ہے کہ وہ گھر بیٹھے آن لائن ذریعے سے پیسے کمائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آن لائن کام کرنے سے لڑکیاں گھر والوں کو بھی وقت دے سکتی ہیں اور کام کو بھی وقت دے سکتی ہیں۔

انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے نمیرہ کو مشکلات کا سامنا رہا

نمیرہ کہتی ہیں پچھلے دنوں میں جب ملک میں انٹرنیٹ بند ہوگیا تھا تو انکو بہت مشکلات درپیش آئی کیونکہ انکو مقررہ وقت میں کام ڈیلیور کرنا ہوتا ہے لیکن جب انٹرنیٹ نہیں تھا تو کام کیسے کرتی۔ ان کا کہنا ہے کہ جتنے بھی لوگ آن لائن  کام کرتے ہیں انکو اس انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے بہت دقت اٹھانا پڑی۔

نمیرہ کا کہنا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے ان سمیت فائیور پر کام کرنے والی ساتھیوں کے زیادہ تر آڈرز کینسل ہوگئے کیونکہ مقررہ وقت پہ کام نہ کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ کام کردیا تھا لیکن اس کو ڈیلیور نہ کرسکے ایک تو انکی محنت ضائع ہوگئی، ریویوز بھی خراب ہوگئے اور پیسے بھی گئے۔

انٹرنیٹ کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نمیرہ نے بتایا کہ اگر اسی طرح بار بار انٹرنیٹ بند ہوتا رہا تو فری لانسرز کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔ نمیرہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ بندش مشکلات کے باوجود آجکل کے دور میں فری لانسنگ ہی بہترین آپشن ہے۔

آن لائن کام کرنا بہت آسان ہوچکا ہے

پشاور سے تعلق رکھنے والے سوفٹ ویئر انجنیئر اور ویب ڈیویلپر صوفی علی کا کہنا ہے کہ آجکل کے دور میں آن لائن کام کرنا بہت آسان ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نے ہمیں سکھادیا ہے کہ ہم گھر سے آن لائن کس طرح کام کرسکتے ہیں، کرونا وائرس نے دنیا کو سوچنے کا ایک نیا نظریہ دے دیا ہے۔ صوفی علی سمجھتے ہیں کہ آن لائن کام کرنا اگر ایک طرف آسان ہے تو دوسری جانب اس کے فائدے بھی ہے۔ مثال کے طور پر ایمپلائر کو ایک مکمل سیٹ اپ کی ضرورت نہیں ہوگی، فرنیچر اور بجلی کا خرچہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ کام کرنے والوں کو بھی فائدہ ہے ایک تو انکو ٹرانسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی دوسرا وہ گھر بیٹھے کسی بھی وقت کام کرسکتے ہیں اور نیند بھی پوری سکتے ہیں، ساتھ میں گھر کا کام بھی کرسکتے ہیں۔

صوفی علی کا کہنا ہے کہ آن لائن کام نے خواتین کے لیے پیسے کمانا بہت آسان کردیا ہے کیونکہ اس میں صرف ایک لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس کچھ سکلز سیکھنے کے بعد خواتین اس قابل ہوجاتی ہیں کہ وہ اچھے خاصے پیسے کمانے لگتی ہیں۔

صوفی علی کہتے ہیں کہ اگر آن لائن تین چار کلائنٹس مل جائیں تو پھر اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی انہی کلائنٹس سے اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنیوالا دور آن لائن کام کا ہے اور اس میں مواقعے بھی زیادہ ہیں لہذا خواتین کو سکلز حاصل کر کے اس جانب توجہ دینی چاہئے

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.