Blog Archives

March 7, 2025 - Comments Off on آن لائن دنیا میں خواتین کا وجود – آزادی یا خوف؟

آن لائن دنیا میں خواتین کا وجود – آزادی یا خوف؟

By Samina Chaudhry

یہ رات کے دو بجے کا وقت تھا، جب عائشہ(فرضی نام)کے فون پر ایک دھمکی آمیز پیغام آیا: "تمہاری تصویریں میرے پاس ہیں، اگر بات نہ مانی تو سب کو دکھا دوں گا۔" راولپنڈی کی 24 سالہ عائشہ، جو ایک باہمت گرافک ڈیزائنر تھی، ابھی کم ہی عرصہ ہوا تھا اس کو یونیورسٹی سے فری ہو کے اپنا کام شروع کیے، اس نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے کام کی تشہیر کی۔اس کے کام کو بہت پسند بھی کیا گیا اور اس کو مزید کام بھی ملنا شروع ہو گیا۔ مگر اس فون کال نے اس کی ساری خوشی ایک جھٹکے میں ختم کر دی۔ وہ خوف سے کانپنے لگی۔ اس نے ہمیشہ اپنی آن لائن شناخت کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی تھی، مگر آج وہ خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔ یہ صرف عائشہ کی کہانی نہیں، بلکہ ان ہزاروں پاکستانی خواتین کی حقیقت ہے، جو ڈیجیٹل دنیا میں اپنی موجودگی کو خوف اور تذبذب کے سائے میں برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

پاکستان میں ہر سال آن لائن ہراسانی کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق، 2024 میں رپورٹ کیے گئے کیسز اصل متاثرہ خواتین کی صرف ایک جھلک ہیں۔ عائشہ بھی ان خواتین میں شامل تھی، جس نے فری لانس گرافک ڈیزائننگ کے ذریعے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلا۔ مگر جیسے ہی اس نے اپنا کام سوشل میڈیا پر شیئر کیا، دھمکیوں، نفسیاتی دباؤ اور ہراسگی کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر نے اس کی زندگی کو مشکل بنا دیا۔

ڈیجیٹل دور میں جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے خواتین کو تعلیم، روزگار اور سماجی روابط کے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں، وہیں ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والے تشدد نے ان کی آزادی کو ایک نئے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے خلاف ٹیکنالوجی بیسڈ فیسلیٹڈ جینڈر وائلنس( ٹی ایف جی بی وی) کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جو عالمی رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔ کووڈـ19 وبا کے دوران جب خواتین نے آن لائن پلیٹ فارمز کو زیادہ استعمال کرنا شروع کیا تو سائبر ہراسمنٹ، سٹاکنگ اور جعلی فحش مواد جیسے جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کو موصول ہونے والی 90 فیصد ہراسمنٹ شکایات خواتین کی طرف سے درج کرائی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آن لائن دنیا میں خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے فوری قانونی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال آزادی اور مواقع کی علامت رہے، نہ کہ خوف اور ہراس کا ذریعہ۔

یہ مسئلہ صرف عام خواتین تک محدود نہیں، بلکہ صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عوامی سطح پر سرگرم خواتین کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا جاتا ہے۔

فوزیہ یزدانی، جو ایک ترقیاتی ماہر اور میڈیا سے وابستہ ہیں، آن لائن ہراسگی کے تلخ تجربات سے گزری ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:

"مجھے معروف صحافیوں اور یوٹیوبرز کی جانب سے غلط معلومات اور جعلی خبروں کی بنیاد پر ٹرول کیا گیا۔ گزشتہ سال پی ٹی وی کی جانب سے میری واجب الادا رقم کی ادائیگی کو میڈیا اور سوشل میڈیا چینلز نے غلط رنگ دے کر میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ مجھے یہ رقم اس لیے دی گئی کیونکہ میرے عبوری وزیر اطلاعات اور اعلیٰ فوجی حکام سے تعلقات تھے۔ پی ٹی آئی کے ٹرول فورمز نے مجھے نشانہ بنایا، مجھ پر نازیبا الزامات لگائے اور گالیاں دیں، جو آج تک جاری ہیں۔ کسی نے بھی میری پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور کام کو جانچنے کی زحمت تک نہیں کی۔"

