Blog Archives

December 8, 2023 - Comments Off on تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

تم لڑکی ہو سوشل میڈیا تمہارے لیے نہیں ہے

خالدہ نیاز

میرا بھی دل چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کروں، ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناوں لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ نہ تو میرے پاس سمارٹ فون ہے اور نہ ہی مجھے تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی اجازت ہے۔

یہ کہنا ہے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ندا کا جو اس وقت ایف ایس سی پارٹ ٹو کی طالبہ ہے۔ ندا کا کہنا ہے کہ اس کو بھائی نے سختی سے منع کیا ہے کہ موبائل کو ہاتھ بھی نہ لگائے اور اگر اس نے کہیں پہ تصاویر بنائی تو یہ اس کے کالج کا آخری دن ہوگا۔ ندا کا کہنا ہے کہ آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے انکو پڑھائی کے لیے بھی سمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ موبائل استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

ندا کا کہنا ہے اس کے علاقے میں لڑکیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کوئی بھی انکی تصاویر اور باقی مواد کا غلط استعمال کرسکتا ہے اور یوں انکی زندگیوں میں طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ ندا نے بتایا کہ سوشل میڈیا بذات خود غلط نہیں ہے لیکن لوگوں نے اس کا استعمال غلط کیا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے مسائل بن جاتے ہیں اور پھر انکی طرح کئی لڑکیاں پڑھائی کے لیے بھی اس کا استعمال نہیں کرسکتی۔

کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا

پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک نرس نسرین (فرضی نام) نے بتایا کہ ایک دن وہ بیٹھی فیس بک استعمال کررہی تھی جب اس کو مسینجرپر ایک میسج موصول ہوا۔ جب انہوں نے وہ میسج کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس لنک پر کلک کرکے دیکھیں اس میں انکی اور انکے بوائے فرینڈ کی تصاویر اور چیٹ لیک ہوئی ہے۔ نسرین نے کہا کہ میسج دیکھ کر انکے پاوں سے زمین نکل گئی اگرچہ نہ تو انکا کوئی بوائے فرینڈ ہے اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ کوئی تعلق لیکن ایک لمحے کو وہ ڈر گئی کہ کہیں کسی نے انکی تصاویر کو ایڈیٹ کرکے غلط استعمال تو نہیں کیا۔

نسرین نے جب اس لنک پر کلک کیا تو وہ نہیں کھل رہا تھا۔ بعد میں انہوں نے وہ لنک اپنی دوست کو بھیجا اور سارا قصہ سنایا۔ جب اپنی دوست کو وہ لنک بھیجا تو اس نے بتایا کہ اس میں کچھ بھی نہیں یہ ایک سپیم ہے۔ نسرین نے کہا کہ اس دن کے بعد سے وہ بہت ڈر گئی تھی اور یوں انہوں نے فیس بک اور مسینجر کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اب بہت ڈر گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں خواتین جدید ٹیکنالوجی سے دور کیوں

خیبرپختونخوا میں زیادہ تر خواتین سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور ہیں اس کی بڑی وجہ یہاں کا کلچر ہے۔ زیادہ تر مرد خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور خواتین کے پاس سمارٹ فونز بھی نہیں ہوتے۔

خیبرپختونخوا میں بہت کم خواتین کے پاس سمارٹ فونز ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا تک انکی پہنچ نہیں ہوتی لیکن اگر کسی لڑکی یا خاتون کی کوئی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہوجائے تو اسکی انکو بہت سخت سزائی دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسے کیسز میں مرد رشتہ دار خاتون یا لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں۔ رواں سال جنوری میں بھی ضلع چارسدہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جب ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کو والد نے جان سے ماردیا۔

چارسدہ میں 18 سالہ لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو والد نے مار دیا

ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد باسط خان نے اس حوالے سے بتایا کہ 18 سالہ لڑکی اسلام آباد میں ایک گھر میں کام کرتی تھی جہاں ایک لڑکے نے اسکی ویڈیو وائرل کی تو والد نے اس کو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو اکثر اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کچھ کیسز میں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔

محمد باسط خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین کو کئی ایک پابندیوں کا سامنا ہے اور یہ پابندیاں انکے والد، بھائی اور باقی گھر کے مرد لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں موجود صلاحیتیں کبھی سامنے نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید دور میں بھی جب ایک عورت گھر سے کام کے لیے نکلتی ہیں تو انکے کام کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی بھی یہی سوچ ہے کہ خواتین گھر میں بیٹھ کر برتن دھوئیں، کھانا بنائیں اور بچے پالیں۔

محمد باسط خان کے مطابق پاکستان میں اس وقت انیس کروڑ موبائل صارفین موجود ہیں جن میں 5 کروڑ تعداد خواتین کی ہے جبکہ باقی مرد ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد 2 کروڑ ہے جبکہ باقی خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔ محمد باسط نے بتایا کہ خواتین کو اب سوشل میڈیا پر بھی تنگ کیا جاتا ہے، پہلے تو صرف گلی کوچوں میں انکے پیچھے لوگ آواز کستے تھے لیکن اب تو سوشل میڈیا پر بھی انکو نہیں چھوڑا جاتا۔ اگر کوئی خاتون آن لائن کاروبار کرتی ہیں تو ان کو لوگ آرڈر دے دیتے ہیں اور بعد میں انکار کردیتے ہیں کہ ہم نے یہ چیز نہیں لینی۔ بعض لوگ خواتین کو غیر اخلاقی میسجز بھی بھیجتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین خود بھی تنگ آکر سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

خواتین آن لائن ہراسمنٹ کے حوالے سے گھر میں بتا نہیں پاتی

خواتین کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انکو جب آن لائن طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ گھر والوں کو بھی نہیں بتا پاتی کیونکہ یہاں جب خواتین اس حوالے سے بات کرتی ہیں تو ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور یوں بہت ساری خواتین چپ سادھ لیتی ہیں۔

