Blog Archives

October 4, 2023 - Comments Off on کیا آرٹفیشل انٹیلی جنس کی بدولت میڈیا میں خواتین صحافیوں کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے؟

کیا آرٹفیشل انٹیلی جنس کی بدولت میڈیا میں خواتین صحافیوں کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے؟

خالدہ نیاز

وقت گزرنے کے ساتھ ٹیکنالوجی میں بھی جدت آرہی ہے۔ آج سے چند سال قبل سوشل میڈیا اس قدرعام نہ تھا لیکن آجکل چاہے بوڑھا ہو، جوان ہو مرد ہو یا عورت سب ہی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین نہ صرف اپنے پسندیدہ ڈرامے، نیوز اور مختلف پروگرامز دیکھتے ہیں بلکہ یہ رابطے بحال رکھنے کا بھی سب سے اہم ذریعہ بن گیا ہے۔

آجکل دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے انسانوں کا کام مزید آسان کردیا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ایک طرف چیٹ جی پی ٹی نے لوگوں کا کام آسان کردیا ہے تو دوسری جانب ورچوئل ریئلٹی نے لوگوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔

میڈیا بھی آرٹفیشل انٹیلیجنس کو استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ٹی وی چینل نیو نیوز نے بھی مصنوعی ذہانت کی حامل اینکر پرسن کو متعارف کروایا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی حامل اینکر پرسن نے حقیقی اینکر سے گفتگو کی۔ بلیٹن کے دوران مصنوعی اینکر نے بریک بھی اناؤنس کی۔ ڈسکور پاکستان چینل نے بھی اے آئی اینکرز تخلیق کیے ہیں اور ایک پروگرام بھی کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک کا پہلا آرٹفیشل انٹیلیجنس پر مبنی شو تھا۔

آرٹیفیشل اینٹلی جنس میڈیا میں ایک اچھی تبدیلی لے کر آئے گا

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور میں نیو ٹی وی کے بیورو چیف فدا خٹک نے بتایا کہ جو بھی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو جس طرح زندگی کے باقی شعبوں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح میڈیا بھی جدید ٹیکنالوجی کو اپناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیفیشل اینٹلی جنس میڈیا میں ایک اچھی تبدیلی لے کر آئے گا۔

فدا خٹک نے بتایا کہ ایک دور تھا جب کاتب ہاتھ سے اخبار میں لکھا کرتے۔ اس کے بعد کمپیوٹرز آگئے۔ فدا خٹک کے مطابق یہ کہا جارہا ہے کہ اے آئی کے آنے سے نوکریاں ختم ہوجائیں گی ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ جب کمپیوٹرز آئے تو کاتبوں کی جگہ گرافک ڈیزائنرز  اور پیج میکرز آگئے اور یوں انکی نوکریاں لگ گئیں اسی طرح اے آئی بھی میڈیا میں ایک اچھا اضافہ ہوگا۔

مصنوعی ذہانت کی حامل اینکرز میڈیا میں ایک اچھا اضافہ ہوگا

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں میڈیا میں بہت کم خواتین کام کررہی ہیں جس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ثقافت اور رسم و رواج وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مصنوعی ذہانت کی حامل خواتین رپورٹرز یا اینکرز ہمارے صوبے کی نمائندگی کریں گی تو یہ ایک اچھا اضافہ ہوگا۔ فدا خٹک کے مطابق آنے والے وقتوں میں عین ممکن ہے کہ اے آئی رپورٹرز اور اینکرز فیلڈ میں ہونگی کیونکہ جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو اس کا اثر تمام شعبوں پر پڑتا ہے۔

فدا خٹک نے مزید بتایا کہ انکے خیال میں یہاں خیبرپختونخوا میں اے آئی نیوز اینکرز کامیاب ہوسکتی ہیں کیونکہ یہاں میڈیا میں کام کرنے والی خواتین بہت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت خیبرپختونخوا میں میڈیا میں خواتین کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اے آئی کے آنے سے میڈیا میں اور نوکریاں آئیں گی نہ کہ اس سے موجودہ نوکریاں ختم ہونگی۔

