Blog Archives

July 4, 2023 - Comments Off on معیشت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کا کردار:مواقع اورمشکلات

معیشت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کا کردار:مواقع اورمشکلات

انیلہ اشرف

اپنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں بلکہ باشعور اور بااعتماد ہونا ضروری ہے۔ صنف اور جنس کی تفریق سے بالاتر ہوکر خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع دیئے جائیں اور ٹیکنالوجی پر ان کا بھی حق تسلیم کرلیا جائے توخواتین پاکستان اور اپنے خاندانوں کی معاشی حالت بدل سکتی ہیں۔ اس کی مثال پرائمری پاس شہناز پروین حنیف ہے،جو آج سے چند سال قبل تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ ایک دن وہ اپنے کام کو منواتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر الگ پہچان بنائے گی اور نہ صرف اپنے گھریلو حالات بہتر کرے گی بلکہ اپنے جیسی ہنرمند خواتین کے روزگار کا ذریعہ بنتے ہوئے پاکستان کی معیشت میں بھی حصہ دار ہو گی۔ فاروق پورہ ملتان کی رہائشی شہنازپروین حنیف نےراقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ  گھریلوحالات کے باعث پانچویں کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکی ہے،اس کا شوہر درزی ہے جس کا ہاتھ بٹانے کیلئے وہ کبھی کبھار کڑھائی کرتی تھی، جس کے بعد اسے اپنا کام کرنے کا خیال آیا، جس کیلئے ابتدائی طور پر کمیٹی ڈالی کہ کچھ رقم جمع ہوجائے تاکہ وہ اپنا شوق پورا کرنے کیلئے آزادانہ اپنا کام کر پائے ،اس کے لئے جب کمیٹی نکلی تو مارکیٹ جاکر کپڑا ،دھاگااور دیگر ضروری اشیاءخریدیں ،چھاپہ لگوایا اور سامان کی خریداری کرتے ہوئےکام شروع کردیا۔ سوٹ تیار ہونے پر شوہر نے سلائی کردی ،تاہم سوال یہ تھا کہ انہیں کہاں اور کیسے جاکر فروخت کیا جائے۔اس کیلئے بہت تگ ودو کرنی پڑی، بہت عرصہ تک اشیاء فروخت ہی نہیں ہوئی، پھر ایک دن شوہر نے کہا سامان اٹھاؤ اور بازار چلو وہاں جاکر کچھ دکانوں پر کپڑے دیئے پھر کسی نے دوسری جگہ بتائی کہ وہاں جائیں ۔شہناز کا کہناہے کہ تعلیم کی کمی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی مگر حوصلہ نہیں  ہارا ،پھر سنا تھا کہ لوگ آن لائن اپنے کپڑےاور دیگر چیزیں بیچتے ہیں تو کوشش کی کہ بٹنوں والے موبائل کی بجائے کوئی تصویر بنانے والا موبائل لوں مگر رقم نہیں ہونے کی وجہ سے پریشانی ہوئی ،بہت مشکل سے پیسے اکٹھے کرکے موبائل فون لیا اور خان بوتیک کے نام سے آن لائن کپڑے اور باقی چیزیں کی فروخت کرنی شروع کردی، جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی تھیں مگر مجھے موبائل نہ تو ٹھیک سے استعمال کرنا آتا تھا اور نہ ہی مارکیٹنگ کا کچھ اتاپتا تھا ۔شہنازکہتی ہے کہ شوہر کے ساتھ اور محنت نے رنگ دکھایا اور ایک سال بعد کسی نے مشورہ دیا کہ ملتان میں  ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ممبر شپ ملنے پراسے دیگر خواتین کے ساتھ مختلف قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں ساتھ لے کر جائیں گےاور کاروبار کو منافع بخش بنانے کی تربیت بھی دیں گے، بس ممبر شپ لی اور گروپ میں شامل ہوگئی۔اس گروپ میں یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ کہاں کہاں نمائش لگنی ہے تو وہاں پہنچ جاتی تھی۔شہنازنے بتایاکہ اپنے کام کو منفرد اور جداگانہ بنانے کیلئے دستکاری کے ساتھ موتی کے کام میں الگ پہچان بنائی اور ایسی اشیاء تیار کیں ،جو بڑے گھروں کی خوبصورتی کو نمایاں کرتی تھیں۔ویمن چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ممبرشپ نے بہت فائدہ دیا میں جو خود کو ان پڑھ سمجھتی تھی آج نہ صرف اپنے خاندان کی معاشی حالت بہتر کیے ہیں بلکہ ای-کامرس کی وہ تربیت جو پڑھی لکھی خواتین بھی چھوڑ دیتی ہیں ،وہ مکمل کرکے اپنے کاروبار کو ترقی بھی دی ہے ۔اب یہ صورتحال  ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے خود آن لائن کام کرکے آرڈر لیتی ہوں جہاں ضرورت ہو شوہر کے ساتھ جاکر ڈلیوری دیتی ہوں ورنہ عموماً وہ بھی آن لائن ہوتی ہے۔