محمد باسط خان نے کہا کہ ہماری خواتین میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے جو بہت آگے جاسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور ہمارا کلچر انکے آڑے آجاتا ہے۔ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک خاتون آن لائن بزنس کرتی ہیں، بہت ٹیلنٹڈ ہیں لیکن ان کو گھر والوں نے اس شرط پر اس کی اجازت دی ہے کہ کسٹمر سے وہ بات نہیں کریں گی بلکہ اس کا بھائی یا کوئی اور مرد کرے گا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے خواتین کو کتنا خودمختار بنایا ہے۔ وہ خاتون جو ایک کام میں مہارت رکھتی ہیں کسٹمر کو اچھے سے ڈیل کرسکتی ہیں اور کاروبار کو کامیاب بناسکتی ہیں وہ اس کا بھائی یا کوئی اور نہیں کرسکتا لیکن مسئلہ پھر وہی آجاتا ہے کلچر کا۔

محمد باسط خان نے مزید بتایا کہ کچھ خواتین کو سائبر کرائمز کے حوالے سے قانونی راستوں کا بھی پتہ ہوتا ہے لیکن وہ اول تو کیس نہیں کرتی یا اگر کرتی بھی ہیں تو معاشرتی دباؤ اور گھر والوں کی عزت کی خاطر واپس لے لیتی ہیں۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل

چارسدہ کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی کئی خواتین اور لڑکیوں کو سوشل میڈیا ویڈیوز کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دو ہزار بارہ میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں ہونے والی ایک شادی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پانچ لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے رقص کررہے تھے۔ بعد ازاں رپورٹس سامنے آئی تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹس کے مطابق دو ہزار چودہ میں بھی لوئر دیر کے علاقے جندول میں بھائی نے اپنی 13 سالہ بہن کواس لیے قتل کردیا تھا کیونکہ وہ موبائل استعمال کرتی تھی اور بھائی کو شک تھا کہ اس کی بہن مردوں سے بات کرتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مطابق چار کروڑ ساٹھ لاکھ سوشل میڈیا صارفین میں 78 فیصد مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح صرف 22 فیصد ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے

گورنمنٹ کامرس کالج پشاور کی اسسٹنٹ پروفیسر عروج نثار کہتی ہیں کہ آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل گیپ بہت زیادہ ہے بہت کم لوگ ہیں جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کی نہ تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، نہ ہی انکو اس کا استعمال آتا ہے اور نہ انکو اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر خواتین کو ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے گی تو وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوجائیں گی اور اپنے فیصلے خود کرنے لگ جائیں گی جبکہ معاشرہ اس چیز سے ڈرتا ہے۔

خیبرپختوںخوا اور قبائلی اضلاع کی خواتین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے عروج نثار نے بتایا کہ ہماری خواتین اس سے کوسوں دور ہیں۔ قبائلی اضلاع میں تو مرد بھی سوشل میڈیا اور ان چیزوں سے دور ہیں لیکن خواتین کے لیے تو وہاں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں ہے۔ قبائلی اضلاع میں خواتین کے پاس موبائل فونز نہیں ہوتے انکے پاس سادہ فونز ہوتے ہیں جو صرف ضرورت کے لیے ہوتے ہیں انکو سمارٹ فونز رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے

عروج نثار نے بتایا کہ ہمارے صوبے میں لڑکیوں کے لیے سمارٹ فونز رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر وہ چیز جس سے خواتین معاشی یا سماجی طور پر خودمختار ہوتی ہیں وہ انکے لیے معیوب تصور کی جاتی ہیں۔

عروج نثار نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حقوق میں سے ایک ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی کوئی انسان ہرقسم کی معلومات حاصل کرسکتا ہے لیکن یہاں خواتین اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ عروج نثار کے مطابق جب تک ہم آدھی آبادی یعنی خواتین کو بنیادی حقوق نہیں دیں گے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دیں گے تب تک ہم ایک کامیاب قوم نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک نہ صرف رسائی دینے کی ضرورت ہے بلکہ انکو اس سلسلے میں ٹریننگز بھی دینی چاہیئے تاکہ وہ اس کا مثبت استعمال کرکے نہ صرف خود معاشی طور پر خودمختار ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پرگمنام رہنا چاہتی ہیں

مردان سے تعلق رکھنے والے افتخارخان نے بتایا کہ سوشل میڈیا کا منفی اور مثبت دونوں طریقوں سے استعمال ہورہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا منفی استعمال زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن دوسری طرف کچھ خواتین خود بھی سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہیں اور فیس بک پر اکثر خواتین تبدیل نام کے ساتھ آئی ڈی بنادیتی ہیں۔ خواتین اس کو استعمال کرنا چاہتی ہیں، مختلف گانوں، ڈراموں اور باقی پوسٹوں کو شیئر اور لائیک تو کرتی ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ جس کمیونٹی میں وہ رہ رہی ہیں وہ انکے حوالے سے زیادہ معلومات نہ رکھیں کہ وہ کیا شیئر کرتی ہیں یا کیا پسند کرتی ہیں کیونکہ انکو معاشرے کے لوگوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

افتخارخان نے کہا کہ سوشل میڈیا رابطوں کا سب سے تیز اور آسان ذریعہ ہے اور ہمارے معاشرے کے مرد نہیں چاہتے کہ انکی خواتین کسی کے ساتھ رابطے میں رہیں اس لیے وہ سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر خواتین کو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں دی جائے گی تو وہ نہ تو مثبت طریقے سے سوچ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ کوئی کاروبار شروع کرسکتی ہیں۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.