April 28, 2023 - Comments Off on ڈیجیٹلائزیشن کا زمانہ اور گھریلو خواتین کی زندگیاں بدلتے آن لائن کاروبار
ڈیجیٹلائزیشن کا زمانہ اور گھریلو خواتین کی زندگیاں بدلتے آن لائن کاروبار
عاصمہ کنڈی
ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں جہاں پڑھے لکھے پیشہ ور افراد اور روائتی کاروباری حضرات اس کے بیش بہا ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں وہیں کم پڑھی لکھی گھریلو خواتین کی زندگیوں میں بھی انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
گھر کی محفوظ چاردیواری میں ان خواتین کو بھی کام کرنے اور اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی اجازت مل جاتی ہے، ان کے ہاتھ میں کوئی ڈگری نہیں ہوتی کہ وہ گھر سے نکل کر کسی آفس میں کوئی نوکری کر سکیں ۔عام طور پر پاکستان میں عورت ابھی اتنی آزاد نہیں کہ مارکیٹ میں بیٹھ کر مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار کر سکے۔
کرونا کی وبا جہاں دنیا بھر کے لئے ایک عذاب کی مانند رونما ہوئی وہاں ہی پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا رواج شروع ہوا اور بہت سی خواتین نے اس موقع کو آسمانی مدد سمجھ کہ اپنے اپنے کاروبار محدود پیمانے سے شروع کئے۔ ان میں ذیادہ تر کپڑے، میک اپ، جیولری اور کھانا پینے کی اشیأ شامل تھیں۔
آج کے مصروف دور میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آن لائن کاروبار کے اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، آن لائن کاروبار نے گھریلو خواتین کو بھی ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے جو کہ ان کی زندگیوں کو مثبت طور پر متاثر کرتا ہے۔ گھریلو خواتین اب آسانی سے اپنے گھر سے ہی آن لائن کاروبار کرتی ہیں، جس کے لئے انہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں گھریلو خواتین کا کاروباری سرگرمی کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو کاموں کو بھی پوری طرح وقت دے سکتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ گلوں کے ساتھ خار ہوتے ہیں اور ہر آسائش کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے، بلکل اسی طرح یہ خواتین جہاں معاشی خودمختاری کے لذت سے محظوظ ہورہی ہیں وہیں انکو بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ان کے آن لائن بزنس کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور دلچسپی کے باوجود ان کے سامنے مختلف مشکلات اور رکاوٹیں آ رہی ہیں۔ ان مشکلات میں سب سے نمایاں آن لائن ہراسگی اور تربیت و تعلیم کے عدم فراہمی شامل ہیں۔
ماہ نور جو راولپنڈی سے تعلق رکھتی ہیں اور شعبے کے اعتبار سے سافٹ وئیر انجینئر ہیں، اپنا میک اپ کا آن لائن کاروبار گزشتہ تین سال سے کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ اپنی کہانی ڈیجیٹل ۵۰ ۵۰ کو سناتے ہوئے ماہ نور کا کہنا تھا کہ جب ان کی ڈگری مکمل ہوئی اور وہ اپنے لئے کسی نوکری کی تلاش میں تھیں تو دنیا میں میں کرونا وبا ایک بھیانک خواب کی طرح وارد ہوئی اور پاکستان میں بھی زندگی کو مفلوج کر دیا۔ کچھ عرصہ گھر بیٹھنے کے بعد ماہ نور نے اپنا کاروبار کرنے کا سوچا اور آن لائن دوکان سجانے کے علاوہ ماہ نور کے پاس اور کوئی جگہ نہیں تھی جہاں سے وہ اپنے عملی زندگی کی پرواز بھرتی۔
