March 8, 2025 - Comments Off on ہیش ٹیگ سے آگے: خواتین کی ڈیجیٹل کمائی اور پیکا کا خطرہ
ہیش ٹیگ سے آگے: خواتین کی ڈیجیٹل کمائی اور پیکا کا خطرہ
By ربیعہ ارشد ترکمان
جیسے جیسے پاکستان کا ڈیجیٹل منظر نامہ پھیل رہا ہے، خواتین اپنی کاروباری ، تخلیقی سرگرمیوں، کہانی سنانے، کاروباری اموراور شخصی ٹیلنٹ کی تشہیر کیلیے آن لائن پلیٹ فارمز کو تیزی سے استعمال کر رہی ہیں۔ گویا کہ ہمارے ملک کی آدھی آبادی خواتین کا آن لائن سپیس کا استعمال بہت محدود ہے، کیونکہ پچاس فیصد خواتین میں سے بھی شاید ہی 10 فیصد خواتین سمارٹ فون یا ڈیجیٹل سپیس کو استعمال کرنے کی اجازت/آزادی اور مہارت رکھتی ہیں ۔ لیکن کووڈ وباء کے بعد زیادہ ترخواتین نے ڈیجیٹل سپیسز میں ہی اپنا کاروبار شروع کیا۔ تاہم، ان کی ڈیجیٹل سپیسزمیں موجودگی کو اکثر ہراساں کرنے، سنسرشپ، اور الگورتھم تعصبات سے خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ایسے ماحول میں سائبر قوانین، پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ پیکا میں حالیہ ترامیم کے بعد، خواتین کے ڈیجیٹل سپیسز میں شخصی اور کاروباری حقوق پر اثرات کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔
پیکا کے بارے میں یہلا تاثر ہے کہ یہ صرف خبری حلقوں یا صحافیوں کو متاثر کریگا لیکن ایسا نہیں ہے، اس کا اثر عام عوام تک بھی اسی شدت کیساتھ پہنچے گا۔ پیکا کی دفعات ڈیجیٹل ایکٹیوزم ، ڈیجیٹل کاروبار، کاروباری تشہیر کو متاثر کرسکتی ہیں۔ صحافی جس کو دس سال مرکزی دھارے میں کام کرنے کے باوجود نوکری نہیں ملی تو اس نے اپنا یوٹیوب چینل بنا کر اس سے اپنا صحافتی سفر بھی جاری رکھا اور انٹری پرینیوریل جرنلزم کی بنیاد بھی رکھی اور کی اسکی مثال مشہور صحافی مطیع اللہ جان ہیں۔
اسکے علاوہ جدید ڈیجیٹل دنیا میں آن لائن شخصی ٹیلنٹ کی بنیاد پر ذاتی مشاہدے اور تجربے سے حاصل آگاہی، تفریحی، معلوماتی اور ہنر سیکھانے کی تشہیر کےلیے خواتین یوٹیوب چینل، سوشل میڈیا گروپس (ٹویٹر اور فیس بک) اور ٹک ٹاک کے ذریعے اپنی آمدن بنا رہی ہیں بلکہ ملکی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل انٹری پرینیورخواتین میں موجودہ خبری انٹری پرینیورخواتین، آگاہی مہم ، مصنوعات کا تشہیری کانٹینٹ کرئیٹر اور پالیسی سازی کے پلیٹ فارم اس قانون کی ترامیم کو خواتین کی حفاظت، آزادی اظہار پر ریاستی سنسرشپ اور آن لائن سرگرمی پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے بہت سے تحفظات رکھتے ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ پیکا میں آن لائن تقریرپرریاستی کنٹرول میں اضافہ، ہتک عزت کے سخت قوانین ، کچھ اصطلاحات ، خواتین کی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے پیکا کے غلط استعمال کو ممکن بنا سکتی ہیں۔
