March 8, 2025 - Comments Off on قبائلی اضلاع میں خواتین ڈیجیٹل تقسیم کا شکار جدید دور میں قبائلی خواتین سوشل میڈیا سے دور کیوں؟ “گھر میں انٹرنیٹ لگانے سے لڑکیاں خراب ہوتی ہیں”
قبائلی اضلاع میں خواتین ڈیجیٹل تقسیم کا شکار جدید دور میں قبائلی خواتین سوشل میڈیا سے دور کیوں؟ “گھر میں انٹرنیٹ لگانے سے لڑکیاں خراب ہوتی ہیں”
By خالدہ نیاز
ایک طرف دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی طرف بڑھ رہی ہے، زیادہ تر بزنس اور باقی زندگی کے امور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سرانجام پانے لگے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے قبائلی اضلاع کی خواتین آج بھی سمارٹ فونز استعمال کرنے، ڈیجیٹل ٹولز کو اپنانے اور سوشل میڈیا کی رسائی تک سے محروم ہیں۔ قبائلی اضلاع کی زیادہ تر خواتین کو نہ تو سمارٹ فونز استعمال کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی انکی انٹرنیٹ تک رسائی موجود ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نادیہ خان سمجھتی ہیں کہ قبائلی اضلاع میں خواتین ڈیجیٹل تقسیم کا شکار ہیں، وہاں خواتین کے پاس نہ تو موبائل فونز دستیاب ہے نہ ہی انکو موبائل فونز رکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہ معاشی طور پر خودمختار ہیں کہ وہ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرسکیں۔ نادیہ خان کے مطابق قبائلی خواتین سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے بارے میں نہ تو معلومات رکھتی ہیں اور نہ ہی انکو اس کے محفوظ استعمال کا پتہ ہے، وہ خواتین تو ابھی تک تعلیم کے حصول کی جنگ لڑرہی ہیں ایسے میں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی انکے لیے ایک خواب جیسا ہے۔
انٹرنیٹ تک رسائی خواتین کو معاشی خودمختاری کی طرف لے جاسکتی ہے
نادیہ خان کا کہنا ہے اکیسویں صدی ایک جدید دور ہے- نئی ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنادیا ہے اور یہ خواتین کے لیے ایک موقع بھی فراہم کررہا ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر آن لائن کام کرسکیں اور معاشی طور پر خودمختار ہوسکیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے خواتین تعلیم یافتہ ہوں، انٹرنیٹ تک انکی رسائی ہو، انہیں ڈیجیٹل سکلز کی فراہمی دی جائے اور انکی حوصلہ افزائی کی جائے۔
ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرکے اور ڈیجیٹل مہارتوں اور حفاظت کے بارے میں تربیت فراہم کرکے، ہم، قبائلی خواتین کی اقتصادی صلاحیتوں کو کھول سکتے ہیں اور انہیں عالمی مارکیٹ سے جوڑ سکتے ہیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
نادیہ خان کے مطابق اگرچہ انٹرنیٹ اس دور کی ضرورت ہے تاہم خواتین کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات نے باقی خواتین کے ذہنوں میں خوف ڈال دیا ہے کہ کہیں انکی تصاویر لیک نہ ہوجائے، کہیں انکو آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑجائے، انٹرنیٹ کا محفوظ استعمال بھی خواتین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس ضمن میں خواتین کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کی معاشی ترقی کے لیے کام کرنے والی تنظیم زوفاش فاونڈیشن کی چیئرپرسن نوشین فاطمہ قبائلی ضلع اورکزئی سے تعلق رکھتی ہیں۔ نوشین فاطمہ نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کی زیادہ تر خواتین اس جدید دور میں بھی تعلیم جیسی بنیادی حق سے محروم ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ قبائلی اضلاع میں پی ٹی سی ایل کی سہولت موجود نہیں اور نہ ہی ان علاقوں میں تھری جی اور فور جی کام کرتا ہے۔
