Blog Archives

July 4, 2023 - Comments Off on سوشل میڈیا انفلوئنسرز مختلف لوکل میینیو فیکچرنگ صنعتوں کے کاروبار میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں

سوشل میڈیا انفلوئنسرز مختلف لوکل میینیو فیکچرنگ صنعتوں کے کاروبار میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں

 زنیرہ رفیع

سوشل میڈیا  اور "انفلوئینسرز" نہ صرف ملک میں ڈیجیٹل منظر پر

 غلبہ حاصل کر رہے ہیں بلکہ کمپنیوں اور تنظیموں کے لیے کروڑوں روپے کی آمدنی پیدا کر رہے ہیں، جو اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے اور روزمرہ کے صارفین سے منسلک رہنے کے لیے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا سہارا لے رہے ہیں

سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف روایتی اشتہاری طریقوں جیسے کہ ٹی وی، پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے، بلکہ بہت تیزی سے پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی کاروبار کے مواقعوں کو بڑھا رہا ہے ۔ ڈیجیٹل دنیا کے موجودہ دور نے ہر چیز کو ایک  کلک کے ماتحت کر دیا ہے۔ اور جیسا کہ مستقبل کی قوت خرید نوجوانوں کے پاس ہے، کاروباری افراد اب اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ  انسٹاگرام، فیس بک یا ٹک ٹاک  انفلوئینسرز کے ذریعے ان کے کاروبار کو فروغ ملے گا۔

کرونا وبا کے دوران خواتین انفلوئنسرز نے نہ صرف چھوٹے کاروباروں سے فروخت کے رجحان میں اضافہ کیا ہے بلکہ نئے کاروباری لوگوں کو بھی آن لائن انڈسٹری سے متعارف کروایا ہے-

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پاکستانی صارفین پر بہت گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ پاکستان کی واحد انفلوئینسر مارکیٹنگ کمپنی ’’ولی‘‘ کی 2021 سے 2022 کی  ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار سے زائد مارکیٹنگ مہمات چلائی گئیں جنکا مشترکہ ہدف 500 ملین سے زائد تھا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کتنا اثرانداز ہورہا ہے-

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستانیوں کے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 217.1 ملین پروفائلز ہیں، جن میں سے 70.1 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین ہیں۔

ولی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین انفلوئینسرز کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والی خواتین برانڈز کے لیے زیادہ پیسہ اورخریدار لاتی ہیں خاص طور پر ان برانڈز کے لیے جو فیشن یا طرزِ زندگی سے متعلق مصنوعات اور خدمات کو  فروخت کرتی ہیں۔  رپورٹ کے مطابق پاکستانی سوشل میڈیا اسٹارز کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ہم منصبوں پر برتری حاصل ہے،کیونکہ  وہ نہ صرف کثیر لسانی، متنوع شکل و صورت رکھتے ہیں۔ بلکہ عالمی زبان(انگریزی) میں بات چیت کرنے کے قابل ہیں، جو خاص طور پر پڑوسی مشرق وسطیٰ کے خطے کے حریفوں کے پاس نہیں ہے ۔ اور اگر قومی سطح پر پاکستانی انفلوئینسرز کی حوصلہ افزائی کی جائے، تو پاکستان اپنے سوشل میڈیا انفلوئیسرز کے ذریعے غیر ملکی صارفین کو بھی متوجہ کر سکتا ہے۔ اور پاکستان میں ایک بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کے ذخائر لا سکتے ہیں

