Blog Archives

March 7, 2025 - Comments Off on سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جوابدہ بنانا اب کیوں ضروری ہے؟

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جوابدہ بنانا اب کیوں ضروری ہے؟

By Wajeeha Aslam

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ نہ صرف رابطے کا  ذریعہ ہیں، بلکہ معلومات کے حصول، کاروبار، اور سماجی بیداری کے لیے بھی اہم ہیں۔ تاہم، ان پلیٹ فارمز کے ساتھ کچھ سنگین مسائل بھی وابستہ ہیں، جن میں سے ایک اہم مسئلہ آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین  اس کا زیادہ شکار ہو رہی ہیں۔گھریلو خواتین ہوں یا پھر ورکنگ وویمن   سوشل میڈیا سے ہونے والئ ہراسانی کی وجہ سےوہ سماجی زندگی سے الگ ہوجاتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔

شام کو مجھے ایک فون کال آئی، میرے ہیلو کہتے ہی ایک غصے سے بھری آواز آئی  کہ مجھے آج تم ملنے کیوں نہیں آئی میں تمھارا انتطار کرتا رہا۔ان الفاظوں کو سنتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔میں نے پریشانی کی حالت میں پوچھا کہ آپ کون؟جواب آیا اچھا اب تم مجھے پہچان بھی نہیں رہی صبح ہی تو فیس بک مسینجر پر ہماری بات ہوئی تھی۔یہ کہانی ہے ضلع سوات سے تعلق رکھنےوالی (عائشہ گل فرضی نام)  نے اپنی تعلیم کے آغاز سے ہی سوشل میڈیا کی وجہ سے ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔

عائشہ مزید اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی ڈیجیٹل دنیا سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف فیس بک کی صورت میں ہوا۔ لیکن تعلیم کی مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر میری سرگرمیاں محدود رہیں۔ اخبارات اور تعلیمی مقالوں کی دنیا میں گم رہنے والی میں، فیس بک پر زیادہ وقت نہیں گزارتی تھی۔ ایک شام، ایک انجان نمبر سے آنے والی کال نے میری زندگی میں ہلچل مچا دی۔ ایک مرد کی غصے بھری آواز نے مجھ پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ اس کی باتیں سن کر میں سکتے میں آ گئی۔

میں نے فوراً اس سے رابطہ کیا اور اسے یقین دلایا کہ ان باتوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ گفتگو کے دوران ہی مجھے احساس ہوا کہ کوئی لڑکی میری تصویر اور نام استعمال کر کے کسی اور کے ساتھ بات چیت کر رہی ہےمیں نے اس سے دوبارہ رابطہ کیا اور معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی۔ یہ جان کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ میری کلاس کی ایک لڑکی نے میری شناخت چرا کر کسی اور کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ یہ میرے لیے ایک ناقابلِ یقین اور تکلیف دہ تجربہ تھا۔

آج کل، خواتین دفاتر، ای کامرس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بڑھ چڑھ کر کام کر رہی ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو خواتین کے لیے ایک موثر رپورٹنگ سسٹم بنانا چاہیے تاکہ وہ ہراسانی اور بدسلوکی کے واقعات کی اطلاع دے سکیں۔ یہ سسٹم آسان، قابل رسائی اور محفوظ ہونا چاہیے۔پاکستان میں سائبر کرائم کا ادارہ موجود ہے، لیکن خواتین اب بھی ہراسانی کی مشکل گھڑی میں کسی مسیحا کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔

فرحان مرزا کا کہنا ہے کہ’سوشل میڈیا پر ہراسانی کے واقعات سے نمٹنے کے لیےبہت سے ٹولز حکومت کے پاس اب آ چکےہیں۔ ان کے مطابق، سوشل میڈیا پر ہراسانی کے کسی بھی واقعے کو فوری طور پر رپورٹ کرنا چاہیے، چاہے وہ فیک اکاؤنٹ سے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اب ایسے طریقے موجود ہیں جن سے وہ مجرموں کو پکڑ سکتی ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ  دفاتر کے 90فیصد کام سوشل میڈیا ایپ’واٹس ایپ‘کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہمارے دفاتر کے ورک اسٹیشن(کمپیوٹر) پر ہمارا پرنسل واٹس ایپ آن لائن ہوتا ہے جو کہ سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔آفس کے آئی پی پی  سسٹم کے ذریعے کسی بھی وقت ہمارا پرنسل  ڈیٹا  ہیک ہو سکتا ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ۔’’ آج کل، دفاتر میں آئی پی پی سسٹم کے ذریعے ذاتی معلومات کو واٹس ایپ پر لاگ ان کرنے سے ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دفتری نوعیت کے تمام دستاویزات کو صرف اور صرف ای میل کے ذریعے ہی منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ واٹس ایپ کے ذریعے معلومات کی منتقلی میں کئی خطرات پوشیدہ ہیں۔