کیا موبائل فون رکھنے سے خواتین کا کردار خراب ہوسکتا ہے؟
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی نایاب ایک وکیل ہے۔ نایاب کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں سارے اختیارات مردوں کے پاس ہوتے ہیں ایسے میں خواتین کو سمارٹ فونز رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، مرد سمجھتے ہیں اس سے خواتین کو کردار خراب ہوسکتا ہے، اس کے ساتھ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ اگر خواتین موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کرنا شروع کردیں گی تو وہ اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرپائیں گی۔
نایاب نے بتایا سمارٹ فونز او سوشل میڈیا سے محرومی نہ صرف خواتین کو معلومات سے دور رکھتی ہے بلکہ انکو باقی دنیا سے بھی پیچھے رکھتی ہے۔ سوشل میڈیا سے دوری قبائلی خواتین کو جدید ایجادات اور انفارمیشن سے محروم رکھتی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اگر خواتین کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہو تو طالب علم اسے اپنی پڑھائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، مائیں اپنے بچوں کے لیے تعلیمی پروگرام دیکھ سکتی ہیں اور وہ عالمی واقعات کے بارے میں باخبر رہ سکتی ہیں۔ معاشرے کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں اور یہاں تک کہ آمدنی بھی کما سکتی ہیں۔ دنیا اب ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے بغیر اس گلوبل ویلیج تک رسائی ناممکن ہے۔
مزید برآں، سوشل میڈیا خواتین کی بہتر تربیت میں کردار ادا کرسکتا ہے، کیونکہ ان علاقوں میں مردوں کو باہر جانے کی آزادی ہے، جبکہ خواتین کی نقل و حرکت انتہائی محدود ہے. خواتین آن لائن کورسز اور تعلیم بھی لے سکتی ہیں، جس سے انہیں مستقبل میں کیریئر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔انٹرنیٹ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے طریقے بتانا بھی ضروری ہے۔
قبائلی خواتین کا کام بچے پیدا کرنا اور پہاڑوں سے لکڑیاں لانا ہے: نوشین فاطمہ
نوشین فاطمہ کے مطابق ناخواندہ قبائلی خواتین نہ تو اپنے بنیادی حقوق سے باخبر ہیں اور نہ ہی انکو جدید ٹیکنالوجی کا علم ہے ان کا کام بچے پیدا کرنا، پانی لانا اور پہاڑوں سے لکڑیاں لانا ہے۔ " ایسے علاقے جہاں مردوں کا بھی دنوں تک پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہوتا ہے وہاں خواتین کا انٹرنیٹ تک رسائی کی بات ایک مذاق ہے" نوشین فاطمہ نے طنزیہ بات کرتے ہوئے بتایا۔
نوشین فاطمہ بتاتی ہیں کہ کچھ خواتین جو پڑھی لکھی اور باشعور ہیں وہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتی ہیں اور اس کا استعمال بھی کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے انکی آواز کو بھی دبا دیا جاتا ہے۔ " میں نے کچھ پوسٹس کیے تھے سوشل میڈیا پر باقاعدہ میرے کزنز کو بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ نوشین معافی مانگے، میں نے معافی نامہ لکھا اور ساتھ میں پوسٹس بھی ڈیلیٹ کی، جو ایک فیصد خواتین انٹرنیٹ تک رسائی رکھتی بھی ہیں وہ بھی اس کا صحیح استعمال نہیں کرسکتی کیو نکہ انکو پھر دھمکیاں ملتی ہیں"
زوفاش فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن کہتی ہیں کہ بد امنی کی وجہ سے ہزاروں قبائلی لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کرپاکستان کے باقی علاقوں میں میں رہنے لگے تھے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ تک انکی رسائی ہوگئی تھی تاہم اب مہنگائی کی وجہ سے وہ دوبارہ تباہ شدہ مکانات میں رہنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کی انٹرنیٹ سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ وہاں اس سہولت کی عدم موجودگی بھی ہے کہ وہاں نہ تو سگنلز ہوتے ہیں اور نہ ہی موبائل انٹرنیٹ صحیح کام کرتا ہے۔