ویمن چیمبر آف کامرس کی ایگزیکٹوممبر فلزا ممتاز نے بتایا کہ اس وقت ویمن چیمبر آف کامرس ملتان  میں خواتین ممبران کی تعداد 342 ہے ،جن میں سے 50 ایسی خواتین ہیں جو آن لائن کاروبارسے وابستہ ہیں، ان میں  سے بیشتر ایسی خواتین ہیں جو پہلے گھروں میں بیٹھی تھیں اور کسی کاروباری یا صنعتکار گھرانے سےبھی تعلق نہیں رکھتی تھیں لیکن اپنے خاندان کا سہارا بننے اور خود کو معاشی طور پر مظبوط بنا کراپنی نئی نسل کے لئے ایک مثال بنی ہیں۔ اس حوالے سے چیمبر مزید خواتین کو جدید ٹیکنالوجی اور ای-مارکیٹنگ پر مختلف ٹریننگز کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے،تاکہ وہ گھر بیٹھے بآسانی اپنے کام کو فروغ دے سکیں۔انہی خواتین کے کام کوآگے بڑھا نے کے لئے ہر سال بلیوفیئر کا بھی انعقاد کیاجاتا ہے۔جس میں بہت سی معاشی و انتظامی مشکلات بھی درپیش رہتی ہیں،لیکن ان سب کو بھی خواتین مل کرحل کرتی ہیں۔

سابق صدر ویمن چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملتان کی سی ای او فیمیٹک سیرت فاطمہ نے راقم الحروف سے  بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ آن لائن بزنس میں زیادہ تر لوگ کورونا وائرس کی وبا کے دوران منتقل ہوئے۔ اس وبا کے دوران معاشی مشکلات، بے روزگاری بڑھنے اور کئی کاروبارختم ہونے کی وجہ سے لوگوں اور خواتین کی جانب سے گھروں میں کام شروع کرنے پر انہوں نے بھی جدید دنیا سے ہم آہنگ ہونے اور خواتین کی آن لائن کاروبار میں حوصلہ افزائی کے لئے 2020ء میں انہوں نے خود کئی آن لائن کورس کئے اور2021ء میں فیمیٹک کو رجسٹر کرایا کیونکہ آن لائن کاروبار میں آپ کی انویسٹمنٹ بہت کم ہوتی ہے جو خواتین کیلئے بہترین موقع ہے۔خصوصاًسوشل میڈیا مارکیٹنگ  نہایت آسان ہے۔آرڈر آنے پر آپ چیز ایک سے اٹھا کر دوسرے کو ڈیلیور کر دیتے ہیں ،دوسرا ایسی خواتین جنہیں گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے وہ گھر میں بیٹھ کر کما سکتی ہیں۔تاہم گھر میں بیٹھے ہوئے کام پر مکمل فوکس کرنا ایک چیلنچ ہوتا ہے ۔دوردراز کے علاقوں میں رسائی بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ کورئیر سروس وہاں موجود نہیں ہے،دوسرا ای- کامرس میں انٹر نیٹ کی رفتاربہترین چاہیئے ہوتی ہے جو ہمارے یہاں نہیں ہے۔سیرت فاطمہ نے بتایاکہ فیمیٹک کے پلیٹ فارم سے نوجوان بچیوں کو ای- کامرس کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے ،تاکہ آنے والے دنوں میں وہ معاشی طورپر مظبوط ہوکر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔

شہناز پروین حنیف  نے مزید بتایا کہ ٹیکنالوجی کا سوچ سمجھ کر اور مثبت استعمال خواتین کی زندگیوں کا رخ بدل دیتا ہے،وہ نہ صرف اپنا کاروبارچلاتی ہیں بلکہ غیر ملکی نمائشوں کیلئے اب اپلائی بھی خود کرتی ہے اور اپنے چیمبر کی ساتھیوں کے ساتھ سفر بھی کرتی ہیں،تاکہ زمانے کے بدلتے ڈھنگ دیکھ کر اپنے کام میں مزید بہتری لاسکیں۔ان نمائشوں میں اس کے کام کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند سالوں سے نہ صرف وہ پاکستان کی معیشت میں حصہ ڈال رہی ہے بلکہ اپنے جیسی ہنرمند اور باصلاحیت 20 مزید خواتین کے گھروں کی خوشحالی اور چولہا جلانے کا سبب بھی ہے کہ کبھی اسے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ یہ کام بھی کر رہی ہے۔اگر خواتین پر اعتماد کیا جائے تو وہ خاندانوں اور ملک کی قسمت بدل سکتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان خصوصاً جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ خطے میں یہ کم نظر آتا ہے۔مگر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ای-کامرس میں خواتین ہی  چھائی ہوئی ہوں گی۔

آن لائن کاروبار میں حصہ ڈالنے والی خواتین اور ان کے ساتھ پس پردہ موجود ہنرمند خواتین کی مشکلات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےشہنازپروین حنیف نے بتایاکہ کام میں اکثر مشکلات درپیش ہوتی ہیں کیونکہ کبھی ہنرمند خاتون پر شوہر پابندی لگا دیتے ہیں تو کبھی والدین اور سسرال والے ان کے کام میں رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں ،اس طرح کی دقت اکثر سامنے رہتی ہے کیونکہ ہمارے خطہ میں آج بھی خواتین کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا معیوب تصورکیاجاتا ہے۔گھر کے مرد چاہتے ہیں کہ عورتیں اپنی صلاحتیوں کا استعمال کرنے کی بجائے بس جو خود کما کر لائیں ،اسی پر گزارا کیا جائے ،یہ خواتین بچے پالیں ،ان کی خدمت کریں اور دو وقت کی روٹی کھائیں، زندگی بھر کیلئےبس یہی بہت ہے۔پھر میں ان کاریگر اور ہنر مند خواتین کو چھپ کرکام دیتی ہوں جو وہ اپنے گھروں میں بھی کرتی رہتی ہیں کیونکہ اب ہمارا کام بہت بڑھ گیا ہے اور کلائنٹ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ہم بھی معاشرے کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔اس کام میں اب میرا پورا خاندان ساتھ دے رہا ہے۔ ہینڈمیڈ   کشن،بیگز،موتی والے کلچ،ٹیبل میٹ،ٹشو کور اور آرائشی اشیاء کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں موبائل صارفین کی تعداد 19 کروڑ تک پہنچ گئی ہے جس میں 14 کروڑ مرد جبکہ خوتین صرف 5کروڑ ہیں۔ اسی طرح موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 11 کروڑ ہے جس میں 9 کروڑ کے قریب مرد اور دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد خواتین صارفین ہیں۔ پاکستان میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایکٹو سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سات کروڑ ہے تاہم فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر مردوں اور عورتوں کے درمیان 47 سے 78 فیصد فرق پایا جاتا ہے۔  پاکستان میں عورتوں کے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، تاہم چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں یہ رجحان آج بھی انتہائی کم ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ 20 لاکھ موبائل سمز خواتین کے بائیو میٹرک کی تصدیق کے ساتھ حاصل کی گئی ہیں۔ جن میں سے 50 فیصد یعنی دو کروڑ 60 لاکھ تھری-جی یا فور جی انٹرنیٹ بھی استعمال کر رہی ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں مردوں اور عورتوں کے درمیان موبائل انٹرنیٹ کے استعمال کا فرق 16 فیصد تک ہے۔ یعنی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں عورتوں کے مقابلے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مردوں کی تعداد 16 فیصد زائد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 38 فیصد ہے۔پاکستان میں چار بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ سے زائد بنتی ہے تاہم ایک صارف بیک وقت دو سے تین پلیٹ فارمز پر بھی موجود ہے۔ یوٹیوب کے سب سے زیادہ صارفین ہیں جن کی تعداد 7 کروڑ 17 لاکھ ہے۔ جن میں سے 72 فیصد مرد جبکہ 28 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 61 فیصد بنتا ہے۔ فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ 71 لاکھ ہے جن میں سے 77 فیصد مرد اور جبکہ 23 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 70 فیصد تک بتایا جاتا ہے۔ ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد ایک کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 82 فیصد مرد اور 18 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 78 فیصد بنتا ہے۔ انسٹا گرام پر صارفین کی تعداد میں سب سے کم فرق ہے جو کہ 47 فیصد ہے۔ انسٹا گرام کے پاکستانی صارفین کی تعداد ایک کروڑ 38 لاکھ ہے جس میں سے65 فیصد مرد اور 35 فیصد خواتین۔