فرحان مرزا نے مزید کہا کہ ہم کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے افراد یا ان کے سسٹمز پر مکمل طور پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی فرد کمپیوٹر سکرین ریکارڈنگ یا آئی پی پی ایڈریس کا استعمال کرتے ہوئے کسی سافٹ ویئر کے ذریعے واٹس ایپ کا ڈیٹا ہیک کر لے۔

سوشل میڈیا پر ہراسانی کی ویڈیوز اور تصاویر بہت تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے، وہیں اس نے ہراسانی کی ایک نئی شکل کو بھی جنم دیا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ہراسانی کی ویڈیوز اور تصاویر بہت تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو متاثرہ افراد کی زندگیوں کو تباہ کردیتا ہے  اور پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ۔

سی ای او کیٹلیٹک سیکیورٹی کے سی ای او فرحان مرزا کہتے ہیں کہ ’’سائبر کرائم میں آج کل سب سے زیادہ رپورٹ ہونے والے کیسز میں فروخت کیے گئے پرانے موبائل فونز سے ڈیٹا کا غلط استعمال شامل ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے پرانے موبائل فونز کو فروخت کرنے سے گریز کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنے فون کا ڈیٹا مکمل طور پر مٹا دیا ہے یا "وائپ آؤٹ" کر دیا ہے، تو بھی یہ ممکن ہے کہ  ایک ماہر تکنیکی شخص آپ کی ذاتی معلومات، جیسے کہ تصاویر اور رابطے نمبرز اور بینک اکانٹ تفصیل ، آسانی سے حاصل کر سکتا ہے‘‘۔

 سوات کے پرسکون ماحول میں پلی بڑھی عائشہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سوشل میڈیا کی چمکتی دنیا اس کے لیے اتنی خوفناک ثابت ہو گی ۔فیس بک میسنجر پر آنے والے پیغامات، انجان نمبروں سے آنے والی کالز، اور مختلف اکاؤنٹس سے بھیجے جانے والے نامناسب پیغامات نے عائشہ کی زندگی کو جہنم بنا دیا تھا۔فیس بک کے مسینجر پر مجھے ایک ہی نوٹیفیکشن بار بار آتا تھا،جب مجھے وہ میسج آتا تھا میں توجہ نہیں دیتی تھی کیونکہ وہ میرے فیس بک پر ایڈ نہیں تھا۔ مختلف طریقوں سے وہ مجھے میسنجر کرتا تھا۔ایک دن میں نے ایسے ہی بیٹھے بیٹھےاپنے فیس بک میسجز چیک کئے تواس میں میری ایک تصویر تھی،وہ  تصویرمیں  خود بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔میرے کولئیک جن پر مجھے اعتماد تھا۔انہوں نے  میرے کزن کے ساتھ مل کر پتہ لگوایا کہ یہ کون ہے کہاں سے ہے کیا کام کرتا ہے۔اس کیس میں اہم بات یہ تھی کہ اس شخص کی تصویر نام اور اسکے گھر کا ایڈریس سب کچھ فیس بک پر موجود تھا۔اس معاملے میں پولیس نے بھر پور ساتھ دیا اس کو گرفتار کرنے اسکے گھر بھی گئے مگر ان کے والدین نے معافی مانگی کہ اس سے غلطی ہو گئی۔

حکومت کو آن لائن ہراسانی کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں۔

پاکستان میں سائبر کرائم سے متعلق قوانین موجود ہیں، لیکن آن لائن ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے، ان قوانین کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو آن لائن ہراسانی کے خلاف سخت قوانین بنانے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ سائبر کرائم سے نمٹنے کے لئے  سسٹم کو کیسے بہتر بنایا جائے کہ ہراسمنٹ کا شکارہونے والی خواتین کو جلد کوئی راستہ مل جائے۔ ایڈووکیٹ میاں سہیل شعیب لاہور ہائی کورٹ ، کا کہنا ہے کہ اس کو مزید ایفیکٹو بنانے کے لیے سب سے پہلے تو حکومت کو چاہیے کہ  ضلعے میں انویسٹیگیشن آفیسرز کی تعداد کوبڑھایاجانا چاہیۓ ۔ دوسری بات ہے کہ ایف ائی اے کا طریقہ کار اور  ہمارے سائبر کرائم کےطریقہ کار دونوں میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ پہلےدرخواست کو ایک ڈائری نمبر لگتا ہے، بعدازاں وہ متعلقہ آفیسر کے پاس جاتی ہے۔ ویریفکیشن کرنے کے بعد پھر اس کی ایک انکوائری نمبر لگتاہے ۔اس کے  بعد ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ تمام تر پروسیجر کے بعد انویسٹیگیشن ہوتی ہے اب دیکھیں کہ یہ کتنا لمبا پروسیجر ہے ۔مثال کے طور پر اگر کسی کو فوراًٍ انصاف چاہیے وہ اس سارے پروسیس سے گزرنے کے بعد خود کو ذہنی اذیت اور بدنامی سے باہر نکال سکے گا۔

