Blog Archives

October 4, 2023 - Comments Off on آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ڈمی اینکرز اور نیوز رومز کے خوبصورتی کے معیار

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ڈمی اینکرز اور نیوز رومز کے خوبصورتی کے معیار

Zunaira Rafi

مصنوعی ذہانت کے زیادہ تر نتائج خوبصورتی کے فرسودہ معیارات کو ظاہرکرتے ہیں- مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ زیادہ تر تصاویر میں گوری رنگت، دبلی پتلی جسامت،بھوری آنکھیں اور سنہرے بال شامل ہیں.  ان کی حیران کن بات یہ ہے کہ بیشتر کے موٹے ہونٹ، جھریوں سے پاک چہرہ، ستواں ناک اور سلکی خوبصورت بال دیکھائے گئے ہیں۔ وہ خوصوصیات جنہیں صرف سرجری اور فلرز کے استعمال سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہ وہ تمام خود ساختہ معیارات ہیں جو کہ ہماری فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے ساتھ ساتھ جرنلزم انڈسٹری کی بھی ڈیمانڈ بن چکے ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس انڈسٹری میں خواتین کو ایک شو پیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور کسی نیوز اینکر کو  نوکری پر رکھتے ہوئے اس کی ذہانت کے ساتھ ساتھ اس کا معاشرے کے خوبصورتی کے زاویوں پر اترنا بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں نہ کے جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا، یہ کہاوت ہمارے نیوز رومز پر بالکل درست بیٹھتی ہے وہاں بیٹھے لوگ چاہتے ہیں کہ جتنا میٹھا ہو سکے اتنا مل جائے تو بہتر ہوجائے، خواتین اینکرز کے لیے خوبصورت ہونا تو جیسے لازم ہے، اور ہمارے معاشرتی خوبصورتی کے پیمانے دبلی پتلی، لمبی، گوری رنگت، جھیل سی آنکھیں، تیکھی ناک یہ سب خوبصورتی کی علامات ہیں،

اگر کسی نیوز اینکر کو اس کی ذہانت پر رکھ لیا جائے اور وہ معاشرتی خوبصورتی کے پیمانے پر پورا نہیں اترتی تو اس کو میک اپ، کیمرہ اور لائٹس کے ذریعے ان معیارات کے مطابق بنا دیا جاتا ہے۔ خواتین اینکرز کو سارا سارا دن اسکرین کی زینت اس لیے بھی بنایا جاتا ہے تاکہ زیادہ ریٹنگ مل سکے، عموماً لوگ خواتین اینکرز کو ترجیح شاید اس لیے بھی دیتے ہیں کیونکہ  بصارت تو سب کے پاس ہوتی ہے مگر بصیرت ہر ایک کے پاس نہیں ہوتی۔

صرف یہی نہیں بلکہ آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی بہت دھوم مچی ہوئی ہے، اب دنیا میں اے-آئی اینکرز کو متعارف کروایا جا رہا ہے اور اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی عورت کو بالکل ایسے ہی بنایا جا رہا ہے جیسے کسی بھی نیوز اینکر بننے والی لڑکی سے توقعات کی جاتی ہیں، اور انہیں خوبصورتی کے سانچے میں یوں ڈھالتے ہیں جیسے کوئی مجسمہ ساز اپنی مرتی کو بڑی نفاست سے بناتا ہے۔

 اگر اے-آئی نیوز اینکرز کی بات کی جائے تو 2018 میں چین نے مصنوعی ذہانت کی سب سے پہلی نیوز اینکر کو متعارف کروایا، جو دنیا کی بھی سب سے پہلی اے آئی اینکر تھی۔

اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں یہ سلسلہ جاری رہا جبکہ بھارت اور پاکستان نے  رواں برس اپریل میں اپنے ملک کے پہلے آے آئی اینکر متعارف کروائے ہیں

یہاں حیران کن بات یہ نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے اینکر انڈسٹری میں آچکے ہیں بلکہ یہ ہے کہ جتنے بھی ممالک میں اے-آئی اینکرز کو متعارف کروایا گیا ان کی پہلی مصنوعی ذہانت کی اینکرز خواتین ہیں اور وہ خواتین جو ہو بہو دنیا کے خوبصورتی کے زاویوں کے عین مطابق ہیں، جن کی بناوٹ، قد کاٹھ ہر چیز سے پر فیکشن چھلکتی ہے، جس کا وجود حقیقی دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہے

واضح رہے کہ ان ممالک میں انڈونیشیا، ملیشیا، چین، کویت، بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، حتیٰ کہ گوگل پر بھی اگر  اے-آئی اینکرز سرچ کیے جائیں تو آپکو مردوں کے مقابلہ میں خواتین اینکرز زیادہ نظر آئیں گی۔ جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ انڈسٹری میں عورت کسی شو پیس سے کم نہیں ہے۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے جیو نیوز کے سینئر پروڈیوسر سید آصف رضا کا کہنا تھا کہ کسی بھی نیوز اینکر کے بنیادی خوبصورتی کے زاویے ذاتی ترجیحات اور ثقافتی اصولوں کے لحاظ سے ہو سکتے ہیں۔ عموماً بنیادی خصوصیات جو کسی نیوز اینکر میں دیکھی جاتی ہیں ان میں اس کا پیشہ ورانہ رویہ، ایکسپریسو آنکھیں، گڈ پوسچر ، صاف رنگت اور خوشگوار آواز کا ہونا ترجیحی خصوصیات تصور کی جاتی ہیں۔ مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جہاں تک سوال ہے کے یہ معیارات کیوں بنائے گئے ہیں تو اس کا عام فہم سا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ سب نہ سہی مگر زیادہ تر لوگ خوبصورتی کی طرف فوراً متوجہ ہوجاتے ہیں، یقیناً اسی لیے جازب نظر نیوز اینکرز  کو نیوز روم کی زینت بنانے پر توجہ دی جاتی ہے اور اس کے پیچھے خیال یہ ہوتا ہے کہ جب تک لوگ دیکھتے ہی متاثر نہیں ہونگے تب تک سننیں گے بھی نہیں۔ مگر کچھ ایسے اینکرز بھی ہیں جو شاید روایتی خوبصورتی کے ان معیاروں پر پورا نہیں اترتے  مگر اپنی قابلیت کی وجہ سے کامیاب ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات بھی درست ہے انہیں بھی اسکرین کی ضروریات کے مطابق ڈھال کر نیوز روم میں بٹھایا جاتا ہے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ خوبصورت نظر آنے والے قابل لوگ کم خوبصورت یا قبول صورت قابل لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی کرتے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ٹیکنالوجی خود کچھ اختیار نہیں کرتی بلکہ اُس کو انسانی ضروریات کے لیے ڈیزائن کیاجاتا ہے، میرے خیال میں ابتدا میں اے آئی ٹیکنالوجی بھی روایتی انداز سے نیوز روم میں اپنی جگہ بنائے گی، کیونکہ اس ٹیکانالوجی کے ساتھ بھی دیکھنے والوں اور دیکھانے والوں کے  بیوٹی پیرامیٹرز وہی ہیں جو اس ٹیکینالوجی کے استعمال سے پہلے تھے، ہاں یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ وقت کے ساتھ عام لوگوں اور نیوز روم سے منسلک لوگوں کا شعور اس ٹینالوجی کے بارے میں بڑھے اور وہ اس سے مزید استفادہ حاصل کر کے نئے اور مختلف تجربات کرنے کے قابل ہوں۔

 یہ بات واضح ہے کہ آئندہ کچھ عرصے کے بعد خواتین فیمیل اینکرز کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ وہ آے-آئی اینکرز جنہیں خود تخلیق کیا گیا ہے, وہ ان جتنی پرفیکٹ نہیں ہو سکتیں،