موبائل انٹرنیٹ آنے سے دنیا بھر میں برانچ لیس بینکنگ کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور پاکستان میں بھی برانچ لیس بینکنگ میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن گزشتہ چار سال کے دوران موبائل کے ذریعے برانچ لیس بینکنگ کے حوالے سے مردوں اور عورتوں کے اکاونٹس میں فرق میں صرف 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چار سال پہلے کل چار کروڑ 60 لاکھ اکاؤنٹس تھے جن میں سے 3 کروڑ 60 لاکھ مردوں جبکہ عورتوں کے اکاؤنٹس ایک کروڑ تک تھے۔ اب یہ تعداد بڑھ کر 8 کروڑ 85 لاکھ ہو چکی ہے جن میں سے 6 کروڑ 37 لاکھ مردوں کے جبکہ دو کروڑ 48 لاکھ خواتین کےہیں۔

سائبر کرائم قوانین کےماہرایڈووکیٹ محمد ارسلان کے مطابق ملک میں قانون سازی کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں،بالخصوص سائبرجرائم نے خواتین کا جینا حرام کر رکھاہے۔آن لائن کاروبارکرنے والی خواتین کو بہت زیادہ تنگ کیاجاتاہے،انہیں آرڈر دے کر پھر وصول کرنے سے انکار کرکے پریشان کرنے کے ساتھ معاشی طور پر نقصان پہنچایاجاتاہےیا پھر غیر اخلاقی میسجز کیے جاتے ہیں،جس سے یہ خواتین پریشانی کاشکار رہتی ہیں،لیکن معاشرتی اور خاندانی دباؤکے باوجود آن لائن کام جاری رکھنے کے غرض سے وہ یہ شکایت بھی نہیں رکھتی ہیں اور مجرم شہہ پاتے ہیں،اگر خواتین قانونی کارروائی کرنے کا ٹھان کر آجائیں توطویل عدالتی کارروائی اورقانونی موشگافیوں سےگھبرا کر اپنی شکایات ہی واپس لے لیتی ہیں۔

سپیشل عدالت سنٹرل (ملتان)جس کا دائرہ کارتقریباًجنوبی پنجاب ہے اور ایف آئی اے میں درج مقدمات کی سماعت بھی اسی عدالت میں کی جاتی ہےکے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 6ماہ میں خواتین کی جانب سے سائبر جرائم کی 130 شکایات درج کرائی گئیں ، جن میں سے 57 مقدمات کے چالان مکمل کرکے سپیشل عدالت بھجوائے گئےجہاں یہ مقدمات ابتدائی سطح پر ہیں،اس کے علاوہ پہلے سے 387 مقدمات بھی زیرالتواء ہیں ،جو کم و بیش ایک سے 3 سال پرانے ہیں۔