فداخٹک کے مطابق نیو ٹی وی پاکستان کا پہلا چینل ہے جس نے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اےآئی اینکر بنائی ہے تاہم یہ ابھی ابتدائی مراحل کی بات ہے آنے والے دنوں میں مذید چینلز بھی اس جانب بڑھیں گے کیونکہ آنے والے دور میں اس کو زندگی کے ہرشعبے میں بروئے کار لایا جائے گا۔

فیلڈ میں جاکر رپورٹنگ کرنا ایک الگ کام ہے جو شاید اے آئی نہ کرسکے

خیبرپختونخوا کی پہلی اور واحد خاتون بیورو چیف فرزانہ علی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آرٹفیشل انٹیلیجنس کا استعمال اس وقت مختلف چیزوں میں ہورہا ہے جیسا کہ چیٹ جی پی ٹی۔ فرزانہ علی نے کہا کہ لوگ انٹرنیٹ پر ریسرچ کررہے ہیں انکو جو چاہیئے ہوتا ہے وہ آسانی سے مل جاتا ہے اس کے علاوہ کونٹینٹ بہتر بنانے کے لیے بھی اے آئی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی ایک بہترین ٹیکنالوجی ہے جس نے کام کو مزید آسان بنادیا ہے۔

فرزانہ علی سمجھتی ہیں کہ اے آئی ایک جدید ٹیکنالوجی ہے تاہم فیلڈ میں جاکر رپورٹنگ کرنا ایک الگ کام ہے جو شاید اے آئی کے ذریعے اس طرح سے ممکن نہ ہو جس طرح عام رپورٹرز کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اے آئی کے ذریعے رپورٹنگ بھی کی جاسکے گی تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جو کام ایک رپورٹر فیلڈ میں جاکر کرسکتا یا سکتی ہیں وہ ایک کمپیوٹر نہیں کرسکتا ہاں البتہ اس کی مدد سے انٹرنیٹ سے ریسرچ وغیرہ بہتر انداز میں کی جاسکتی ہے۔ اس کی مدد سے ڈیٹا بھی لیا جاسکتا ہے، دنیا میں اس وقت کیا ہورہا ہے وہ معلومات تو جمع کرسکتے ہیں لیکن رپورٹنگ اس طرح سے ممکن نہیں ہے اے آئی کے ذریعے۔

مصنوعی ذہانت والی اینکرز فیڈ کی ہوئی خبریں تو پڑھ سکتی ہیں لیکن وہ تجزیہ نہیں کرسکتی

فرزانہ علی نے کہا کہ ایڈیٹنگ، ریسرچ یا باقی کچھ جابز کی جگہ اے آئی لے سکتا ہے لیکن عملی صحافت الگ چیز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مصنوعی ذہانت والی اینکرز فیڈ کی ہوئی خبریں تو پڑھ سکتی ہیں لیکن وہ تجزیہ نہیں کرسکتی نہ ہی فیلڈ میں رپورٹنگ کرسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک صحافی میں تخلیقی صلاحیت کے ساتھ تنقیدی سوچ بھی ہوتی ہے جو اے آئی میں ممکن نہیں ہوسکتی۔ فرزانہ علی نے بتایا کہ سٹوڈیو میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی بدولت بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں جن میں کیمرہ ورک، نیوز اینکرز وغیرہ کی جگہ اس جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔

اے آئی ٹولز سیکھنا ضروری ہے

نوجوانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن اور ایپ ڈیویلپر شفیق گگیانی نے کہا کہ جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو وہ اگر ایک جانب انسانی زندگی میں آسانیاں لاتی ہے تو دوسری جانب وہ بے روزگاری کا بھی سبب بنتی ہے کیونکہ جو لوگ اس سے پہلے اس فیلڈ میں جو کام مشقت سے کررہے تھے انکی طلب ختم ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے بہت ساری نوکریاں ختم ہوجائیں گی اور اس کی جگہ اے آئی ٹیکنالوجی لے لے گی۔