ماہ نور نے بہت تحقیق کے بعد میک اپ کا سامان تھوک کے حساب سے منگوایا اور تھوڑا سا منافع کا مارجن رکھ کہ فیس بک پر آن لائن بیوٹی کے گروپس میں لائیو سیشن کر کے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ اس نے دس ہزار روپے جو اپنی جیب خرچ سے جوڑے تھے وہ اپنے کاروبار میں انویسٹ کئے اور پہلا منافع اس کی زندگی کا یادگار تجربہ تھا جس نے اس کی خود اعتمادی میں بھرپور اضافہ کیا۔
’شروع کے تین مہینے میں نے جو منافع کمایا وہ اپنے کاروبار میں دوبارہ انویسٹ کرتی رہی اور اب اللہ کا شکر ہے کہ تین سال بعد ’بیوٹی لکس‘ کے نام سے میرا اپنا ایک آن لائن کاروبار ہے اور فیسک بک، انسٹا گرام اور وٹس ایپ کے زریعے میں اسکو کاروبار کو کامیابی سے چلا رہی ہوں،‘ ماہ نور۔
ماہ نور اپنے گھر میں سب سے چھوٹی بہن ہے اور اب اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کاروبار نے ان کی زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لائیں ہیں، وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہے، اس کی فیمیلی اس کو مکمل سپورٹ کرتی ہے اور وہ جہاں اور جیسے چاہتی ہے خرچ کرتی ہے۔ پانچ بہنیں اور ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی ضرورتوں کے لئے بھی اپنے والد پر انحصار کرتی تھی مگر اب وہ اپنی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات کو بھی پورا کر کے اپنی زندگی میں رنگ بھر رہی ہے۔
جیسے کی رنگوں کی قوس قزح کی خوبصورتی کو کالا رنگ ماند کر دیتا ہے کچھ اسی طرح ماہ نور بھی آن لائن ہراسگی کے سیاہ رنگ سے خوفزدہ محسوس کرتی ہے۔ پاکستان ابھی ڈیجیٹل ترقی کا زینہ چڑھ رہا ہے اور لوگوں میں شعور اور تعلیم کی کمی کے باعث عورت ہو یا چاہے اسکی آواز ہو ایک تسکین کی چیز ہی ہے۔ ماہ نور بھی ایسے ہی پست زہن لوگوں کا سامنا بہت بہادری سے کر رہی ہے۔ اسکا کہنا تھا کہ، ’عورت کسی بھی جگہ چاہے آن لائن سپیس ہو یا ورک پلیس ہو، اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک اس معاشرے کی سوچ میں تبدیلی نہیں آجاتی اور لوگ اسکو تسکین کی چیز سمجھنا چھوڑ نہیں دیتے۔ میں نے اپنے فون نمبر، سوشل میڈیا اکاؤنٹس کاروبار کے لئے الگ اور ذاتی استعمال کے لئے الگ بنائے ہیں مگر پھر بھی ایسے ہی کچھ پست زہن کے لوگ سراغ لگاتے میرے ذاتی انباکس تک آجاتے ہیں اور طرح طرح کے گھٹیا حربے آزماتے ہیں۔‘
ماہ نور نے بتایا کہ وہ ان لوگوں اور انجان نمبروں کو بلاک کر کہ ان سے جان چھڑاتی ہیں مگر یہ ایک نہ تھمننے والا سلسلہ ہے جو کہ تین سال سے جاری و ساری ہے۔
اس کے علاوہ باقی عورتیں جو میک اپ کا آن لائن کا روبار کرتیں تھیں وہ ماہ نور کو پریشان کرتیں تھیں کہ آپ اپنا سامان سستے داموں بیچتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری مارکیٹ خراب ہو رہی ہے۔ آپ بھی اپنا مال مہنگا بیچیں ورنہ ہم آپ کا پیج بلاک کر دیں گے اور آپ کو کسی میک اپ گروپ میں لائیو سیشن نہیں کرنے دیں گے۔
ایسی ہی ایک باہمت خاتون، سائرہ (فرضی نام) بھی ہیں۔ جو پنڈی کے علاقے سٹلائیٹ ٹاؤن میں رہتیں ہیں اور گھر بیٹھے اپنا کپڑوں کا کامیاب آن لائن کاروبار ’روز کلیکشن ‘ کے نام سے چلا رہی ہیں۔ ہم سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ وہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کر پائی اور ایف اے تک علم کی ڈگریاں سمیٹ پائی۔
