Blog Archives

October 4, 2023 - Comments Off on ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور خواتین کی صنفی شناخت

ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور خواتین کی صنفی شناخت

Saadia Mazhar

کیا آپ کے پاس سمارٹ فون ہے؟ کیا آپ انٹرنیٹ کا استعمال بھی کرتی ہیں؟ ایک ایسے دور میں جہاں تکنیکی ترقی ہماری زندگی کے ہر پہلو کو تشکیل دے رہی ہے۔ اس طرح کے سوال پر سامنے والا آپ کو حیرت سے ضرور دیکھے گا۔ اور شاید یہ بھی سوچے کے آپ نے یہ سوال شاید معاشرے میں اس کی امتیازی حیثیت دیکھ کر کیا ہے۔

امتیازی حیثیت! معاشرہ مختلف طبقات ، معاشرت اور فکر کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور یہ امتیاز معاشرے میں انسانی حیثیت کا تعین بھی کرتا ہے۔  تو کیا ٹیکنالوجی میں بھی کسی قسم کا صنفی یا طبقاتی امتیاز پایا جاتا ہے؟

اس سوال کو سمجھنا قدرے مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی ترقی کو 2020 میں کووڈ 19 کے آنے کے بعد اشد ضرورت سمجھ کر زندگیوں کا حصہ بنایا گیا۔ نوکریوں کی کمی، انڈسٹری کے بند ہونے اور شدید معاشی بحران نے ہر طبقے کو نئے سافٹ وئیر ، مہارتیں اور  پلیٹ فارمز کو جاننے اور روزگار کا ذریعہ بنانے پر مجبور کر دیا۔ لیکن ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے اور کس طرح کا امتیازی رویہ رکھ سکتی ہے یہ سمجھنے کی کوشش اب تک لاحاصل رہی۔

کیا آپ بھی گاڑی چلاتے ہیں؟ پاکستان میں گاڑی چلانے والوں میں 95 فیصد مرد جبکہ صرف 5 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔ کاروں میں سیٹ بیلٹ،  ہیڈ ریسٹ اور آئر بیگز کی مثالیں لیں۔ جنہیں بنیادی طور پر مردوں کے جسم اور ان کے بیٹھنے کی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے کار حادثے کے ڈمی ٹیسٹ سے جمع کیے گئے ڈیٹا کی  بنیاد پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ خواتین کی جسمانی ساخت اور حاملہ جسم کو اس معیاری پیمائش کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ نتیجے کے طور پر خواتین کا ایکسیڈنٹ میں شدید متاثر ہونے کا امکان 47 فیصد زیادہ ہے اور اسی طرح کے حادثے میں مرد کے مقابلے میں موت کا امکان بھی 17 فیصد زیادہ ہے۔

یہ مثال ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں صنفی امتیاز کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں اس اہم مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت( اے آئی )کے شعبے میں خواتین کی تعداد صرف 22 فیصد جب کہ مردوں کی تعداد 78 فیصد ہے۔ اس سیکٹر میں خواتین کی کم نمائندگی نہ صرف صنفی مساوات میں بڑی رکاوٹ ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا میں خواتین کی زندگیوں اور ان کے پیشہ وارانہ مقام کے لیے بھی گہرے خطرات پیدا کرتا ہے۔

فرحت بشیر ، سیراب میپ کی فاونڈر ہیں اور پچھلے 12 سال سے اسی فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔ فرحت نے بلوم برگ کی ایک ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق فیس بک اور گوگل میں 2 فیصد سے بھی کم سیاہ فام ملازمیں ہیں جبکہ تکنیکی پوزیشنز پر صرف 20 فیصد خواتین تعینات کی جاتی ہیں۔ عالمی سطح پر سائنس ، ٹیکنالوجی اور ریاضی کے شعبوں میں خواتین صرف 25 فیصد ہیں اور لیڈرشپ میں صرف 9 فیصد۔ فرحت پھر بھی پر امید ہیں کہ سٹیم اور مصنوعی ذہانت نے پاکستان میں خواتین کے لیے معاشی خودمختاری کے بہت مواقع پیدا کیے ہیں۔

