December 7, 2023 - Comments Off on تشدد صرف مار پیٹ نہیں، گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کو تشدد کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

تشدد صرف مار پیٹ نہیں، گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کو تشدد کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

ماریہ انجم

تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے تمہیں کسی نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔’

‘نہیں بابا اس نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا ‘

تشدد صرف مار پیٹ نہیں ہوتی   ‘

  پاکستان کے نجی ٹی وی پر  نشر ہونے والے ڈرامے کا یہ کلپ ٹک ٹاک اور فیس بک  پر وائرل ہے جہاں ایک  شادی شدہ بیٹی اپنے باپ سے یہ گفتگو کر رہی ہے۔ باپ نے بیٹی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ اس کا شوہر اس کو تشدد کانشانہ بناتا ہے لیکن بیٹی نے کہا کہ وہ اس کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔

اس کلپ کے نیچے لکھے جانے والے کمنٹس کا اگر جائزہ لیا جائے تو نوے فیصد خواتین اس ڈرامے کے کلپ میں ہونے والی گفتگو کے متعلق کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ان کے ساتھ بھی یہی ہوچکا ہے جہاں ان کے شوہر ان کو ذہنی طور پر اتنا تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کہ دیکھنے والے کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔

پاکستان خواتین کے خلاف تشدد میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ جہاں تقریباً 32 فیصد خواتین کو مبینہ طور پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 40 فیصد شادی شدہ خواتین ازدواجی تشدد کا شکار ہیں جس میں ذہنی تشدد یا مینٹل ابیوز سر فہرست ہے۔

پاکستان میں جہاں خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات سجھا جاتا ہے وہیں معاشرہ اب صنفی بنیادوں پر تشدد کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اب کیوں؟ یا کیسے؟ کے بجائے یہ پوچھا جاتا ہے کہ عورت نے ایسا کیا کردیا تھا؟

پاکستان میں جہاں خواتین جسمانی تشدد پر بھی صبر کر جا تی ہیں وہاں ذہنی تشدد یا گیس لائٹنگ کے حوالے سے ان کے پاس آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین کے ذہنی امراض کے حوالے سے کام کرنے والی ڈاکٹر ثمینہ منظور کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسی فیصد شادی شدہ  خواتین ڈیپریشن کی شکایات لے کر آتی ہیں اور ان میں سے نوے فیصد خواتین ازداواجی و ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن ان کو خود اس بات کا علم نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر ثمینہ منظور کا کہنا ہے کہ ہم تشدد کو اکثر صرف جسمانی  سمجھتے ہیں جہاں ہم نظر آنے والے زخموں ، نیل اور نشانات سے اس کا ایک خاکہ بناتے ہیں لیکن ذہنی تشدد اس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جہاں آپ کہ پاس دکھانے کے لیے کوئی زخم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی تشدد کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔ ذہنی تشدد میں زبانی بد سلوکی ، شک اور بلاوجہ نظر انداز کرنا جس میں آپ کو اپنا آپ غلط لگے شامل ہے۔ 

گیس لائٹنگ کیا ہے اور اس کی علامات کیا ہوسکتی ہیں؟    

گیس لائٹنگ ذہنی تشدد کی ایک قسم ہے جہاں تشدد کا شکار ہونے والے افراد میں جان بوجھ کر ان کی شخصیت اور خیالات کے حوالے سے شک پیدا کیا جاتا ہے۔ امیریکن سائیکلوجیکل ایسوسییشن کے مطابق کسی شخص کو اس قدر مینیوپلیٹ کر دینا کہ اس کو واقعات ، خیالات اور حتیٰ کہ اپنے  تجربات کے حوالے سے شک ہونے لگ جائے اور وہ اس بات کو مان لیں کہ ان کا پارٹنر جو کہ رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ گیس لائٹنگ کی شروعات جھوٹ سے ہوتی ہے جو کہ بار بار بولا جاتا ہے اور پکڑے جانے پر اس کو ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے۔

حرا رمضان کا تعلق راولپنڈی کے ایک پوش علاقے سے ہے ، ان کی شادی تین سال تک چلی جس کے بعد انہوں نے خلع لے لی۔ حرا رمضان کا کہنا ہے کہ شروع میں مجھے بالکل محسوس نہیں ہوا کہ میں تشدد کا شکار ہورہی ہوں کیونکہ میرے سابق شوہر میرے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھ کر مجھ سے وہ باتیں منواتے تھے جو شاید میں اگر خود سے فیصلہ لے سکتی تو کبھی نہ کرتی۔

حرا رمضان کا کہنا ہے کہ وہ بدترین گیس لائٹنگ کا شکار ہوگئی تھیں جہاں ان کے شوہر ان کو بار بار یہ محسوس کرواتے تھے کہ وہ ان سے کم تر ہیں۔ وہ اکثر ان کو کہتے تھے کہ تمہارا یہ لیول نہیں ہے، انہوں نے یہ بات اتنی دفعہ بولی کہ آخر کار انہیں بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ شاید واقعی ہی وہ ان کو ڈیزرو نہیں کرتی، وہ اس گھر میں رہنے کے قابل نہیں ہیں اور وہ ان سے بہت کم تر ہیں۔

حرا رمضان کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ قبول کرنا بہت مشکل تھا کہ میرا پارٹنر مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ اس وقت مجھے سب صحیح لگ رہا تھا ، میں احساس کمتری کا شکار ہو چکی تھی اس لیے وہ جو بھی کہتے یا کرتے تھے مجھے وہ سب بہت ٹھیک لگتا تھا۔

حرا رمضان کا کہنا ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے خاندان نے اس ذہنی تشدد کو ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہوئے ان کا بہت ساتھ دیا اور وہ اس ٹاکسک ازدواجی زندگی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔

