Blog Archives

All Posts in Urdu

November 4, 2013 - Comments Off on انٹرنیٹ گورننس فورم ٢٠١٣ میں شریک سول سوسائٹی مندوبین کا مشترکہ اعلامیہ

انٹرنیٹ گورننس فورم ٢٠١٣ میں شریک سول سوسائٹی مندوبین کا مشترکہ اعلامیہ

فریڈم ہاؤس کی سربراہی میں  آۓ ہوۓ سول سول سوسائٹی کے معزز اراکین اور آن لائن حقوق  کے لیے کام کرنے والے اراکین نے  بالی، انڈونیشیا میں منعقدہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والی آٹھویں انٹرنیٹ گورننس فورم میں گلوبل انٹرنیٹ پالیسی کے عنوان سے ہونے والے مباحثہ میں شرکت کی .  اگف  کے اختتام پر ١٧ اداروں ور افراد نے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کئے جسکا مقصد فورم  کے دوران اٹھاےَ جانے والے خدشات و تحفظات پر روشنی ڈالنا اور حکومتوں، انٹرنیٹ کمپنیوں اور بین الاقوامی اداروں کو انٹرنیٹ کی آزادی کو یقینی بنانے کے حوالے سے سفارشات پیش کرنے کی  تجاویز پیش کرنا تھا

یہ اعلامیہ  فورم کے آخری دن بوزیں زید نے پیش کیا .زیر دستخطی پوری دنیا میں موجود سول سوسائٹی رہنماؤں کا نمائندہ گروپ ہے جس نے انٹرنیٹ گورننس فورم ٢٠١٣ جو ٢٢ اکتوبر سے ٢٥ اکتوبر تک بالی، انڈونیشیا میں منققد ہوئی میں فریڈم ہاؤس کے وفد کی حیثیت سے شرکت کی . ہم میٹنگ کے اختتام پر  اس اعلامیہ میں ان تمام آرا کو نمایاں کررہے ہیں جو فورم کے دوران پیش کی گئیں
 

اگف کے شرکا کی بڑی تعداد کے مطابق انٹرنیٹ کے نظم و ضبط کا عمل بہتر بنایا جا سکتا ہے اور بنایا جانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انٹرنیٹ کو ہمیشہ قابل رسائی، عالمی ,محفوظ اور مضبوط بنانے کے لئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئے  انسانی حقوق کو آن لائن فروغ دینے ، انکی حفاظت کرنے کے لئے ہمارے گروپ نے ضروری اصول اور تجاویز پیش کیں جیسا کہ