ماہین، یوٹیوب انٹری پرینیور، کانٹنٹ کرئیٹر، نیو میڈیا کے نام سے چینل کے ذریعے کمائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ حکومت کے ڈیجیٹل میڈیا ٹریننگ ’کامیاب جوان پروگرام ‘ میں فلم اینڈ ڈاکومنٹری میکنگ کورس میں ٹاپ کیا تھا، اور اپنے چینل کی مانیٹائزیشن اور الگورتھم کےلئے ٹرینڈز کو فالو کرتے ہوئے کانٹینٹ یا تخلیقی مواد بنایا ، ’’کیونکہ بطور کانٹنٹ کریٹر ہمیں حکومتی پروگرامز کو ہائی لائیٹ کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی حکومت ہو، تاکہ ٹرینڈی ٹاپکس سے لوگوں تک زیادہ رسائی مل سکے اور وہ مواد ریونیو بنا نے میں مددگار ہو، لیکن حکومت بدلتے ہی انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں کہ اگر انہوں نے مخصوص موضوعات پر مزید بات کی تو انہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور وہ اپنی پرانی ویڈیوز کو بھی ڈیلیٹ کریں، جس سے لا محالہ میرے چینل کا الگورتھم بھی خراب ہوا۔ جس کے بعد میں نے خود ساختہ سنسر شپ اختیار کر لی اور سیاست کی بجائے سماجی کانٹینٹ تک خود کو محدود کرلیا۔ اور پوڈ کاسٹ کی طرف شفٹ ہوگئی اور اس سے میری حوصلہ شکنی بھی ہوئی ۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی نقل تو کرنا چاہتے ہیں مگر جس طرح وہ ٹیکنالوجی اور آزادئ اظہارکو اپناتے ہیں وہ ہم اپنانا نہیں چاہتے، ڈیجیٹل اور گلوبل دنیا میں اب لوگ آنکھوں دیکھے یا ذاتی مشاہدے پر ہی یقین کرتے ہیں۔ موجودہ ترامیم کے بعد اب کانٹنٹ کرئیٹر کسی ادارے کی خرابی کی طرف توجہ نہیں دلا سکتے، کیونکہ انکو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ پیکا ایکٹ کے تحت اب تین سال جیل کی سزا اور لاکھوں روپے کا جرمانہ بھی کر سکتے ہیں ۔ جو بالآخر کانینٹ کرئیٹر کی ساکھ کیساتھ ساتھ اسکی معاشی حالت کو بھی خراب کریگا"۔
بشری اقبال حسین، ’’محفوظ بچپن ‘‘ کے نام سے بچوں کے حقوق اور آگاہی مہم کا پلیٹ فارم سماجی رابطہ سائٹ سے ہی چلا رہی ہیں، پیکا قانون کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انکا کہنا تھا، ’’ کسی بھی مسئلے مثلاً حال ہی میں، مصطفی عامر کیس پرمیں نے ویڈیو اپ لوڈ کی کہ میڈیا کیساتھ معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صرف سختی اس معاملے کا حل نہیں تو ایک خاتون نے مجھے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا، وہ خاتون جس قدر سخت تنقید اور غصے کا اظہار کر رہی تھی، اگران کو پیکا کی نئی شق کا علم ہوتا تو وہ مبہم تعریفوں میں کسی بھی ایک شق کے تحت مجھے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی، یہ سوچ ہی میرے لئے کافی اذیت ناک تھی، یہ ابھی ایک کیس ہے، لیکن اس میں ہم کسی لمحےبھی شر پسند عناصر کو خود موقع فراہم کرسکتے ہیں کہ وہ حقائق سامنے لانے والوں کو بآسانی خاموش کرادیں"۔
فریحہ عزیز، جو ’بولو بھی‘ انٹرنیٹ رائٹس آرگنائزیشن کی ساتھی بانی بھی ہیں، ان کا پیکا ترامیم کے حوالے سے کہنا ہے کہ’’ جب دس برس قبل پیکا میں ’سیکشن 37کے تحت کانٹینٹ بلاک کرنے کے حوالے سے لیگل نوٹس بھجوانا‘ بل میں شامل کیا گیا تھا میں تب سے ہی اسکے حوالے سے آواز اُٹھا رہی ہوں کہ یہ ایک خاموش کرنے کا ذریعہ ہے یہ قانون اسی لئے لایا گیا تھا تاکہ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جائے، لیکن اب اسکی وجہ سے ڈیجیٹل دنیا میں بزنس ماڈلز بھی متاثر ہوں گے، کیونکہ کانٹینٹ کیا بنایا گیا؟