اے-ائی اینکرز کی انڈسٹری میں شمولیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک نجی ٹی وی کی اینکر نے بتایا یہ بات بلکل درست ہے کہ اس انڈسٹری میں آپ کی ذہانت اتنی معنی نہیں رکھتی مگر آپ کا قد کاٹھ اور خاص طور پر گوری یا صاف رنگت بہت زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اپنے متعلق بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی رنگت سانولی ہے۔ مگر ایڈیٹرز کی جانب سے خاص طور پر میک اپ آرٹسٹ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ میک اپ سے کمیرہ کے سامنے چہرہ اور رنگت صاف لگنی چاہیے اور چہرے کے نقش واضح ہونے چاہیے، ’’جس پر مجھے شروع میں بہت ہی برا لگتا تھا اور میری خود اعتمادی بھی متاثر ہوئی، جس کے بعد میں نے بیوٹی کریم لگانا شروع کر دی کیونکہ میرے ہاتھوں پر بھی میک اپ کیا جاتا تھا تاکہ مینک اپ کے زریعے چہرے اور ہاتھ کی رنگت یکساں لگے، چونکہ مجھے اتنےزیادہ میک اپ کی عادت نہیں تھی، جس کی وجہ سے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ کیوں نہ کوئ بیوٹی کریم استعمال کی جائے‘‘ انہوں نے مزید بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے بیوٹی کریم لگانا شروع کیا اور چند ہفتوں کے بعد ان کے چہرے کا رنگ تو نکھرنے لگا مگر اس کے ساتھ منہ پر دانے بننا شروع ہو گئے اور ان کے چہرہ کی جلد چھلکوں کی صوت میں اترنے لگ گئی، جسے سدھارنے کے لیے انہوں نے ایک ماہر جلدی امراض سے رجوع کیا، جس کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کی جلد اس کریم نے جلا دی ہےجس کو ٹھیک کرنے میں تقریبا 3 ماہ لگے-،

’’میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اس انڈسٹری میں اول تو داخل ہونا ہی اتنا مشکل ہے اور اگر کسی کو نوکری مل جائے تو ان کے معیارات پر پورا اترنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، صرف یہی نہیں بلکہ حجاب کرنے کی وجہ سے بھی نئی جگہ نوکری نہیں ملتی، یہاں میں ایک واقع سناتی چلوں کہ وہ ایک نجی ٹی وی چینل پر جب انٹرویو کے لیے گئیں تو وہاں انٹرویو لینے والے صاحب کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ڈھکا چھپا مال نہیں بکتا، یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے مجھے بے حد تکلیف پہنچائی تھی، ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں یہ ان خواتین کے لیے ہیں جو اس انڈسٹری کے خواب دیکھتی ہیں، مگر حقیقت ان کے خوبصورت خوابوں کے بر عکس ہے‘‘

میڈیا مٹی کو ہیرے کی شکل میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میڈیا کسی بھی چیز کے متعلق انسانی رویوں کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جب ٹی وی ڈراموں سمیت خبروں اور خبروں کی دنیا سے منسلک پروگرامز میں بھی خوبصورتی کے نہ حاصل ہو سکنے والے معیارات دیکھائے جائیں گے تو لوگوں میں خاص طور پر گھریلو خواتین میں ان جیسا بننے کے خواہش ابھرے گی۔ اگر ان خوبصورتی کے معیارات کو حاصل کر بھی سکتے ہوں تو اس پر لاکھوں روپے کے اخراجات ہی نہیں بلکہ صحت سے متعلق بہت سے چلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہر جلدی امراض ڈاکٹر نادیہ گزشتہ 8 برس سے اس پیشے سے منسلک ہیں انہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے  پاس جتنی بھی خواتین آتی ہیں ان میں زیادہ تر خواتین کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ٹریٹمنٹ بتائیں جس سے فوری طور پر گوری ہو جاوں، اور اب تو جو خواتین آتی ہیں کاسمیٹک سرجریز سے بہت متاثر ہیں، کہتی ہیں کہ ’’ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اپنے اچھے خاصے خوبصورت نین نقش کو تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جس میں اس طرح کے ٹریٹمنٹس نے لوگوں کی جان تک کو نقصان پہنچایا ہے۔ اور خواتین ٹی وی ڈراموں میں اداکاروں کو دیکھ کر متاثر ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ وہ یہ نہیں سوچتیں کہ انہوں نے اسکرین کے لحاظ سے میک کیا ہوتا ہے، باقی لائٹس، کیمرے، ایڈیٹنگ ان کو مزید ابھار دیتے ہیں۔‘‘