ایک سوال کے جواب میں شفیق گگیانی نے بتایا کہ مستقبل میں شاید انسانی اینکرز کی جگہ مصنوعی ذہانت والی اینکرز جگہ لے لیں گی لیکن ڈیٹا اور ریسرچ کا کام یہی  لوگ کریں گے جو ابھی کررہے ہیں البتہ وہ اے آئی سے مدد لے سکتے ہیں۔

شفیق گگیانی کا کہنا ہے کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو لوگ اس کو اپنانا شروع کردیتے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد اس کا ڈیکلائن بھی شروع ہوجاتا ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہ کچھ عرصے میں مشین والے برگرز بہت مشہور ہوئے تھے لیکن اس کے بعد ہاتھ سے بنے برگرز کی ڈیمانڈز بہت زیادہ آئی۔

شفیق گگیانی نے بتایا کہ جو بھی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے اس کو سیکھنا چاہئے تاکہ اس بنا پر ہم نئی جابز تلاش کرکے کمائی بھی کرسکیں۔

بڑے بڑے میڈیا ادارے اے آئی کے ذریعے ڈیٹا اینالیسز کرسکتے ہیں

چائنہ سے آرٹفیشل انٹیلیجنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ثاقب عالم نے اس حوالے سے کہا کہ آجکل کے دور میں اے آئی میڈیا میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی کے الگوردم سے فیک نیوز کی پہچان ہوتی ہے چاہے وہ پرنٹ میڈیا میں ہو، الیکٹرانک میں یا سوشل میڈیا پر ہو۔ ڈاکٹر ثاقب عالم کے مطابق اے آئی کے ذریعے آرٹیکلز وغیرہ آٹومیٹکلی جنریٹ ہوسکتے ہیں جس کی زندہ مثال چیٹ جی پی ٹی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کو ہم جو بھی کہیں تو وہ ہمیں لکھ کے دے سکتا ہے یا اس حوالے سے بہت زیادہ معلومات دے سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ مختلف زبانوں کا ترجمہ بھی باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ ہم اردو کا پشتو، انگلش، فارسی اور باقی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہیں اس طرح انگلش کو اردو، پشتو اور باقی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہیں یہ سب آرٹفیشل انٹیلیجنس کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

ڈاکٹر ثاقب عالم کے مطابق بڑے بڑے میڈیا ادارے اے آئی کے ذریعے ڈیٹا اینالیسس کرسکتے ہیں اور اس ڈیٹا سے مفید معلومات کو علیحدہ کرسکتے ہیں اور ساتھ میں ڈیٹا سیٹس تخلیق کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی ڈریون ٹولز کے ذریعے گرائمر کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے اگر کوئی آرٹیکل لکھتا ہے تو اس سے انکو بہت زیادہ فائدہ مل سکتا ہے اس کے ذریعے وہ ایک بہترین غلطیوں سے پاک آرٹیکل یا سٹوری لکھ سکتا ہے۔

اے آئی کے ذریعے ڈیپ فیک کا استعمال

انہوں نے کہا کہ اے آئی کا میڈیا میں غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ ڈیپ فیک کے ذریعے اس کا ایسا استعمال کیا بھی گیا ہے۔ ڈیپ فیک میں چہرہ کسی اور کا ہوتا ہے جبکہ آواز بھی کسی اور ہوتی ہے اور اس کو کسی کے ساتھ بھی جوڑا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ اس کے ذریعے مختلف قسم کی ویڈیوز بھی بنائی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ثاقب عالم نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اے آئی کو میڈیا میں بروئے کار لایا جارہا ہے۔ چائنہ کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں پر ایک مصنوعی ذہانت والی اینکر جس کا نام شی جاو پنگ ہے وہ نیوز پڑھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین صحافیوں کی تعداد بہت کم ہے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم مستقبل میں نیوز اینکرز اور رپوٹرز کو بنا سکتے ہیں اور اس کو کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