١- تمام قوانین، پولیسیاں، قواعد، معاہدہ صارف، انٹرنیٹ پر نظم و ضبط کی عمل داری کے لیے کے جانے والے تمام اقدامات، انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ہونے چاہئے جس میں اقوام متحدّہ کے انسانی حقوق کے منشور کی شق ١٩ جس میں آزادی اظہار رائے کا حق، شق ١٢ جس میں رازداری کا حق اور شق ٢٠ جس میں اپنی مرضی سے کسی سے الحاق کا حق شامل ہیں.
حکومتوں اور دوسرے حصّہ داروں کو انسانی حقوق کونسل کی قرار داد ٢٠/٨ جولائی ٢٠١٢ میں کثرت رائے سے منظور کی گئی کو مد نظر رکھنا چاہیے جس میں کہا گیا ہے کہ "وہ تمام حقوق جو انسانوں کو آف لائن میسّر ہیں وہ آن لائن بھی میسّر ہونے چاہئے، بنیادی طور پر یہ حق آزادی رائے ہے " اور مزید یہ کہ "انٹرنیٹ ترقی اور انسانی حقوق پر عمل داری کے لیے استمال کیا جانے والا ایک اھم آلہ ثابت ہوسکتا ہے "  اس قرارداد کا اطلاق حکومتوں کی طرف سے کی جانے والی ناجائز اور غیر قانونی آن لائن جاسوسی کو ختم کرنے کے لئے ہوسکتا ہے. کسی بھی جاسوسی کو قانونی اور جائز اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ محدود و مخصوص، ہدف پر اور مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام اور تحقیق کے لیے کی جائے اور آزاد عدلیہ کی نگرانی میں ہو.
٢-انٹرنیٹ کے نظم و ضبط سے متعلق مسائل ہر جگہ یکساں طور پر بحث کئے جائیں، ان میں وہ تمام جگہیں بھی شامل ہیں جو علاقائی، ذیلی علاقائی، قومی، لسانی یا دوسری جماعتوں (گروپس) میں بٹے ہوئے ہیں- یہ بات بہت اھم ہے کہ تمام جگہوں پر شفّافیت ، کشادگی، اور جامعیت کے اصولوں کو برقرار رکھا جائے، یہاں تمام شراکت داروں کو شامل کرنے کا مقصد انٹرنیٹ کو اثر انداز کرنے والی پولیسیوں، اصولوں اور معیار کو ترتیب دیتے وقت ہر طرح کی آرا اور نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، ملٹی سٹیک ہولڈرازم ایک بہت زیادہ استمال کی جانے والی اصطلاح ہے جو کہ واقعات ، گروپس اور طریقہ کار کی بہت بڑی تعداد پر لاگو ہوتی ہے- بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کو بھی شراکتداری(ملٹی سٹیک ہولڈرازم ) کو اپنی سب سے پہلی ترجیح بنانے  کے لیے تمام ذمّہ داران کو برابری کی بنیادوں پر مزاکرات کی میز پر لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہونگی.
٣- انٹرنیٹ کے نظم و ضبط سے متعلق مباحثہ میں اگلا سب سے اھم قدم شفّافیت اور احتساب ہے جسے تمام ذمّہ داران کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے کاروباری حلقے ٹرانسپرںسی رپورٹ کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں جو کہ نہ صرف ان کے صارفین اور ان کی سماجی ذمّہ داریوں کے لیے ضروری ہیں بلکہ ان کے معاشی فوائد بھی ہیں- حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ انکی تمام پولیسیاں اور طریقہ کار شفّاف ہوں جو نہ صرف ان کے اپنے شہریوں کی نظر میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انکی قانونی حیثیت، ساکھ اور اخلاقی حاکمیت کو برقرار رکھنے کا زریعہ ہیں . مواد کی سنسر شپ، نگرانی، نیٹ ورک کی بندش یا نیٹ ورک کو سست رفتار کرنا اور انٹرنیٹ کی نگرانی کے دوسرے طریقوں کو استمال کرنے کے موقعوں پر ان دو ذمّہ داران کو آزادانہ طور پر اور ساتھ مل کر ان اقدامت کی تفصیلات ظاہر کرنا ور انہیں عوامی سطح پربحث کرنا ہوگا، اس کے علاوہ حکومتیں ان تمام ممالک جو انسانی حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے کو نگرانی و فلٹرنگ ٹیکنالوجیز کی برآمد پر سختی سے قابو پائیں. ساتھ ساتھ نجی شعبہ کو بھی اس دائرہ اختیار میں اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے- کچھ ممالک میں  ایسے بلوگرز، سماجی کارکنوں اور دیگر انٹرنیٹ صارفین پر تشدّد ، قید اور یہاں تک کہ قتل کرنے   کے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے حکّام کے خلاف تنقیدی معلومات پوسٹ کیں.
ہم انڈونیشیا کی حکومت کا انکی مہمان نوازی اور آٹھویں بین الاقوامی اگف میٹنگ کامیابی سے منعقد کروانے پر شکریہ ادا کرتے ہیں. بالی میں یہ ایونٹ منعقد کروانے سے متعلق ابہام کے باوجود ہم لوگ١٨ ممالک سے سول  سوسائٹی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور ماہرین تعلیم  کو مدعو کرنے میں کامیاب رہے. ہمارے ٣ ساتھی ویزا کے مسائل ہونے کی وجہ سے نہیں آسکے-اگف کے مخصوص رجسٹرڈ شرکا کو جاری کردہ اجازت نامہ جس کی رو سے انہیں انڈونیشیا آمد پر ویزا جاری کیا جانا تھا دیر سے موصول ہوا جسے ایئر لائن حکّام نے منسوخ کردیا اور وہ کسی بھی ملک کے شرکا کو نہیں مل سکا، مستقبل میں ہونے والی اگف کے لیئے بہتر ہوگا کہ انڈونیشیا آمد پر ویزا ملنے کے عمل کو بہتر بنایا جائے اور متعلقہ محکموں کو باضابطہ طور پر مطلع کیا جائے.
:دستخط
- Freedom House
- The Unwanted Witness, Uganda
- Jorge Luis Sierra, México
- Damir Gainutdinov, Russian Federation, AGORA Association
- Nighat Dad, Pakistan, Digital Rights Foundation
- Artem Goriainov, Kyrgyzstan, Public Foundation “Civil Initiative on Internet Policy”
- Giang Dang, Vietnam
- Fatima Cambronero, Argentina, AGEIA DENSI Argentina
- Michelle Fong, Hong Kong, Hong Kong In-Media
- Dalia Haj-Omar, Sudan, GIRIFNA
- Bouziane Zaid, Morocco
- Syahredzan Johan, Malaysia
- Juned Sonido, Philippines
- Myanmar ICT for Development Organization (MIDO)
- Cambodian Center for Independent Media (CCIM)
- Mahmood Enayat, United Kingdom, Small Media
- Abeer Alnajjar, Jordan
- Arzu Geybullayeva, Azerbaijan
*Thanks to Sobia Ghazal for translating this press release