ایک مزید سوال پر ڈاکٹر نادیہ نے بتایا کہ ٹیکنالوجی آہستہ آہستہ ہر چیز پر غلبہ حاصل کر رہی ہے۔ اور حال ہی میں پاکستان میں بھی اے-آئی اینکرز دیکھنے میں آئے ہیں، انہیں دنیا کے خوبصورتی کے معیار کے مطابق بنایا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا، ظاہر ہے اس کا منفی اثر خواتین پر ضرور ہوگا مگر یہاں خواتین کو یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ محض ٹیکنالوجی ہے، جس کا اختیار انسانوں پر ہے، اور انسان اس کو سیکنڈز میں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تو انسانوں کے ہر تجربے کو اپنے اوپر حاوی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ خوبصورتی کے معیارات وقت کے ساتھ بدلتے رہیں گے مگر انسان ہر چیز کے مطابق نہیں ڈھل سکتا۔ کیونکہ یہ چیز انسانی جان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے-

سارہ علی نے حال ہی میں اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے، کہتی ہیں کہ انہیں سکرین پر خبریں پڑھتی ہوئی نیوز کاسٹرز ہمیشہ ہی پسند تھیں اور ان کو دیکھ دیکھ کر انہیں بھی لڑکپن سے ہی نیوز اینکر بننے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹوں خبریں پڑھتی اور پریکٹس کرتی رہتی تھی، مگر انہیں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب لاہور میں ایک نجی نیوز چینل میں انٹرویو کے لیے گئیں تو انھوں نے یہ کہہ کر سارہ کو فیل کر دیا کہ آپ کی اردو زبان پر عبور اور لفظوں کی ادائیگی تو کمال ہے مگر آپ کا وزن بہت زیادہ ہے اور سکرین پر اچھا نہیں لگے گا۔

’’انھوں نے مجھے مفت مشورہ بھی دیا کہ آپ وائس اوور میں کوشش کریں وہاں آپ کا سلیکشن ہو جائے گا۔ یہ ایک بار نہیں بار بار سہنا پڑا مجھے۔ جس کے بعد میں نے اپنا وزن کم کیا، اور اب جب سے ان  اے-آئی ڈمی اینکرز  کو دیکھا ہے امید ہی چھوڑ دی ہے کہ میں کبھی اس شعبے میں کامیاب ہو سکتی۔ ‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ مجھ جیسی بہت سی لڑکیاں اس شعبے میں اس لیے نام اور جگہ نہیں بنا پارہیں کہ خوبصورتی کے معیار بہت زیادہ ہیں اور اب اے آئی کے بعد یہ معیار بڑھ کر پرفیکشن کی حد تک جا پہنچے ہیں جو بہت ہی مایوس کن بات ہے۔

ایک سوال پر انہوں کے کہا کہ اس طرح کے رویوں کی مزمت اور روک تھام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کب تک عورت ایک دل لبھانے اور آنکھوں کو آسودگی فراہم کرنے والی چیز کے طور پر دیکھی اور استعمال کی جاتی رہے گی۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایکسپرٹ اسامہ احمد نے مصنوعی خوبصورتی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  مصنوعی ذہانت اور قدرتی خوبصورت آنے والے وقت کا بہت بڑا مقابلہ ہو سکتا ہے اور اس کی دوڑ ابھی سے شروع ہو چکی ہے، اس میں ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈمی نے نہ کبھی بوڑھا ہونا ہے اور نہ ہی کبھی مرنا ہے، اور اگر کسی انسان کی شکل کی اے-آئی ڈمی بنائی گئی ہے تو وہ شخص اگر مر بھی جائے تو اس ڈمی کو استعمال کیا جا سکتا ہے، تو اس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں خود کو بھی زبردستی شامل کرنے کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے، یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی چلنے پھرنے کی سقت سے محروم شخص یہ بولے کہ اس نے دوڑ میں حصہ لینا ہے ایسا نہیں ہے کہ ان تمام خوبصورتی کے معیارات کو پورا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس مصنوعی خوبصورتی کے ساتھ ٹیکنالوجی کے ذریعے طب کے شعبہ جمالیات اور ڈرماٹولوجی نے بھی بہت ترقی کر لی ہے، اورحسن کو بڑھانے کے بہت سے طریقہ کار تو موجود ہیں مگر یہ طریقہ کار یا ٹریٹمینٹس انسانی صحت کے لیے اتنے ہی خطر ناک  بھی ہیں۔ اس وقت لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اس سب سے ذہانت کے بجائے خوبصورتی کے وہ معیارات پروموٹ ہو رہے ہیں جن کی حقیقت خوفناک ہو سکتی ہے۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.