لیکن پاکستان میں ہر جگہ لوگوں کا ذہنی تشدد کے حوالے سے رد عمل ایک جیسا نہیں ہے کیونکہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ایسے ازدواجی تعلقات سے نکلنا انتہائی مشکل ہے، جہاں اگر آپ کا شوہر مار پیٹ نہیں کرتا تو عورت کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ تین چار باتیں سن لینے سے اگر گھر بچ سکتا ہے تو گھر کو بچانا ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا کے ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون انعم خان کا کہنا ہے کہ ان  شوہر اس قدر واقعات کو جھوٹا بنا کر گھر والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اکثر ان کو یہ لگتا ہے کہ واقعی وہ جو کہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے اور میں بہت بری انسان ہوں جو ان کے قابل نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کو خود سے نفرت ہونے لگ گئی ہے۔

انعم کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی زبانی بد سلوکی کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ وہ ایک انتہائی ناکارہ انسان ہیں اور ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہے۔

انعم خان کہتی ہیں کہ وہ دو دفعہ اپنے شوہر کے رویے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئی ہیں لیکن ان کے والدین کہتے ہیں کہ یہ کوئی وجہ نہیں ہے ، دنیا کی ساری خواتین یہ سب برداشت کرتی ہیں، انعم کہتی ہیں کہ اگر ان کے شوہر مار پیٹ کرتے تو شاید وہ زخموں کے نشان اپنے والدین کو دکھا کر اس شادی کو ختم کرسکتیں۔

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کا شکار خواتین کیسا محسوس کرتی ہیں ؟

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کی شکار خواتین کے حوالے سے کلینکل سائیکالوجسٹ سعدیہ ناظر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والی خواتین انتہائی سہمی ہوئی ہوتی ہیں،خوف ، بے چینی ، اعتماد کی کمی ، اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آتی اور وہ اپنے بچوں کو بلاوجہ جسمانی تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔

سعدیہ ناظر کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین صرف ایک ہی بات پر زور دیتی ہیں کہ وہ بہت کوشش کرتی ہیں کہ سب کو خوش رکھ سکیں لیکن ان سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔

سعدیہ ناظر کہتی ہیں کہ گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کی شکار خواتین میں سب سے عام علامات یہ ہیں کہ وہ خود کا دھیان نہیں رکھتیں ، نہ وہ اچھے کپڑے پہن پاتی ہیں نہ میک اپ کرتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے شوہر کو خوش رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ پھر بھی خوش نہیں رہتے، ان کی اپنی کوئی پسند ناپسند نہیں رہتی اور ان کو یہ لگتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے لیے یا گھر کے لیے کوئی فیصلہ لے سکیں۔

گیس لائٹنگ کی شکار خواتین کو ان کے پارٹنر بار بار اپنے رویے سے یہ بتاتے ہیں کہ وہ اتنی کم تر ہیں کہ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایسی خواتین کو لگتا ہے کہ اگر ان کے شوہر ان کو اپنے گھر میں رکھ رہے ہیں یا خرچہ اٹھا رہے ہیں تو یہ ان کا احسان ہیں ورنہ وہ اس قابل نہیں ہیں۔

سعدیہ ناظر کا کہنا ہے کہ ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے جب ہم ایسی خواتین کو بتاتے ہیں کہ آپ ذہنی تشدد کا شکار ہیں تو پہلے تو وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتیں، ان کو یہ قبول کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ایسی خواتین کو اس فیز سے نکالنے کے لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کی خود اعتمادی اور عزت نفس کو بحال کیا جائے۔

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کی شکار خواتین ایسے ازدواجی تعلقات میں احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو مینیوپلیٹ کرنا یا اپنی باتیں منوانا بہت آسان ہوتا ہے۔

خواتین میں گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کے پارٹنر شروع شروع میں ان کے ساتھ انتہائی اچھا رویہ اپناتے ہیں اور اس کے بعد ان سے اپنی باتیں منواتے ہیں تو وہ اس کو پیار کرنا یا خیال رکھنا تصور کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ ان کی اپنی پسند نا پسند ختم ہوجاتی ہے اورحتی کہ ان کی اپنی شخصیت ختم ہو جاتی ہے۔

گیس لائٹنگ یا ذہنی تشدد کو تشدد کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

ذہنی تشدد کا کوئی ظاہری زخم یا نشان نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ اس کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے۔ سعدیہ ناظر کے مطابق پچانوے فیصد خواتین جو ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ان کو خود ہی معلوم نہیں  ہوتا کہ وہ ذہنی تشدد کا شکار ہیں تو وہ کیسے کسی سے مدد مانگ سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ایک زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔

گیس لائٹنگ کی شکار خواتین ہر وقت ایک الجھن کا شکار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کوئی فیصلہ نہیں لے پاتیں، ایسے ریلیشن شپ سے اس وقت باہر نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے جب آپ کے ارد گرد لوگ آپ کو صبر کرنے کی تلقین کرتے رہیں۔ معاشرے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث ایسی خواتین  کو چپ رہنے ، صبر کرنے اور بچوں کی خاطر گھر بسانے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔

ذہنی تشدد ایک انسان کی پوری شخصیت کو تبدیل کردیتا ہے، ایسی خواتین آہستہ آہستہ اپنی عزت نفس کو پاوں تلے روندتے ہوئے اپنے پارٹنر کی خواہشات ، پسند نا پسند کو ترجیح دیتی ہیں۔ ذہنی تشدد یا گیس لائٹنگ کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ذہنی تشدد کو ریاستی سطح پر تشدد تسلیم کرنے اور اس کےحوالے سے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے، حکومتی اداروں کی جانب سے صنفی بنیادوں پر تشدد کے حوالے سے کی جانے والی آگاہی مہم میں ذہنی تشدد کو شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.