March 7, 2025 - Comments Off on خواتین کی زندگیاں بدلنے والے مخصوص آن لائن گروپس: حمایت اور امید، مگر ڈیٹا پرائیویسی کے چلنجز
خواتین کی زندگیاں بدلنے والے مخصوص آن لائن گروپس: حمایت اور امید، مگر ڈیٹا پرائیویسی کے چلنجز
By Zunaira Rafi
تقریبا 2 برس مشکلات میں گھری آسیہ افتخار اب اپنا آن لائن کپڑے کی اسٹیچنگ کا کاروبار چلا رہی ہے۔ جس نے آسیہ اور اس کے بچوں کی زندگی میں ایک بار پھر امید کی کرن کو زندہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا جہاں بہت سے افراد کے لیے صرف تفریح تک محدود ہے۔ وہیں بہت سے افراد کے لیے کمائی کا بھی واحد زریعہ بن رہا ہے۔
35 سالہ آسیہ کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ جس کا شوہر 2020 میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوا۔ اور اس دوران وہ اپنی دائیں ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ آسیہ کا شوہر ایک معمولی کمپنی میں ملازم تھا۔ اور حادثے کے چند ماہ تک کمپنی کی جانب سے مدد کی جاتی رہی۔ لیکن پھر چند مہینے کے بعد نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اور مزید مدد سے بھی معذرت کر لی گئی۔ لیکن آسیہ اور اس کے تین بچوں کے لیے یہ حادثہ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ جس خواب نے انہیں رات کی تاریکیوں میں یوں جکڑا کہ ان کا بیدار ہونا بہت مشکل تھا۔
’’ شروع کے چھے مہینے کمپنی نے کافی ساتھ دیا، لیکن اس سے زیادہ وہ بھی کیا کر سکتے تھے۔ مگر زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔ بچوں کی سکول کی فیس اور گھر کا راشن تک پورا کرنا میرے لیے ناممکن تھا۔ جس کی وجہ سے میں نے اپنے بڑے 2 بچوں کو سکول سے بھی ہٹا لیا تھا۔ کیونکہ گھر کا گزر بسر اور شوہر کا علاج بھی بہن بھائیوں سے پیسے مانگ کر یا سلائی کر کے ہو رہا تھا۔خود کی زندگی بچے اور شوہر تک بوجھ لگنے لگا تھا۔‘‘
کہتی ہے کہ دل میں جذبات کا ایک انبار تھا۔ جس کا اظہار تو کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ جو بہت اپنے تھے۔ وہ بھی کترانے لگے تھے۔ اور اس دو سال کے عرصے میں یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید زندگی اب بس ختم ہو گئی ہے۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ اپنا دکھ اور درد کس کو سنائے کہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ اسی دوران اسے فیس بک پر خواتین کا ایک گروپ نظر آیا۔ اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی اس گروپ کا حصہ بنے۔ جیسے ہی اس نے گروپ میں قدم رکھا، اسے احساس ہوا کہ وہ گروپ واقعی ان خواتین کے لیے تھا۔ جن کو زندگی میں کوئی سننے والا ہوتا ہے اور نہ ہی سمجھنے والا۔
’’کچھ دن تک جب میرے سامنے گروپ پوسٹس آئیں، مجھے احساس ہوا کہ یہاں تو تمام خواتین ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں، یہ گروپ صرف میرے لیے معلومات کا ہی زریعہ نہیں تھا۔ بلکہ میں نے محسوس کیا کہ یہاں خون کے نہیں بلکہ دلوں کے رشتے نبھائے جاتے ہیں۔ جو خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ جذبات، احساسات اور نرم گوشہ رکھتے ہیں۔‘‘
آسیہ نے بھی اپنی باقی بہنوں کی طرح بجائے تکلیف اور مشکلات دل میں رکھے۔ بلکہ اپنے قلبی رشتوں سے شئیر کرنے کی کوشش کی۔ اور اس کے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ ان خواتین نے فورا اس کا دل کھول کر استقبال کیا۔ اور اس کی مشکل پر اسے ڈھیروں دعائیں دی گئیں۔ ایک دن جب اس نے اپنی بہنوں سے اپنے مالی حالات کا ذکر کیا تو۔ آسیہ کو ڈھیروں مشورے دیے گئے۔ اور اس سے پوچھا گیا کہ وہ خود کیا کر سکتی ہے۔
