Blog Archives

December 7, 2023 - Comments Off on صنفی تشدد میں لپٹی خواجہ سراء کی کہانی

صنفی تشدد میں لپٹی خواجہ سراء کی کہانی

عاصمہ کنڈی

رات کے گھپ اندھیرے میں  گھر سے نکلتے ہوئے جہاں میرا دل وسوسوں میں گھرا ہوا تھا وہیں ہمایوں کے اندر چھپی حمنہ کی آزادی کی خوشی بھی تھی، اب کوئی حمنہ کو لڑکیوں والے کپڑے زیب تن کرنے، مٹک مٹک کر چلنے اور بات کرنے پر ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنائے گا اور اگر اسے کچھ سہنا بھی پڑے گا تو کم از کم وہ اپنوں کے ہاتھوں نہیں ہو گا۔

خواجہ سراء پیدا ہونا میرا قصور نہیں تھا اور مجھے اپنوں کے ہاتھوں اس وقت سے اس بات کی سزا مل رہی تھی جب میں نے ہوش سمبھالا یا شاید اس سے بھی بہت پہلے سے، پر تب کا مجھے یاد نہیں۔

مجھے احساس بھی نہیں تھا کہ میرے والدین مجھے مہمانوں کے سامنے آنے سے کیوں روکتے ہیں اور اگر نادانستگی سے سامنے آ بھی جاؤں تو کسی کی ہنستی، مذاق اڑاتی اور کسی کی ترس کھاتی نظریں مجھے اس وقت تک اپنے حصار میں لئے رکھتیں جب تک مجھے منظر سے ہٹا نہ دیا جاتا۔ مہمانوں کے جانے کے بعد پٹائی اور ڈانٹ الگ حصے میں آتی۔میں گھنٹوں اپنے پر آسائش کمرے کے مرمریں بستر پر لیٹ کے اپنے تکیے کو آنسووں سے بھگوتا رہتا اور ان سب رویوں کے جواز ڈھونڈتا اور کبھی اللہ سے شکوے بر ہو جاتا، مگر کوئی کبھی مجھے دلاسا دینے یا چپ کرانے نہیں آتا تھا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ایسا کیا ہو گیا کہ میں اپنا گھر، جو ہر کسی کی محفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے، چھوڑنے پر مجبور تھی، ہاں 'تھی' کیونکہ اس گھر سے نکلنے کے بعد، جو کبھی میرے لئے پناہ گاہ نہ بن سکی، کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا کہ میں گفتگو میں اپنے لئے 'تھا' استعمال کروں ۔ آج سے میں حمنہ ہوں اور اپنے والدین کے ہمایوں کو جسے وہ کبھی نہ اپنا سکے اور نہ تحفظ دے سکے انہی کے گھر چھوڑ کر جا رہی ہوں۔

 خوف اور خوشی کے ملے جلے جزبات میں گم میں بس سٹیشن پہنچ گئی جہاں مجھے اسلام آباد سے لاہور والی بس لینی تھی جو مجھے میری منزل مقصود تک پہنچانے والی تھی۔ سوشل میڈیا کی مدد سے میں نے پہلے ہی لاہور میں مقیم اپنے جیسے گروہ کا پتہ لگا لیا تھا جو کہ ہم جیسے زمانے کے دھتکارے ہوئے اور اپنوں پر بوجھ بنے انسانوں کو کھلے دل اور بانہوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ۔

لاہور سٹیشن پر بس سے اتر کر میں نے ایک رکشہ لیا اور اپنے ہاتھ میں کس کے پکڑے ہوئے پتے کی تلاش میں نکلی تو گھر سے باہر کی دنیا نے مجھے پہلا سبق دیا، جب رکشہ ڈرائیور نے صبح کے ویرانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رکشہ ایک ویران جگہ پر روک دیا اور بھوکے بھیڑئیے کی طرح اپنی پسندیدہ خوراک کی طرف لپکا۔ مجھے اس کی نیت جاننے میں ذرا دیر نہیں لگی کیونکہ ایسے کہیں بھوکے بھیڑئیے میں اپنے خاندان اور جاننے والوں میں بھگت چکی تھی۔

