Blog Archives

December 7, 2023 - Comments Off on صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں تفاوت

صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں تفاوت

صباحت خان

         پاکستان کی معاشی، معاشرتی اور سماجی  ترقی میں خواتین کی بڑھتی ہوئی نمائیندگی ہر شعبے میں نمایاں نظر آتی ہیں مگر اس ترقی کی راہ میں اپنے کردار کی ذمیداریاں ادا کرتے ہوئے خواتین مشکلات کا شکار بھی ہیں ۔ خاص کر وہ خواتین جو ملازمت پیشہ یا کاروباری سرگرمیوں کے تحت معاشی استحکام کی کوشش بھی کر رہی ہیں ۔ صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں تفاوت کا سامنا ہر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون  کرتی نطر آتی ہیں ۔ عالمی ادارہِ آئی ایل او کے مطابق  دنیا بھر میں خواتین  کو مردوں کی نسبت اوسطاً 20 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔ صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں فرق کسی حد تک تعلیم، کام کے اوقات، پیشہ ورانہ تفریق، صلاحیتوں یا تجربے جیسی انفرادی خصوصیات کے باعث روا رکھا جاتا ہے تاہم آئی ایل او کے مطابق فرد کے صنف یا جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک اس مسئلے کی بڑی وجہ ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ ’گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018‘‘ میں پاکستان کو 149 ملکوں کی فہرست میں 148 نمبر پر رکھا گیا۔.

         حالات و واقعات کا جائز لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین کو ملازمت کی جگہوں پر اجرت کی ادائیگی کے لیے  صنفی بنیادوں پر تفریق  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

      پاکستان میں خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ مردوں کے مقابلے  اچھا خاصا ہے، لیکن چونکہ اکثریتی سطح پر یا تو یہ کام بلامعاوضہ ہیں یا اپنے گھر اور خاندان کے ساتھ مدد کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں، تو اس کا نقصان یہ ہے کہ آج بھی خواتین کا معاشی کردار اور حصہ حکومتی اعدادوشمار میں دکھائی نہیں دیتا۔ بہت واصخ طور پر ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں خواتین کے ساتھ صنفی بنیادوں پر اجرت میں   تفریق کی جاتی ہے۔

     بشریٰ ملازمت کرتی ہے لاکھوں میں کھیلتی ہو گی۔یہ وہ جملہ ہے جو ہر ملازمت کرنے والی خاتون کے کانوں میں گونجتا ہو گا۔ بشری بھٹی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ  مجھے یقین نہیں آتا کہ خواتین کے خلاف گھروں سے لے کر دفتروں کے اندر تک معاشی، سماجی اور معاشرتی تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ پانچ سال سے ٖ نجی اکیڈمی میں پڑھاتی ہوں ۔ میل ٹیچرز کے مقابلے میں زیادہ توجہ سے اور دیر تک بچوں کو پڑھتی ہوں  ۔ امتحانوں کے دنوں میں میری محنت، توجہ اور خاصری ڈبل ہو جاتی ہے ۔جس دن تنخواہ ملتی ہے تو میل ٹیچرز اونچی آواز میں بتاتے ہیں کہ فیمیل ٹیچرز سے زیادہ محنت کا پھل ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر جگہ پر خواتین کو پروفیشن کے بجائے صنفی بنیادوں پر ان رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بشریٰ مزید کہتی ہیں کہ جب بھی کم تنخواہ کا شکوہ کیا جائے تو میل کولیگز کی جانب سے بولا جاتا ہے کہ خواتین نے کون سے گھر چلانا ہوتا ہے۔خریداری یا کھانے پینے پر ہی پیسہ برباد کرتی ہیں ۔ جبکہ قبر کا حال مردہ جانتا ہے کہ مہنیہ کے آخری دنوں  میں کتنی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اداروں کے اندر خواتین کی اجرت کے حوالے سے کوئی پولیسیز نہیں موجود جس کا فائدہ اٹھاکر خواتین کو صنفی تفریق سے دوچار کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد کی رہائشی عائشہ ملک اسلام آباد کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کمیونیکیشن آفیسر کے طور ملازمت  کر رہی ہیں ۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے، آٹھ گھنٹوں سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں بلکہ اکثر مرد کولیگ آفس سے جلدی جانے کے لیے اپنا کام خواتین کولیگز کو سونپ دیتے ہیں ۔زیادہ تر مرد کولیگز اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین احترام کی وجہ سے مردوں کاکام کرنے سے انکار نہیں کرتی ہیں ۔ اگر بات کی جائے اجرت کے حوالے سے تو ایک ماہ کی  خواتین کی تنخواہیں آفس میں مرد کولیگز کے مقابلے میں کم ہیں ۔پروموشن اینڈ بونس کے اوقات میں بھی خواتین کی صنفی تفریق واضح نظر آتی ہے۔ خواتین کی جانب سے  کئی دفعہ ایگزیکٹو لیول پر بات کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا ۔ہماری جانب سے زیادہ دوبائو نہیں دیا جاتا کیوں کہ ہمیں بھی نوکری سے ہاتھ دھونے کا ڈر رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں کے مسئلے پر کام کرنے والی خواتین آواز اٹھاتی ہیں تو روزگاہ سے ہاتھ دھونے  کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں میں بھی منفی تاثر قائم ہو سکتا ہےجس سے دوسری جگہ ملازمت حاصل کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