سوشل میڈیا پر لوگ گمنام رہ کر دوسروں کو ہراساں کر سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر گمنام اکاؤنٹس کے ذریعے لوگ دوسروں کو ہراساں کرنے، دھمکانے، اور بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کے لیے کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا یا کسی کی زندگی کو تباہ کرنا محض ایک کھیل بن جاتا ہے۔ گمنامی انہیں قانون کے شکنجے سے بچاتی ہے اور وہ بلا خوف و خطر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر فیک آئی ڈی کے بعد فیک کالز کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ پہلے ایک ہی نمبر پر کالز آتی تھیں اب لوگوں نے فون کالز کے لئے الگ سم کارڈ اور واٹس ایپ کے لئے الگ سم کارڈ خریدے ہیں۔ یونیورسٹی کے بعد جب میں نے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کی، تو وہاں بھی مجھے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ (عائشہ نے شعبے کا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، تاکہ ان کی شناخت پوشیدہ رہے)’’یہ ایک تلخ حقیقت تھی کہ ایک خاتون کا اس مخصوص شعبے میں آنا کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا۔ مجھے فیس بک میسنجر پر مسلسل پیغامات موصول ہونے لگے، جنہیں میں نظر انداز کرتی رہی۔لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ ایک دن، کسی نے میرا ذاتی موبائل نمبر عام کر دیا۔ لمحوں میں، میری زندگی جہنم بن گئی۔ مجھے مسلسل رونگ کالز آنے لگیں، جن میں گالی گلوچ اور نامناسب باتیں شامل تھیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں خود اپنا نمبر لوگوں کو دیتی ہوں اور پھر بات نہیں کرتی یا ملنے سے انکار کرتی ہوں۔اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے گوگل پر اپنا نام اور نمبر سرچ کیا، اور میری تمام تفصیلات مختلف ویب سائٹس پر ظاہر ہو رہی تھیں۔ کالز کی تعداد روزانہ 150 سے 200 سے تجاوز کر گئی۔ کال کرنے والے جو کچھ کہتے تھے، میں اسے دہرانے کی بھی ہمت نہیں کر سکتی۔جب یہ صورتحال ناقابل برداشت ہو گئی، تو میں نے ایف آئی آر درج کروائی۔ میرے نمبر کی مدد سے پولیس نے کارروائی کی اور کچھ افراد کو گرفتار کیا۔ یہ میرے لیے ایک انتہائی مشکل وقت تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور انصاف کے لیے آواز اٹھائی‘‘۔ ایڈووکیٹ میاں سہیل شعیب، لاہور ہائی کورٹ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر کوئی شہری کسی نامناسب مواد یا سائبر کرائم سے متعلق شکایت درج کرائے تو وہ 24 گھنٹوں کے اندر اس پر کارروائی کرے۔ تاہم، اس نظام میں کچھ خامیاں موجود ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔ پی ٹی اے شکایات پر فوری کارروائی کرتا ہے، جو ایک مثبت پہلو ہے۔اگر کوئی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پیج توہین آمیز یا غیر قانونی مواد شائع کرتا ہے، تو PTA اسے بلاک کر سکتا ہے۔ PTAکو کونٹنٹ بلاکنگ کا  اختیار صرف پاکستان تک محدود ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کونٹنٹ کو بلاک نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ اگر کوئی نامناسب مواد پاکستان سے باہر سے شائع کیا جاتا ہے، توPTAاسے بلاک نہیں کروا سکتا‘‘۔انہوں نے واضح کیا کہ’’ کوفنگ بھی ہراسمنٹ میں آتی ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ اگر  ایک دفعہ آپ نے کسی کو میسج کیا،دوسری جانب سے کوئی رسپانس نہیں آرہااور میسج یا فون کال کرنے کا  عمل بار بار دوہرایا جا رہا ہے  تویہ  بنیادی طور پہ ہراسمنٹ  کے زمرے میں  ہی آتاہے ۔