میں اس کی نیت بھانپتے ہی برق رفتاری سے اپنی عزت بچاتے ہوئے دوڑی، وہ عزت جو پہلے بھی کئی بار تار تار ہو چکی تھی مگر میں تو خواجہ سراء ہوں اور ہم جیسوں کی تو شاید عزت نہیں ہوتی۔ انہی سوچوں کے تانوں بانوں میں الجھی میں دوڑتی جا رہی تھی اور پتہ ہی نہ لگا کہ ڈرائیور کہاں رہ گیا پر جب میرے حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ جسم کے کئی حصوں سے خون رس رہا تھا جو شاید جا بجا گرنے پر لگنے والے زخموں کی وجہ سے تھا۔ میں نے تھک ہار کر اپنے دوستوں کو فون کیا اور وہ کچھ دیر میں مجھے لینے کے لئے میرے سامنے موجود تھے۔

جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ دن ڈھل چکا تھا اور اگلی رات اپنے پر پھیلانے کو تیار کھڑی تھی۔ میرے ہوش میں آتے ہی ایک درد کی ٹیس نے میرے وجود کا طواف کیا مگر یہ دیکھ کہ سکون بھی محسوس ہوا کہ وہاں موجود سب ہی میرے بارے میں فکرمند تھے اور اچانک ان کے چہروں پر ایک خوشی نمودار ہوئی۔ اماں سکینہ جو یہاں کی گرو تھیں انھوں نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر ماتھے پر بوسہ دیا اور کئی عرصے سے بندھے ضبط کے سب ہی بند ٹوٹ گئے اور آنسو میرے گالوں کو بھگوتے اماں کے دوپٹے میں جذب ہوتے گئے۔

اماں نے کھانے اور دوائیوں کے بعد مجھ سے پوچھا کہ کپڑوں، حلیے اور مہنگے فون سے تو تم کسی امیر گھر کی لگتی ہو، پھر اس حال میں کیسے؟ ان کی آنکھوں میں حیرت میں ڈوبے سوال اس لئے تھے کہ ان کو لگتا تھا کہ خواجہ سراء ہونا صرف غریب گھرانوں میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے جوابوں اور آپ بیتی نے ان کے بہت سے وہم دور کر دیئے، گھر چاہے امیر کا ہو خواجہ سراء اولاد کے لئے ان کے دل بہت غریب ہوتے ہیں۔ ان امیروں کے اونچے اونچے محل نما گھروں میں بھی ہم جیسوں کو ذہنی اذیت اور جسمانی تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے اور نام نہاد شریف رشتےدار موقع پاتے ہی ہمیں مال مفت کی طرح لوٹتے ہیں اور ہر بار شکایت پر ہمارے اپنے والدین ہمیں ہی ہونٹوں کو سینے کا سبق دوہراتے ہیں۔

آج اماں کی گود میں سر رکھ کے بہت سکوں مل رہا تھا اور دل کے تہہ خانوں میں سالوں سے بند پڑی ساری باتیں اور شکوے ایک ایک کر کے زبان پر آرہے تھے۔ میں نے کہا اماں میں سکول اور گھر میں محفوظ نہ تھی، یہ معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرتا کیونکہ ہمارے اپنے والدین معاشرے کے سامنے ہماری ڈھال نہیں بنتے۔اگر وہ ہمیں قبول کریں اور عزت دیں تو ہم بھی پڑھ لکھ کر معاشرے کی کرداد سازی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اماں نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا بس مجھے سنتی رہیں اور پیار سے میرے بال سہلاتی رہیں، مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں کب سکون کی نیند کی گہری وادیوں میں نکل گئی۔

کچھ دنوں میں طبیعت کافی سنبھل چکی تھی تو میں نے بھی اماں سے اپنے لئے کام ڈھونڈنے کا کہا اور وہ بولی کہ تم تو بارہ جماعتیں پاس ہو، ہم تو ناچ گانے اور سیکس کا کام کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی ناچ گانا کر لوں گی اور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی مکمل کروں گی۔

یوں دن گزرتے گئے اور میں کام کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اپنی گریجوئیشن کی تعلیم بھی مکمل کرتی رہی۔ محفلوں میں ناچ گانے کے دوران ایک دو بار میرا جسمانی استحصال کیا گیا جس سے میں وقتی طور پر ٹوٹی ضرور مگر اپنے آپ کو سنبھالنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی سیکس ورک کروں گی، عزت تو یوں بھی محفوظ نہیں تو چلو اپنی مرضی سے جسم فروشی کر لیتی ہوں جس سے چار پیسے ہاتھ آ جائیں گے اور تکلیف بھی کم ہو گی۔