’’ جب میں نے سلائی کا بتایا تو وہاں مجھ سے سب سے پہلے یہ پوچھا گیا کہ میں کس شہر سے تعلق رکھتی ہوں۔ اور پھر درجنوں کے تعداد میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی بہنوں نے مجھ سے رابطے کرنا شروع کر دیے۔ اور کہا کہ ہمارے کپڑے سلائی کر دو۔ اور تقریبا انہی دنوں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی تقریبا 8 سے 10 بہنوں نے مجھے میری لوکیشن پر آ کر کپڑے دیے۔ اور وہ میرا پہلا مہینہ تھا۔ جب میں نے اچھے پیسے کمائے۔ چند ہفتے گزر جانے کے بعد ایک اور بہن نے مجھے میسج کر کے آن لائن پیج بنانے کا مشورہ دیا۔ اور کہا کہ آپ راولپنڈی کی حدود تک یہ کاروبار شروع کریں۔ اس نے اگلے 3 مہینے تک نہ صرف مجھے آن لائن کاروبار سے آگاہ کیا۔ بلکہ مجھے آرڈر لینے اور پہنچانے تک ہر قدم پر بے حد مدد کی۔ ‘‘
آسیہ نے اپنی زندگی کی بدلتی تقدیر کے حوالے سے مزید کہا کہ شروع میں اس نے اس کام کو سمجھنے میں وقت لیا۔ مگر اس کے بعد اس کا کام بہت آسان ہوگیا۔ اور اس کا کاروبار بھی وسیع ہوتا گیا۔ بلکہ 1 سال بعد اس کا کام اتنا بڑھ گیا کہ اس کے لیے اکیلے وہ آرڈرز مکمل کرنا ممکن نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے اپنی ایک چھوٹی سی کمیونٹی بنا لی۔ اور اب تقریبا آسیہ کے ساتھ 4 مزید خواتین کا روزگار بھی منسلک ہے۔اب وہ نہ صرف خود کفیل ہے۔ بلکہ دوسروں کی بھی مدد کر رہی ہے۔
’’ شوہر کا حادثہ مجبوری بن چکا تھا۔ مگر میں ہمیشہ سے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی۔ کہا جاتا ہے جہاں ارادہ ہو، وہاں راہ نکل ہی آتی ہے۔ اور کچھ ایسا ہی میری زندگی میں بھی ہوا۔ میرے شوہر بھی اب چھوٹی موٹی نوکری کر رہے ہیں۔ لیکن میرے کاروبار سے کافی زیادہ آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں، اور خاص طور پر بچے سکول جانے لگے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی اسی بات کی ہے۔‘‘
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ زندگی کی تاریکیوں میں جب ایک خاتون کی حمایت دوسری خاتون کے ساتھ ہوتی ہے۔ تو اس کی زندگی کی اندھیرا بھی اجالے میں بدلنے لگتا ہے۔ آسیہ کی زندگی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جہاں نہ صرف اب مالی سکون ہے۔ بلکہ جذباتی سکون بھی بھرپور ہے۔ اور اس کے نزدیک یہ سب صرف اسی گروپ کی بنا پر ممکن ہوا۔ جہاں خواتین ایک دوسرے کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں۔ جیسے "دریا کا پانی ہمیشہ بہتا رہتا ہے، اور دوسروں کو سیراب کرتا ہے"۔
لیکن یہ تو صرف ایک کہانی تھی۔ یقینا ایسی بے شمار کہانیاں ہونگی۔ جہاں ان گروپس نے خواتین کی زندگیوں کے زخموں کو بھرنے کی کوشش کی ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس چند ایسی خواتین بھی ہونگی۔ جن کی پرائیویسی کو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی گروپ کے ذریعے نقصان پہنچنے کے خدشات پیدا ہوئے ہونگے۔ کیونکہ ان گروپس میں خواتین کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اور ان خواتین کا تعلق ملک کے نہ صرف بڑے شہروں مگر بہت پسماندہ علاقوں سے بھی ہوتا ہے۔ جہاں عورت کی سوچ کو ترجیح دینا تو دور کی بات انہیں آواز تک نکالنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مردوں کے اشاروں پر چلنے والی یہ خواتین جب گروپس میں اپنی زندگی کی تلخ کہانیاں بغیر کسی خوف اور ڈر کے شئیر کرتی ہیں۔ تو اس صورت میں ان کی ڈیٹا پرائیویسی بے حد ضروری ہے۔ اور یہ ذمہ داری گروپس ایڈمن پر عائد ہوتی ہے بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر وہ ان خواتین کے ڈیٹا کی حفاظت کو کیسے یقینی بناتےہیں۔