، اور وہ کس کو جارحانہ یا اپنے خلاف لگتا ہے؟، پھراب ترامیم کے ذریعے مزید چیزیں شامل کی گئیں اور ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام اور ٹریبیونلز بنا کر کانٹینٹ ڈیویلپمنٹ کو مزید مشکل اور محدود بنانے کی کوشش کی جائے گی، لوگوں کو ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کی آؤٹ لیٹس کے بزنس ماڈل بدلنے پڑیں گے، ان پر جرمانے یا انکے سٹارٹ اپس یا یوٹیوب چینل بند کرنا پڑیں گے، تو بظاہر اسکے ابھی تک زیادہ منفی اثرات ہی نظر آرہے ہیں"۔
جویریہ رانا، ایجوکیشنسٹ اور انٹری پرینیور،جنہوں نے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ’کیفے لرننگ‘‘ کے نام سے اسٹارٹ اپ کا آغاز کیا ہے۔ جویریہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیکا کا مقصد در اصل سائبر کرائمز اور آن لائن ہراسانی کو روکنا تھا، لیکن حالیہ ترامیم مستقبل میں کاروباری خواتین اور خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، جو ایمانداری سے مجھے اچھی نہیں لگیں۔ مجھے اس قانون کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ اس طرح کے قوانین غیرارادی لیکن نقصان دہ نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میرا پلیٹ فارم ’’ کیفے لرننگ‘‘ یا ایسے پلیٹ فارمز، جو تعلیم، قیادت، اور صنفی مساوات کو فروغ دیتے ہیں، اور چیلنج کرنیوالے معاشرتی اصولوں، کھلے مباحثوں اور جرات مندانہ گفتگو اور سوچ کو فروغ دیتے ہیں، لیکن پیکا کی پابندیوں والی ترامیم کے تحت، حساس مسائل پر بحث کرنا، چاہے صنفی تعلیم کا فرق ہو، کام کی جگہ پر امتیازی سلوک ہو، یا ہراساں کرنا، ان سب موضوعات، یا کانٹینٹ کو ’’غلط معلومات پھیلانا‘‘یا ’’بدنامی‘‘ کا لیبل لگایا جا سکتا ہے۔ جو نتیجتاً خود ساختہ سنسر شپ، بامعنی مکالمے کی حوصلہ شکنی اور بالآخر پاکستان میں ڈیجیٹل کاروباری خواتین اور معلمین کو بااختیار بنانے کی کوششوں کو کمزور کرنے کا خطرہ ہے۔ اس قانون کے تحت تعلیمی پلیٹ فارمز جس کا مقصد ترقی اور تعلیم دینا تھا، جیسے کیفے لرننگ، انہیں غیر ضروری جانچ پڑتال، قانونی رکاوٹوں، یا یہاں تک کہ بند ہونے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے"۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جویریہ کا کہنا تھا، ’’ترامیم نے میرے جیسے خواتین کی زیر قیادت کاروبار کو مزید مشکل کردیا ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا جدید انٹرپرینیورشپ کی کلید ہیں، لیکن اگر قوانین کسی بھی تبصرے، جائزے، یا کاروباری تنقید کو ’’ہتک عزت‘ یا ’غلط معلومات‘ کا لیبل لگانے کی اجازت دیتے ہیں تو یہ ایک سنگین ہتھیار بن سکتا ہے۔ تصور کریں کہ ایک خاتون کسی کاروباری غیر منصفانہ عمل کو سوشل میڈیا پر ہائی لائیٹ کرتی ہے یا اپنے اسٹارٹ اپ کے فروغ کیلیےغیر ارادی طور پر کسی دوسری مصنوعات کی خامی کو نمایاں کرتی ہے توکیا طاقتور حریف اسکی ساکھ کو خراب کرنے کیلئے اس قانون کا استعمال نہیں کریگا؟؟؟یہ ترامیم خواتین کو ڈیجیٹل کاروباری جگہ میں داخل ہونے کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہیں"۔