 ولی کمپنی کی انفلوئینسر پرفارمنس لیڈ قرۃالعین فاطمہ راشد کہتی ہیں کہ ’ پاکستان میں کل کتنے انفلوئینسرز اس وقت موجود ہیں۔ اس کے متعلق صیحیح اعدادوشمار بتانا تھوڑا مشکل ہے۔ مگر کچھ مارکیٹنگ پلیٹ فارمز کے  اشتراک  کے مطابق مختلف اعداد و شمار موجود ہیں اور اس بنیاد پر ہمارا اندازہ ہے کہ اس وقت تقریباً 500,000 سے زیادہ فعال انفلوئینسرز مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔اور ولی کمپنی سے رجسٹرڈ انفلوئنسرز کی تعداد اس وقت تقریباً 1 لاکھ 58 ہزار ہیں, جہاں تک خواتین انفلوئنسرز کی بات ہے اگر مارکیٹنگ کیمپینز کو دیکھا جائے تو انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر ہے. جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین کتنا زیادہ مارکیٹنگ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئ بھی بڑا برانڈ اٹھا کر دیکھ لیں، خواتین ہی نظر آتی ہیں. کیونکہ فیشن انڈسٹری انفلوئنسر مارکیٹنگ پر بہت پیسہ لگا رہی ہے کیونکہ بہت سے انفلوئنسرز کے ملین میں فالورز ہیں اور اس طرح وہ برانڈ 3 گناہ سے بھی زیادہ پیسے کما رہے ہوتے ہیں

ثانیہ سعید فیشن اور لائف اسٹائل بلاگر ہیں جن کے 137 ہزار فالوورز ہیں، انہوں سے خواتین کے اکانومی میں کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین انفلوئنسرز اس وقت ہرچھوٹے اور بڑے برانڈ کے لیے کام کر رہی ہیں اور پچھلے کچھ عرصے میں خواتین انفلوئنسرز کا رجحان کافی زیادہ بڑھ چکا ہے. جو کہ ایک خوش آئند بات ہے، اور اس چیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین انفلوئنسرز اکانومی میں ایک بڑے پیمانے پر اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، مرد انفلوئنسرز، خواتین کے مقابلے میں بہت کم ہیں-

ہر انفلوئنسر کسی نہ کسی برانڈ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں. جس کی وجہ سے اس انفلوئنسر کے تمام فالورز تک پراڈکٹ کے بارے میں معلومات جاتی ہے. چھوٹے کاروبار جتنے بھی ہیں زیادہ تر نے سوشل میڈیا انڈسٹری میں خواتین انفلوئنسرز کی بدولت نام کمایا ہے، ایسے بہت سے کاروبار ہیں جنہوں نے زیرو سے شروع کیا تھا اور آج وہ برانڈ بن چکے ہیں اس میں خواتین انفلوئنسرز کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہے جتنا ان کی پراڈکٹ کا اچھا معیار ہے-

ایک سوال پر ثانیہ کہتی ہیں لوگ شاید سمجھتے ہوں گےکہ انفلوئنسر ہونا ایک بہت ہی آسان کام ہے جب کہ ایسا نہیں ہے انفلوئنسر کو ہر پراڈکٹ کو مختلف انٹرٹینمںٹ کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے، انہوں نے اپنی حالیہ سینیٹری پیڈز کی کیمپین کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ٹک ٹاک پر اس سینیٹیری پیڈ کی آگاہی دینے پر لوگوں نے گالیاں تک دی ہیں، تو انفلوئنسر ہونا اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ یہ سب چیزیں آپ کو دماغی طور پر تنگ کرتی ہیں

ایک اور سوال پر ثانیہ کہتی ہیں آج تک جتنے بھی برانڈز نے خواتین انفلوئنسرز کے سہارے مارکیٹ میں اپنا نام کمایا ہے اور آج انکا کاروبار ایک برانڈ بن چکا ہے تو اکانومی میں ان کا حصہ مانا  جاتا ہے جب کہ اس برانڈ کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ اس خاتون انفلوئنسر کو بھی جاتا ہے. اور براہ راست نہ سہی مگر بالواسطہ طور پر اس خاتون کا بھی ہماری معیشت میں اتنا ہی حصہ ہے-

ایمان شاہد عباسی لائف اسٹائل سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں جن کے انسٹاگرام پر 42 ہزار سے زائد فالورز ہیں کہتی ہیں کہ انہوں نے ابھی تک بہت سے چھوٹے کاروبار کی پراڈکٹس کو پروموٹ کیا ہے. کم از کم 35 سے 40 کے درمیان ایسے کاوروبا ہیں جن کے لیے وہ کام کر چکی ہیں جس کے بعد ان کی سیل میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا. کوشش رہی ہے کہ  چھوٹے اور نئے آنے والے بزنس کمیونٹی کو زیادہ سپورٹ کیا جائے تاکہ وہ ان کا بزنس آگے بڑھ سکے.