فوزیہ کا کہنا ہے کہ اپنی سیاسی آراء کے اظہار پر انہیں مسلسل جنسی استحصال، موت کی دھمکیوں اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

"پی ٹی آئی کے ٹرول فورمز نے مجھے خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ جب بھی کوئی خاتون کسی معاملے پر آواز اٹھاتی ہے، اسے شرمناک القابات دیے جاتے ہیں اور جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ میری تصویر ایک انتہا پسند تنظیم کے پوسٹر پر لگا دی گئی، جس میں مجھے احمدی قرار دے کر نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، عورت مارچ اور مذہبی عدم برداشت جیسے حساس موضوعات پر آواز بلند کرنا میرے لیے خطرناک ثابت ہوا۔ مجھے سائبر قوانین کے تحت مقدمات میں الجھانے کی کوشش کی گئی، جبکہ حقیقت میں میں صرف سچ بول رہی تھی۔"

فوزیہ مزید کہتی ہیں کہ جب انہیں ہراساں کیا گیا، تو ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے ان کی مدد کی۔

"پی ٹی وی کے واقعے میں ڈی آر ایف نے میرا ساتھ دیا اور ہم نے تمام شواہد اکٹھے کیے، لیکن ہم نے مقدمہ درج نہیں کروایا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ پنجاب کے ہتک عزت کے قانون کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف تھا، جس سے میں اور ڈی آر ایف دونوں اصولی طور پر متفق نہیں تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مقدمے کی غیر معینہ تاخیر مزید ذہنی دباؤ اور ٹرولنگ کو بڑھا سکتی تھی۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے، انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔"

اسی طرح سعدیہ مظہر ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایکٹوسٹ بھی ہیں اپنا تجربہ بیان کرتی ہیں
یہ 2022 کی بات ہے جب پہلی بار سوشل میڈیا پر میری تصاویر کو استعمال کیا جانے لگا اور مختلف گروپس میں ضرورت رشتہ کے اشتہار کے ساتھ میری تصویر دی جانے لگی۔ تب پہلی بار ایف آئی اے کو رپورٹ کیا لیکن بدقسمتی سے ایک سال بعد بغیر کسی کاروائی کے ایف آئی اے نے میری درخواست یہ کہہ کر بند کر دی کہ میں نے کیس کو فولو نہیں کیا۔ اسی حوالے سے آر ٹی آئی فائل کرنے کے بعد تقریبا ایک سال بعد ایف آئی اے نے یہ کہا کہ ان کے پاس ای پی ایڈریس کو ٹریس کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔
2024 کے جنرل الیکشن کے بعد ایکس پر بدتمیزی کا طوفان تھا جس کا شکار میرے سمیت دو اور خواتین صحافی ہوئیں، الیکشن کرپشن پر بات کرنے پر میری شدید کردار کشی ہوئی، میرے خلاف بڑے پیمانے پر ٹرینڈ چلاے گئے ، یہ ذہنی اذیت دینے کو کافی تھا۔ میں شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوئی اور کچھ وقت کے لیے ایکس ایپ کو ڈیلیٹ بھی کر دیا لیکن افسوس اس سب میں ایف آئی اے یا کوئی بھی اور ادارہ مدد نہیں کرتا۔
یہ کہانی صرف عائشہ یا فوزیہ تک محدود نہیں، بلکہ ہر اس خاتون کی ہے جو ڈیجیٹل دنیا میں اپنی آواز بلند کرتی ہے اور اس کے سنگین نتائج بھگتتی ہے۔ آن لائن ہراسگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔
ٹیکنالوجی سے جْڑے تشدد کے اثرات صرف انفرادی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ خواتین پر ہونے والے آن لائن حملے ان کے ذہنی سکون، خوداعتمادی اور معاشرتی شمولیت کو متاثر کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق طالبات میں سے 70 فیصد نے آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا کرنے کی شکایت کی، جس میں سے 20 فیصد نے اپنی تعلیم چھوڑنے کا سوچا، جب کہ 45 فیصد کام کرنے والی خواتین کو سائبر بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں 15 فیصد نے ملازمت چھوڑ دی۔ اسی طرح، سیاست میں شامل خواتین کو مرد سیاست دانوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور 67 فیصد خواتین نے سیاست چھوڑنے کے بارے میں غور کیا۔ ایسے حالات میں، اگر خواتین ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے پیچھے ہٹتی رہیں، تو یہ نہ صرف انفرادی نقصان ہوگا بلکہ پاکستان کی مجموعی ترقی میں بھی رکاوٹ بنے گا۔ خاص طور پر، خواتین کی STEM، میڈیا اور پبلک سروس میں شمولیت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، جو کہ ایک ترقی پذیر معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