October 3, 2013 - Comments Off on ’انٹرنیٹ پر آزادئ اظہار، پاکستان بدترین ملک‘

’انٹرنیٹ پر آزادئ اظہار، پاکستان بدترین ملک‘

ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق، پاکستان انٹرنیٹ کی آزادی سے متعلق درجہ بندی میں 2012 کے مقابلے میں 2013 میں مزید نیچے چلا گیا ہے۔

امریکی غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کی جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ ’انٹرنیٹ پر آزادی 2013‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوری طریقے سے اقتدار کی تاریخی منتقلی کے بعد بھی حکومت نے انٹرنیٹ پر سیاسی و سماجی مواد بلاک کرنے کا عمل جاری رکھا ہے جبکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ پر بظاہر نگرانی ہو رہی ہے۔ 

فریڈم ہاؤس کی سالانہ رپورٹ 60 ممالک میں کی گئی تحقیق پر مبنی ہے اور پاکستان سے متعلق اس رپورٹ کا باب غیر سرکاری تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان اور فریڈم ہاؤس نے مل کر تیار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 34 ممالک میں شامل ہے جہاں انٹرنیٹ کی آزادی کے حوالے سے منفی رجحان پایا گیا ہے۔ پاکستان کا شمار انٹرنیٹ پر آزادی اظہار کے حوالے سے درجہ بندی میں آخری دس ممالک میں ہوتا ہے۔

فریڈم ہاؤس جمہوریت، انسانی حقوق اور سیاسی آزادی پر تحقیق کرتی ہے۔

"انٹرنیٹ پر آزادئ اظہار، صارفین کے حقوق اور شہریوں کی پرائیوسی یا نجی زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار بدترین ممالک میں ہوتا ہے"

نگہت داد

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز میں ادارے کی چیف ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ پر آزادئ اظہار، صارفین کے حقوق اور شہریوں کی پرائیوسی یا نجی زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ برس سے شدت پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ریاست سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں کی نگرانی کے لیے ٹیکنولوجی کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سنسرشپ سیاسی مقاصد کی عکاسی کرتی ہے‘۔