۲۰۱۹ میں جب کرونا کی وبا نے زندگی کی رفتار کو منجمد کردیا تھا تو انکے شوہر کی لگی لگائی نوکری بھی ختم ہوگئی اور گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال دئیے۔ سائرہ اپنے شوہر کی پریشانی بانٹنا چاہتی تھی مگر اس کو کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ وقت گزاری کے لئے فیس بک استعمال کرتی تھی اور ایک دن اچانک دوسری عورتوں کی آن لائن دکانیں دیکھ کہ اس کے زہن میں خیال آیا کہ اگر یہ خواتین ہمت کر سکتی ہیں تو وہ کیوں نہیں۔
’میرے پاس ذیادہ تو کیا تھوڑے پیسے بھی نہیں تھے کہ کاروبار میں لگاتی۔ ہمارے گھر کے پاس ایک کپڑوں کی دکان تھی جس کا مالک کرونا کی وجہ سے سیل کم ہونے پر بہت پریشان تھا۔ میں نے اس سے بات کی کہ اگر میں اس کے کپڑے اان لائن سیل کر کہ دوں اور اپنا منافع بھی رکھوں تو وہ خوشی خوشی تیار ہو گیا،‘ سائرہ۔
یوں سائرہ نے کپڑوں کی تصاریر اتار کہ آن لائن ’روز کلیکشن‘ کے نام سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ سب خاندان والوں نے اسکا مذاق بنایا اور کسی ایک فرد نے اس سے کپڑے نہیں خریدے بلکے اس پر مہنگے داموں بیچنے کا الزام بھی لگایا۔ خیر سائرہ نے ہمت نہیں ہاری اور پہلے ہفتے میں ہی اسکو اسکا پہلا آڈر ملا۔
’میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جب رمضان میں رات دو بجے فیس بک میسنجر پر مجھے ایک سوٹ کا آڈر ملا۔ میں نے اپنے شوہر کو نیند سے جگایا اپنی خوشی بانٹنے کے لئے۔ بس اس دن سے ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب میرا اپنا لاکھوں مالیت کا کاروبار ہے۔‘
سائرہ کا شوہر بھی اب اسی کے ساتھ کاروبار میں لگا ہوا ہے اور باہر کے سارے امور وہیں سر انجام دیتا ہے۔ اس آن لائن دنیا نے سائرہ کی نا امید دنیا کو نہ صرف امیدوں بلکے خوبصورت رنگوں سے بھی سجا دیا ہے۔ اب وہی رشتے دار جو اس کا حوصلہ شکنی کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے اب اس سے کاروبار شروع کرنے کے طریقے پوچھتے ہیں۔ اس معاشی خودمختیاری نے نہ صرف اسکی معاشی مشکلات کو آسان کیا بلکے لوگوں اور اسکے گھر والوں کے رویئوں میں بھی مثبت اور حیران کن تبدیلی دیکھائی۔
مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے سائرہ نے بھی ماہ نور کی طرح بتایا کہ لوگ اس کے آن لائن سیشن کے دوران بے ہودہ میسج کرتے تھے کہ آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے تو آپ خود بھی بہت خوبصورت ہوں گی۔اس طرح کی صورتحال میں وہ بہت شرمندگی محسوس کرتیں تھیں کیوں کہ ان کے خاندان کی ذیادہ تر خواتین انکا سیشن دیکھتیں تھیں اور اس طرح کے کمنٹس انکی مشکلات میں اضافہ کرتے تھے۔
انباکس میں بے ہودہ پیغامات، آڈیو اور کبھی وڈیو کالز یہ سب بھی معمول کا حصہ تھا۔ مگر ان کے شوہر نے سائرہ کا بہت ساتھ دیا اور ہر بار انکی ہمت بڑھائی۔ وہ اس آن لائن ہراسگی سے کیسے نمٹتی تھیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ جب میرے شوہر گھر نہیں ہوتے تھے تو میں انجان نمبر سے کوئی کال نہیں اٹھاتی تھی بلکہ بلاک کر دیتی تھی اور جب شوہر پاس ہوں تو انکو فون دے دیتی تھی۔
سائرہ اب اپنے گھر کی کفیل بن چکی ہیں مگر ہراسگی کا یہ سلسلہ مسلسل کئی سال سے انکا پیچھا کر رہا ہے۔ لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اس ہراسگی نے ان کی ہمت اور حوصلہ نہیں توڑا جس میں ان کے شوہر کا ساتھ ایک مضبوط ستون ثابت ہوا۔