"میں خود بھی قبائلی اضلاع میں کم موبائل استعمال کرتی ہوں"
"قبائلی اضلاع میں لوگ قدامت پسند ہیں اور روایات بہت سخت ہیں، وہاں خواتین کے ساتھ موبائل کو برا سمجھا جاتا ہے، جس خاتون کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے اس کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے، میں خود بھی جب قبائلی اضلاع میں جاتی ہوں تو کوشش کرتی ہوں کہ موبائل کا استعمال کم سے کم کروں" نوشین نے بتایا۔
قبائلی خواتین کس طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرسکتی ہیں اس حوالے سے نوشین نے کہا کہ جب لڑکیاں تعلیم یافتہ ہونگی، ان علاقوں میں تھری جی اور فور جی کی دستیابی یقینی بنائی جائے، روئیوں میں تبدیلی آئے تب کہیں جاکر خواتین انٹرنیٹ پر آسکتی ہیں۔
پی ٹی اے رپورٹ رپورٹ میں کیا ہے؟
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے دسمبر 2024 میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں آئی ٹی اور ٹیلی کام سیکٹر میں خواتین کی نمائندگی خطرناک حد تک کم ریکارڈکی گئی ہے۔ پی ٹی اے رپورٹ کے مطابق ٹیکنالوجی اپنانے، انٹرنیٹ کے استعمال اور موبائل کی ملکیت میں اہم نوعیت کی صنفی تفریق برقرار ہے۔پی ٹی اے نے خواتین کی نمائندگی کم ہونے سے متعلق درپیش چیلنجر کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی کا فقدان، مالیاتی معاملات بینک اکاؤنٹس کی اونر شپ بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے، لگ بھگ 25 فیصد بالغ خواتین کے لیے قومی شناختی کارڈ کی عدم موجودگی بھی چیلنج ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق سوشل میڈیا ایپس پر خواتین کی نمائندگی میں بڑی حد تک کمی دیکھنے کو ملی ہے، 6 کروڑ 40 لاکھ فیس بک صارفین میں سے 77 فیصد مرد جبکہ خواتین صرف 24 فیصد ہیں اور صنفی فرق 68 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔7 کروڑ 17 لاکھ یوٹیوب صارفین میں 72 فیصد مرد اور 28 فیصد خواتین ہیں جبکہ صنفی فرق 59 فیصد ہے، اسی طرح 5 کروڑ 44 لاکھ ٹک ٹاک صارفین میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں جبکہ ٹک ٹاک پر صنفی تفریق 71 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔انسٹاگرام کے ایک کروڑ 73 لاکھ صارفین میں سے 64 فیصد مرد جبکہ 36 فیصد خواتین ہیں جبکہ اس ایپلی کیشن پر صنفی تفریق کی شرح 41 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق صنفی فرق کو ختم کرنے اور خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت کو بڑھانے کیلئے وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے نے ایک اسٹرینگ کمیٹی کی تشکیل دی ہے- ڈیجیٹل صنفی فرق کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت، باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
جلدی سے بات ختم کرکے موبائل دے دو
ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی فہمیدہ (فرضی نام) نے بتایا کہ انکے علاقے میں 70 فیصد خواتین کو موبائل او سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں پہلے تو انکے علاقے میں فور جی کام بھی نہیں کرتا تھا لیکن اب بہت سارے گھروں میں وائی فائی کی سہولت موجود ہے لیکن خواتین کے پاس نہ تو اپنے سمارٹ فونز ہوتے ہیں نہ ہی انکو اس کی ایکسیس دی جاتی ہے کہ وہ اس کا استعمال کرسکیں۔ " میں بہت ساری خواتین کو جانتی ہوں جن کی شادیاں ہوئی ہیں، انکے پاس سادہ موبائل بھی نہیں ہوتے جس سے وہ گھر والوں کے ساتھ رابطہ کرسکیں، سادہ موبائل استعمال کرتے وقت بھی انکے شوہر انکے سر پر کھڑے ہوتے ہیں کہ بس اتنے منٹ بات کرلو اور جلدی سے بند کردو اور پھر وہ موبائل ان سے لے لیا جاتا ہے" فہمیدہ نے بتایا۔