آن لائن بیکری چلانے والی خاتون سارہ دانش کے مطابق اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ  کوئی کام کرے گی کیونکہ ماسٹرز کرنے کے بعد شادی ہوگئی اور سسرال و بچوں کے جھمیلوں میں دنیا کا ہوش ہی نہیں تھا۔بعد ازاں میرے شوہر جو فارما سوٹیکل شعبہ میں کام کرتے تھے ،وہ بیروزگار ہوئے تو اپنی دکان کھول لی، تاہم انہی دنوں میں کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا،اب دکان کا کرایہ تو دینا ہی تھا۔ سب سے پہلے شوق میں ایک کیک بنایا اور ایک فوڈ گروپ میں لگا دیا۔ جس پر میرا شوہر بھی ناراض ہوا کہ اپنا موبائل نمبر پبلک کیوں کیا، لیکن  جب آرڈر ملنے شروع ہوئے تو اس نے بھی ساتھ دیا ۔تاہم اپنے ہی رشتوں سےپہلے تنقید شروع ہو گئی اور کام بند کرنے کے لئے سسرالی ومیکے کے رشتوں کو مجبورکیا گیا لیکن اس نے کام بندکرنے سے انکار کیا جبکہ شوہر بھی اس کی لگن اور محنت دیکھ کر کامیاب ہونے کے امکان کے پیش نظرخاموش رہا،پر جب یہ سننے کو ملتا تھا کہ بیچاری کام کر رہی، حالات کی خرابی نے مجبور کردیا ہے تو دکھ بھی ہوتا ہے۔عورت اگر مشکل میں شوہر اور گھر کا سہارا بنے تو معیوب نہیں ہے ۔ایسی حوصلہ شکنی ذہنی طور پر پریشان رکھتی ہے۔آج اس کے بنائے ہوئے کیک،پیسڑیز اور دیگر اشیاء کی ڈیمانڈ اس قدر ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور ہنرمند خواتین کا اضافہ کرنے کا سوچ رہی ہیں۔

آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن(اپواء)کی جنرل سیکرٹری نازیہ خان کاکہنا ہے کہ دیہاتوں میں موجود ہنرمند خواتین آن لائن کاروبارکے منافع کی اصل حقدار ہیں،جن کی کمائی سے خریدے گئے اینڈرائیڈ موبائل فون گھر کے مردوں کو تو رکھنے کی اجازت ہے لیکن ان خواتین کی انٹرنیٹ تک رسائی گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے یہ ہنرمند خواتین اپنے حق سے محروم رہتی ہیں اور انہیں کمائی کا اصل حصہ نہیں ملتا ہےاور نہ ہی ان کو ان کی محنت کاپورا صلہ ملتاہے ۔ اس لئے ایسی خواتین کے لئے ان کی تنظیم کام کررہی ہے اور تربیت کے ساتھ مواقع بھی فراہم کررہی ہے۔

اگر پاکستان جیسے ترقی پزیر اور خواتین کے لئے مشکل حالات رکھنے والے ملک میں شہناز کی طرح خواتین حوصلے اور جرآت کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے ساتھ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں تو سینکڑوں ایسی خواتین مل کر معیشت کی بہتری کے لئے مثال بننے کو تیار ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی خواتین کو معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کے لئے مثال بنایا جائے۔ جس کے لئے انہیں آسان اقساط پر بلاسود قرضے فراہم کئے جائیں اور انہیں کاروبار کرنے کے لئے تربیت دینے کے ساتھ بیرون ممالک ان کی بنائی اشیاء فروخت کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں،جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن بنائی جائے تو شاید اس ملک کی ہر خاتون جو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور رکھتی ہے، صرف تربیت اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کےمواقع فراہم ہونے سے نہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی بلکہ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار بھی نبھا سکتی ہے۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.