’’دی پاکستانی سسٹرز ‘‘کی فاونڈر افراح ستار خان کہتی ہیں کہ یہ گروپ صرف کمیونٹی نہیں بلکہ ایک خاندان کی طرح ہے۔ جہاں خواتین بغیر کسی خوف کے اپنے دل کی بات کھل کے کر سکتی ہیں۔کیونکہ اس گروپ کو بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ ایک ایسا ججمنٹ فری انوائرمنٹ ہو جہاں شمالی پاکستان کی خواتین بھی اپنی ذاتی مشکلات بآسانی شئیر کر سکیں، مشورہ لے سکیں، اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر بات چیت کر سکیں۔
کہتی ہیں کہ بطور ایڈمن میں اس چیز پر اتفاق کرتی ہوں، کہ خواتین کی ذاتی زندگی کی کہانیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ اور ہم پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس ڈیٹا کی حفاظت کریں۔ اسی لیے ہم ان کی کہانیوں کو صرف اسی گروپ تک محدود رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ تاکہ وہ خاتون جو اپنا ڈیٹا وہاں شیئر کر رہی ہے۔ اسکی پرائیویسی کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ گروپ پرائیوسی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کو اپنا رہی ہوتی ہیں۔ جس میں سب سے پہلے گروپ جوائن کرنے کی خواہشمند تمام خواتین کی پروفائلز کو بہت دیہان سے چیک کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جعلی پروفائلز پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اول تو ایسی پروفائلز کا ابتداء میں ہی پتہ چل جاتا ہے۔ لیکن گروپ میں شامل ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی پروفائل ہلکی سی بھی مشکوک محسوس ہو تو اسے فوری طور پر گروپ سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس لیے کمیونٹی کی حفاظت کے لیے روزانہ کی بنیاد پر پروفائلز کا باقائدہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہماری اولین ترجیح گروپ میں ممبرز کی تعداد سے کہیں زیادہ گروپ میں موجود ممبرز کو ایک خوشگوار، پر اعتماد اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔ اور اس بات کا اندازہ اس چیز سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کہ 7 سال میں اب تک کمیونٹی ممبرز کی تعداد 50 ہزار ہے۔
مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چاہے کوئی گمنام پوسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ کبھی بھی کوئی معلومات گروپ سے باہر نہیں جاتی۔ اور اگر کسی کو سکرین شاٹس لینے یا پوسٹ شیئر کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے فورا گروپ سے ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کوئی بہت بڑا واقع اب تک پیش نہیں آیا سوائے چند دفعہ اس طرح کے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے فوری طور پر شناخت کر کے ان چیزوں پر قابو پالیا۔ اور اپنی بہنوں کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ اس کے علاوہ ہم کسی کی نفرت انگیز زبان یا بدتمیزی کو کسی بھی طرح برداشت نہیں کرتے۔ گروپ میں کسی بھی قسم کی توہین، شرمندگی یا تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر خاتون جو یہاں اپنی مشکلات کے حوالے سے شیئر کرتی ہے۔ بجائے اس کو جج کیا جائے۔ وہ محبت اور حمایت کی مستحق ہے۔
افراح کا کہنا تھا کہ ڈیٹا کی پروٹیکشن اس لیے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ اپنی شناخت کو ظاہر نہ کر کے بھی گروپ میں اپنے مسائل کے متعلق بات چیت کی جا سکتی ہے۔ اور بعض اوقات کچھ خواتین ہم پر اعتماد کر کے بھی ان کی جانب سے پوسٹ کرنے کا کہتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ جب ان کی کہانی ہمارے ذریعے پوسٹ ہوتی ہے تو وہ زیادہ محفوظ رہتی ہے اور ایک وسیع تر سامعین تک پہنچ کر زیادہ حل فراہم کر سکتی ہے۔ ہم اس اعتماد کی قدر کرتے ہیں، اور ان کی آواز کو محفوظ طریقے سے باقیوں تک پہنچاتے ہیں۔ خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور دیگر علاقوں کی خواتین بہت اعتماد کرتی ہیں۔ اور جانتی ہیں کہ ان کی باتوں کا جواب ان کی بہنیں محبت اور سمجھ بوجھ سے دیں گی۔