گھر میں انٹرنیٹ لگانے سے لڑکیاں خراب ہوتی ہیں
فہمیدہ نے بتایا کہ جن گھروں میں وائی فائی نہیں ہے وہاں کے مرد نیٹ کیفے جاکر اس سے استفادہ حاصل کرلیتے ہیں جبکہ خواتین اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔ کرونا کے دور میں بھی قبائلی اضلاع کی لڑکیاں بہت مشکل سے دوچار ہوئی تھیں کیونکہ کلاسز آن لائن ہوتی تھی لیکن وہاں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا اور کہیں اور جاکر نیٹ استعمال کرنے سے وہ قاصر تھیں۔ مرد کہتے ہیں " ہم گھر میں انٹرنیٹ نہیں لگاتے اس سے لڑکیاں خراب ہوتی ہیں" فہمیدہ نے بتایا۔
فہمیدہ کہتی ہیں کہ انکی بہت ساری دوستیں ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں لیکن اس کے باوجود انکو موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ موبائل آج کے جدید دور میں ہر انسان کی ضرورت ہے، قبائلی اضلاع میں کچھ حد تک تبدیلی ضرور آئی ہے تاہم خواتین کے حوالے سے اب بھی ان علاقوں میں بہت کام کی ضرورت ہے، اس حوالے سے زیادہ ضرورت لوگوں کی ذہن سازی کی ہے۔ جب لوگ اس بات کو سمجھیں گے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے لوگ گھر بیٹھ کر کما بھی سکتے ہیں تب ہی لڑکیوں کو بھی موبائل فون رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت ہوگی اور خواتین معاشی طور پر خودمختار بھی ہوسکیں گی۔
قبائلی خواتین تعلیم سے دور ہیں
نبی جان اورکزئی ایک صحافی ہیں اور قبائلی ضلع کرم سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے بتایا قبائلی اضلاع میں خواتین کئی وجوہات کی وجہ سے سوشل میڈیا سے دور ہیں، ایک تو خواتین کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے انکی سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ خواتین خود بھی سمارٹ فونز استعمال نہیں کرنا چاہتیں اور اس کو روایات کے منافی سمجھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی نہیں ہےجب مرد ہی اس سے محروم ہیں تو خواتین تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کے ساتھ کئی خواتین کے شناختی کارڈز تک نہیں بنے تو وہ سم کارڈز کیسے لیں گی؟ سم کارڈز کے بغیر موبائل اور سوشل میڈیا کا استعمال ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا بعض علاقوں میں تو خواتین سمارٹ فونز کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ مرد اتنا برا مان جاتے ہیں کہ خواتین کو قتل کرنے تک بات پہنچ جاتی ہے۔
نبی جان سمجھتے ہیں کہ موجودہ وقت میں ان خواتین کے پاس موبائل فونز موجود ہیں جن کے بیٹے یا شوہر بیرون ملک مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے روئیوں میں بھی تبدیلی آرہی ہے راشن اور بے نظیر انکم سپورٹ کی مالی امداد کی وجہ سے اب خواتین کے شناختی کارڈز بننا شروع ہوگئے۔
انٹرنیٹ کا استعمال آج کے جدید دور کی ضرورت بن گیا ہے تاہم قبائلی خواتین روایات، علاقے میں انٹرنیٹ سہولت کی عدم دستیابی، سماجی روئیوں اور معاشی مسائل کی وجہ سے انٹرنیٹ سے بہت دور ہے۔ قبائلی خواتین بھی حق رکھتی ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے نہ صرف معلومات حاصل کریں بلکہ سکلز لے کر معاشی طور پر بھی خودمختار ہوسکیں۔
Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine
Comments are closed.