April 28, 2023 - Comments Off on ڈیجیٹل ایج میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں ؟

ڈیجیٹل ایج میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں ؟

صباحت خان

پاکستان میں جدید سوشل میڈیا کی ترقی کے دور میں اب بھی یہ تاثر عام ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں دوہری زمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد محدود وسائل میں نہ صرف گھر چلا نے میں معاشی طور پر کردار ادا کر رہی ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی  سے آراستہ ہوکر ملک کی ترقی میں بھی کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہیں۔ مثبت پہلو پر بات کی جائے تو سوشل میڈیا کی ترقی نے گھروں تک  محدود خواتین کے لیے ایسے راستے ہموارکیے ہیں  جس وہ اپنی زندگیوں کو بہتری کی طرف لے کر جا رہی ہیں

خواتین کے عالمی دن  پر بھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تک خواتین کی رسائی کو بہتر بنانے کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے تھا  کہ ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی پاکستان میں صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنانے کے لئے وسائل اور مدد فراہم کرنا ضروری ہے۔اس سال کا عنوان ڈیجیٹ آل: صنفی مساوات کے لیے جدت اور ٹیکنالوجی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ڈیجیٹل تفریق آج کی تیز رفتار اور ہمیشہ بدلتی ہوئی دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے اور شمولیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

جینڈرکنسرنز انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے مجموعی حقوق میں بہتری آئی ہے اس کی وجہ خواتین کی تعلیم اور خواندہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ ہے۔تاہم  پاکستان میں خواتین کو طبقاتی معاشرے کے نتیجے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن سروے کے مطابق پاکستان کو خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ تمام تر حالات کے بعد  بھی معاشرے کا مثبت اور حوصلہ افزا پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین اتنی مشکلات  کے ساتھ  مختلف شعبوں میں کام کرتی  نظر آ رہی ہیں پہلے تو کئی کئی سالوں کی تعلیم کے بعد خواتین عملی طور پر شعبوں میں نظر آرہی تھیں جبکہ گھر میں اپنی نہ ختم ہونے والی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی خواتین احساس محرومی اور مایوسی کا شکار رہتی تھیں مگر سوشل میڈیا کی ترقی نے گھریلو خواتین پر بھی اثرات مرتب کیا ہیں جس کے نتیجہ میں اب گھر میں رہنے والی خواتین اپنی مدد اپ کے تحت  مختلف  کاروبار چلا رہی ہیں اور کچھ صورتوں میں مردوں کے مقابلے میں بہترکما رہی ہیں ۔

اس رجحان نے ہمارے معاشرے کے منفی پہلو کا رخ اس طرہ بدل دیا ہے کہ پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی خواتین میں آف لائن کے ساتھ ساتھ آن لائن کاروبار کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں بڑھتی

ہوئی مہنگائی ،خواتین کے خلاف غیر امتیازی سلوک ، معاشی استحصال اور ذہنی اور جسمانی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں ۔

 پاکستان میں اس وقت ہزاروں خواتین  گھر بیٹھے سوشل میڈیا کے مخلتف پلیٹ فارمز کا استعمال کر کے لاکھوں روپے کما رہی ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین اپنے گھروں کے اندر بغیر کسی مسئلے اور تکلیف کے کما رہی ہے یا وہ کسی نہ کسی مشکل کا شکار رہتی ہے ،یا  ڈیجیٹل ایج میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں یا نہیں؟

ایک انداز کےمطابق پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تعدادتقریباً ایک کروڑ 20لاکھ ہے،جن میں 80 فیصد خواتین ہیں، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں  گھر بیٹھے روزگار کما رہی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ خواتین کے خلاف جسمانی،  ذہنی اور معاشی تشدد کے خوفناک واقعات پر آواز تو اٹھائی جاتی ہے مگر خواتین کو اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات کو حل یا بہتر کرنے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ہیں ۔

ملک بھر میں ہزاروں خواتین آن لائن کام کر رہی ہیں جن میں بڑی تعداد پڑھی لکھی خواتین کی نہیں ہیں جو سوشل میڈیا کا استعمال تو کر لیتی ہیں مگر مکمل طریقے سے اور محفوظ انداز میں استعمال نہیں کر سکتی ہیں ۔ یہ بات  پریشان کن ہے کہ خواتین کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جوانٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے باوجوداستعمال کرنے  والی معلومات سے محروم رہ جاتا ہے۔