کوہاٹ پاکستان کا وہ شہر ہے۔ جہاں خواتین کو اتنی آزادی نہیں دی جاتی۔ کوہاٹ کی خواتین کا واحد گروپ جس کی ایڈمن افشین خان کہتی ہیں کہ میں ذاتی طور پر اپنی بہنوں کو گروپ میں بہت زیادہ ذاتی تفصلات شئیر کرنے کا مشورہ نہیں دیتی۔ حالانکہ گروپ پرائیویٹ ہے۔ تمام پروفائلز کو چیک کر کے ایڈ کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی میں سمجھتی ہوں۔ خواتین کو کچھ چیزوں میں محفوظ رہنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ گروپ ممبرز کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے سے بانٹیں، مگر ذاتی تصاویر یا کوئی ایسا مسئلہ جو بہت ہی ذاتی نوعیت کا ہو۔ اور انہیں ڈر ہو کہ اگر وہ بات کسی کو پتہ چل جائے تو ان کے لیے طوفان کھڑا ہو سکتا ہے۔ تو بہتر یہی ہے کہ اس بات کو یوں گروپ میں پوسٹ کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ میں خود بھی کچھ بہت ہی ذاتی نوعیت کی پوسٹس کو گروپ میں منظور نہیں کرتی۔ جو کسی بھی بہن کے لیے خطرہ بننے کے خدشات کو بڑھا سکتی ہو۔ کیونکہ ہمارا علاقہ بہت سخت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ گروپ ریکویسٹ کو منظور کرنے سے پہلے اس پروفائل کی اچھے سے جانچ پڑتال کرتی ہیں۔ یعنی اکاونٹ کب بنایا گیا۔ اگر کوئی نیا اکاونٹ ہو تو گروپ ریکویسٹ کو منظور نہیں کیا جاتا۔ عجیب و غیرب عرفی نام، تصاویر اور سرگرمیوں والے اکاونٹس کو گروپ میں بالکل بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ صرف یہی نہیں ہماری جانب سے لائکس، فالوورز اور کامنٹس کو بھی نہایت سنجیدگی سے جانچا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر طے کیا جاتا ہے کہ آیا اس پروفائل کو شامل کرنا چاہیے یا پھر نہیں۔ اور جو پروفائلز مقفل ہوں، انہیں ہماری جانب سے جعلی قرار دیا جاتا ہے۔
مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کبھی کوئی ڈیٹا لیک نہیں ہوا۔ اور نہ کبھی ایسی کوئی شکایت موصول ہوئی ہے۔ البتہ گروپ میں کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ ہو جائے تو ہمیشہ اس کو شواہد کے ساتھ حل کیا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات گروپ میں کچھ چیزیں تضاد کی شکل بھی اختیار کر جاتی ہیں۔ جس کو سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ اور اس میں کہیں بھی یہ خدشہ ہو، کہ یہ کچھ مخصوص ممبرز گروپ کی دوسری بہنوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یا ان کو گروپ میں کوئی جذباتی طور پر ٹھیس پہنچا سکتی ہیں۔ ان کو فورا گروپ سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی ممبر کو اگر کوئی مسئلہ ہو تو ہم اس کو بولنے کی آزادی دیتے ہیں۔ بغیر کسی قسم کی جانبداری کے ان کے خدشات کو دور کیا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ان گروپس کی بدولت یہ خواتین اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم، جبر اور زیادتیوں کے متعلق اپنی آن لائن بہنوں سے مشورے تو لے لیتی ہیں۔ اور ایڈمن کی جانب سے ان کی حفاظت کے لیے تمام جتن بھی کیے جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود کیا یہ اقدامات کافی ہیں؟ ان کا ڈیٹا وہاں واقعی اس سب کے بعد محفوظ ہے؟ ان کی تلخ کہانیاں کیا انہی گروپس تک محدود رہ سکتی ہیں؟ ہر خاتون کے لیے نہایت اہم ہے کہ وہ ان گروپس کی ڈیجیٹل سیکیورٹی کے متعلق آگاہ ہو۔