زندگی کا پہیہ چلتا رہا اور میں نے اپنا ماسٹرز مکمل کر لیا۔ اپنی تعلیم کے دوران میں نے کچھ پیسے جوڑ کر ایک لیپ ٹاپ لے لیا تھا اور سوشل میڈیا پر اپنے جیسوں کے لئے آواز اٹھانا شروع کی۔ اندازہ تو مجھے تھا کہ یہ اتنا آسان نہ ہو گا مگر یہ بھی ایک خار بھری راہ ہو گی جس پر روز نہ صرف میرے پاؤں بلکے روح بھی گھائل ہو گی، مگر میں ہمت نہیں ہار سکتی تھی کیونکہ یہ میرے ساتھ میرے جیسے اور بہت لوگوں کی جنگ تھی۔

سوشل میڈیا پہ لوگ میری پوسٹ پر گندے گندے تبصرے کرتے، کوئی گندہ خون کہتا تو کوئی گناہوں کی پوٹلی۔ مجھے بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ جان کے حیرت ہوتی کہ خواجہ سراء کا تصور ناچ گانے، بھیک مانگنے یا سیکس ورک سے آگے کسی کے ذہن میں نہیں تھا۔ لوگ مجھے کہتے کہ گاہک ڈھونڈے کا نیا طریقہ ہے اب آنلائن بھی آگئی ہو۔ ایک اسد نامی شخص نے مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا اور مجھے پیغامات سے بڑھ کر فون کالز کرنے لگا اور پھر میرے گھر تک آپہچا۔ الحمداللہ مجھے اپنے تحفظ کے سب قوانین کا پتہ تھا میں نے ایف آئی اے میں پیکا قانون کے تحت آنلائن ہراسگی کی شکایت درج کرائی۔ پہلے تو وہاں موجود افسران کی حیرت ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی کی ایک خواجہ سراء بھی آنلائن ہراساں ہو سکتا ہے، بحرحال انھوں نے نہ صرف شکایت درج کی بلکہ کچھ دن میں مجرم بھی سلاخوں کے پیچھے تھا۔

اس سارے مرحلے نے میرے اندر ایک نئی جان ڈال دی اپنے اور اپنے جیسوں کے حق کے لئے لڑنے کی۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ہر واقعہ آپ کو ایک نیا سبق دے جاتا ہے اور خوش قسمتی سے اس بار ایک مثبت سبق ملا تھا جس نے آگے کے تاریک راستے میں کئی مشعلیں روشن کر دیں تھیں، اور مجھے میری منزل صاف نظر آرہی تھی۔

میری زندگی ناچ گانے، سوشل میڈیا مہم اور نوکری کی تلاش میں گزر رہی تھی۔ نوکری کے انٹرویوز میں حقارت کا نشانہ بننا اور ہراساں کیا جانا عام بات تھی۔ دن گزر رہے تھے شام کو اماں کے اردگرد بیٹھ کے ہم سب دن بھر کے اچھے اور برے پلوں کی روداد سناتے کسی کی بات پہ ہنستے اور کسی کی گزری پر بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے۔ مگر اب یہ گھر مجھے گھر لگتا تھا، جہاں اماں کے لئے ہم سب ایک جیسے تھے اور وہ سب میں اپنا پیار برابر بانٹتی تھیں۔

کچھ روز سے میری طبیعت کچھ ناساز سی تھی اور ڈاکٹر کو دیکھانے پر پتہ چلا کہ مجھے ایچ آئی وی ایڈز تھا۔ اس دن میں بہت دل برداشتہ تھی، مرنے کا ڈر نہیں تھا مگر ابھی میں نے اپنے طبقے کے لئے بہت کچھ کرنا تھا۔

علاج کی غرض سے اسلام آباد آنا ہوا۔ اس شہر میں قدم رکھتے ہی پرانی یادوں نے میرے قدم جکڑ لئیے۔سرکاری ہسپتال پمز جہاں وزارت صحت ایڈز کے مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتی تھی میں بھی کچھ مزید ٹیسٹوں کے لئے داخل ہو گئی۔ رات ہسپتال کے سفید بستر پر مریضوں کا مخصوص لباس پہنے دل و دماغ اپنے گھر پہنچ گئے۔ کیونکہ شاید آج اپنی ماں جس کی کوکھ سے میں نے جنم لیا بہت یاد آرہی تھی، سوچ رہی تھی گھر چھوڑے پانچ برس بیت گئے، فون نمبر بھی وہی ہے کبھی انھوں نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔کیا میں ان کو زرا بھی  پیاری نہیں تھی؟