معاشرے میں ایسے رویوں کو فروغ دینا ضروری ہے جو آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی کی حوصلہ شکنی کریں۔

سوشل میڈیا نے جہاں ہمیں دنیا سے جوڑ دیا ہے، وہیں اس نے آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی جیسے ناسور کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں کو تباہ کرتا ہے، بلکہ پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ آن لائن ہراسانی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کریں۔

عائشہ کے مطابق ’’خیبر پختونخواہ میں سائبر کرائم میں پہلی بار رپورٹ انہوں نے  اپنا  فیس بک اکاونٹ ہیک ہونے پر کروائی تھی ۔کوئی میرے  پیج سے بہت ساری چیزیں شئیر کر رہا تھا۔میں نے سائبر کرائم کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ سائبر کرائم کے ساتھ تمام تر معلومات  ای میل کے ذریعے شئیر ہوتی تھیں۔اس کے بعد وہ فیک فیس بک پیج ختم ہوا‘‘۔عائشہ کا مزید  کہنا تھا کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں 8سے 9سال سوشل میڈیا ہراسمنٹ کو برداشت کیا ہے۔2021اور2022 میں انکا سلسلہ رک گیا ہے‘‘۔ عائشہ کہتی ہیں کہ’’سائبر کرائم ڈیپارنمنٹ کی وجہ سے بہت سے معاملات حل ہوگئے ہیں۔اب سوشل میڈیا ایپس پر ہراساں کرنےوالوں کو بھی علم ہے کہ ہم ایف آئی اے اور سائبر کرائم ہمیں تلاش کر لیں گے۔یہاں بس ایک بات ضرور کروں گی کہ مجروموں کا سزا کا عمل بھی اب شروع ہو جانا چاہیے‘‘۔ ایڈووکیٹ میاں سہیل شعیب لاہور ہائی کورٹ ،سیشن کورٹ  میں سائبر کرائم کیسز کی پیروی بھی کرتے ہیں انکا کہنا ہےکہ ’سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر، ہمارا موجودہ نظام ان سے نمٹنے کے لیے ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔ خاص طور پر لاہور شہر میں صورتحال تشویشناک ہے۔ یہاں تقریباً 10 سے 15 ہزار سائبر کرائم کے کیسز زیر التوا ہیں، جبکہ ان کی تفتیش کے لیے صرف 5 سے 7 تفتیشی افسران موجود ہیں۔یہ واضح ہے کہ اتنے کم تفتیشی افسران کے لیے سینکڑوں کیسز کو مؤثر طریقے سے سنبھالنا ناممکن ہے۔ ہر کیس کی باریک بینی سے تفتیش اور انصاف کی فراہمی کے لیے مناسب وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک ہی افسر پر اتنے زیادہ کیسز کا بوجھ ہو، تو یہ ممکن نہیں ہے۔اس صورتحال کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ متاثرہ افراد کو بروقت انصاف نہیں مل پاتا۔ کیسز کی طویل انتظار کی وجہ سے وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور سائبر کرائم کے خلاف کارروائی کی افادیت پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، تفتیشی افسران کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، موجودہ افسران کو جدید تربیت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ سائبر کرائم کے پیچیدہ کیسز کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں۔اس کے علاوہ، سائبر کرائم سے متعلق آگاہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عوام کو اس جرم کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف سائبر کرائم کے واقعات میں کمی آئے گی، بلکہ لوگ اپنی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے قابل بھی ہوں گے‘۔

سوشل میڈیا ہراسمنٹ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو سائبر کرائم سے متعلق سخت قوانین نافذ کرنے ہوں گے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ تعلیمی اداروں کو طلباء میں سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے بارے میں آگاہی پیدا کرنی ہوگی۔ والدین کو اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوگی اور انہیں سائبر بلنگ کے خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہراسانی پر مبنی مواد کو فوری طور پر ہٹانے اور مجرموں کے اکاؤنٹس معطل کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ میڈیا کو بھی اس مسئلے پر شعور اجاگر کرنے اور متاثرین کی مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔  ہر فرد کو سوشل میڈیا پر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا اور کسی بھی قسم کی ہراسانی کی اطلاع دینی ہوگی۔آخر میں  ایک اہم سوال کیاجن زی جنریشن کو ہمارے ملک کے قوانین ،ادارے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سوشل میڈیا ہراسمنٹ سے بچا پائیں گے؟۔

Published by: Digital Rights Foundation in Digital 50.50, Feminist e-magazine

Comments are closed.