’’اگر قوانین آزادی اظہار کو دباتے ہیں، تو یہ خواتین کارکنوں، بلاگرز، اور ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والوں کے لیے اضافی خطرات پیدا کرتا ہے۔ تحفظ فراہم کرنے کے بجائے، یہ ان خواتین کو خاموش کر سکتا ہے جو پہلے ہی اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ میشا شفیع کے ہتک عزت کے مقدمے یا عورت مارچ پر سائبر حملوں جیسے کیسز کو دیکھیں ، جہاں ہراساں کیے جانے کے خلاف بات کرنا خود ہی ہراساں کیے جانے سے بڑا خطرہ بن گیا۔ پیکا، اپنی موجودہ شکل میں، خواتین کو تحفظ دینے کے بجائے خاموش کرنے کی کوشش کرنے والوں کو مزید حوصلہ دے سکتا ہے"۔
لبنی جرار، بین الاقوامی فیڈریشن آف جرنلسٹ کی پاکستان میں صنفی مساوات کی کوآرڈینیٹر اور میڈیا ٹرینر نے پیکا کی نئی ترامیم کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’عوام الناس کا خیال ہے کہ پیکا صرف صحافیوں یا یو ٹیوبرز کو متاثر کریگا، لیکن یہ سارے ڈیجیٹل سپیس پر کام کرنیوالوں کو متاثر کرے گا، مثلاً ایسے انٹری پرینیورز جو سینیٹری پراڈکٹ یا خواتین کی ہائی جین کی چیزوں کا کاروبار کرتے ہیں اور ان مصنوعات کی تشہیر ڈیجیٹل ہی کی جائی گی اور ایسے میں کوئی پیکا کے تحت ان پر کیس فائل کردے کہ یہ ہمارے معاشرے میں فحاشی پھیلا رہی ہیں، تو اس لئے اداروں کو اس حوالے سے اس قانون پر نظر ثانی کرنا پڑے گی کہ یہ قانون کس کس طرح غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ ان سیکشنز کو مختصر مدتی پائلٹ پراجیکٹس کے تحت ٹیسٹ کرنے بعد بل کا حصہ بنانا چاہئے تھا"۔
صنفی حساسیت کی ٹرینر کا مزید کہنا تھا، ’’ہمارے ملک میں خواتین کوآن لائن سپیس استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی، ایسے میں اگر کوئی خاتون ہمت کرکے سماجی رابطہ سائٹس پر اپنی آواز اٹھائے گی، کسی ظلم کے خلاف رائے دے گی تو ہراساں کرنیوالی کمیونٹی اسکو پیکا ترامیم کا حوالہ دیکر ڈرا سکتی ہے کہ خاتون کسی کو’ ڈی فیم‘ کر رہی ہے، تو پیکا ایکٹ کے صرف ایک نہیں، اسکے کئی ٹنٹیکلز یا شاخیں ہوسکتی ہیں جو لوگوں کو تنگ کر سکتی ہیں، ہمیں قانون سازی سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن ایسی قانون سازی صرف صحافیوں کو نہیں بلکہ عام سوشل میڈیا صارفین جن میں بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ہر کوئی اس سے متاثر ہوسکتا ہے، مثلاً ان پڑھ لوگ بھی اگر آن لائن رائے دیتے ہیں تو وہ بھی اس میں پھنسے گے، جنہیں اس قانون کے لاگو ہونے کا بھی شاید علم نہ ہو۔ گورنمنٹ کواس پر کوئی ریفرینڈم کرانا چاہیئے تھا"۔