صنم حبیب اللہ کابورو، سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک نمایاں وکیل اور امن کی سفیر ہیں۔ وہ سار( ایس اے اے آر) اور گلوبل ویمن کیڈر نامی ایک غیر منافع بخش تنظیم کی چیئرپرسن ہیں اور بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کی وکالت میں پیش پیش ہیں۔ 2011 سے وہ سندھ میں معیاری تعلیم، صنفی مساوات، امن اور تنازعات کے حل کے لیے کام کر رہی ہیں۔

صنم حبیب اللہ کبورو کے مطابق، پاکستان میں خواتین کو سب سے زیادہ ہراساں اس وقت کیا جاتا ہے جب وہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں یا اپنی ڈیجیٹل سپیس کا حق مانگتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کو خاندان کی عزت کا محور سمجھا جاتا ہے، اس لیے انہیں ہراساں یا بلیک میل کرنے کے لیے ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ "جب ان کی تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھینکی گئیں، تو اس وقت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ان کی پرائیویسی کو بریچ کیا گیا تھا۔ آج یہ رجحان مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، جہاں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کی ویڈیوز ایڈیٹ کر کے انہیں بدنام کیا جاتا ہے۔"

صنم کے مطابق، پاکستان میں سائبر کرائم قوانین متاثرین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر کوئی خاتون شکایت درج کراتی ہے، تو کارروائی کا عمل غیر معمولی طور پر طویل ہوتا ہے، اور جب تک تصاویر یا ویڈیوز باضابطہ طور پر لیک نہ ہو جائیں، تب تک کوئی موثر اقدام نہیں کیا جاتا۔ نتیجتاً، متاثرہ خواتین خاموش رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، اور بعض اوقات تو وہ خودکشی جیسے انتہائی اقدامات پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

ڈیجیٹل سکیورٹی کے ماہر اسد الرحمن جو کہ تکنیکی مہارت کے ساتھ ساتھ، سائبر سائیکالوجسٹ بھی ہیں اور سائبر کرائم کے متاثرین کو ذہنی دباؤ سے نکلنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اسد الرحمن بھی اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ خواتین کو آن لائن ہراسانی مختلف طریقوں سے جھیلنی پڑتی ہے، جن میں جعلی پروفائلز بنانا، بلیک میلنگ، سائبر سٹاکنگ، اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا غلط استعمال شامل ہے۔ اسد کے مطابق، خواتین کی تصاویر کو بغیر اجازت دوسرے اکاؤنٹس پر استعمال کرکے ارننگ کی جاتی ہے اور انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کی ذاتی معلومات چوری کی جاتی ہیں، جس سے مالی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

آن لائن رازداری کے حوالے سے اسد الرحمن مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو اپنی سوشل میڈیا پرائیویسی سیٹنگز کو بہتر بنانا چاہیے، جیسے کہ فیس بک پر پروفائل لاک، واٹس ایپ پر پرائیویسی کنٹرول اور غیر شناسا افراد سے بات چیت اور فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے سے گریز۔ ان کے مطابق، "آن لائن ہراسانی کے 70 فیصد سے زائد کیسز میں نامعلوم افراد سے روابط کا عنصر پایا گیا ہے، اس لیے احتیاطی تدابیر نہایت ضروری ہیں۔"