راولپنڈی کی رہائشی سندس عامر ایک سال سے اپنے گھر سے بریانی اور کبابوں کی آن اینڈ آف لائن ڈیلوری کا کاروبار کر رہی ہیں ۔ سندس کا کہنا ہے کہ کاروبار کے آغاز میں اپنی محنت کے حساب سے پرائیس لگائی تھی مگر فروخت نہ ہونے کے برابر تھی جس کے بعد دو ڈشز پر مبنی کاروبار کم پرائیس پر کر رہی ہوں ۔ کاروبارکے لیے  آغاز سے رہنمائی ایک میل کی مدد سے حاصل کی تھی جو مہنگے داموں کھانا فروخت کر نے میں کامیاب ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے اندر مختلف دفتر کے ساتھ گھروں میں دعاوتوں کے لیے  بریانی اور کباب  فروخت کر رہی ہوں ۔ یہ بیان کرتے ہوئے دکھ  ہوتا ہے کہ لوگ آڈر کرنے کے بعد قیمتوں پر بحث کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں پرائیس کم کرنی پڑتی ہے ، نہ کرنے کی صورت میں کھانے کا آڈر ختم کر دیا جاتا ہے۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی رقم کم  کرنے پر زور دیتی ہیں کہ کسی برانڈ یا کمپنی کا آرڈر تو نہیں ہے کہ انتی زیادہ پرائیس ہے۔ ایسے رویوں سے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مردوں کے کاروبار کرنے کو قبولیت حاصل ہے جبکہ صنفی تفریق کا سامنا کاروبار کرنے والی خواتین کے حصہ میں آتا ہے۔