انٹرنیشنل ٹیلی کمیونکیشن یونین کے مطابق 2012 میں پاکستان کی دس فیصدآبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی تھی جبکہ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ 2013 میں یہ شرح بڑھ کر 16 فیصد ہو گئی ہے جس میں سے 8 فیصد صارفین موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے سٹیزن جرنلزم یا شہری صحافت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے ویڈیوز اور تصاویر روایتی میڈیا کے بجائے فیس بک اور ٹوئٹر پر پہلے منظرِ عام پر آئیں۔

"پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے پاس بلاک ہونے والی ویب سائٹس کی فہرست موجود ہے لیکن تفصیلات نامعلوم ہیں۔ نہ تو کوئی رہنما اصول عام ہیں جس سے بلاک کرنے کی وجہ پتہ چلے اور نہ ہی پابندی لگانے کا طریقۂ کار بتایا جاتا ہے"

فریڈم ہاؤس رپورٹ

فروری 2013 میں فیر ٹرائل ایکٹ قانون سینیٹ میں منظور ہوا جس کے تحت ذاتی رابطوں کی نگرانی کے لیے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں جوڈیشل وارنٹ حاصل کر سکتی ہیں۔

فریڈم آن دا نیٹ 2013 رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’ناقدین نے اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ قانون کا غلط استعمال آسانی سے ہو سکتا ہے جبکہ کئی ایجنسیوں کو وسیع پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں۔‘

تاہم وکیل اور سابق عبوری وزیرِ قانون احمر بلال صوفی نے بی بی سی کی نامہ نگار عنبر شمسی کو بتایا کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں سکیورٹی اور شہریوں کے حقوق کے درمیان توازن رکھا گیا ہے۔

’کسی اور ملک میں ہائی کورٹ کے جج کو یہ اختیار نہیں دیا گیا ہے کہ وہ تمام ثبوتوں کی چانچ پڑتال کر کے ہی نگرانی کی اجازت دیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس بات کا غیر معمولی حد تک خیال رکھا گیا ہے تاکہ شہریوں کی انفرادی آزادی اور ریاست کی سکیورٹی قائم کرنے کی ضروریات ساتھ ساتھ ممکن ہوں تاہم اس قانون پر اب تک عمل نہیں ہو پایا کیونکہ متعلقہ جج نامزد نہیں ہوئے۔

اسلام مخالف فلم

پاکستانی حکام کا کہنا ہےکہ یو ٹیوب پر پابندی تب تک رہے گی جب تک گوگل اسلام مخالف فلم ’انوسنس آف مسلمز‘ کو ہٹا نہیں دیتا یا ملک گیر انٹرنیٹ کی چھان بین کا نظام قائم نہیں ہوتا۔

دوسری جانب، یوٹیوب پر اکتوبر 2012 سے عائد کی گئی پابندی بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق شہریوں کے حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یو ٹیوب کے ساتھ ساتھ بیس ہزار دیگر ویب ساٹس کو بھی بلاک کیا گیا ہے، جن میں بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کی ویب سائٹس اور فحش ویب سائٹس شامل ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہےکہ یو ٹیوب پر پابندی تب تک رہے گی جب تک گوگل اسلام مخالف فلم ’انوسنس آف مسلمز‘ کو ہٹا نہیں دیتا یا ملک گیر انٹرنیٹ کی چھان بین کا نظام قائم نہیں ہوتا۔

رپورٹ کے مطابق حکومتِِِ پاکستان نے جنوری 2003 سے آن لائن مواد کو بلاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن آتھارٹی کے پاس بلاک ہونے والی ویب سائٹس کی فہرست موجود ہے لیکن تفصیلات نامعلوم ہیں۔ نہ تو کوئی رہنما اصول عام ہیں جس سے بلاک کرنے کی وجہ پتہ چلے اور نہ ہی پابندی لگانے کا طریقۂ کار بتایا جاتا ہے۔‘