'اس سب میں میرے فالورز نے مجھے بہت سپورٹ کیا ہے کیونکہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کر کے ان پراڈکٹس کو استعمال کیا اور ہر کاروبار کو آگے بڑھنے میں میری مدد کی ہے'

ایمان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی انفلوئنسر کے لیے اپنے فالورز کا اعتماد جیتنا اتنا آسان نہیں ہوتا، مگر ایک بار آپ کے فالورز آپ پر یقین کرنا شروع ہوجائیں تو چیزیں آسان ہونے لگتی ہیں، لوگ انفلوئنسرز کی زندگی کو بہت اچھا سمجھتے ہیں کامنٹ باکس میں اتنی گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں مگر بہت سے لوگ آپ کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے انفلوئنسر کو ہر طرح کی زبان برداشت کرنی پڑتی ہے اور ہمیشہ لوگوں کو اس پراڈکٹ کی جانب راغب کرنے کے لیے ایک نئی طرح سے مارکیٹ کرنا پرتا ہے، تاکہ لوگ اسے دیکھیں، اور متاثر ہو کر خریدیں.

ایک سوال کے جواب میں ایمان نے بتایا کہ کچھ انفلوئنسرز بھی کہیں جگہ پر صرف پیسے کمانے کے لیے بری پراڈکٹ کو اچھا پیش کرتے ہیں جو کہ ایک نہایت ہی غلط حرکت ہے، 'میں سمجھتی ہوں کہ انفلوئنسر ہونا ایک بہت بڑی زمہ داری ہے جس میں ہر پراڈکٹ کا دیانتداری کے ساتھ ریویو دینا ہر انفلوئنسر کو اپنے پر فرض کر لینا چاہیے اور اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والے بھی بہت کاروبار خواتین انفلوئنسرز کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پرپہنچ چکے ہیں اور تقریباً 70 فی صد کاروبار کو آگے بڑھانے اور ان کی سیل میں اضافہ خواتین انفلوئنسرز کی وجہ سے ہی ہے، خاص طور پر فیشن انڈسٹری سے منسلک جو کاروبار ہیں'

نینا الیاس ایک فوڈ بلاگر ہیں، جن کے تقریباً 38 ہزار سے زائد فالورز ہیں بات کرتے ہوئے نینا نے بتایا کہ انہوں نے بے شمار چھوٹے کاروباروں کی چیزوں کو پروموٹ کیا ہے خاص طور پر ہوم بیسڈ کچن، جو خواتین گھروں سے اپنا کاروبار چلا رہی ہیں کہتی ہیں 2 سال کے بلاگنگ کے سفر  میں انہوں نے جتنے بھی کاروباروں کو پروموٹ کیا ہے ان کی جانب سے نینا کو ہمیشہ مثبت جواب ہی موصول ہوا ہے، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور کسی بھی کاروبار کو برانڈ بننے میں سوشل میڈیا کی مدد کی ضرورت ہے، اور سوشل میڈیا پر وہ تب ہی ترقی کر سکتے ہیں جب سوشل میڈیا انفلوئنسرز ان کے پراڈکٹس کو پروموٹ کرتے ہیں یوں ان چھوٹے بزنس کو مزید فروغ ملتا ہے. اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح خواتین انفلوئنسرز ہماری سوشل اکانومی میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کر رہی ہیں

فجز آئس کریم کے مالک وقار احمد کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار کو آگے بڑھانے میں کچھ بلاگرز کا بہت اہم کردار ہے- وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے کاروبار شروع کیا تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی مشہوری کروا سکیں مگر ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے ایک بلاگر کو چند ہزار دے کر اپنی آئس کریم کی مشہورکروائی، جس کے بعد ان کی سیل میں تھوڑا اضافہ ہوا، اور اس کے بعد انہوں نے دو سے تین مختلف خواتین بلاگرز کے ذریعے اپنی سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے پروموشن کروائی اور انہوں نے اپنا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بھی بنوایا جس کی شروعات زیرو سے تھی آج ان کے فالورز میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے-

"سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ذریعے میری آئس کریم کی ویڈیوز تقریباً 82  ہزار لوگوں تک پہنچی ہے، جو کہ مجھ جیسے چھوٹے کاروباری شخص کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے. جب لوگ آکر کہتے ہیں کہ ہم نے انسٹاگرام یا فیس بک پر آپ کی آئس کریم دیکھی تھی اور اسی لیے ہم کھانے آئے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے. ورنہ آج کے دور میں کاروبار کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے مگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے باعث ہم چھوٹے کاروبار جن کو کوئی نہیں جانتا، پھر لوگ جاننے لگتے ہیں "

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا کاروبار بھی چاہتا ہے کہ خاص طور پر خواتین انفلوئنسرز کے ذریعے اپنی پراڈکت کی پروموشن کروائی جائے تاکہ ان کی سیل میں اضافہ ہو اور ان کا کاروبار ترقی کرے۔

کراچی انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئ بی آے) کے پروفیسر اور اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن ڈاکٹر محمد ناصر نے بتایا کہ خواتین انفلوئنسرز کا اکانومی میں کتنا کردار ہے اس کے حوالے سے ابھی تک کوئی ریسرچ اسٹڈی نہیں ہوئی مگر دیکھا جائے تو خواتین انفلوئنسرز مارکیٹنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کسی بھی کمپنی کے لیے اب لازم ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کے لیے خواتین انفلوئنسرز کا انتخاب کریں کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لوگوں کا رجحان بڑھنے لگ گیا ہے. کیونکہ آجکل ہر دوسرا بندہ سوشل میڈیا پر ہے اور یہی وجہ ہے کمپنیوں نے مارکیٹنگ کے روایتی طریقوں کو ترک کرتے ہوئے انفلوئنسرز کے ذریعے پراڈکٹ مارکیٹ کروانا شروع کر دیا ہے اور کمپنیاں انفلوئنسرز کے فالورز کو دیکھ کر ریٹ طے کرتی ہیں جو کہ ٹی وی اور اخبار سے بہت کم ہوتے ہیں. جب انفلوئنسرز پراڈکٹس مارکیٹ کرتے ہیں تو کسی بھی کاروبار کی سیل میں اضافہ ہوتا ہے جس کے بعد ان کی پراڈکٹ کی مینوفیکچرنگ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ  بھاری بھرکم پیسے بھی کماتے ہیں اور جب ان خواتین انفلوئنسرز کے فالورز مختلف ممالک میں ہوتے ہیں تو پھر کاروبار اپنے دائرے کو بڑھا لیتے ہیں اور یوں ملک میں فارن کرنسی آنا شروع ہوتی ہے، اور نئے آنے والے کاروباری افراد کے لیے یہ ایک اچھی چیز ہے کہ وہ بہت ہی کم پیسوں میں اپنی پراڈکٹ کو مارکیٹ کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں-

اور جب انفلوئنسرز کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مونوٹائز ہوں تو ان کو ڈالر کے حساب سے پیسے مل رہے ہوتے ہیں. جس کی وجہ سے ملک میں زرمبادلہ آتا ہے جو کہ ہماری معیشت کی بہتری  کے لیے بہت ضروری ہے-

"میں یہاں ایک چیز شامل کرنا چاہوں گا کہ ہر آن لائن کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کے معیار کو اچھے سے اچھا بنائے تاکہ اس کا کاروبار آگے بڑھے جس سے اس اور ملک کی معیشت کو فائدہ ہو"

پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ای کامرس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ 2023 میں 6 بلین ڈالر محصول کی امید کی جا رہی ہے۔ اور اس میں ہر سال 6 فی صد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس محصول میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی محنت بھی شامل ہے-