’’صرف صحافی خواتین نہیں بلکہ بہت سی خواتین جو اپنی گھریلو زندگی کا کانٹینٹ بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال رہی ہیں، سماجی رابطہ گروپس بنا کر کما رہی ہیں، لیکن اس قانون کے تحت ایسے گروپس یا کانٹینٹ بنانے والی خواتین،کا نام، کام اور کمائی متاثر ہوں گی، کیونکہ کوئی بھی کسی بھی بات یا رائے کو اپنے مفاد میں جارحانہ یا کسی مشہور کانٹنٹ کرئیٹر کی ساکھ خراب کرنے کیلئے اس پر پیکا کا استعمال کر سکتا ہے۔ بلاگرز کو سیکشن 9، اور 10 بھی متاثر کر سکتا ہے، جس میں ’دہشت گرد‘ کی اصطلاح ہے، اگر دیکھا جائے تو بیرون ممالک میں مسلم ہونا ہی دہشت گرد ہونے کے برابر ہے، ایسے میں عام الفہم بات اگر کسی کو بری لگ جائے تو مخالف 21 اور 22 سیکشن، سائبر سٹاکنگ اور سپیمنگ کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ اس لئے حکومت اگر پیشگی آگاہی مہم کرتی تو عوامی آگاہی و رضامندی کیساتھ ادارے بھی ان قوانین کی ٹیسٹنگ کرکے مثبت نتائج حاصل کرپاتے"۔
عثمان بھٹی، ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، ماہر سائبر قانون نے پیکا ترامیم کی خصوصی دفعات ، 20،24، اور 26 اے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ترمیم کردہ کسی بھی قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو عورت کو تحفظ فراہم کرے یا اسے کسی بھی مواد کو آن لائن شیئر کرنے کی اجازت دے سکے۔ اس سے قبل پیکا کا آن لائن مواد کے حوالے سے نرم رویہ تھا لیکن حالیہ ترمیم نے صحافیوں، یو ٹیوبرز اور ٹک ٹاکروں کی گردنیں توڑ دیں ہیں۔ میں نے ایسے کیسز دیکھے ہیں جنہوں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر صرف عوام کو ایف آئی اے اور عدالت کی طرف راغب کرنے کے لیے نامناسب اور فحش تھمب نیلز پوسٹ کیے ہیں، ان کے مقدمات ابھی تک زیر التواء ہیں۔ اب پیکا کے تحت سختی سے ایسے مواد کی روک تھام کی جائے گی جو حکومتی پالیسیوں اور محکموں کی خرابیوں کی نشاندہی کریگا، ایسے کانٹنٹ کے خلاف کاروائی کی جائے گی، نتیجتاً مواد شئیر کرنیوالے کو جیل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ حال ہی میں پنجاب پولیس کے ایک آفیسر کو گرفتار کیا گیا کیونکہ اس نے 2024 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مذمت کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کی تھی۔ حالیہ پیکا ترامیم کے بعد آن لائن سپیس میں پاکستان میں کوئی بھی اس قانون سےمحفوظ نہیں ہے۔ اس سے قبل سیکشن 37 کے تحت تخلیقی مواد بنانے والوں کو گرفتار کرکے انکا تخلیقی مواد ڈیلیٹ کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔ جوانکے پلیٹ فارم کے الگورتھم کو خراب کرکے انکی کمائی میں کمی لا سکتا ہے اورانکی کاروباری ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے"۔
قصہ مختصر پی ای سی اے یا پیکا کی ترامیم سے صرف آزادی اظہار کو ہی خطرہ نہیں! بلکہ یہ کامیاب آن لائن کاروباری خواتین، علمی گروپس، اور انسانی حقوق کے ایکٹوسٹس کے لیے رکاوٹیں پیدا کرسکتا ہے، ہمارے معاشرے میں خواتین نے بہت مشکل سے گھر بیٹھ کر آن لائن دنیا کے ذریعے اپنے ہنر کے ذریعے اپنی اور صلاحیتوں کی شناخت بنائی ہے، ایسے میں یہ قوانین انہیں ترقی کے بجائے، پسماندگی کی طرف لے جائیں گی، جہاں معیشت میں حصہ داری تو دور کی بات خواتین کو بولنے سے بھی ڈر لگے۔
Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine
Comments are closed.