فرحت نے اینٹرپینیورشپ پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ چھوٹے چھوٹے کاروبار جنہیں خواتین اپنے ہنر سے چلا رہی ہیں ، ٹیکنالوجی کے بغیر نا ممکن تھے۔ یہ ٹیکنالوجی صنفی امتیاز کیسے رکھتی ہے یہ بہت گہری بات ہے جسے ہمارے ملک کی خواتین کبھی سمجھ نہیں سکتیں کیونکہ یہاں سب سے اہم مسئلہ ان کے لیے معاشرتی طور پر بنائی گئی حدود میں رہ کر معاشی خودمختاری حاصل کرنا تھی جو ٹیکنالوجی نے انہیں فراہم کر دی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق  دنیا بھر میں 37 فیصد خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں اور مردوں کے مقابلے میں  259 ملین کم خواتین کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں خواتین اکثر غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں اور تمام شعبوں میں زیادہ کمزور ہوتی ہیں۔

یونیسکو کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق سیری ، الیکسا اور کورٹانا جیسے ورچوئل اسسٹنٹ کا خواتین کی آواز میں لانچ ہونا محض  اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان ورچوئل اسسٹنٹس کو لانچ کرنے والی کمپنیوں کا اثر ہے جس میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں ذاتی معاونین اور سیکڑیٹریز کی اکثریت خواتین کی ہے۔

صنفی تعصب کو مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی میں سمجھنا اس لیے بھی بہت مشکل ہے کہ اسے الگورتھم کے ذریعے سمجھنا ہوتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے شعبے میں 78 فیصد مرد ہیں جو الگورتھم کو چلاتے اور کمانڈز ڈالتے ہیں۔ اس لیے  الگورتھم کا صنفی تعصب خواتین کے لیے اہم منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان لائن جاب میں عموماً یہی الگورتھم خواتین کی درخواستوں کی صنفی امتیاز کے ذریعے درجہ بندی کر کے ان کے نوکری کے حصول کو متاثر کرتا ہے۔

پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئی ٹی ورک فورس میں خواتین کا حصہ صرف 14 فیصد ہے۔ ٹیک انڈسٹری میں خواتین کی یہ نمائندگی ایک چیلنج ہے ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آئی ٹی سے متعلقہ کورسز میں داخلہ لینے والی خواتین کی تعداد 2014 میں صرف 24 فیصد تھی جبکہ 2018 میں بڑھ کر 37 فیصد ہوئی،  کووڈ 19 کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جہاں ارا،  پاکستان سافٹ وئیر ہاوسز ایسوسی ایشن( پاشا) کی صدر ہیں اور پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں نہ صرف خود کو منوا چکی ہیں بلکہ دیگر خواتین کے لیے بھی بہتر سے بہتر مواقع پیدا کر رہی ہیں۔

جہاں ارا اپنے بلاگ میں خود کو ایک عام ذہنی قابلیت رکھنے والے شخص سے تشبیہ دیتی ہیں جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں پاشا جیسے بڑے ادارے کو بنانا اور لیڈ کرنا عورت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ جہاں ارا نے نہ صرف پاکستان میں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی میں خواتین کے لیے جگہ بنائی بلکہ انہوں نے اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسے ٹیک پروگرام شروع کیے جن کی مدد سے ملک میں سے خواتین اور بچیوں پر تشدد کو ختم کیا جا سکے۔

رمشا سوجانی،  گرلز ہو کوڈ کے نام سے ایک آرگنائزیشن چلا رہی ہیں جس میں بچیوں کو کوڈنگ سکھائی جاتی ہے تاکہ ٹیکنالوجی میں صنفی امتیاز سے بہتر انداز سے نمٹا جا سکے۔

پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری میں تقریباً 41 فیصد خواتین 4 سے 15 سال تک کا تجربہ رکھتی ہیں لیکن مینجمنٹ لیول تک صرف 13 فیصد ہی پہنچ پاتی ہیں۔ وجہ صرف آئی ٹی انڈسٹری پر مردوں کا غلبہ ہے اور عورت کو عموماً سست رفتار کہہ کر مینجمنٹ لیول سے پہلے ہی ہٹا دیا جاتا ہے یا پھر خواتین خود ملازمت چھوڑ دیتی ہیں۔

پاکستان میں فری لانسنگ کے شعبے نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ پاکستانی وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اعدادوشمار شمار کے مطابق  فری لاسنگ کی وجہ سے 2022 میں 74۔2[1]  فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں پاکستان میں 3 ملین فری لانسر تھے۔

عالمی فری لانس انڈسٹری کی مالیت 5۔3 بلین ڈالر ہے اور پاکستان کی صنعت عالمی مارکیٹ کا 9 فیصد حصہ رکھتی ہے۔