 یہ طبقہ خاص طور پر اُن خواتین پر مشتمل ہے جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں موجود ملٹی میڈیا کنٹینٹ (Multimedia Content)سُننے، سمجھنے اور پڑھنے سے محروم ہیں اور اسی بنا پر اُن بنیادی معلومات اور اہم حفاظتی تدابیر سےناواقف ہیں جن کا سامنا ان کو انٹرنیٹ پر اپنا کام کرتے ہوئے ہوسکتا ہےجیسے سائبر ہراسمنٹ یا سوشل میڈیا بلیینگ/ ٹرولنگ وغیرہ۔  ایسی خواتین تک آگاہی پہنچانے  یا ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گھر کی چار دیواری کے اندر لاکھوں کمانے والی خواتین ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہیں یا نہیں اس بارے میں مختلف خواتین سے جاننے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔

 ڈیجیٹل 50 50 میگزین سے بات کرتے ہوئے آن لائن لیڈیز کپڑوں اور بیگز کی فروخت کا کام کرنے والی مہرین خان کا کہنا ہے کہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ گھر میں رہ کر اپنا کما سکتی ہوں۔ کوئی کام آسان نہیں ہوتا اس کے لیے محنت اور لگن کے ساتھ ہنر بھی ہوگا تو بہتر انداز میں کام کر کے کمایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو خواتین میں ناامیدی کی جو لہر تھی وہ سوشل میڈیا نے ختم کرتو کر دی ہے مگر پھر بھی ڈیجیٹل دنیا کے معیار بھی مخلتف ہیں جس طرح کسی بھی  ایپ کا استعمال، کسٹمرز کے ساتھ آن لائن رابطہ میں رہنا ، سوشل میڈیا کے بدلتے رجحانات کی وجہ سے بھی کام کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جس کی وجہ سے کام کے لیے دوسرے کی مدد حاصل کرنے کے چکروں میں نجی معاملات پبلک ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہےکہ آن لائن کام کرنے والی خواتین سوشل میڈیا کے استعمال سے پوری طرح واقف ہوں تاکہ بغیر کسی مدد کے اپنے آن لائن کام کو جاری رکھ سکے۔ انہوں نے کہا میں کئی سالوں سے کام کر رہی ہو ہمشہ یہ ہی دیکھا ہے کہ کسٹمرز ہی شکایات کرتے ہیں مگر درحقیقت بات یہ ہے کہ کسٹمرز کی جانب سے ہمیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے، آڈرز بک کر کے  موصول نہیں کیا جاتے ہیں ، نمبر پبلک ہونے کی وجہ سے غیر مناسب پیغامات موصول ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی اب آن لائن کام کرنے کے حقوق کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

اسلام آباد  میں آن لائن فرنیچرکی خریدو فروخت کا کام کرنے والی سحرش مراد کا کہنا ہے کہ اگر کسٹمرزکے ڈیجیٹل حقوق ہوتے ہیں تو کاروبار کرنے والوں کو بھی اپنے

 حقوق کے بارے میں اگاہی رکھنے کی اشد ضرورت ہے  کیوں کہ کسمٹرز کی جانب سے ہمیں بھی غیرمناسب رویوں کا سامنا رہتا ہے اور ہم اس ڈر سے چپ رہتے ہیں کہ کاروبار خراب نہ ہو جائے یا آن لائن کسی بھی شکایت کے منفی نتیجے سامنے نہ آ جائیں۔

اکنامک سروے (2020-21) کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح 59.13 فیصد ہے یعنی ملک کی 40 فیصد عوام  بنیادی تعلیم بھی حاصل نہیں کررہی اور ایسی صورت میں ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنا مذید مشکل ہے کیوں کہ جس طرح پاکستان میں خواتین کے لیے بنیادی تعلیم کو عام کرنا ایک مسئلہ ہے اور اب تک خواتین کی ایک بڑی تعداد اسکول سے دور ہے، اسی طرح ڈیجیٹل لٹریسی کے مواقعے  بھی محدود  ہیں۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی بنیادی تعلیم و تربیت سے علیحدہ نہیں ۔ بنیادتی تعلیم یعنی اُردومیں لکھنا پڑھنا  اور انگریزی زبان سے واقفیت اور ڈیجیٹل لٹریسی مکمل تعلیم کا ایک  لازمی حصّہ ہے کیوں کہ کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے  ذریعے تعلیم ، روزگار اور آگاہی اُسی صورت حاصل کی جاسکتی ہے جب کمپیوٹر کی زبان کو سمجھاجائے۔