سوشل میڈیا صارف عائشہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ کوئی بھی پراڈکٹ خریدنا نہایت آسان ہو چکا ہے، وہ سوشل میڈیا پر بہت سی خواتین انفلوئنسرز کو فالو کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ پہلے کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے بہت مشکل ہوتی تھی کہ پتہ نہیں کیسی ہوگی، مگر اب کوئی بھی پراڈکٹ لینے سے پہلے وہ ہمیشہ کچھ خاص انفلوئنسرز کی ویڈیوز دیکھ لیتی ہیں جن سے اس پراڈکٹ کے متعلق اتنی معلومات مل جاتی ہے کہ اس کو خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرنا نہایت آسان ہوجاتا ہے. ایک سے دو بار ہی ایسا ہوا ہے کہ کسی انفلوئنسر کے کسی پراڈکٹ کی حمایت پر وہ پراڈکٹ خریدا ہو اور وہ ٹھیک نہیں تھا، مگر اچھی اور بڑی انفلوئنسرز اپنی شہرت پر آنچ نہیں آنے دیتیں اس لیے وہ اپنے فالورز کے لیے ہمیشہ پراڈکٹ کا ایمانداری سے ریویو دیتی ہیں.

سویرا ارشد سوشل میڈیا کی ایک فعال یوزر ہیں جو اپنی اور اپنے بچوں کی 80 فی صد شاپنگ آن لائن کرتی ہیں،کہتی ہیں کہ کرونا وبا کے دوران جب سب بند ہوگیا اور عید الفطر کے دن قریب تھے تو اس وقت روزہ رکھ کر مارکیٹ جانا بہت مشکل تھا اور بچے بھی چھوٹے تھے اس لیے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے عید کی شاپنگ کی جائے، کرونا وبا سے پہلے وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کچھ خاص استعمال نہیں کرتی تھیں. مگر وبا کے دوران جب سب بند تھا اور کچھ کرنے کے لیے بھی نہیں ہوتا تھا تو ان کا رجحان سوشل میڈیا کی جانب بڑھا تھا. کہتی ہیں اسی دوران انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ عید کی شاپنگ آن لائن کر لی جائے، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ آن لائن چیزیں منگوائیں، مگر پارسل کے ملنے کے بعد جب انہوں نے کھول کر دیکھا تو جس آن لائن سٹور سے انہوں نے خود کے لیے کپڑے منگوائے تھے ان کپڑوں کی کوالٹی بالکل بھی اچھی نہیں تھی جب کہ سوٹ کی قیمت اچھی خاصی تھیں۔

"میرا دل بہت خفا ہوگیا اور میں نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ کبھی بھی آن لائن کچھ نہیں منگوانا، لیکن کچھ دن کے بعد اچانک ایک انفلوئنسر کی ویڈیو میرے سامنے آئی جس میں وہ اسی آن لائن سٹور کا ریویو دے رہی تھیں جن سے میں نے سوٹ منگوایا تھا اور وہ انفلوئنسر یہ کہہ رہی تھی کہ ان کے کپڑے کی کوالٹی انہیں اچھی نہیں لگی اس لیے اس سٹور سے کپڑے منگوانے سے پہلے کوالٹی کے بارے میں اچھی طرح معلومات لے لی جائے، جسکے بعد میرا اس انفلوئنسر پر یقین قائم ہوا، اسی طرح 4 سے 5 ایسی انفلوئنسرز ہیں جن کے ریویو پر میں آنکھیں بند کر کے یقین کرتی ہوں کیونکہ وہ ہمیشہ ایمانداری کے ساتھ ہر چیز کو بہت تفصیلاً بیان کرتی ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کچھ انفلوئنسرز صرف پیسے کی خاطر بری چیز کو بھی اتنا اچھا پیش کرتی ہیں کہ دیکھنے والا فوراً لینے پر مجبور ہوجائے جب کہ اس چیز کا معیار اتنا اچھا نہیں ہوتا"

اس تمام معلومات سے اس بات کا واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین انفلوئنسرز پاکستان کی ڈیجیٹل اکانومی میں سر فہرست ہیں۔ یہ خود تو مونوٹائزیشن جیسے آپشنز سے پاکستان میں ڈیجیٹل زرمبادلہ لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ملک کے چھوٹے صنعتی کاروبار کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی متعارف کرواتی ہیں۔ جس سے پاکستان میں کاروبار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ بھی آرہا ہے۔

مگر یہاں پر ان خواتین کی آن لائن سیفٹی کے لیے کچھ ایسی پالیسیاں بنانے کی بھی ضرورت ہے جو ان کو تحفظ فراہم کر سکیں۔ تاکہ ملک میں دیجیٹل اکانومی کے مواقعوں کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.