اے آئی سے میڈیا کے کام کو مزید فروغ ملے گا

پشاور سٹی یونیورسٹی میں سافٹویئر انجنیئرنگ کے طالبعلم اور اے آئی پرکام کرنے والے محمد حسیب کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے اور اڑتیفشل انٹیلیجنس بھی وقت کے ساتھ ہر ایک شعبے میں داخل ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی سے میڈیا کے کام کو مزید فروغ ملے گا۔ مثال کے طور پر ایک اینکر یا رپورٹر کو نیوز کے ساتھ باقی کام بھی کرنے ہوتے ہیں، کھانا بھی کھانا ہوتا ہے زندگی کے باقی کام اور ذمہ داریاں بھی سنبھالنا ہوتی ہے تو وہ اتنا فوکسڈ نہیں ہوتا وہ 24 گھنٹے صرف نیوز کا کام نہیں کرسکتا اس کے برعکس اگر اے آئی کے ذریعے میڈیا میں کام کرنا ہوا تو وہ کمپیوٹرز کے ذریعے ہوگا اور مصنوعی ذہانت والے اینکرز اور رپورٹرز کے لیے 24 گھنٹے کام پر فوکس رکھنا ممکن ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی کے ذریعے صحافیوں کا کام آسان ہوجائے گا آنے والے وقتوں میں۔ محمد حسیب کے مطابق اے آئی کے ذریعے یہ بھی ممکن ہوسکے گا کہ نہ صرف ٹویٹ کا نوٹیفیکشن آیا کرے گی بلکہ ٹویٹ کس سینس میں ٹویٹ کیا گیا ہے یہ بھی پتہ چل سکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اے آئی کے ذریعے سے کسی بھی زبان کا علاقائی زبان میں ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور نہ صرف ترجمہ ہوسکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے وائس اوور بھی مقامی زبان میں سنی جاسکتی ہے جس سے سننے اور دیکھنے والے اچھے طریقے سے سمجھ سکیں گے۔

خواتین کے لیے اے آئی ٹولز سیکھنا کتنا فائدہ مند

پشاور سے تعلق رکھنے والی فری لانسر ثمر سید نے اس حوالے سے بتایا کہ وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں بھی جدت آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آجکل آرٹفیشل انٹیلی جنس کا دور ہے اور اگر خواتین میڈیا میں کام کرنا چاہتی ہیں یا فری لانسنگ کے ذریعے کمانا چاہتی ہیں تو انکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ آرٹفیشل انٹیلی جنس ٹولز کو سیکھیں۔

ثمر کے مطابق اے آئی ٹولز سے صحافیوں کا کام آسان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے ایک تو تصاویر کام کے مطابق بنائی جاسکتی ہیں دوسرا اس سے رپورٹرز کو کالم اور سٹوری لکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ثمر نے بتایا کہ اگرچہ اے آئی کی وجہ سے کام کو آسان تو کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کبھی بھی انسانوں کی جگہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ اس سے میڈیا میں کام کرنے والوں کی نوکریاں ختم ہو۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ چینلز نے اے آئی اینکرز کو متعارف تو کروایا ہے لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر انسانوں کی جگہ نہیں لے سکتی کیونکہ اس ٹیکنالوجی کو انسانوں نے ہی بنایا ہے۔ ثمر نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی خواتین اگر اے آئی ٹولز کو سیکھیں اور میڈیائی ادارے انکو جابز دیں تو اس سے میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھ سکتی ہیں اور انکو فائدے مل سکتے ہیں۔

خالدہ نیاز نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی ہے جو پشاور میں صحافتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ۔ انہوں نے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے اور نوسالوں سے اس فیلڈ میں ہیں۔ وہ خواتین، مذہبی آزادی، بچوں کے حقوق اور موسمیاتی تبدیلی کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔  

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.