اسی طرح اسلام آباد کے جی ۱۴ سیکٹر میں رہنے والی صائمہ چار بچوں کی ماں ہے جو بچوں کی وجہ سے گھر سے باہر ملازمت نہیں کر سکتی تھی اور کچھ کرنے کا جنون بھی اسکے سر تھا۔ صائمہ کے کھانے کی پورے خاندان میں دھوم تھی تو اس نے اسی شوق کو اپنا پروفیشن بنانے کا سوچا اور آن لائن فوڈ ایپ، ’فوڈ پانڈا‘ کے زریعے اپنے کھانے کے کاروبار کا آغاز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے بنے لذیذ کھانے جو مناسب داموں دستیاب تھے لوگوں کی توجہ کھینچنے میں کامیاب ہوئے اور اب صائمہ ’ہیلتھی بائیٹس‘ کے نام سے انسٹاگرام اور فیس بک پر اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔
’اب میں فوڈ پانڈا پر کام نہیں کرتی کیونکہ میرے کسٹمرز میرے واٹس ایپ گروپ میں ایڈ ہیں اور وہیں مجھے کھانے کے آڈرز ملتے ہیں۔ نئے کسٹمرز مجھے سوشل میڈیا پر میرے پیجز سے رابطہ کرتے ہیں۔‘
صائمہ کا کہنا تھا کہ وہ گھر رہ کر ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھیں انکو لگتا تھا کہ بچوں کی ذمہ داریوں کے بعد وہ اور کچھ نہیں کر پائیں گی مگر اس ڈیجیٹل دنیا نے نہ صرف انکو اس ڈپریشن زدہ زندگی سے نکالا بلکے معاشی طور پر بھی مضبوط کیا۔
ہراسمنٹ والے سوال پر انکے بھی کم و پیش وہیں تجربات تھے جو ہم نے سائرہ یا ماہ نور کے دیکھے تھے اور ان کو حل کرنے کے لئے بھی انکے پاس بلاک کا آپشن سب سے محفوظ طریقہ تھا۔
آن لائن دنیا نے جہاں ان خواتین کے لئے زندگی کی نئی راہیں واں کی وہیں کچھ شر پسند عناصر نے ان کی اس نئی زندگی میں رکارٹیں ڈالنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ یہ عناصر ان تین خواتین کی ہمت تو نہیں توڑ پائے مگر اور کتنی ایسی خواتین ہوں گی جو ان کے شر کا شکار ہو کر خود اپنے ہاتھوں اپنی نئی زندگی کے دروازے خود پو بند کر چکی ہوں گی۔
ان خواتین سے بات چیت کے دوران کچھ حقائق واضح ہو گئے کہ آن لائن کاروبار میں چاہے پڑھی لکھی خواتین ہوں یا کم پڑھی لکھی، انکو اپنی ڈیجیٹل حفاظت کے قانون کے بارے میں کوئی علم نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے حفاطتی ہتھیاروں کے بارے میں معلومات ہیں۔ بلاک کرنا انکا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
ان باہمت خواتین کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے اور محفوظ بنانے کے لئے جدید معیار کی ٹرینیگ کی ضرورت ہے جو ان کے فولادی بازوں کو مزید مضبوط کر سکتی ہیں۔
۲۰۱۶ میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (پیکا) منظور کیا گیا۔یہ سائبر کرائم کی تمام اقسام کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے اور یہ سائبر کرائم بل 2007 پر مبنی ہے۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ (سی سی ڈبلیو) کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ ۲۰۱۶ (پیکا) کی روک تھام کے قوانین سے رہنمائی حاصل ہے، جو سائبر کرائمز کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹتا ہے۔ ایف آئی اے اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائنز اس طرح کے آن لائن ہراسمنٹ کے کیسوں میں مدد فراہم کرنے میں بہت معاون ہیں۔
ایف آئی اے کی ہیلپ لائن ۷۸۶۔۳۴۵۔۱۱۱
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن ۳۹۳۹۳۔۰۸۰۰
مگر ضروری یہ ہے یہ جو بھی خواتین آن لائن سپیس میں جاتی ہیں چاہے وہ کاروبار، نوکری یا تفریح کے لئے ہو ان کو اپنی حفاظت کے سب ہتھیاروں کا نہ صرف پتہ ہونا چاہئے بلکے ان سے لیس بھی ہونا چاہئے صرف تبھی وہ انٹرنیٹ کے وسیع آسمان میں لمبی اور محفوط پرواز بھر سکیں گئیں
Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine
Comments are closed.