خیال رہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم محض کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرلیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود وسائل کو قابل رسائی بنایا جائے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو فرد بھی ڈیجیٹل ڈیوائسز(جیسے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر)  استعمال کرے ، اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرسکے۔

جب ہم خواتین کی تعلیم و تربیت یا ڈیجیٹل لٹریسی کی بات کرتے ہیں تب عام طور پر  یہ مدِ نظر نہیں رکھتے کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جن تک جدت اور تعلیم کا پیغام تو پہنچ  گیا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھ نہیں  سکتی ہیں کہ اس جدت کو اپنانا کیسا ہے؟ وہ جدید دنیا میں اپنی شناخت اور اپنے مقام کو ثابت کرنے کی تگ  دو میں مصروفِ عمل ہیں اور محض لسانی بندشوں کی وجہ سے تربیت کے مواقعوں سے محروم ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں  جواپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری قومی یا بین الاقوامی زبان کی محدود واقفیت رکھتی ہیں،یا جو  کسی بھی دوسری زبان میں کی گئی گفتگو کوسُن کر سمجھ تو سکتی ہیں لیکن پڑھنے سے محروم ہیں یا معلومات کوسمجھنے میں  دقت کا سامنا کرتی ہیں۔ایسی خواتین جب حصول ِعلم یا کسی ہنر کی تربیت حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا رُخ کرتی ہیں تو اپنی زبان میں مطلوبہ تربیتی مواد نہ ہونے کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھتی ہیں۔ ان خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی پہنچانے اور انٹرنیٹ کو محفوظ انداز میں استعمال کرنے کی تربیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا تربیتی مواد تیار کیا جائے جوعلاقائی اہمیت کے لحاظ سے  کم از کم دو اہم مقامی زبانوں کےسب ٹائٹل یا کیپشن  پر مبنی ہو ۔

بات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے یہ نہایت اہم امر ہے۔وہ خواتین جو جدید ٹیکنالوجی سے اپنے کاروبار سے  واقفیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کو اس سہولت کے ذریعے اپنی مدد آپ کے تحت تربیت حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو

گا اور وہ نہ صرف یہ آگاہی حاصل کرسکیں گی کہ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہے بلکہ یہ بھی سمجھ سکیں گی کہ بنیادی معلومات کے ساتھ بھی انٹرنیٹ کو فعال انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صدر مملکت نے  خواتین کے عالمی دن پر واصخ پیغام میں کہا تھا کہ ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی پاکستان میں صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز ان کے لیے ڈیجیٹل معیشت میں حصہ لینے اور تعلیم، صحت، بینکنگ، قرضوں اور دیگر ضروری خدمات تک ان کی رسائی کو بڑھانے کے لئے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خاص طور پر ہمارے دور دراز علاقوں میں خواتین کی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل خواندگی کے پروگراموں کے علاوہ انہیں انٹرنیٹ سروسز، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تک ان کی رسائی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے حکومتوں، این جی اوز اور خاص طور پر خواتین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے صنفی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر بھی زور دیتے  کہا  تھا کہ حکومتوں، بینکنگ اور نجی شعبے کو ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے خواتین کی سماجی اور اقتصادی شمولیت کی کوششوں کی حمایت کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیں ہم صنفی مساوات کو حاصل کرنے کا عہد کریں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے سب کے لئے ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی دنیا بنانے کے لئے کام کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے لیے  ڈیجیٹل تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں اگاہی فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائے تاکہ خواتین مخفوظ انٹر نیٹ کے ساتھ اپنے محفوظ کاروبار کی ترقی کے ساتھ معاشرے میں معاشی حالات بہتر کرنے میں کردار ادا کر سکے

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.