ان گروپس کی ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ آن لائن کوئی بھی چیز کبھی بھی سو فیصد محفوظ نہیں ہوتی۔ اور جہاں تک آن لائن گروپس کا تعلق ہے۔ ان گروپس کی ایڈمنز کچھ پالیسیز اور گائیڈ لائنز بھی سیٹ کرتے ہیں۔ اور اس کو وقتا فوقتا بھی مضبوط بھی کیا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں چیک اینڈ بیلنس بھی رکھا جاتا ہے۔ کہتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہاں کی سیفٹی برقرار رہتی ہے یا نہیں؟ وہاں کی پوسٹس کے سکرین شاٹس یا کسی بھی قسم کی کوئی بھی انفارمیشن اس گروپ سے باہر تو نہیں جا رہی۔ ان سب چیزیں کو دیکھنا اور 100 فیصد روکنے کی کوشش کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہ کوشش ایڈمنز کی جانب سے مسلسل کی جا رہی ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ ان گروپس میں بہت زیادہ چیزیں ذاتی نوعیت کی شئیر کی جا رہی ہوتی ہیں۔ اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ کمیونٹی بیسڈ ایک پلیٹ فارم ہو۔ جہاں آپ چیزیں شئیر کر سکیں۔ جس پر کبھی کبھار بہت سی نصیحتیں بھی ملتی ہیں۔ اور پھر کبھی کبھی کچھ بہت منفی چیزیں بھی نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اس طرح کے گروپس کا حصہ ہے۔ اس لیے یہاں پر ایڈمن کا رول بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ کس طرح کی کمیونٹی بنا رہے ہیں۔ اور وہاں اگر کسی بھی قسم کا مسئلہ در پیش آجائے تو انہیں کیسے نمٹنا ہے۔ اس کے علاوہ بیک اینڈ پر ان کے گروپ کی سیفٹی کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے۔ کس طرح سے اس سیفٹی کو مینیج کیا جا رہا ہے۔ اور ہیکنگ کے خدشات کا خاص طور پر بار بار خیال رکھا جائے۔ اور اگر کسی گروپ ممبر کی وجہ سے گروپ کے رولز کو فالو نہیں کیا جا رہا۔ اور گروپ ڈیٹا کی سیفٹی اس کی وجہ سے غیر محفوظ ہو رہی ہے تو فوری ایکشن لیں۔ تاکہ اس مخصوص اسپیس کو باقی ممبرز کے لیے سیف اینڈ سیکیور بنایا جا سکے۔ کیونکہ ان خواتین کے اعتماد کو ذرا سا بھی نقصان ان کی زندگیاں خراب کر سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ خواتین جو ان گروپس میں پوسٹس کرتی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اس چیز کو سمجھیں کہ پرائیویسی کے خطرارت ہمیشہ رہتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کے خطرات کے ساتھ وہ خود کیسے اپنے ڈیٹا کو محفوظ بنا سکتی ہیں۔ اور جتنا ہو سکے وہ خود اپنے ڈیٹا کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا اپنی شناخت نہ ظاہر کیے بنا پوسٹ کرنا ان کے لیے واقعی کافی ہے؟ یا وہ جس قسم کی اپنی ذاتی زندگی سے منسلک تفصیلات وہاں پوسٹ کر رہی ہیں۔ وہ ان کی شناخت میں کہیں آسانی تو نہیں پیدا کر رہی۔
فریحہ نے مزید ڈیٹا سیکیورٹی کے حوالے سے کہا کہ گروپ ایڈمنز کی تو ذمہ داری سو فیصد ہے۔ مگر ہر لڑکی کو اپنی حفاظت کو خود بھی یقینی بنانا ہے۔ اور خاص طور پر گروپ میں اپنی ذاتی تصاویر پوسٹ کرنے سے ضرور اجتناب کریں۔ اپنی شناخت اور اپنی کہانیوں کو اس طرح سے پیش کریں کہ آپ کا میسج بھی آپ کی باقی بہنوں تک پہنچ جائے۔ اور کوئی ہزار کوشش کے بعد بھی آپ کی شناخت کرنا چاہے تو اس کے لیے وہ سب ناممکن ہو۔ گروپس کے علاوہ بھی ہر خاتون کو اپنی پرائیویسی سوشل میڈیا پر خود یقینی بنانی ہے۔ کیونکہ آج کے دور میں یہ سب ان کی اپنی ذات کے لیے بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ ڈیٹا پرائیویسی کی حفاظت تقریبا پوری دنیا میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے گروپ ایڈمنز اور گروپ ممبرز دونوں پر ہی یہ کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ اپنے ڈیٹا کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں۔ تاکہ وہ آن لائن کمیونٹی کی محفوظ ممبر بن سکیں۔
Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine
Comments are closed.