Paynoeer اور  unworkable  کے مطابق خواتین پاکستان میں فری لانس مارکیٹ کا 47 فیصد حصہ ہیں جو کہ عالمی اوسط کے 35 فیصد سے زیادہ ہے۔

عاصمہ پچھلے سات سال سے اپ ورک اور فائیور پر ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ایس ای او ایکسپرٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ عاصمہ بتاتی ہیں کہ آغاز میں سب ہی کو کام ملنا مشکل ہوتا ہے لیکن خاص کر خواتین کے لیے بہت مشکل ہے۔

اگر ایک لڑکا یہی سکل 20 ڈالرز پر بیچتا ہے تو لڑکی کو 15 ڈالرز کی بڈ کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں یہ رویہ ہے کہ خواتین ٹیکنکیلی لڑکوں سے بہتر نہیں ہوتیں۔  ان لائن پلیٹ فارمز پر بھی ہمیں جاب ریکیمینڈیشن میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مگر یہ مشکلات پہلے ایک دو سال کی ہوتی ہیں اس کے بعد آپ پر آپکے کلائنٹ کا اعتبار بحال ہوتا جاتا ہے۔

عاصمہ مزید کہتی ہیں کہ میں اس وقت لیول 2 سیلر ہوں اور پاکستان میں فری لانس مارکیٹ نے خواتین اور بچیوں کو بہت با اختیار بنایا ہے لیکن صنفی امتیاز کا سامنا ہمیں نہ صرف ٹیکنالوجی کی سطح پر کرنا پڑتا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ہم مختلف اعزازات اور ایوارڈز سے محروم رہتے ہیں کیوں کہ ان پر مخصوص لوگوں کی اجارہ داری ہے۔

پاکستان میں خواتین انٹرنیٹ کی سہولت کا فائدہ تو اٹھا ہی رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان لائن ہراسانی اور تھریٹس بھی ان کی زندگیوں کو مشکل بناتے جا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا اضافہ ان خطرات کو مزید تقویت دے گا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے سے بنائی گئ تصاویر ، اور ڈیپ فیک کے ذریعے بنائی گئ وڈیوز اور اوازیں کام کرنے والی خواتین کی زندگیوں کو مزید خطرات کی طرف دکھیل رہی ہیں۔

روشن شیخ ایک مشہور پروڈکٹ ڈیزائنر اور کنسلٹنٹ ہیں جن کا ایک دہائی کا کارپوریٹ تجربہ ہے۔

 انہوں نے الجزیرہ اور یونائیٹیڈ نیشن کے لیے کام کیا ہوا ہے۔ روشن ٹیکنالوجی اور اے آئی میں صنفی امتیاز پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین کا انٹرنیٹ سیکھ جانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس وقت صرف موبائل اور انٹرنیٹ نے خواتین کے کیے دنیا کو سمیٹ کر انکی مٹھی میں رکھ دیا ہے۔ دیہات میں بیٹھی بچیاں بھی مختلف طریقوں سے اپنے کام کو بیچ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں اس صنفی امتیاز کو ختم کرنا بہت بڑی کامیابی ہے اور پاکستان میں خواتین کو ڈیجیٹلی ایمپاور کرنے کے لیے بہت سی خواتین اس میدان میں کام کر رہی ہیں۔

روشن نے فری لانسنگ پر بات کرتے ہوئے اس بات کی تائید کی کہ ایمازون کا الگورتھم صنفی امتیاز کا شکار ہے اور بات صرف صنفی امتیاز تک محدود نہی اس طرح کے سب ایلگورتھم سیاہ اور سفید ، بچوں اور بڑوں کے حوالے سے بھی تفریق رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ شاید ان سب چیزوں پر قابو پا لیا جائے۔

روشن سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں عورت کی پہلی مشکل خود کو معاشی خودمختاری دلانا ہے اور اس کے بعد اہم مسائل میں خواتین کو ان کی اہلیت کے مطابق عہدے نہ دینا ہے جبکہ تیسرا بڑا مسئلہ مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ کا ہے کیونکہ ہم اب تک اس تصور سے ہی باہر نہیں ا سکے کہ عورت آئی ٹی،  مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں مردوں کے مقابل یا ان سے زیادہ تعلیم و تجربہ بھی رکھتی ہے۔ یہاں اصل صنفی جنگ یہ ہے جسے ہم وقت کے ساتھ ساتھ ضرور جیتیں گے

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.