صنفی امور کی ماہر ڈاکٹررخشندہ پروین نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ  ثقافتی رسم ورواج میں جکڑا ہواہے جس میں برابری اور مساوات کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ خواتین کو صنفی بنیاد پر مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص کر ملازمت پیشہ یا اپنے ہنر کی بنیاد پرمعاشی استحکام کی جدوجہدد کرنے والی خواتین کو اجرت کی ادائیگی مردوں کے مقابلے میں کم ادا کی جاتی ہے۔ مخلتف میڈیا رپورٹز کے مطابق صنفی بنیادوں پر تفریق کی   اوسط شرح چونتیس فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر خواتین کی اجرت کے حوالے سے برابری کی بنیاد پر ادا کی جاتی  ہیں مگر عملی بنیادوں پر صنفی برابری کا  تصور نہیں ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹرمیں کسی کسی ادارے میں صنفی برابری کے حقوق حاصل ہیں مگر کئی جگہوں پر خواتین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں  صنفی تفریق کاسامنا رہتا ہے۔  مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خواتین کی شمولیت ورک فورس میں مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اگر اعداوشمار کو دیکھا جائے تو ملک بھر سے صرف چار فیصد خواتین لیڈرشپ پوزیشن تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں جن کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہوتا ہے جبکہ دوسرے طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بنیادی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کے لیے معاشی استحکام کی جنگ لڑ رہی ہیں جس میں صنفی بنیاد پر اجرت میں انتہائی کمی کامسئلہ سرفہرست ہے۔انہوں نے کہا کہ اجرت میں صنفی بنیادوں پر تفریق بہت پرانا مسئلہ ہے جس پر آواز تو اٹھائی جاتی ہیں مگر صرف ایجنڈے اور ڈونرز کوخوش کرنے کے لیے پروگرامز کیے جاتے ہیں ۔ ملک بھر میں شہروں ، دیہاتوں میں ہزاروں  خواتین اپنے ہنر اور صلاحیتوں کے ساتھ معاشی طور پر مضبوظ ہونے کے لیے گھریلو سطح پر کاروبار اور ملازمتیں  کر رہی ہیں اور جنہیں  قابلیت اور محنت کے بدلے صنفی بنیاد پر اجرت میں تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔  ڈی آر ایف چاہے تو ملک بھر میں خواتین کا اجرت میں تفریق کے مسئلے کو سجنیدگی سے حل کرنے کے بارے میں اقدامات کر سکتی ہیں ۔

میڈیا ایکسپرٹ عروج رضا کا کہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی شعبے سے وابستہ خواتین کو صنفی بنیاد پر اجرت یا تنخواہوں سے نوازہ جاتا ہے۔ یہ تاثر عام لیا جاتا ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ اور بہتر کام نہیں کر سکتیں جبکہ خواتین  سے دوگناہ زیادہ کام لیا جاتا ہے اور اداروں میں خواتین کے کام پر یقین مردوں کی نسبت زیادہ کیا جاتا ہے ۔ مجموعی صورتحال  پر نظر ڈالی جائے توخواتین کے کام کو اچھا سمجھا جانے کے  باوجود ’’کام کو کام ‘‘ تصور نہیں کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملازمت پیشہ ہو یا اپنے ہنر ہر مبنی کاروبار کرنے والی خواتین ہوں، صنفی بنیادوں پر انتہائی کم اجرت کے حوالے سے آواز اٹھانے سے کتراتی ہیں کیوں کہ ملازمت ختم ہونے یا کاروبار میں اشیا کی فروخت میں مارکیٹ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے شعبوں کی طرح میڈیا میں بھی خواتین صحافیوں کی تنخواہیں نہ ہونے کے برابر ہیں خاص کر خبر کی تلاش کرنے والی اور فیلڈ میں رپورٹ کرنے والی صحافی خواتین اجرت کے حوالے سے بری طرح صنفی تفریق کا سامنا کر رہی ہیں ۔ بات وہی آتی ہے کہ ملازمت سے نکلنے  اور دوسرے اداروں میں نوکری کے لیے مشکل پیش آتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں صنفی بنیادوں پر اجرت میں تفاوت کے حوالے سے اداروں کے پاس کوئی پالیسیز موجودہ  نہیں ہے جبکہ خواتین اجرت میں برابری کی بنیاد پر ادائیگی کے حوالے سے قانون کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتی ہیں ، اجرت کے حوالے سے  آواز اٹھانے سے قاصر ہونے کے باوجود کام کرنے سے گزیز نہیں کرتی ہیں ۔ سیاسی اور سماجی حلقوں میں خواتین کو صنفی بنیادوں پر اجرت کی تفریق  کے حوالے سے آواز تو اٹھائی جاتی ہے مگرقومی اور صوبائی صتحہ کے اندر  عملی اقدامات کا فقدان مسئلہ کی تشاندہی سنجیدگی سے کرنے سے قاصر ہے۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.