جب سوشل میڈیا پہ میں نے اپنی بیماری کا بتایا تو لوگوں نے کہا کہ گناہوں کی سزا ہے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ فیصلہ آیا کسی ٹیسٹ سے ہوسکتا ہے کہ ایڈز مجھے پیسے کمانے کے لئے کئے گئے سیکس سے ہوا ہے یا متعدد بار میرا ریپ کرنے سے؟ سیکس ورک کی طرف بھی تو مجھے معاشرے نے ہی دھکیلا تھا ناں۔ کون اپنی مرضی سے اپنا جسم بھیڑیوں کے حوالے کرتا ہے؟

آج میں علاج کروا رہی ہوں اور روز بروز بہتر محسوس کر ہی ہوں۔خوش قسمتی سے ایک ایڈز پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم نے مجھے بطور پروگرام مینیجر روزگار دیا اور میں اپنی کمیونٹی میں ایڈز کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا کام کرتی ہوں۔ ایک روز آگاہی سیشن کے دوران جب میں نے کہا کہ جب کوئی سیکس ورک کے دوران پروٹیکشن کے استعمال سے منع کرے تو تم لوگ سیکس ورک سے انکار کرو۔ جواب ملا کہ وہ زبردستی کرتے ہیں اور مار پیٹ الگ۔ میں نے کہا کہ پولیس میں جا کہ اپنے ساتھ ہونے والےصنفی تشدد کے خلاف رپورٹ کرواؤ، پھر چاہے یہ تشدد معاشرہ کرے یا اپنے گھر والے۔

۱۸ سالہ شہزادی جو بہت حیرت سے میری باتیں سن رہی تھی، اچانک ہاتھ کھڑا کیا اور کچھ پوچھنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر بولی کہ صنفی تشدد تو عورتوں پر ہونے والے ظلم کو کہتے ہیں ناں؟ میں نے کہا یہ سوچ ہی غلط ہے اور علم کی کمی ہے۔ جب ہمیں اپنے تحفظ کے قوانین کا پتہ نہیں ہو گا تو ہم اپنے لئے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اب یہ یاد رکھنا اور باقی دوستوں کو بھی بتانا کہ صنفی تشدد کسی بھی جنس کے خلاف ہو سکتا ہے ہم بھی اس میں شامل ہیں۔ اور ہاں ایک بات اور کہ صنفی تشدد میں صرف مار پیٹ یا جسمانی ظلم نہیں ہوتا بلکے آنلائن ہراسگی، پیچھا کرنا، فون پہ تنگ کرنا یا دھمکیاں دینا، سیٹیاں بجانا، دست و درازی کرنا یہ سب بھی صنفی تشدد میں آتا ہے۔

اور یاد رکھنا کہ پاکستان کا آئین، آرٹیکل 25 (2) واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کے ساتھ صرف اس کی جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔بل برائے گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ 2020 کا مقصد خواتین، بچوں، بزرگوں اور گھریلو تشدد کے خلاف کسی بھی کمزور افراد کے تحفظ، امداد اور بحالی کے ایک موثر نظام کو یقینی بنانا ہے۔ پیکا کا قانون ہمیں بھی برابری کی سطح پر آنلائن تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اپنے کام کی وجہ سے مجھے بہت سے قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا اور میں نہ صرف اپنی پہچان بنانےمیں کامیاب ہوئی بلکہ اپنی کمیونیٹی کو درپیش مسائل بھی ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کرتی ہوں۔ یہ سب مجھے تعلیم نے دیا ہے، اس لئے میں اپنے طبقے کی تعلیم پر بھی کام کر رہی ہوں۔ میں اب بڑے گھر میں شفٹ ہو گئی ہوں پر اماں سکینہ آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ اب وہ کوئی کام نہیں کر سکتیں مگر میرے گھر میں ان کی وجہ سے رونق اور برکت رہتی ہے۔

میرے گھر والوں کو بھی میری یاد آگئی جب میں معاشرے میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئ۔ اب مجھے ان کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے مگر میں نے ان کو معاف کر دیا ہر اس زخم کے لئے جس کے داغ آج بھی میری روح پہ نمایاں ہیں۔ میں ان سے ملنے بھی چلی جاتی ہوں اور حیرت کی بات پتہ ہے کیا ہے کہ اب ان کو نہ میرے زنانہ لباس پر اعتراض ہے اور نہ میری چال ڈھال پہ۔ بلکے اب تو وہ مجھے اپنے رشتے داروں سے خود ملواتے ہیں۔

 ایڈز کا علاج جاری ہے اور معاشرے میں اپنے ساتھیوں کی جگہ بنانے کی میری جنگ بھی۔۔۔۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.