ڈیجیٹل سکیورٹی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اسد الرحمن نے ٹو فیکٹر یا ملٹی فیکٹر کی توثیق کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا پاسورڈ مختلف اور پیچیدہ ہونا چاہیے تاکہ اگر کوئی ایک پاسورڈ لیک ہو جائے تو باقی اکاؤنٹس محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ، کسی بھی مشکوک لنک پر کلک کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ لنکس سکیورٹی بریچ کا باعث بن سکتے ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر ذاتی معلومات، جیسے کہ شناختی کارڈ نمبر، ڈیٹ آف برتھ، یا لوکیشن شیئر کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ معلومات ہیکرز کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف عائشہ، فوزیہ اور ان جیسی بہت سی خواتین کا ہی نہیں، بلکہ ہر اس خاتون کا ہے جو ڈیجیٹل دنیا میں اپنی آواز بلند کرتی ہے اور اس کے سنگین نتائج بھگتتی ہے۔ آن لائن ہراسگی ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے سدباب کے لیے نہ صرف مضبوط سائبر قوانین بلکہ سماجی سطح پر بھی شعور اور مزاحمت کی ضرورت ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن خطے کی پہلی مخصوص ہیلپ لائن ہے جو آن لائن تشدد اور ہراسانی کے متاثرین کی مدد کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کی سپورٹ ٹیم میں ماہر نفسیات، ڈیجیٹل سکیورٹی ماہرین اور وکلا شامل ہیں، جو خواتین، بچوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور اقلیتی برادریوں کو ضروری معاونت فراہم کرتے ہیں۔ 2024 میں، ہیلپ لائن کو 3171 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 1772 متاثرین خواتین تھیں۔ اس کے علاوہ، 113 صحافیوں اور 44 سرگرم کارکنوں نے بھی مدد حاصل کی۔

قانونی معاونت کے معاملے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔

پاکستان میں سائبر جرائم سے نمٹنے کے لیے 2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) متعارف کرایا گیا،لیکن اس میں خواتین کے خلاف آن لائن تشدد کے مخصوص قوانین شامل نہیں ہیں، اور اس پر عمل درآمد کی صلاحیت بھی محدود ہے۔ایف آئی اے کا سائبر کرائم وِنگ صرف 15 سٹیشنز اور 144 افسران کے ساتھ کام کر رہا ہے، جو 24 کروڑ کی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔ مزید برآں، متاثرہ خواتین کو شکایت درج کروانے کے لیے خود دفتر آنا پڑتا ہے، جو کہ خاص طور پر دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ 2024 میں، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے 1,664 مقدمات درج کیے، جن میں سے 459 آن لائن ہراسگی کے کیسز تھے، جس کے نتیجے میں 437 گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ان اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ مسئلہ اب بھی سنگین ہے، لیکن اس کے سدباب کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

تاہم، سائبر کرائم ونگ کو اب بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں محدود وسائل، رپورٹنگ سینٹرز کی کمی اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ براہ راست روابط کی غیر موجودگی شامل ہے۔ مزید یہ کہ، موجودہ قوانین اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی پالیسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ان مقدمات کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

یہی وقت ہے کہ حکومت، سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز مل کر کام کریں تاکہ نہ صرف ہراسگی کا سدباب کیا جا سکے بلکہ ایک محفوظ آن لائن ماحول کو فروغ دیا جا سکے۔ قوانین کے نفاذ کو مزید مضبوط بنانے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شفافیت کو یقینی بنانے اور عوام میں ڈیجیٹل سکیورٹی کے حوالے سے آگاہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور آن لائن دنیا خواتین کے لیے مزید غیر محفوظ بنتی چلی جائے گی۔
اس مسئلے کا حل قانونی اصلاحات، سائبر کرائم ونگ کو مزید وسائل فراہم کرنے، سوشل میڈیا کمپنیوں کو مقامی قوانین پر عمل درآمد کا پابند بنانے اور متاثرین کے لیے آسان اور موثر مدد فراہم کرنے میں مضمر ہے۔ آن لائن دنیا میں خواتین کو محفوظ اور بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو آزادی کے ایک ایسے ذریعہ میں تبدیل کریں جہاں خواتین خوف کے بجائے خود اعتمادی اور ترقی کے احساس کے ساتھ موجود ہوں

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.